من پسند بیوروکریٹوں پر مشتمل الیکشن کمیشن پر اعتبار کون کرے گا؟

رحمت علی رازی  اتوار 15 مئ 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

حکمران طبقہ کی من مانیوں کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کوئی بارآور سفارشات تو پیش نہیں کر پائی‘ ہاں البتہ وزیر خزانہ کی بابرکت صدارت میں اس نے چیف الیکشن کمشنر اور ارکانِ کمیشن کی تقرری کے طریقہ کار اور اہلیت کو تبدیل کرنے کی حیرت انگیز منظوری ضرور دیدی ہے۔ اس نئے اصلاحی پیکیج کے تحت آئین میں ترمیم کے ذریعے اب کوئی ٹیکنوکریٹ یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ بھی چیف الیکشن کمشنر یا کمیشن کا ممبر بن سکے گا۔

الیکشن کمیشن کے 2 رکن اڑھائی سال بعد جب کہ دیگر 2 ارکان پانچ سال کی مدت پوری کریں گے۔ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر سپریم کورٹ کا جج نہیں بلکہ کمیشن کا سینئر رکن مقرر کیا جائے گا۔ چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کی تقرری کے لیے آئین کے 7 آرٹیکلز میں ترامیم متوقع ہیں۔ تقرر کے وقت سی ای سی کی کم از کم عمر 68 سال جب کہ الیکشن کمیشن کے رکن کی عمر کم از کم 65 سال مقرر ہو گی اور سی ای سی یا کسی رکن کا عہدہ خالی ہونے کے 45 روز میں نیا تقرر کرنا لازم ہو گا۔ عجب العجائب یہ کہ بطور اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی نے بھی حکومت کے اس آمرانہ و جانبدارانہ اقدام کی حمایت کا برملا اعلان کر دیا ہے۔

1956ء کے آئین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کا تقرر صدرِ پاکستان کا صوابدیدی اختیار تھا اور عہدیدار کا انتخاب بیوروکریسی سے ضروری سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان کے پہلے چیف الیکشن کمشنر ایف ایم خان سے لے کر این اے فاروق تک (جو اپریل 1969ء تک اپنے عہدہ پر برقرار رہے) سب چیف الیکشن کمشنرز حکومتوں کے من پسند بیوروکریٹ تھے جو راتوں رات انتخابی نتائج بدل دینے میں کمال مہارت رکھتے تھے۔ 1967ء میں جسٹس شیخ عبدالرحمان نے جب پانچ ماہ کے لیے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ سنبھالا تو یہ خیال راسخ ہو گیا کہ سی ای سی بیوروکریسی کے بجائے عدلیہ سے لیا جانا چاہیے۔

اسی تاثر پر جنرل یحییٰ خان نے اگست 1969ء کو ڈھاکا ہائیکورٹ کے جج جسٹس عبدالستار کو متحدہ پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر کے عہدہ پر فائز کیا جن کی عملداری میں 70ء کے پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے، جسٹس عبدالستار پر سنگین الزامات لگے کہ انھوں نے انتخابی نتائج میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کر کے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کو فاتح قرار دیا‘ یحییٰ خان نے اسی وجہ سے انھیں جیل میں بھی ڈالا‘ بنگلہ دیش بننے کے بعد وہ ڈھاکا چلے گئے اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے لیڈر بن گئے اور بعد میں انھیں بنگلہ دیش کا صدر بنا دیا گیا۔ جنوری 71ء سے اگست 73ء تک (پورے اڑھائی سال) پاکستان میں الیکشن کمیشن کا ادارہ معطل رہا۔

