مسائل کے حل کے لیے مقامی حکومتوں کو فعال بنایا جائے!!

حکومتی و اپوزیشن رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو ۔  فوٹو : فائل

حکومتی و اپوزیشن رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو ۔ فوٹو : فائل

کسی بھی جمہوری ملک میں مقامی حکومتوں کا نظام جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نظام کے تحت مقامی سطح تک اختیارات منتقل کیے جاتے ہیں تاکہ عوامی مسائل مقامی سطح پر حل کیے جا سکیں۔ پاکستان میں عدالتی حکم پر گزشتہ سال بلدیاتی انتخابات ہوئے۔

پہلے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جبکہ بعدازاں پنجاب اور سندھ میں بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے لیکن ابھی تک پنجاب اور سندھ میں انتخابات مکمل نہیں ہوسکے اور اس حوالے سے کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اس اہم قومی مسئلے کی اہمیت کوسمجھے ہوئے ’’مقامی حکومتوں کا نظام اور حکومتی ترجیحات ــ‘‘کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و اپوزیشن رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

میاں محمود الرشید
(اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی )
مقامی حکومتیں، موجودہ حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کو چھ ماہ گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک یہ ہاؤس مکمل نہیں ہوئے۔ مخصوص نشستوں کے انتخابات نہیں ہوئے اور اسی طرح چیئرمین، وائس چیئرمین، ٹاؤنز، زونز، تحصیلوں اور اضلاع کے بارے میں کوئی علم نہیں کہ ان کا مسئلہ کب تک حل ہونا ہے۔ اب بہانا بنایا جارہا ہے کہ کیس عدالت میں ہے، حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ اس کا فالو اپ کرنا چاہیے تھا مگر حکومت ایسا کرنا ہی نہیں چاہتی۔

یہ جانتے ہیں کہ اگر یہ انتخابات 3ماہ قبل مکمل ہوجاتے ، ادارو ں کی تشکیل ہوجاتی تو انہیں اداروں کو فنڈز دینا پڑتے لیکن حکومت تو سارے فنڈز اورنج ٹرین پر لگا رہی ہے جبکہ تمام ٹی ایم اوز کو خصوصی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ فنڈز اورنج ٹرین کیلئے دیں۔ بلدیاتی انتخابات آئین کی اصل روح کے مطابق نہیں ہوئے لیکن اب جیسے بھی انتخابات ہوچکے ہیں ان اداروں کو صحیح معنوں میں فعال کیا جائے کیونکہ جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اختیارات یونین کونسل کی سطح تک منتقل نہیں ہوجاتے۔ حکومت ہر ایم پی اے کو 25کروڑ روپے کے فنڈز جاری کررہی ہے جس کے لیے ڈی سی اوز نے سکیمیں مانگ لی ہیں۔

بلدیاتی انتخابات سے پہلے تک تو یہ ٹھیک تھا کیونکہ اس وقت مقامی حکومتوں کا نظام نہیں تھا مگر اب انتخابات ہوچکے ہیں اور ایسی صورتحال میں اگلے سال کے لیے فنڈز جاری کرنا میرے نزدیک سیاسی رشوت ہے ۔ اگر سارا کام ایم پی اے اور ایم این اے نے کرنا ہے تو اس سے بلدیاتی اداروں کی حیثیت پر سوالیہ نشان آتا ہے کہ ان کا کام کیا ہوگا؟ موجودہ نظام دیکھیں تو اتھارٹیوں کے ذریعے حکومت چلائی جا رہی ہے، پارکس ، ٹرانسپورٹ، سالڈ ویسٹ منیجمنٹ، کار پارکنگ سمیت دیگر اتھارٹیز قائم ہیں، ایسی صورت میں میئر کے پاس کیا اختیارات ہوں گے اور وہ کیا کام کرے گا؟ میرے نزدیک بلدیاتی ادارے بے دست و پا اور بغیر اختیارات کے ہوں گے جبکہ میئر کے پاس سرکاری گاڑی کے استعمال کے علاوہ کوئی اختیار نہیں ہوگا۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ معاملات ایم این اے، ایم پی اے کے ذریعے چلانے کے بجائے آئین کی اصل روح کے مطابق مقامی حکومت کے اداروں کو فی الفور اختیارات اور فنڈز دیے جائیں ۔ یہاں حال تو یہ ہے کہ اسمبلیوں میں آنے والی خواتین کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہیں اور ان کا کردار واضح نہیں ہے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔ میرے نزدیک بلدیاتی اداروں میں موجود خواتین کو بااختیار بنا کر خواتین کے تمام مسائل حل کرنے چاہئیں ۔ بلدیاتی اداروں میں پہلی مرتبہ یوتھ کونسلر کی سیٹ رکھی گئی ہے لہٰذا اب نوجوانوں میں مایوسی اور بے راہ روی کا خاتمہ کرنے کے لیے ان کے ذریعے نوجوانوں کے مسائل حل کیے جائیں، انہیں فنڈز دیے جائیں تاکہ کھیل کے میدان و نوجوانوں کو دیگر سہولیات دی جاسکیں۔

