لکھنے کا فن

منظور ملاح  بدھ 18 مئ 2016
mallahmanzoor73@gmail.com

[email protected]

انسان پیدا ہوتے ہی اپنے ساتھ ذہانت بھی لے آتا ہے، اسے Multiple Intelligenceکہتے ہیں لیکن ان ذہانتوں میں سے وہ کسی ایک میں زیادہ ذہین ہوتا ہے جس کے لیے “Smart” لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے رائٹنگ اسمارٹ، پکچر اسمارٹ وغیرہ ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان میں جو جبلتیں موجود ہوتی ہیں، ان میں سے جو زیادہ Active ہونگی، اس میں وہ اپنے فن کے جوہر دکھاتا ہے۔

یہی شرط ایک رائٹر پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ جب کسی رائٹر کی جبلتیں یعنی اندر کے بھوت زیادہ کام کرنے لگتے ہیں، تو وہ کوئی نہ کوئی شاہکار تخلیق کرتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ ہر وقت اسی پوزیشن میں رہے کیونکہ انسانی کیفیات تبدیل ہوتی رہتے ہیں، بقول لطیف سائیں ’’کبھی انسان شیر کی طرح نڈر، تو کبھی چیونٹی کی طرح کمزور ہوتا ہے‘‘ البتہ یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ وہ ادب کی ہر صنف میں اپنا سکہ جمائے مثال کے طور پر زنجبار کے عبدالرزاق گرنا سے لے کر انڈیا کے اروند اڑے گا تک، انھوں نے اپنے پہلے ہی ناولز پر بکر پرائز تو حاصل کیا لیکن بعد میں آنیوالی تصانیف ہا تھ ملتی رہ گئیں، امریکا کے پال تھرو نے شاندار سفرنامے تو لکھے لیکن فکشن کی 27 کتابیں لکھنے کے باوجود وہ ان میں شہرت حاصل نہ کر سکے۔

اگر چیک نسل کے فرانسیسی لکھاری میلان کنڈیرا کی بات کی جائے توThe Unbearable lightness of being سے لے کرlife is else whereاور Identity تک ان کی ہر تصنیف میں مختلف رنگ نظر آئینگے، کہیں چیک وسلواکیہ کا کمیوسٹ راج تو کہیں فرانس کے ساحل کے حسین نظارے یا پاکستانی ناول نگار محمد حنیف کو دیکھ لیں، کہیں جنرل ضیاء الحق کے ڈکٹیٹر شپ کا موضوع تو کسی میں کراچی شہر کے دردیا بنگالی رائٹر امتیاو گھوش جو نیپال کے شاہی خاندان کے خلاف سازشوں سے لے کر ساحل بنگال، بحیرہ ہند کی لہروں، جنگلوں، دلچسپ کرداروں کی بات کرتا ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہندوستان میں آمد سے پہلے کلکتہ میں ڈیرہ جمانے کے بعد کالونیل انڈیا کی کڑوی حقیقتوں کی عکاسی کرتا ہے،   Hungary Tide  The تک اس کی شاندار تصانیف شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی بھی اچھے رائٹر میں موجود جبلتوں کا کام اچھا لکھنے کے لیے پہلی شرط ہوتا ہے۔

جس میں خیال، کردارنگاری، ڈکشن ماحول کے امتزاج سے خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے ملیں گی، کوئی بھی لکھاری اگر دنیا کے مختلف رائٹرز کی تصانیف نہیں پڑھے گا تو ان کی تصانیف میں فکری خزائن (ان رچمنٹ) کا عنصر کم ملے گا۔ وہ بار بار اپنی تصانیف میں Repetition کا شکار ہو گا یا کسی ایک رائٹر کی تصانیف پڑھنے سے یکسانیت کا شکار ہو گا۔ جیسے ہمارے اکثررائٹرز کا حال ہے، ان کی تصانیف کلک نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی پڑھنے کی عادت انسانی ذہن کے اندر نئے خیالات تصورات کا سبب بھی بن سکتی ہے لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کولمبیا کے گارشیا مارکیز، البانیہ کے اسمعیٰل قادری، ترکی کے اورہان پاموک اپنی زیادہ تر تصانیف میں رپٹیشن کا شکار نظر آتے ہیں۔

