جستجو کیا ہے؟

رئیس فاطمہ  ہفتہ 21 جولائی 2012
رئیس فاطمہ

رئیس فاطمہ

انتظارحسین اکثر بڑی اچھی کتابوں سے ہمیں متعارف کراتے ہیں۔ پچھلے دنوں انھوں نے ’’طلسم ہوش ربا‘‘ کی بازیافت کی، تو ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ہم قارئین کو خود انتظار صاحب کی سوانح عمری ’’جستجو کیا ہے؟‘‘ سے متعارف کرادیں۔ جو ہمیں پچھلے دنوں ویلکم بک پورٹ کے اصغر زیدی کی عنایت سے پڑھنے کو ملی۔

بہرحال ان کی عنایت کردہ کتاب جب پڑھنی شروع کی تو ہمیشہ کی طرح اس بار بھی انتظار صاحب کے قلم نے ہمیں اپنا اسیر کرلیا، بالکل اسی طرح جیسے اس سے پہلے ’’فلک اور زمیں اور‘‘، ’’شہرِ افسوس‘‘ اور ’’بستی‘‘ نے اپنے سحر میں جکڑلیا تھا۔ انسان کی جڑیں اس کی مٹی سے جڑی ہوتی ہیں۔ مٹی کا ایک اپنا رشتہ ہوتا ہے جس کی مہک لحد تک ساتھ رہتی ہے۔ اسی مٹی کے رشتے میں اے حمید بھی بندھے تھے اور انتظار حسین بھی بندھے ہیں۔ وہ ماضی کو یاد کرتے ہیں تو لوگ انھیں ماضی پرست کہتے ہیں، کوئی نوسٹلجیا کا طعنہ مارتا ہے۔

لیکن جو ہجرت کے کرب سے نہ گزرا ہو وہ بھلا کیونکر اس دکھ کو محسوس کرسکتا ہے ۔ انتظار حسین تو ہندوستان اور پاکستان میں یکساں مقبول ہیں اور وقتاً فوقتاً ہندوستان جاتے رہتے ہیں، جہاں لوگ ان کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے بیٹھے رہتے ہیں اور یوں وہ اپنی جنم بھومی بھی دیکھ آئے۔ ممبئی، جے پور، میرٹھ، لکھنؤ، جیسلمیر، میسور، اورنگ آباد، حیدرآباد، بنارس، پٹنہ، بہار، علی گڑھ، کولکتہ اور سدا سہاگن دلّی کے درشن بھی کرلیے۔ ان بزرگوں کی قبروں پر بھی ہو آئے جو اب آسودۂ خاک ہیں۔ اپنا بچپن اور لڑکپن بھی یاد کرلیا۔ اپنے آبائی گھر کو بھی ڈھونڈ لیا۔

یادوں کی قندیلوں کو ساتھ لیے جب وہ لوٹے تو پھر ’’جستجو کیا ہے‘‘ وجود میں آئی۔ دلچسپی کا یہ عالم کہ پڑھتے جائیے اور وقت کا احساس نہ ہو۔ کوئی سطر، کوئی پیراگراف اگر غلطی سے چھوٹ جائے تو نگاہیں فوراً غلطی پکڑلیتی ہیں۔ کیا کہنے ہیں انتظار صاحب کی نثر کے۔ کیا زبان لکھتے ہیں۔ بعض فقرے پڑھ کر مجھے اپنی والدہ اور خالائیں یاد آگئیں اور مجھے احساس ہوا کہ بھلا جو فقرے انتظار صاحب لکھ رہے ہیں وہ تو ہماری روزمرّہ گفتگو میں شامل تھے، لیکن یہ کیا ستم ہوا کہ خود میرے لیے وہ الفاظ اجنبی بن گئے۔ خوش رہیے انتظار حسین کہ آپ کی وجہ سے کچھ لفظوں اور فقروں کی بازیافت ہوگئی۔