عبدالرزاق ڈھلوں
(چیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی برائے لوکل گورنمنٹ اینڈ رورل ڈویلپمنٹ پنجاب اسمبلی)
پاکستان مسلم لیگ (ن) بلدیاتی الیکشن کی علمبردار ہے اور یہ نظام ملک میں ہم نے ہی دیا تھا جو بعد میں آمریت کے ادوار میں اپنایا گیا۔ میٹرو پولیٹن لاہور میں ایک، میونسپل کارپوریشن کی 11، سٹی کونسل 734، دیہی کونسل 3281 جبکہ ٹوٹل یونین کونسل 4ہزار پندرہ بنتی ہیں۔

ہمیں پہلے دن سے یقین تھا کہ ہماری جماعت انتخابات میں کامیاب ہوگی کیونکہ پنجاب میں ہماری جماعت کی اکثریت ہے۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات ہوئے ہیں اور الیکشن کمیشن کے لیے بلدیاتی انتخابات کروانا پہلا کانسپٹ ہے جو بہت بڑی تبدیلی ہے۔ ہم تو دو سال پہلے ہی بلدیاتی انتخابات کروانا چاہتے تھے مگر ہم جب بھی انتخابات کی طرف گئے تو ان لوگوں کی طرف سے رکاوٹیں ڈالی گئیں جنہیں اپنی ہار کا ڈر تھا۔ اب بھی ہم میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات کروانے جارہے تھے لیکن کیس عدالت میں چلا گیا اور اب ہم عدالتی فیصلے کا انتظار کررہے ہیں۔

ہم چاہتے تھے کہ ویسا ہی الیکشن ہو جیسا اسمبلیوں میں ہوتا ہے اور اسی لیے ہم نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم کیں لیکن اس پر بھی مخالفین رکاوٹیں ڈالنے کے لیے عدالت میں چلے گئے۔ میرے نزدیک پی ٹی آئی افراتفری پارٹی ہے اور ان کا مقصد شور مچانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کے پی کے حالات دیکھیں تو وہاں تعلیم، صحت و دیگر بنیادی سہولتیں لوگوں کو میسر نہیں ہیں جبکہ وہاں لڑکیوں کو جلایا جارہا ہے جو افسوسناک بات ہے مگر ہم بہتر حالات کی طرف جارہے ہیں اور بڑے صوبے کے بڑے مسائل پر وزیراعلیٰ پنجاب قابو پانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ پنجاب میں خواتین کو بھر پور نمائندگی حاصل ہے اوروہ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔

بلدیاتی نظام میں ہم نے 6کونسلر جنرل منتخب کیے ہیں اور اس کے تناسب سے ہم نے خواتین کو 33فیصد نمائندگی دی ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ مزدور، اقلیت اور یوتھ کی سیٹ بھی رکھی گئی ہے۔ میرے نزدیک مخصوص نشستوں پر آنے والے افراد کو براہ راست انتخاب لڑوانا ناانصافی ہوگی۔ چونکہ یہ انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوئے ہیںا س لیے مخصوص نشستوں پر اچھے پارٹی وکرز کو آزاد مواقع دینے چاہئیں تاکہ وہ سیاست میں قدم رکھ سکیں۔ بلدیاتی اداروں کو موثر بنانا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے، امید ہے کہ دو ماہ کے اندر اندر عدالتی فیصلہ آجائے گا اور پھر سسٹم کو مضبوط بنا کر اداروں کو مضبوط کیا جائے گا۔ اگلے بجٹ میں بلدیاتی اداروں کے لیے بہت بڑا بجٹ مختص کیا جائے گا اورجب بلدیاتی ادارے بن جائیں گے تو اتھارٹیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا میکانزم بھی بنایا جائے گا ۔

میری گل
(رکن صوبائی اسمبلی پنجاب)
بلدیاتی انتخابات کا معاملہ حکومت نے پوری ذمہ داری کے ساتھ نبھایا ہے اور خیبرپختونخوا کی نسبت پنجاب میں پر امن بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں۔ انتخابی عمل پر کوئی سوال نہیں ہے بلکہ مخصوص نشستوں پر بالواسطہ انتخابات کے طریقے پر اعتراضات سامنے آئے اور اب یہ معاملہ عدالت میں ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2013ء کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے حوالے سے بہت زیادہ مشاورت کی گئی کہ آیا بالواسطہ انتخابات کروائے جائیں یا براہ راست انتخابات کا طریقہ اپنایا جائے اور پھر طویل مشاورت کے بعد اس ایکٹ میں براہ راست طریقہ انتخاب کا حق دیا گیا۔یہ صورتحال اس وقت تبدیل ہوئی جب خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات براہ راست طریقے سے ہوئے ۔

خیبر پختونخوا میں 3 ہزار 3سو انچاس اقلیتی نشستوں میں سے 3ہزار 3سو انتالیس سیٹیں خالی ہیں جبکہ صرف 229 نمائندے منتخب ہوئے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں گراس روٹ لیول پر کسی بھی جماعت کا اقلیتوں کے حوالے سے سٹرکچر نہیں ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ وہاں اقلیتوں کی زیادہ تعداد نہیں ہے، اگر ایسا ہے توپھر انہیں قانون میں تبدیلی لانی چاہیے تھی اور جہاں ان کی آبادی زیادہ تھی وہاں انتخاب کروا لیتے۔خیبر پختونخوا کے انتخابی حالات دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن نے حکومت کو مشورہ دیا کہ مخصوص نشستوں کے بالواسطہ انتخابات کروا لیے جائیں کیونکہ اس طرح وقت بھی کم لگے گا اور انتخابی عمل بھی آسان رہے گا۔

یہ واضح ہونا چاہیے کہ صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی مخصوص نشستوں کے لیے یہی طریقہ کار ہے اور انہیں اسی طرح ہی منتخب کیا جاتا ہے۔ مخصوص نشستوں پر آنے والے طبقات جن میں خواتین، مزدور، نوجوان اور اقلیتیں شامل ہیں کسی نہ کسی صورت میں کمزور ہیں اسی لیے حکومت نے ان کے لیے یہ اقدام اٹھایا ہے۔ مخصوص نشستیں اسی لیے مختص کی گئی ہیں کہ یہ طبقہ براہ راست انتخاب لڑ کر با آسانی آگے نہیں آسکتا۔ مقامی حکومت پرائمری کی حیثیت رکھتی ہے۔ خواتین کی دو جبکہ مزدور، اقلیت اور یوتھ کی ایک ایک سیٹ مخصوص ہونا خوش آئند بات ہے اور اس طرح یہ لوگ سیاست میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