جب بھٹو اگست 73ء میں وزیراعظم بنے تو انھوں نے پہلے ہی دن اپنی پارٹی کے نو منتخب صدرِ پاکستان فضل الٰہی چوہدری کو جسٹس وحیدالدین احمد کے چیف الیکشن کمشنر بنائے جانے کی سفارش کی۔ اس کے بعد 73ء کے آئین کے مطابق آج کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار محمد رضا تک تمام سی ای سی صاحبان عدلیہ سے لیے جاتے رہے ہیں۔ موجودہ طریقہ کار کے تحت صرف ریٹائرڈ جج کو ہی چیف الیکشن کمشنر یا کمیشن کا ممبر مقرر کیا جاتا ہے۔ اب شریف حکومت 73ء کے آئین کی روح مسخ کر کے الیکشن کمیشن کو ایک بار پھر آمریت کے اس سیاہ دور میں دھکیلنا چاہ رہی ہے جس میں پاکستان کے بدترین ابتدائی آمروں نے الیکشن کمیشن کو اپنے گھر کی لونڈی بنائے رکھا۔

اس ملک کی بربادی کے سب سے بڑے ذمے دار بیوروکریٹ ہیں جنہوں نے چور حکمرانوں سے ملی بھگت کر کے ان کے اقتدار کو دوام بخشا۔ موجودہ الیکشن کمیشن پر حکمران جماعت کی طرف جھکاؤ کا سنگین الزام ہے اور اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی تو 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کا اصل ذمے دار الیکشن کمیشن کو ہی ٹھہراتی ہیں‘ اس کے باوجود حکمران جماعت اگر کرپٹ سرکاری افسروں پر مشتمل ایک دم چھلا الیکشن کمیشن بنانے جا رہی ہے تو اس کا یہ نتیجہ اخذ کر لینے میں کوئی برائی نہیں کہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی دیگر سیاسی جماعتوں کو کھجور میں اٹکا کر آیندہ انتخابات میں مک مکا سے اپنی باریوں کی طویل المیعاد حکمتِ عملی طے کر چکی ہیں۔

افسوس تو یہ ہے کہ مک مکا کی ماہر اپوزیشن نے عوامی امنگوں کے مطابق الیکشن کمیشن کے اس ترمیمی عمل میں سرے سے کوئی دلچسپی ظاہر ہی نہیں کی‘ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ آیندہ انتخابات میں الیکشن کمیشن اور حکومت کے ساتھ ملکر دھاندلی کے ذریعے اقتدار حاصل کرنیکی خواہاں ہے‘ ایسی منصوبہ بند دھاندلی کی وجہ سے بھٹو دور کی تاریخ دہرائے جانے کا قوی احتمال ہے‘ اس باہمی حماقت سے اگلی پچھلی سب بساطیں لپٹ جانے کا بھی امکان ہے‘ بالفرضِ محال اگر نام نہاد جمہوریت پر شب خون مارا گیا تو اس کی تمام تر ذمے داری صرف اور صرف حکمرانوں پر ہو گی۔ الیکشن کمیشن کے موجودہ ارکان نے 13 جون 2011ء کو حلف اٹھایا تھا‘ ان کی مدت 10 جون کو ختم ہونے جا رہی ہے۔

الیکشن کمیشن اہم آئینی ادارہ ہے جو ایک ہی دن چاروں صوبوں اور وفاق میں انتخابات کا انعقاد کرتا ہے‘ اس کے ارکان کی تقرری کے لیے قانون میں طریقہ کار موجود ہے جسکے تحت سپیکر قومی اسمبلی نئے ممبران کے ناموں کی منظوری کے لیے حکومت اور اپوزیشن کی برابر نمایندگی پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیتا ہے جو 12 ممبران پر مشتمل ہوتی ہے‘ اسکے6 ممبران وزارتِ خزانہ سے اور 6 اپوزیشن کے نامزد کردہ ہوتے ہیں جن میں ایک تہائی کا سینیٹ سے ہونا ضروری ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی مدت ملازمت 3 سال کے لیے ہوتی ہے اور وہ سپریم کورٹ کے جج کے مساوی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر اور چاروں ارکان کے لیے وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف آئین کے آرٹیکل 213 کے تحت تین تین نام تجویز کر کے پارلیمانی کمیٹی کو بھجواتے ہیں جن میں سے ایک ایک نام پر اتفاق کر لیا جاتا ہے۔ 2010ء میں18 ویں ترمیم سے قبل آئین کے آرٹیکل 215 (1) میں الیکشن کمیشن کے ارکان کے عہدہ کی مدت 3 سال مقرر تھی جس میں پارلیمنٹ قرارداد کے ذریعے ایک سال تک کی توسیع کر سکتی تھی۔ 18 ویں ترمیم کے بعد ان کے عہدوں کی میعاد 5 سال کر دی گئی۔ آئین میں واضح کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے ارکان اور چیئرمین کو ان کے عہدوں سے برطرف نہیں کیا جا سکتا تاہم آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ان کے خلاف اسی طرح سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہے جس طرح اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف دائر کیا جاتا ہے۔

