نظریاتی انتشار کا شکار معاشرہ

عابد محمود عزام  منگل 17 مئ 2016

ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں پورا معاشرہ انتشار اورکشمکش کی کیفیت کا شکار ہے، ملک کے مختلف طبقات پاکستان کے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مفادات کی خاطر ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں۔ دن بدن اس کشمکش میں اضافہ ہو رہا ہے اور مختلف طبقات کے مابین کھینچی لکیریں مزید گہری ہوتی جا رہی ہیں۔ ایسی باتوں پر بھی اتفاق نہیں کیا جارہا ہے،جو مختلف الخیال ومختلف النظریات لوگوں کے مابین مشترک ہیں، ہرکوئی ہرحال میں اپنی ہی بات منوانے پر تلا ہوا ہے اور فریق مخالف کی ہر اچھی بری بات کی مخالفت کرنا ضروری خیال کرتا ہے۔

برصغیر میں اپنی غلامی کو آزادی میں بدلنے کے لیے تمام مسلمانوں نے مشترکہ طور پر جدوجہد کی جس کے نتیجے میں قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں برصغیرکے مسلمانوں کی وحدت و یکجہتی و اخلاص پرمبنی جدوجہد رنگ لائی اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک ایسا ملک عطا کیاجو دنیا بھر میں ہر لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔

جو جغرافیائی اعتبار سے اپنے اندر ہر خوبی سموئے ہوئے ہے جس میں خوبصورت وادیاں، سرسبز کھیت، ندی نالے، دریا، صحرا اور معدنی ذخائر کو اپنے سینے میں دفن کیے ہوئے بلند وبالا پہاڑ، ہر قسم کے پھل اوراناج اور ایسا سمندر بھی اسی دھرتی پر ہے جس سے گزرنے کی خواہش ہر ملک رکھتا ہے لیکن بدقسمتی سے دنیا کی عظیم نعمت کے باسی مذہب سے لے کر سیاست تک نت نئے انتشارواختلافات کا شکار ہیں جن میں سے سب سے زیادہ خطرناک نظریاتی وفکری انتشار ہے۔ ملک میں جاری اس نظریاتی و فکری تصادم کا پس منظر سیاسی ہے اور سیاسی محرکات کی بنا پر اس کشمکش کو پروان چڑھا کر قوم کو آپس میں صف آرا کیا گیا ہے۔ملک میں اسلام پسند اور سیکولر طبقوں کے درمیان ایک عرصے سے کشمکش جاری ہے۔

اسلام پسندوں کے نزدیک نفاذ اسلام ہی پاکستان کی منزل ہے کیونکہ پاکستان مذہب کے نام پر تخلیق کیا گیا تھا جب کہ سیکولر طبقہ سیکولرازم کے نفاذ کوکامیابی کی منزل بتلاتا ہے۔ دونوں دھڑے اپنی بات کی توثیق کے لیے قائداعظم محمد علی جناح کی تقریروں کے اقتباسات پیش کرتے ہیں۔ اسلام پسند قائداعظم کی وہ تقریریں سامنے لاتے ہیں جن میں بانی پاکستان نے پاکستان کو ایک اسلامی مملکت بنانے کا اعلان کیا تھا جب کہ سیکولر طبقہ ان کی 11 ستمبرکی تقریر کا حوالہ دیتا ہے۔ دونوں دھڑے پاکستان کی تخلیق کی وجہ تسمیہ کو اپنے موجودہ نظریات کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ملک میں سیکولر طبقے کے نزدیک موجودہ دور میں اسلامی قوانین نافذالعمل نہیں ہیں بلکہ مغربی قوانین میں ہی ہمارے مسائل کا حل ہے جب کہ اسلام پسندوں کے نزدیک مذہب انسان کی فطری ضرورت ہے۔ یہی بہتر طریقے سے معاشرے کی تشکیل، ترتیب اور تعمیر کر سکتا ہے۔ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور یہ زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ پاکستان میں اسلام پسندوں کی اکثریت، غیرمعمولی افرادی قوت اور بہت بڑے تنظیمی نیٹ ورک ہیں۔ان سے وابستہ ورکر جانفشانی اور یکسوئی سے اْخروی جذبے کے پیش نظرکام کرتے ہیں۔

ملک میں اسلام پسندوں اور علمائے کرام کی سرتوڑ مشترکہ سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان میں ’’قرارداد مقاصد‘‘ منظور ہوئی، آئین میں یہ بات طے کر دی گئی کہ عوام کے منتخب نمایندے اللہ تعالیٰ، اس کے رسول حضرت محمدﷺ  کی ہدایت کے دائرے میں رہتے ہوئے اس ملک کا نظام چلائینگے۔اس قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد اسلام کو پاکستان کا سرکاری مذہب قرار دے دیا گیا۔اس کے ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے ذمے ملک میں رائج قوانین کو اسلامی ڈھانچے میں ڈھالنے کا کام سونپا گیا، ان تمام کامیابیوں اور جدوجہد کے باوجود اسلام پسند پاکستان میں مکمل اسلامی قوانین کا نفاذ کرنے میں ناکام رہے۔

اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ پاکستان میں اسلامائزیشن کے عمل میں ناکامی کی بڑی وجہ خود اسلام پسندوں کے رویے ہیں۔ اسلام پسندوں کے مزاج میں دن بدن تشدد، تعصب اور نفرت شامل ہورہا ہے۔ مسلک، فرقے اور نظریے کا اختلاف اور نزاع، تصادم و ٹکراؤ اور جنگ وجدل کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ برداشت و رواداری دم توڑچکے ہیں۔ ایک عرصے سے ہر فورم پر اسلام پسندوں کے ’’اقدامات‘‘ موضوع بحث ہیں جس سے یقینا اسلام پسندوں کے بارے میں قوم پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور قوم بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوئی ہے۔

اسلام پسندوں کی تصادم و ٹکراؤ پسندانہ سوچ نے خود ان کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اسلام پسندوں کا المیہ یہ ہے کہ ہر ایک اپنے دائرے میں مگن ہے اور اس نے اپنے گرد خود ساختہ حساسیت کے دائرے کھینچ رکھے ہیں۔ تمام مذہبی گروہوں پر فقہی تعصبات کا غلبہ ہے۔ ایسے مسائل جن کی حیثیت راجح ومرجوح سے زیادہ نہیں ، ان پر دسیوں آرا پائی جاتی ہیں جن پر دلائل کا انبار اور جواب الجواب کی لامحدود تفصیلات بھی عام دستیاب ہیں جب کہ معاشرے کو درپیش مسائل معاشرت وسیاست اور تعلیم وصحافت کے موضوع پر اسلامی نقطہ نظرکی ترجمانی اور جدید معاشرے میں درپیش مسائل پر اسلام کا موقف اکثر وبیشتر بے توجہی کا شکار ہے اور اسلام پسندوں کی جانب سے اس سلسلے میں معاشرے کی رہنمائی کا فرض ادا نہیں کیا جارہا۔

اسلام پسندوں کے معاشرے کو مایوس کرنیوالے یہی رویے ان کی ناکامی کا سبب بنتے ہیں۔اس لیے سیکولرز کے نزدیک اختلافات کا مزاج رکھنے والے اسلام پسند ریاست کو ٹھیک طور پر چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ علماء، مساجد اور عوام تقسیم ہیں، اسلامی قوانین کے نفاذ کی صورت میں فقہی اختلافات کو فروغ حاصل ہوتا ہے جو کسی طرح بھی معاشرے کے لیے مفید نہیں۔ اس لیے ایسے حالات میں سیکولرازم ہی ایک ایسا نظام ہے جو تمام مذاہب، رنگ و نسل، فرقے اورطبقات کو مساوی درجہ دیتا ہے اور یہ نظام تمام دنیا میں کامیابی کے ساتھ اپنا وجود جاری رکھے ہوئے ہے۔

ان حالات میں اس ملک میں موجود اسلام پسند اور سیکولر کی تقسیم کو ختم کرنا تو ممکن نہیں کیونکہ انسان کامختلف الخیال ہونا ایک فطری امر ہے۔ معاشرہ مختلف الخیال لوگوں سے ہی مل کر تشکیل پاتا ہے لیکن اگر دونوں طبقے چاہیں تو اس فکری ونظریاتی انتشار کوکافی حد تک کم کرسکتے ہیں اور اس فکری انتشارکوکم از کم اس حد تک محدود ضرورکیا جاسکتا ہے جو ملک و قوم کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔

موجودہ انتشار ملک و قوم کے لیے انتہائی نقصان کا باعث بن رہاہے کیونکہ فریقین ضد میں ایک دوسرے کی ایسے امور میں بھی مخالفت کرتے ہیں جن کو ماننے سے کسی کے نظریاتی تشخص کو کوئی نقصان نہیں ہوتا لیکن ملک ضرور نقصان سے دور چار ہوتا ہے۔ متصادم ذہنیت کے افراد کی کشمکش سے معاشرہ نہ صرف فکری انتشارکا شکار ہوتا ہے بلکہ تصادم بھی ہوتا ہے۔اس وقت ہمارا معاشرہ اسی صورتحال سے دوچار ہے۔

اس سے نجات کا ایک ہی حل ہے کہ ضد میں آکر فریق مخالف کی ہر بات کی مخالفت کرنے کے رویے کو ترک کر کے اپنے اختلافات کو صرف مکالمے تک محدود رکھیں، اس مخالفت کو اصل مقصود نہ بنائیں کیونکہ ملک میں اسلام پسندوںاورسیکولر طبقے کو مشترکہ طور پر بھی بہت سے مسائل درپیش ہیں، جن سے مل جل کر ہی نمٹا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