ان کی ایک دو کتب نے تو دنیا میں تہلکہ مچا دیا لیکن باقی ان کا تسلسل محسوس ہوتی ہیں۔ مثال گارشیامارکیز کی The Hundered Years of Solitude ایک شاندار ناول ہے لیکن Love In The Days of Cholera سے لے کر No one writes to colonelتک باقی سبب اس کا تسلسل لگتے ہیں یا اسمعٰیل قادری کا ناول “The  Siege جس سلطنت عثمانیہ کے حکمرانوں کے البانیہ کے گھیراؤ کی شاندار حقیقتیں شامل ہیں ورنہ ان کی زیادہ تر تصانیف البانیہ میں سنگل پارٹی ڈ کٹیٹر شپ کا احاطہ کرتی ہیں یا اورہان پاموک کے My Name Is Redکے علاوہ باقی جدید اور قدیم استنبول کے درمیان گھومتی ہیں۔ ممکن ہے کہ انعام واکرام بھی کبھی کبھی رائٹرکی تصانیف پر اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ، انعامات و اکرامات کے بعد رائٹر لکھنے میں بڑے احتیاط سے کام لیتے ہیں کہ کہیں اگلی بھی نہ چلی جائے یہی احتیاط ان کے قلم کی آزادی کو چھین لیتا ہے اور وہ تکرار کا شکار ہو جاتے ہیں۔

کسی بھی رائٹر کی تصانیف کو چار چاند لگانے میں سب سے بڑا کردار نقادوں کا ہوتا ہے۔ بڑے بڑے نقاد دنیا کی مختلف اخبارات، رسائل اور یونیورسٹیز میں پروفیشنلز کے طور پر کام کرتے ہیں اور جب کوئی نئی تصنیف میدان میں اتر تی ہے تو وہ ایک دم سرگرم ہو جاتے ہیں۔ ان کو تجربے ہی کہ رائٹر کی تصنیف کا فیصلہ کرتے ہیں لیکن افسوس کی ہمارے یہاں نقاد برائے نام ہیں، جو ہیں وہ تنقید کے فن کی باریک بینوں اور نئے نئے رجحانات سے میلوں دور ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں وہ معیاری ادب تخلیق نہیں ہو رہا جو دنیا کے باقی خطوں میں ہو رہا ہے۔

مغرب نہ جائیں صرف انڈیا کو دیکھ لیں قرۃ العین حیدر، خشونت سنگھ، کرشن چندر، امتیاوگھوش، اروند اڑیگا، سکیتا مہتا، کن کن کے نام لیں لیکن ہمارے ہاں فارمولا تصانیف کا سلسلہ جاری ہے، چاہے تحقیقی ادب ہو یا تخلیقی ادب ، نتیجہ یا طریقہ پہلے طے کر لینا ہے پھر قلم سے کاغذوں کو رگڑنے دیتے جائیں کیونکہ لکھنے کے جدید فن سے ہم نا آشنا ہوتے جا رہے ہیں، اس سلسلے میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ مغرب میں اخبارات اور رسائل کے علاوہ مختلف نجی علمی و ادبی ادارے اور سرکاری یونیورسٹیز میں موجود بڑے بڑے لکھاری اور نقاد مسلسل دینا کے مختلف رائٹرز کی تصانیف پر تحقیق کر تے رہتے ہیں خاص طور پر ان کے ٹرانسلیشن بیوروز میں پروفیشنل ٹرانسلیٹرز بیٹھے ہوتے ہیں جو ہم وقت اپنا کام کرتے رہتے ہیں، حال ہی میں گارجین نے رپورٹ دی ہے کہ مین بکر انٹرنیشنل پرائز کے سروے کے مطابق انگلینڈ میں انگریزی کتابوں سے زیادہ ترجمے خرید کیے جاتے ہیں ۔

جس میں جاپان کے ناولسٹ ہاروکی مراکامی سر فہرست ہیں۔ ہمارے یہاں ایسے ادارے تو موجود ہیں لیکن ان میں بیٹھے ہوئے نااہل سفارشی لوگ چند باتوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں جانتے صرف اپنی بلے بلے میں لگے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان اداروں میں کام کم، جلسے جلوس زیادہ نظر آتے ہیں، سونے پر سہاگہ ہمارے پبلشنگ سرکاری و غیر سرکاری ادارے ہیں جو ہر ایرے غیرے نتھوخیرے کو چھاپ لیتے ہیں، رائٹر بیچارا اتنی محنت کے بعد ان کی ٹریپ میں پھنس جاتا ہے ، یوں وہ ادارے ٹکہ بھی خرچ نہیں کرتے لیکن دوسرے کے خرچ پر کتابوں پر اپنا نام آویزاں کر لیتے ہیں۔ صرف چند کتابیں اپنی بجٹ سے سفارش کی بنیاد پر چھاپتے ہیں یہاں اب ادبی میلے لگتے ہیں لیکن کتابیں کتنی خریدی جاتی ہیں؟ یہ بڑے تشویش کی بات ہے، صرف سیلفیز پر زور ہوتا ہے، لہٰذا ادبی میلے کا مقصد ادھورا اور مزید مطالعے کا شوق، شوق ہی رہ جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