ماضی میں صرف صدرِ مملکت ہی سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیج سکتے تھے جب کہ ایک آئینی ترمیم کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کو کسی درخواست پر خود بھی کارروائی کا اختیار مل چکا ہے‘ اب عام شہری بھی ثبوتوں کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج یا الیکشن کمیشن کے ارکان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل سے دادرسی طلب کر سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ارکان کی مدتِ ملازمت ختم ہونے میں ایک ماہ سے کم وقت رہ گیا ہے مگر حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے ابھی تک کمیٹی کی تشکیل کے لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے ارکانِ کمیٹی کے نام تک سامنے نہیں آ پائے۔

یہ کام بھی حسبِ دیگراں وفاقی وزیر خزانہ نے اپنے ذمے لے لکھا ہے جو ای سی پی ممبران کی تعیناتی کے حوالے سے تیار کردہ ڈرافٹ (ترمیمی بِل) پر غور و خوض سے ہی کام چلا رہے ہیں۔ ہمیں تو یہ معاملہ بھی انتخابی اصلاحات کی طرح لٹکتا نظر آ رہا ہے جس پر متعلقہ پارلیمانی کمیٹی ڈیڑھ سال سے محض اجلاس بھگتا رہی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اور صوبائی ارکان کا انتخا ب آئین کے آرٹیکل 213 اور 218 کے تحت ہوتا ہے۔ متوقع ریٹائرنگ ارکان کی تعیناتی اور کارکردگی پر اپوزیشن کی طرف سے شدید تنقید ہوتی رہی ہے۔ بعض حلقے ان کی تعیناتی کو آئین کے منافی قرار دیتے رہے ہیں۔

دھرنے کے دوران الیکشن کمیشن اور اس کے ارکان کو بطورِ خاص ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ جب ارکان کا تقرر سیاسی بنیادوں پر ہو گا تو ان کی کارکردگی پر سوال اٹھنا فطری سا اَمر ہے۔ الیکشن کمیشن کے موجودہ چاروں اراکین پر تحریکِ انصاف کی طرف سے گزشتہ انتخابات کے بعد مستعفی ہونے کے لیے ہمیشہ دباؤ بڑھتا رہا اور یہ بھی ایک کھلا راز رہا ہے کہ چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے یہ محترم ارکان اپنی اپنی پسند کی سیاسی پارٹیوں کے روایتی خوشہ چین اور ان کے مفادات کے عملی محافظ رہے ہیں۔ ریاض کیانی پر مسلم لیگ نون کی وفاداری کا الزام ہے تو روشن عیسانی پر پیپلزپارٹی کی طرف جھکاؤ کا غوغا ہے۔

شہزاد اکبر کو اے این پی کے مفادات عزیز رہے ہیں تو جسٹس فضل الرحمان جے یو آئی (ف) کے طرفدار رہے ہیں۔ ریاض کیانی کے علاوہ باقی تینوں معزز جسٹس صاحبان پر ہائیکورٹ کی ملازمت کے دوران ناجائز مراعات اور متعدد کوٹوں سے پلاٹ حاصل کرنے کے الزامات اس کے علاوہ ہیں۔