میرے نزدیک مخصوص نشستوں پر انتخابات کے طریقے پر بحث سے قوم کا نقصان ہورہا ہے۔ یہ باعث افسوس ہے کہ اقلیتوں کے چند طبقوں نے بھی اس معاملے پر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک کونسلر نے وارڈ سے الیکشن لڑنا ہے جبکہ مخصوص نشستوں والے افراد کو یہ کہا جارہا ہے کہ وہ پوری یونین کونسل سے الیکشن لڑیں جو کسی بھی طور درست نہیںہے۔ یہ جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہورہے ہیں لہٰذا مخصوص نشستوں پر پارٹی ورکرز ہی آگے آئیں گے۔اگر یونین کونسل کی سطح پر یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ براہ راست انتخاب کا حق دیا جائے تو پھر سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی مخصوص نشستوں کے لیے طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

میرے نزدیک یہ آئینی طور پر فقدان ہے کہ مخصوص نشستوںپر آنے والے افراد کا رول ڈیفائن نہیں ہے، اس کے لیے قانون میں تبدیلی لانی چاہیے اور مخصوص نشستوں پر آنے والے افراد کا حلقے کا تعین ہونا چاہیے۔ مخصوص نشستوں پر آنے والے افراد کو فعال بنانے کا میکانزم لوکل باڈیز سے سینیٹ تک نہیں ہے، ہمیں اسے تسلیم کرتے ہوئے اس پر کام کرنا چاہیے۔افسوس ہے کہ ہمارے رویے غیر جمہوری ہیں۔ مقامی حکومت اداروں کے حوالے سے حکومت پر الزامات غلط ہیں۔ اس حوالے سے کیس عدالت میں زیر سماعت ہے اور حکومت اس کا فالو اپ کررہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت اداروں کو بااختیار بنانا چاہتی ہے لہٰذا جب یہ ادارے کام کرنا شروع کر دیں گے تو حکومت پر لگائے گئے الزامات غلط ثابت ہوجائیں گے۔

سلمان عابد
(دانشور)
پاکستان میں گورننس کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔ عمومی طور پر دنیا میں گورننس کے مسئلے کا حل مقامی حکومتوں کا مضبوط اور بااختیار نظام ہے کیونکہ جمہوریت کو بنیادی جمہوریت کے ساتھ جوڑے بغیر نہ تو جمہوریت کا مستقبل روشن ہوتا ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں دو طرح کی تاریخ ہے، ایک فوجی دور حکومت ہے جس میں ضرورت کے تحت بلدیاتی ادارے بنائے گئے کیونکہ وہ ایک بڑے سیاسی نظام کو ختم کرکے اقتدار میں آتے ہیں ۔

دوسرا دور سیاسی حکومتوں کا ہے لیکن افسوس ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری ادوار میں بلدیاتی انتخابات کا تسلسل نہیں رہا۔اب سپریم کورٹ کے دباؤ پر بلدیاتی انتخابات ہوئے اور چاروں صوبوں میں ہوچکے ہیں۔ بلوچستان کے ایک سال قبل، بعدازاں خیبر پختونخوا پھر سندھ اور پنجاب میں انتخابات ہوئے لیکن ابھی پنجاب اور سندھ کے لوکل باڈیز کے ادارے فعال نہیں ہوسکے۔ خیبرپختونخوا میں سسٹم چل رہا ہے لیکن وہاں بھی مقامی حکومت کے نمائندوں نے اختیارات کے لیے احتجاج کیا جبکہ بلوچستان میں79 ء کے پرانے ماڈل کے تحت چل رہا ہے جس میں نچلی سطح پر اختیارات نہیں ہیں۔

18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو تو اختیارات منتقل ہوگئے مگر اب صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کو اختیارات کی منتقلی کیلئے تیار نہیں ہیں حالانکہ آرٹیکل 140(A) انہیں پابند کرتا ہے کہ مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل کریں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مقامی حکومتوں کے اداروں کو فوری طور پر فعال بنایا جاتا لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوسکا، لوگوں میں مایوسی پیدا ہورہی ہے لہٰذا اب سوال یہ ہے کہ کونسلرز کی جو اتنی بڑی کھیپ انتخاب لڑ کر آئی ہے اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر یہ نظام اسی طرح چلتا رہااور مقامی حکومت کے ادارے فعال نہ بنائے گئے تو نہ صرف لوگوں میں غصہ بڑھے گا بلکہ سیاسی جماعتوں پر بھی گورننس کا دباؤ بڑھ جائے گا۔

بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کیس عدالت میں ہے جس کی وجہ سے ڈیڈ لاک قائم ہے، حکومت کو چاہیے کہ ڈیڈ لاک فوری ختم کرکے، مخصوص نشستوں پر انتخابات کرواکر سسٹم کو فعال بنایا جائے۔آئین کے آرٹیکل 32کے تحت مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین، مزدور، اقلتیں اور نوجوانوں کو بااختیار بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر ابھی تک تو یہی واضح نہیں ہے کہ کونسلر کا کردار کیا ہوگا۔

پنجاب میں اتھارٹیز کے ذریعے حکومت چلائی جا رہی ہے جبکہ اتھارٹیز کا یہ سسٹم آرٹیکل 140(A) سے متصادم ہے لہٰذا سوال یہ ہے کہ ان اتھارٹیز کی موجودگی میں مقامی حکومتیں کیا کریں گی؟ اتھارٹیز جو کام کررہی ہیں یہ مقامی حکومت کے کام ہیں لہٰذا انہیں ا ن کا کام سونپا جائے۔ابھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ بڑے شہروں کی ترقی پر زیادہ پیسہ خرچ کیا جارہا ہے جبکہ چھوٹے شہروں میں ترقیاتی بجٹ کی شرح کم ہے۔

مقامی حکومتوں کے بارے میں حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ آئندہ بجٹ سے ہوجائے گا کہ ان کے لیے کتنا بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کمشنری نظام ہے اور کمشنر کو زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں۔ جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور میں اے سی آر لکھنے کا اختیارضلعی ناظم کے پا س تھا مگر اب یہ اختیار پولیس کے سربراہ کے پاس چلا گیا ہے۔ میرے نزدیک اختیارات کی بنیادی لڑائی چلتی رہے گی، اپوزیشن جماعتوں کو مل کر کمشنری نظام کے اختیارات کم کروا کر منتخب نمائندوں کو دلوانا ہوں گے۔ بلدیاتی انتخابات کروانا پہلی کامیابی ہے لیکن اس نظام کو فعال کرنا، انہیں بااختیار بنانا اور لوگوں کو اس کا حصہ بنانا اصل چیلنج ہے ۔ اگر اب بھی ایسا نہ ہوسکا تو یہ بہت بڑی ناکامی ہوگی۔

ممتاز مغل
(سربراہ عورت فاؤنڈیشن)
مقامی سطح پر مضبوط سیاسی نظام کی اہمیت سے کسی کو بھی انکار نہیں اور ہر کوئی اس نظام کو قائم رکھنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری سیاسی اشرافیہ مختلف تضادات کے باعث ابھی تک مقامی حکومتوں کے اصل نظام کا تسلسل برقرار نہیں رکھ سکی- وفاق کی جانب سے مقامی حکومتوں یا اداروں کو صوبائی سبجیکٹ قرار دینے کے بعد صوبائی حکومتیں ،مقامی حکومتوں کے نئے نظام کی تشکیل کے سلسلے میں اپنی منشا اور ضرورت کے تحت ’’مقامی حکومتوں کے آرڈیننس 2000-01‘‘ میں ترامیم لے آئیں- بدقسمتی سے پنجاب میں اس حوالے سے نہ تو کوئی بڑی مشاورت یقینی بنائی گئی اور نہ ہی مقامی حکومتوں سے وابستہ مختلف فریقین کو اعتماد میں لیا گیا ہے-

