نواز شریف سُرخرو ہونگے؟

تنویر قیصر شاہد  پير 16 مئ 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

روایات میں آتا ہے: ’’دشمن پر حملہ کرنے سے کئی روز قبل محمد بن قاسم نے اپنے چچا، حجاج بن یوسف، کو خط لکھ کر پوچھا کہ کیا مجھے اپنے حریف پر فتح ہو گی؟ دانشمند اور جہاندیدہ حجاج بن یوسف نے جواب میں لکھا: پیارے بھتیجے، اگر تمہاری سپاہ کے اجتماعی گناہ اور غلطیاں دشمن کی سپاہ سے زیادہ ہیں تو تمہاری فتح اور کامیابی کے امکانات کم ہوں گے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا تو یقینا تمہی کامیاب و کامران ہو گے۔‘‘ ان لمحات میں یہ تاریخی اقتباس مجھے نجانے کیوں بار بار یاد آ رہا ہے؟ اعلان اور وعدے کے مطابق وزیراعظم محمد نواز شریف آج پارلیمنٹ میں آئیں گے۔

ویسے تو جناب وزیراعظم کو گزشتہ جمعے کو، پانامہ لیکس کی بازگشت میں، قومی اسمبلی آنا تھا لیکن بیچ میں تاجکستان کا دورہ آگیا۔ یہ انتہائی ناگزیر بھی تھا کہ پاکستان کو توانائی کے جن مختلف النوع بحرانوں کا سامنا ہے اور لوڈ شیڈنگ نے جو نئے سنگین حالات پیدا کر دیے ہیں، ان کے خاتمے کے لیے وزیراعظم صاحب کا تاجکستان جانا ضروری تھا۔ تاجکستانی صدر، جناب امام علی رحمانوف، کے ساتھ ہمارے وزیراعظم نے ایک ہزار میگاواٹ بجلی کے حصول کے جو نئے معاہدے کیے ہیں، ان سے امیدوں کا نیا منظر اور نیا جہاں پیدا ہوا ہے۔ ایسا مگر ہرگز ممکن نہیں۔ برسوں کی غفلتوں اور نظراندازیوں نے جو قیامتیں ڈھائی ہیں، ان کا مداوا شب بھر میں نہیں ہو سکتا۔

جناب نواز شریف جب قومی اسمبلی میں آئیں گے تو ضروری نہیں ہے کہ وہ پی پی پی اور پی ٹی آئی کے تیار کردہ تقریباً نصف درجن سوالات ہی کے جواب دیں گے۔ وہ ان کے پابند ہیں نہ اس ضمن میں ان کی طرف سے کوئی وعدہ ہی کیا گیا ہے۔ ایک تصور اور مفروضہ ہے جو نام نہاد متحدہ اپوزیشن کی طرف سے باندھ لیا گیا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ پانامہ لیکس کے پس منظر میں وزیراعظم نواز شریف کی طرف انگشت نمائی کرنے والے کیا احتساب اور سوال کرنے کا اخلاقی جواز رکھتے بھی ہیں؟ اور کیا پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے اجتماعی دامن اتنے پاکیزہ اور بے داغ ہیں کہ وہ دوسروں کے ’’داغوں‘‘ کی نشاندہی کر سکیں اور ان کے بارے میں استفسار کر سکیں؟ سنگباری سے قبل اپنے سر اور اپنے ضمیر کو یاد رکھنا ازحد ضروری ہے۔

موجودہ حالات میں سب سے خسارے میں جناب عمران خان رہے ہیں کہ وہ اپنی جَلد بازیوں اور غیر حکمت کاریوں کے باعث پیپلز پارٹی کے جال میں بُری طرح پھنس گئے ہیں۔ اس سے پہلے تو ملک بھر میں پیپلز پارٹی کے کردہ اور ناکردہ گناہوں اور مبینہ کرپشن کی کہانیاں گردش کرتی رہتی تھیں، پی پی پی کے تین بڑے ’’ستونوں‘‘ کے داغوں کی بہار کا ذکر ہوتا رہتا تھا، برطانیہ میں سرے محل، سوئٹزرلینڈ میں رکھے ڈالروں اور فرانسیسی بنگلوں کی بازگشت ہمارے میڈیا میں سنائی دیتی رہتی تھی۔ لاریب اس بازگشت نے ’’ہماری‘‘ ایک سیاسی جماعت کی قیادت کو دیوار سے لگا رکھا تھا۔

اسی بنیاد پر یہ جماعت دفاعی پوزیشن میں رہی ہے۔ جناب عمران خان اپنی نجی مجالس اور جلسوں میں اس پارٹی کے ’’داغوں‘‘ کا ذکر جس بلند آہنگ سے کرتے رہے ہیں، اس آواز کی گونج ابھی ہوا میں تحلیل ہو کر معدوم نہیں ہوئی ہے۔ اب مگر حالات یکسر یوں تبدیل ہوئے ہیں کہ جناب عمران خان ان داغوں کا تذکرہ دانستہ فراموش کر بیٹھے ہیں۔ وہ اپنے پرانے حریفوں کو حلیف بنا چکے ہیں تا کہ ’’مل کر‘‘ نواز شریف کا احتساب کرنے میں توانائی پیدا کی جا سکے۔ یہ منظر کپتان کے چاہنے والوں کی آنکھوں میں رڑک سی پیدا کر رہا ہے۔ اصول، ضابطے اور سچائی کے دعوؤں اور وعدوں کو یقینا دھچکا لگا ہے۔ اس دھچکے اور مایوسی کے ذمے دار جناب عمران خان ہیں۔