یہ کہانی بھی اب منظرعام پر ہے کہ چاروں ارکان نے اب تک پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر تنخواہیں وصول کی ہیں۔ اس ضمن میں ایک اور اہم بات یہ تھی کہ انھوں نے اپنی تنخواہوں کا فیصلہ خود ہی مل بیٹھ کر طے کر لیا تھا‘ اس سے متعلق 2011ء میں تیار ہونے والا ڈرافٹ بل اس وقت مرتب کیا گیا جب اٹھارویں ترمیم کے بعد نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل کی گئی اور چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تنخواہوں کا معاملہ اٹھا تھا مگر پانچ برسوں میں اس بل کی پارلیمنٹ سے منظوری حاصل نہ کی جا سکی‘ اس صورتحال میں سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ جب بل قانون ہی نہیں بن سکا تو الیکشن کمیشن کے ممبران کو کس طرح تنخواہیں ادا کی جاتی رہیں۔

جب ڈرافٹ بل پارلیمنٹ کو بھیجا گیا تو الیکشن کمیشن کے ممبران اور چیف الیکشن کمشنر نے خود ہی تنخواہ اور مراعات کا تعین کر لیا اور خود ہی لکھا کہ ایک ممبر کی تنخواہ ساڑھے آٹھ لاکھ روپے ہو گی‘ 16 سی سی کار‘ 500 لیٹر پٹرول‘ ڈرائیور الاؤنس اور ہائیکورٹ کے جج کے برابر ہاؤس الاؤنس دیا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے یہ ریٹائرڈ جج ہر ماہ پنشن کی مد میں 6 سے 8 لاکھ روپے لے رہے تھے جب کہ پنشن اور نئی تنخواہ ملا کر پندرہ لاکھ روپے ماہانہ ہو گئے۔

جب الیکشن کمیشن کی طرف سے اکاؤنٹینٹ جنرل کو لکھا گیا کہ انھیں ہر ماہ 6 لاکھ روپے پنشن کے بجائے 15 لاکھ روپے ماہانہ ادا کیے جائیں تو اکاؤنٹینٹ جنرل کی طرف سے وزارت خزانہ کو مراسلہ ارسال کیا گیا کہ تنخواہوں کا بل پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوا‘ ایسے میں الیکشن کمیشن کے ارکان کی اپنی وضع کردہ تنخواہ انھیں کیسے ادا کی جا سکتی ہے، جسکے جواب میں وزارت خزانہ نے کہا الیکشن کمیشن کے ارکان سے لکھوا لیا جائے کہ ہم آپ کی مقرر کردہ تنخواہ آپ کو دیں گے لیکن اگر پارلیمنٹ نے یہ بل منظور نہ کیا تو آپ کو سب پیسے واپس کرنے ہوں گے، چنانچہ کمیشن ارکان نے یہ شرائط منظور کر لیں مگر طرفہ تماشا ہے کہ پانچ برسوں میں بھی متذکرہ بل پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہو سکا۔

اُصولی طور پر تویہ گزشتہ حکومت کی ذمے داری تھی مگر 2011ء میں مرتب ہونے والا یہ بل پیپلز پارٹی کی حکومت نے پارلیمنٹ سے منظور کرانے میں دلچسپی نہ لی اور اب جب کہ مدت پوری کرنے کے بعد الیکشن کمیشن کے ارکان فارغ الخدمت ہونیوالے ہیں اور ہر ایک ممبر نے کروڑوں روپے وصول کیے اور اتنی ہی پنشن بھی لے لی ہے، تو سوال یہ ہے کہ عدلیہ کی ان ریٹائرڈ شخصیات نے ایک غیرقانونی کام پر کیسے حامی بھر لی اور بل کی منظوری کے بغیر اکاؤنٹینٹ جنرل کو تحریر کیسے لکھ کر دیدی؟ اس پس منظر میں بعض سیاستدانوں کے اس نقطہ نظر کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ جون 2013ء کے بعد بھی نامنظور بل کی تلوار دکھا دکھا کر حکمران، الیکشن کمیشن سے اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے رہے ہیں۔