پنجاب حکومت نے بلدیاتی انتخابات سے قبل مقامی حکومتوں کے نظام میں جو ترامیم کیں ان پر مختلف سیاسی جماعتوں، مقامی اداروں کے نمائندوں اور سول سوسائٹی سے وابستہ اداروں کو اپنی اپنی سطح پر سخت تحفظات ہیںکیونکہ عملی طور پر مقامی حکومتوں کا یہ نظام اداروںکو مضبوط بنانے کے بجائے کمزور کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔ حکومت نے بلدیاتی انتخابات تو کروا دیے ہیں لیکن وہ آئین کے آرٹیکل 140-Aکی اصل روح کے مطابق نہیں ہوئے اور یہی وجہ ہے کہ انتخابات کا عمل مکمل نہیں ہوسکا اور کیس عدالت میں زیر سماعت ہے-

ہمارا مطالبہ ہے کہ مخصوص نشستوں پر فوری براہ راست انتخابات کروائے جائیں اور اقلیتی نشستوں پر اپنا نمائندہ منتخب کرنے کا اختیار اقلیتی ووٹرز کو دیا جائے ۔اس کے علاوہ مقامی حکومتوں کے نظام میں خواتین کے لیے 33فیصد سیٹیں مختص کی جائیں تاکہ خواتین کی موثر نمائندگی ہوسکے اور وہ سیاست میں قدم رکھنے کے ساتھ ساتھ خواتین کے مسائل بہتر طریقے سے حل کرسکیں۔ بلدیاتی نظام میں خواتین کی شمولیت مضبوط جمہوریت کے لیے ضروری ہے لیکن اگر خواتین کونسلر منتخب کرنے کے بعد انہیں اختیارات نہ دیے گئے تو وہ خواتین کی ترقی کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کرسکیں گی۔ میرے نزدیک خواتین کی ترقی اور مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کو بااختیار بنایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ مزدور اور کسان خواتین کو بھی بااختیار بنانے پر توجہ دی جائے او ر ان کا کردار وضع کیا جائے۔

لوکل گورنمنٹ میں خواتین کی شمولیت اس لیے کی گئی ہے کہ وہ خواتین کے مسائل مقامی سطح پر ہی حل کریں لیکن خواتین کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوسکتے جب تک مقامی حکومت کی نمائندہ خواتین کو فیصلہ سازی میں شامل نہیں کیا جاتا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ خواتین کے مسائل بہت زیادہ ہیں جنہیں حل کرنے کے لیے ترجیحات طے کرنا ہوں گی۔ افسوس ہے کہ حکومتیں سسٹم میں خواتین کی شمولیت کے حوالے سے قانون سازی تو کرتی ہیں مگر اس پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد نہیں کیا جاتا اور یہ محض نمائشی قوانین ہوتے ہیں۔ اب حکومت نے بلدیاتی نظام میں خواتین کے لیے نشستیں مختص کی ہیں تو انہیں صحیح معنوں میں بااختیار بھی بنانا چاہیے تاکہ ان نشستوں پر آنے والی خواتین میں مایوسی پیدا نہ ہو اور وہ خواتین کے مسائل کے حل کے لیے موثر کردار ادا کرسکیں۔ اس وقت خواتین کے لیے صحت کے بنیادی مراکز کمزور ہیں، سہولیات ناپید ہیں، بنیادی تعلیم اور ہنرمندی کی تعلیم کے مواقع کم ہیں، انہیں روزگار کے مسائل کا سامنا ہے جبکہ کا م کی جگہ پر بھی انہیں مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایسی صورتحال میں اگر خواتین کی نمائندہ کونسلر بااختیار ہوں گی تو خواتین کو تقویت ملے گی، ان کے مسائل حل ہوجائیں گے اور وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائیں گی۔ میرے نزدیک انتخابات کروانا کوئی کامیابی نہیںبلکہ منتخب نمائندوں کو بااختیار بنانا اصل کام ہے اور یہ آئین کی اصل روح کے مطابق ہونا چاہیے۔ مزدور، کسان، نوجوان، اقلیتوں سمیت عورتوں کو زیادہ بااختیار بنایا جائے تاکہ مقامی حکومتوں کے فوائد عوام تک پہنچ سکیں اور لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کیے جاسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