کیا اس کا مطلب یہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ کسی روز کپتان اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے لیے اچانک نواز شریف سے بھی سمجھوتہ کر کے سب کو مزید ورطۂ حیرت میں ڈال دیں گے؟ ان سے کوئی بعید بھی نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جناب عمران خان نے پی پی پی سے سیاسی اتحاد کر کے نہ صرف نواز شریف کے کندھوں کا بوجھ کم کیا ہے بلکہ وہ پی پی پی کے دامن پر لگے داغوں اور دھبوں کو بھی مدہم کرنے کا باعث بنے ہیں۔

جناب نواز شریف کے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سرخرو اور کامیاب ہونے کے امکانات اس لیے بھی زیادہ روشن ہیں کہ ان کے مقابل حریف، جناب عمران خان، سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے کمزور پڑ گئے ہیں۔ عوام میں کپتانی مؤقف کو دھچکا اور دھکا لگا ہے۔ وجہ؟ سب سے بڑی وجہ جناب عمران خان کی اپنی آفشور کمپنی کا بے نقاب ہونا ہے۔ انکشاف ہوا ہے کہ کپتان نے ٹیکس بچانے اور زیادہ پیسے محفوظ کرنے کے لیے 80ء کے عشرے ہی میں آفشور کمپنی بنا لی تھی۔ اسی اعتراف کی وجہ سے ان کے امیج کو بٹہ لگا ہے اور ان کے چاہنے والوں کو نواز شریف کے متوالوں کے سامنے ہزیمت اٹھانا پڑ رہی ہے۔

کپتان صاحب اب کس اخلاقی بنیاد پر نواز شریف اور ان کے بچوں کا احتساب کرنے کا داعیہ رکھ سکتے ہیں؟ سب سے حیرت خیز بات یہ ہے کہ کپتان صاحب نے اپنی آفشور کمپنی کا ذکر کبھی اپنے انتخابی کاغذات میں بھی نہ کیا۔ اگر اب بھی ان کی طرف سے خفیہ رکھی گئی یہ بات ظاہر نہ ہوتی تو وہ کبھی اس کی ہوا نہ لگنے دیتے۔ اسے ان کی اخلاقی شکست سے نہ تعبیر کیا جائے تو اسے کس نام سے پکارا جائے؟ اس انکشاف نے لاریب جناب عمران کی طرف سے نواز شریف کا مواخذہ اور احتساب کرنے کے موقف کو گزند اور ضعف پہنچایا ہے۔

اب ان کا للکارنا اور چھاتی بجانا بنتا نہیں ہے۔ عوام یہ کہنے اور شک کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں کہ نجانے جناب عمران خان نے اب تک ریاست اور عوام سے کیا کیا، کہاں کہاں اور کیا کچھ چھپا رکھا ہے؟ پھر نواز شریف کا کیسا اور کونسا احتساب؟ کیا کپتان سامنے کی یہ حقیقت بھی نہیں جانتے کہ وہ اس پی پی پی کے ساتھ مل کر وزیراعظم کا مواخذہ اور احتساب کرنے جا رہے ہیں جس پی پی پی کے اصل قائد، جناب آصف زرداری، اندر خانے کپتان کے حریفوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں؟

وزیراعظم نواز شریف کا احتساب کرنے میں پی پی پی اور پی ٹی آئی کتنے مخلص اور یکجان ہیں، اس کا اندازہ اس مبینہ بِل سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو یہ دونوں پارٹیاں، ترمیم کرنے کے حوالے سے، پارلیمنٹ میں پیش کرنے جا رہی ہیں۔ اس ’’بِل‘‘ کے بارے میں دونوں کی تیار کردہ شِقوں کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں قطبین پر کھڑے ہیں۔ پی ٹی آئی احتساب کا شکنجہ مزید سخت کرنے کے متمنی ہے جب کہ پی پی پی ترمیمات کے بعد اسے بالکل ہی ناکارہ اور بے دانت بنانا چاہتی ہے۔ جب ’’اتفاق و اتحاد‘‘ کا یہ عالم ہو تو جناب نواز شریف کا اپنے حریفوں کے مقابل سرخرو ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ چنانچہ فطری طور پر اپوزیشن کا کامیاب ہونا عبث ہے۔حالات آیندہ ایام میں جو بھی شکل اختیار کریں، ہمارے میڈیا کو بے پَر کی اڑانے سے باز رہنا چاہیے۔

افواہوں اور بے بنیاد خبروں کی اشاعت اور نشریات سے کسی شخصیت کو کم، اس ملک کو زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ نواز شریف اور عمران خان کی دوستی دشمنی میں میڈیا کے بعض حصوں کی جانب سے بے پَرکی اڑانے سے معاملات کیا شکل اختیار کر رہے ہیں، اس کی سنگینی کا کچھ کچھ اندازہ ہمیں اُس خط کے مندرجات سے ہوتا ہے جو چند روز قبل وفاقی حکومت کے ترجمان اور پرنسپل انفرمیشن آفیسر (پی آئی او) جناب راؤ تحسین علی خان کی طرف سے اخبارات میں شایع ہوا ہے۔

یہاں اس خط کے مندرجات پر بحث مدعا نہیں ہے لیکن پی آئی او کی طرف سے اس بات کی درخواست کرنا قابلِ فہم بھی ہے اور پیشہ وارانہ فرائض کا بنیادی تقاضا بھی کہ وزیراعظم صاحب یا ان کے اہلِ خانہ کے حوالے سے کسی خبر کو نشر یا شایع کرنے سے قبل وزیراعظم آفس یا وزارتِ اطلاعات و نشریات کے متعلقہ افسران یا خود پی آئی او سے تصدیق کے لیے رابطہ کرنا چاہیے۔ ان متعلقہ افسران پر لازم ہے کہ وہ بھی اپنے دروازے یعنی فون صحافیوں کے لیے کھلے رکھا کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