چیئرمین الیکشن کمیشن کو نئے ارکان کی تقرری سے زیادہ 2018ء کے انتخابات کی فکر ہے جسکے انعقاد کے لیے انھوں نے حکومت سے انتظامی اختیارات کے حصول کا اس جواز پر مطالبہ کر دیا ہے کہ انتظامی اختیارات حاصل نہ ہونے کی وجہ سے انھیں انتخابات کے انعقاد میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان اختیارات میں الیکشن کے دوران سرکاری ملازمین کے تقرر و تبادلے کا اختیار اور غفلت کے مرتکب ٹھہرنے والے سرکاری ملازمین و افسران کے خلاف قانونی کارروائی کا اختیار شامل ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات کمیٹی نے بھی الیکشن کمیشن کی ان سفارشات سے بلا توقف اتفاق کر لیا ہے اور الیکشن کمیشن نے نئے انتخابات کی مبینہ طور پر تیاریاں بھی شروع کر دی ہیں، جس سے واضح ہے کہ چیئرمین کو اس بات کا اشارہ مل چکا ہے کہ بظاہر تو نئے الیکشن کا سال 2018ء ہے مگر پاناما لیکس پر چھڑے قضیے نے سارا ماحول تذبذب کا شکار کر دیا ہے اور ممکنہ طور پر انتخابات قبل از وقت ہو سکتے ہیں‘ اس کی بڑی دلیل وزیراعظم کا انتخابی مہم پر نکلنا ہے۔ ای سی پی کی جانب سے نئے انتخابات کی جو تیاریاں شروع کی گئی ہیں، ان میں ساڑھے سات لاکھ سے زائد پولنگ عملہ کی تیاری، انتخابات میں ایک ہزار سے زائد ڈی آر اوز، آر اوز کی تعیناتی، مستقل پولنگ اسٹاف کی تربیت (جن میں ابتدائی طور پر 400 پولنگ افسروں کی تربیت شروع ہو چکی ہے) اور ریٹرننگ افسران عدلیہ سے لینے یا نہ لینے کے فیصلہ جیسے اُمور زیرغور ہیں۔

دراصل ان اختیارات کا مطالبہ بھارتی الیکشن کمیشن کی تقلید میں کیا گیا ہے مگر یہاں سوال یہ جنم لیتا ہے کہ آیا ایڈمنسٹریٹو پاورز حاصل کر لینے کے بعد بھی الیکشن کمیشن خود کو بھارتی الیکشن کمیشن کے ہم پلہ ثابت کر پائےگا؟ تقابلی طور پر دیکھا جائے تو بھارتی الیکشن کمیشن دنیا کا مضبوط ترین انتخابی ادارہ ہے۔

پرامن اور منصفانہ انتخابات کرانے کی غرض سے ہندوستانی آئین نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو بے پناہ اختیارات تفویض کر رکھے ہیں‘ انھی اختیارات کے استعمال کی بدولت وہ دنیا کا اتنا بڑا انتخابی معرکہ خوش اسلوبی سے سرانجام دے لیتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ الیکشن کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی جملہ انتظامی اختیارات حکومت کے ہاتھ سے نکل کر الیکشن کمیشن کی مٹھی میں منتقل ہو جاتے ہیں اور اس دوران اگر آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ سامنے آ جائے تو ملک کی اس اہم ترین تقرری کا فریضہ بھی بھارتی الیکشن کمیشن کے بدست ہی انجام پاتا ہے‘ اس کی زندہ مثال موجودہ انڈین آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ ہیں جنکا تقرر 2014ء میں صدر کے بجائے الیکشن کمیشن کی اجازت سے ہوا۔

یہ اختیارات ہی کی طاقت کا کمال ہے کہ ایک ارب 25 کروڑ کی آبادی والے ملک میں لگ بھگ 81 کروڑ ووٹرز پائے جاتے ہیں اور36 ریاستوں میں جغرافیائی، لسانی اور مالی مسائل کے تنوع کے لحاظ سے انتخابی عمل انتہائی پیچیدہ اور غیرمعمولی سرگرمی بن جاتا ہے‘ اس کے باوصف الیکشن کمیشن بیحد کامیاب انتخابات منعقد کروانے میں کامیاب رہتا ہے اور اس کے دیے ہوئے نتائج پر کسی سیاسی جماعت یا امیدوار کو کبھی اعتراض نہیں ہوتا بلکہ شکست کو بھی فراخدلی سے صرف اس لیے قبول کر لیا جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی کارکردگی یا اس کے ممبران کی نیت پر کسی کو شک نہیں۔