کچھ باتیں زندہ ہوگئیں، جیسے انتظار حسین کو ان کی والدہ ویران جگہوں اور اندھیرے میں جانے سے منع کرتی تھیں اور کہتی تھیں ’’ادھر نہ جانا بیچا آجائے گی۔‘‘ ارے یہ تو ہماری منجھلی خالہ سب کو ڈرایا کرتی تھیں کہ اگر کوئی مغرب کے بعد گھر سے نکلا تو بیچا آجائے گی۔ بعض اوقات وہ خود منہ پر سیاہی مل کے، لہسن کے جوّے دانتوں میں لگا کے اور آنکھوں کے نیچے سفیدی لگا کر خود بیچا بن جایا کرتی تھیں۔ اسی طرح ہماری دادی بھی رات کو سانپ کا نام لینے سے منع کرتی تھیں۔

کہتی تھیں ’’اس موذی کا نام نہ لو، یا تو رسّی کہو یا زمین والا۔‘‘ وہ یہ بھی کہتی تھیں کہ سانپ کو مارنا نہیں چاہیے کیونکہ اکثر جنّات ان کے بھیس میں ہوتے ہیں۔ ہمارے نانا دلّی میں جس گھر میں رہتے تھے، وہ ایک قدیم حویلی تھی اور کبھی کبھار وہاں موری کے ذریعے سانپ کو آتے جاتے دیکھا گیا تھا۔ تب ہماری نانی نے باقاعدگی سے اس جگہ کٹوری میں دودھ رکھوانا شروع کردیا تھا۔ بڑے ماموں سیّد محمود علی بڑی خوشی خوشی یہ کام کرتے تھے۔

یوپی اور دہلی میں ایک رواج اور تھا کہ نیا چاند خصوصاً عید تہوار کے چاند دیکھنے کے لیے خواتین چھتوں پر جاتی تھیں۔ یا تو کسی چہیتے بچّے کو لے جاتی تھیں یا پھر دودھ کا کٹورا ساتھ ہوتا تھا۔ چاند دیکھ کر دعا مانگتی تھیں اور پھر یا تو دودھ کے کٹورے کو دیکھتی تھیں یا پھر بچّے کے چہرے کو۔ ہماری والدہ جب تک حیات رہیں، وہ گھر کی دوسری منزل کی چھت پر جا کر چاند دیکھتی تھیں۔ ہمیشہ میرے بڑے بھائی کا چہرہ دیکھتی تھیں۔ وہ گھر پر نہ ہوتے تو وہی دودھ بھرا کٹورا ان کی نگاہوں کا مرکز ہوتا تھا۔ انتظار حسین ایک جگہ لکھتے ہیں۔

’’نئے چاند کی دید تو ہر بار نیا تقاضا کرتی ہے، چاند کو دیکھ کر جو دعا پڑھی جاتی وہ تو ایک ہی تھی۔ لیکن چاند آسمان پر دیکھنے کے بعد زمین پر کون سی شے پہلے دیکھی جائے۔ ہر مہینے کا چاند ایک نیا تقاضا لے کر آتا تھا، کبھی آئینہ دیکھنے کا تقاضا، کبھی سبز شے، کوئی درخت، کوئی پودا، کبھی پانی دیکھنے کا تقاضا، کبھی چاندی کی انگوٹھی دیکھو، کبھی یہ تقاضا کہ چاند دیکھنے کے بعد کوئی معصوم صورت دیکھ لو۔ اس آخری تقاضے کی تکمیل کی خاطر مجھے بھی ان کے ہمراہ چھت پر جانا پڑتا تھا۔‘‘

ایک جگہ میرٹھ کے مشہور کھدر پوش لیڈر قیصر زیدی کا ذکر نہایت دلچسپ انداز میں کیا ہے جو اپنے سامنے چائے کی بھری کیتلی رکھ کر اور بتیاں گل کرکے افسانہ سناتے تھے۔ سدا بہار کنوارے تھے، لیکن ایک دن اچانک شادی کرلی، بھلا کیسے؟ وہ انتظار صاحب کی زبانی سنیے۔