اس کے برعکس کسی حد تک بھارتی الیکشن کمیشن جیسے اختیارات اور خودمختاری حاصل ہوتے ہوئے بھی الیکشن کمیشن ہر انتخابات کے موقع پر نئے سے نئے سکینڈلز اور تنازعات کی زد پر ہوتا ہے‘ وجہ یہ کہ ہمارا الیکشن کمیشن ایک بااعتماد ادارہ نہیں بن پایا اور اپنے قیام کے وقت سے بااثر سیاسی جماعتوں کا آلۂ کار رہا ہے اور ہمیشہ ہی طاقتور حکمرانوں اور خفیہ طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 218 کی رُو سے ای سی پی کو مکمل اختیار ہے کہ وہ جس طرح کی چاہے قانون سازی خود کر سکتا ہے اور جس نوع کی چاہے انتخابی اصلاحات متعارف کروا سکتا ہے مگر چیئرمین اور دیگر ممبران کی تقرریاں سیاسی بنیادوں پر ہونے کی وجہ سے اس ادارے کا سارا دھیان اپنے آقاؤں کی سرخوشی پر ہے۔

پاکستان الیکشن کمیشن انتظامی اختیارات کے عبوری حکومتوں کے ہاتھوں میں ہونے کو اپنی ناکامی کی اصل وجہ قرار دیتا ہے‘ اس میں تو شبہ نہیں کہ بڑی سیاسی جماعتیں عبوری حکومتوںکی تشکیل کے لیے اپنے من پسند افراد پیش کرتی ہیں جو انتظامی اختیارات کا غلط استعمال کر کے ایسے خاص امیدواروں کے لیے لابنگ کرتے ہیں جن کی جیت کا ٹاسک انھیں دیا گیا ہوتا ہے‘ اس گھناؤنے دھندے کو روکنے میں انتظامی اختیارات سے عاری الیکشن کمیشن بے بس نظر آتا ہے۔ بھارت میں الیکشن کمیشن کے مضبوط ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پارلیمانی یا ریاستی انتخابات کے موقع پر الیکشن کمیشن بیوروکریسی کا مکمل کنٹرول سنبھال لیتا ہے اور سیاسی حکومتیں افسر شاہی سے مطلقاً لاتعلق ہو جاتی ہیں۔

بہ ایں ہمہ بھارت کی اعلیٰ عدلیہ الیکشن کمیشن کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی جب کہ ہماری ہائیکورٹس یا سپریم کورٹ کسی بھی معاملہ پر الیکشن کمیشن کے کسی بھی ذمے دار کو طلب کر لیتی ہیں۔ بھارتی الیکشن کمیشن کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ پارلیمانی یا کسی بھی طرح کے انتخابات کے موقع پر سکیورٹی ذمے داریوں کے لیے فوج سے مدد کا طالب نہیں ہوتا اور کبھی نیم فوجی دستوں کی ضرورت پیش آ بھی جائے تو پیرا ملٹری فورسز قانونی طور پر الیکشن کمیشن کی کمانڈ میں آ جاتی ہیں۔ پاکستانی الیکشن کمیشن کو اپنی رہی سہی عزت بچانے کے لیے ہر الیکشن پر رینجرز اور پاک فوج کو بلانا پڑتا ہے بلکہ پولیس کی سیاسی وابستگیوں اور غیرپیشہ ورانہ رویوں کے سبب کئی سیاسی جماعتیں خود مطالبہ کرتی ہیں کہ انتخابات فوج کی نگرانی میں کروائے جائیں۔

رقبے اور آبادی کے لحاظ سے اتنا بڑا ملک ہونے کے باوجود بھارتی الیکشن کمیشن نے ہندوستان بھر میں الیکٹرانک ووٹنگ کا سسٹم رائج کر رکھا ہے‘ یہ نظام 2004ء میں رائج ہوا اور اب تک کامیابی کے ساتھ مستعمل ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے باعث الیکشن کمیشن نے نہ صرف کروڑوں بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے اخراجات سے جان چھڑا لی بلکہ ووٹوں کی گنتی کے عمل کو بھی ازبس آسان بنا لیا ہے تاہم پاکستانی الیکشن کمیشن کی طرح بھارتی الیکشن کمیشن، انتخابی مہم پر خرچ کیے جانے والے لاکھوں کروڑوں کے ناجائز اخراجات اور ووٹروں پر اثرانداز ہونیوالے طاقتور حلقوں کے رسوخ کو قابو نہیں کر پایا‘ جس کی وجہ سے انسانی تذلیل، مذہبی منافرت، قتل اور مالی فراڈ میں ملوث قومی مجرم آج بھی اسمبلیوں میں پہنچ رہے ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کو الیکشن کمیشن کی یہ آزادی ایک آنکھ نہیں بھاتی‘ وہ واجپائی کے دور سے کمیشن کے ساتھ چونچیں لڑاتی آ رہی ہے اور اب خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مودی سرکار الیکشن کمیشن کے اختیارات کم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے قانون میں ایسی ترامیم چاہتی ہے جو مسلمانوں کی نمایندگی پر قدغن لگا سکیں۔ انڈیا نے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم مقامی طور پر ڈیزائن کیا جب کہ 2006ء میں عالمی ادارہ برائے انعقادِ انتخابات نے امریکی ترقیاتی ادارے ’’یوایس ایڈ‘‘ کی مدد سے حکومتِ پاکستان کو بھی 9 ملین ڈالرز کی خطیر رقم الیکٹرانک مشینوں کی غرض سے فراہم کی تھی جسے پرویز مشرف کے پسندیدہ وزیراعظم جمع، تفریق اور ضرب، تقسیم کی چالاکیوں سے گُل کر گئے اور جو حاصل مقسوم بچا، اسے کمپیوٹرائزڈ انتخابی عمل کے قیام کے نام پر من پسند بیوروکریٹوں میں بانٹ دیا۔

ازاں بعد انتخابات کی عالمی معاونت کی تنظیم نے 16 عالمی تنظیموں کی جانب سے مرتب کردہ 32 نکات پر مشتمل ترجیحات و اصلاحات الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے مختص کیں جنہیں اکتوبر 2009ء میں ہونے والی ایک مجلس میں پیش کیا گیا۔ اسی تنظیم نے متذکرہ اصلاحات الیکشن کمیشن کو پیش کرنے کے علاوہ ایک ذیلی کمیٹی بھی تشکیل دی جسکا مقصد ان اصلاحات کو نافذ کرنے کے دوران پیش آنیوالی ممکنہ مشکلات بارے الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا تھا مگر افسوس کہ اس بار زرداری نے ان اصلاحات کی بیل کو منڈھے نہ چڑھنے دیا‘ اور اب قوی اُمید ہے کہ نوازشریف بھی اپنے اس ہم صفت پیشرو کی نااصلاحاتی خواہش کا تہہ دل سے احترام کرتے ہوئے سول سروس، نیب اور دیگر چند اداروں کی طرح الیکشن کمیشن میں بھی اصلاحات کو کبھی لاگو نہیں ہونے دینگے۔

اصلاحات تو دُور کی بات، الیکشن کمیشن تو رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں اضافے کی مہم تک شروع نہیں کر سکا، اس وقت پاکستان کی متوقع آبادی 20 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے‘ ترقی یافتہ ممالک میں 70 سے 80 فیصد شہری رجسٹرڈ ووٹرز ہوتے ہیں‘ پاکستان میں رائے دہی کے حامل افراد کی تعداد بدقسمتی سے 50 فیصد سے بھی کم ہے۔ الیکشن کمیشن کے دعویٰ کے مطابق ملک بھر میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 9 کروڑ 30 لاکھ کے لگ بھگ ہے‘ جن میں 5 کروڑ 23 لاکھ 63 ہزار 9 سو 48 مرد ووٹرز جب کہ 4 کروڑ 7 لاکھ 8 ہزار 679 خواتین رجسٹرڈ ووٹرز ہیں‘ اس طرح ملک بھر میں 56.26 فیصد مرد اور 43.74 فیصد خواتین ووٹرز ہیں حالانکہ پاکستان میں خواتین کی شرح مردوں سے کافی زیادہ ہے۔

یہ حقیقت انتہائی افسوسناک ہے کہ مردوں کی طرف سے غیرضروری مذہبی پابندیوں کے سبب 12 لاکھ سے زائد پاکستانی خواتین نے فقط اس لیے قومی شناختی کارڈز نہیں بنوائے کیونکہ انھیں شناخت نامے پر اپنی تصویر چسپاں کیے جانے پر اعتراض ہے۔ علاوہ ازیں دیہاتوں حتیٰ کہ شہروں میں بھی بیشمار ایسی معمر اور جوان خواتین ملیں گی جنہوں نے اس لیے شناختی کارڈ نہیں بنوایا کہ انھیں کبھی اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ موجودہ سائنسی دور میں خواتین کو مرکزی دھارے میں لانے اور ان کی سیاسی شمولیت یقینی بنانے کی ازحد ضرورت ہے۔ الیکشن کمیشن کی یہ اولین ذمے داری ہے کہ وہ آیندہ انتخابات میں خواتین کی شرکت میں بہتری لانے کے لیے اقدامات کرے‘ خواتین کو شناختی کارڈ کے اجراء کے سلسلہ میں نادرا کو بھی کوئی زود اثر پالیسی مرتب کرنا پڑیگی۔

نادرا میں رجعت پسند خواتین کے شناختی کارڈز بغیر تصاویر کے بنانے کی تجویز کب سے زیرغور ہے مگر الیکشن کمیشن کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ایسی خواتین کو انگوٹھے کے نشان کے ساتھ شناختی کارڈ بنوانے کی آپشن پر ہنوز مائل نہیں کیا جا سکا۔ اس تلخ حقیقت کے باوجود الیکشن کمیشن کا یہ دعویٰ محض دعویٰ ہی رہیگا کہ وہ آیندہ انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ سے زائد تک لیجانے کا ٹارگٹ پورا کر لے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت الیکشن کمیشن کے لیے سب سے ضروری اَمر نئے ارکان کی تقرری کا ہے‘ ایماندار اور اہل ارکان کے تقرر کے بعد کمیشن پر لازم آتا ہے کہ وہ جامع قانون سازی کے ذریعے خود کو سپریم کورٹ کی طرح ایک آزاد و خود مختار ادارہ ثابت کرے تا کہ اسے چور دروازے کے طور پر استعمال کر کے حکومت میں آنیوالوں کا راستہ روکا جا سکے۔

حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی رہی سہی ناموس بچانے کے لیے آئین میں ترمیم کے ذریعے ریٹائرڈ بیوروکریٹس کو الیکشن کمیشن کا چیئرمین و ممبران بنانے کا خوفناک فیصلہ واپس لے‘ ہماری رائے میں ان کے تقرر کا اختیار چیف جسٹس آف پاکستان کو سونپ دیا جانا چاہیے جو تمام معزز ججوں سے رائے لے کر سپریم کورٹ کے ایک حاضر سروس جج کو چیف الیکشن کمشنر اور چاروں صوبوں کے ہائیکورٹس میں سے ایک ایک حاضر سروس جج کو ای سی پی کا ممبر مقرر کریں اور اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ جس جج کا جس صوبے سے تعلق ہو اسے وہاں تعینات نہ کیا جائے۔

الیکشن کمیشن میں ملازمت پوری کرنے کے بعد اگر جج صاحبان کی سروس باقی بچتی ہو تو وہ ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کی ملازمت جوائن کر سکتے ہیں۔ نئے ارکان کا انتخاب اس طریقے سے ہو کہ کسی پارٹی کی طرف سے ان پر کوئی انگلی نہ اٹھ سکے۔ نئے ممبران کے انتخاب کے لیے حکومت کو چاہیے کہ ان کو زیراثر رکھنے کے بجائے ان کی کارکردگی کو بہتر بنائے۔ اپنے ذاتی مفادات کے لیے آئین کو آئے روز جراحی تجربوں سے گزار کر لہولہان کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ اس وقت الیکشن کمیشن کو مکمل طور پر خود مختار بنانے کی طرف خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے تا کہ انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