’’پھر یاروں نے خبر دی کہ قیصر صاحب نے شادی کرلی۔ اچھا؟ واقعی، ہم سب حیران رہ گئے۔ یاروں نے ایک اور شگوفہ چھوڑا۔ کہا کہ ارے یار وہ دوست کی شادی میں براتی بن کر گئے تھے، وہاں عین نکاح کے ہنگام میں جھگڑا کھڑا ہوگیا۔ انھوں نے ثالث بن کر سمجھوتہ کرانے کی بہت کوشش کی۔ جب دولہا والے اپنی ہٹ پر اڑے رہے تو انھوں نے انھیں پیچھے دھکیلا اور متبادل دولہا کے طور پر اپنے آپ کو پیش کیا، چٹ منگنی پٹ بیاہ۔ لیجیے شادی ہوگئی۔‘‘

اب ذرا حیدرآباد دکن کی سیر کرلیجیے، جسے ’’دکھن سا نہیں ٹھارستار میں‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا ہے۔ قرۃ العین حیدر نے بھی اپنا ایک رپورتاژ اسی عنوان سے لکھا ہے۔ حیدرآباد دکن کا ذکر ہو اور ابوالحسن تانا شاہ اور والیٔ گولکنڈہ قلی قطب شاہ کو فراموش کردیا جائے، یہ تو انتظار حسین کر ہی نہیں سکتے تھے۔ تانا شاہ کے لیے کہتے ہیں۔

’’کیا آن بان تھی، کیا رکھ رکھائو تھا، کتنا شائستہ اور ٹھسا ایسا کہ ناک پہ مکھی نہ بیٹھنے دیتا تھا۔ سچ مچ کا تانا شاہ۔ کھانا تناول کرنے کے لیے دستر خوان پہ بیٹھا ہی تھا کہ اطلاع ملی، کسی موذی نے دغا کی۔ قلعہ کا دروازہ کھول دیا۔ اورنگ زیب کا لشکر قلعہ میں گھس آیا۔ خبر سنی کیا مجال کہ چہرہ پریشانی کی چغلی کھائے۔ کہا، آنے دو۔ اطمینان سے ماحضر تناول کیا، جب اورنگ زیب سر پر آن پہنچا تو کھڑے ہو کر استقبال کیا۔ پھر قیدی کی صورت فاتح لشکر کے ساتھ روانگی۔ رستے میں پیاس لگی، ایک پنہارن نے پانی پلایا۔ تانا شاہ نے انگلی سے انگوٹھی کہ ہیرا جڑی تھی اتاری، پنہارن کو دیتے ہوئے کہا۔ اے نیک بخت اس وقت تو ہمارے پاس دینے کے لیے بس یہی ایک انگوٹھی ہے۔‘‘

انتظار حسین نے اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر قلی قطب شاہ اور اس کی محبوبہ بھاگ متی کا ذکر بھی بڑے پیار سے کیا ہے کہ کس طرح شہزادہ ندی میں تیر کر بھاگ متی سے ملنے کے لیے جاتا تھا، تب باپ جو بادشاہ تھا، پہلے تو اس نے بیٹے کو تنبیہہ کی کہ اے سپوت عشق سے باز آجا۔ جب وہ نہ مانا تو ندی پر پل بنوادیا کہ بیٹا عشق میں گلے گلے ڈوبا تھا۔ بعد میں جب قلی قطب شاہ بادشاہ بنا تو بھاگ متی سے نکاح کرکے اسے حیدر محل کا خطاب دیا۔

اس نیک بخت کے بھاگ کھلے تو دل سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئی۔ بعد میں اسی کے نام پر قلی قطب شاہ نے ایک نیا شہر حیدرآباد، آباد کیا جو دراصل پہلے بھاگ نگر کہلایا، بعد میں رانی حیدر محل کی مناسبت سے اسے حیدرآباد کا نام ملا۔ شہر کے وسط میں کھڑا چار مینار بھی قلی قطب شاہ نے ہی بنوایا تھا۔

چلتے چلتے آخر میں ایک اور ٹکڑا جو یقیناً آپ کی آنکھیں نم کردے گا۔

’’دراصل میں اور منیر نیازی جنّت سے ایک ہی وقت میں نکالے گئے تھے، ہم نے ایک دوسرے کو اسی حیثیت میں پہچانا ہے۔ منیر نیازی سنانے لگتا ہے اس کی بستی میں آموں کے کیسے گھنے پیڑ تھے۔ میں بیان کرنے لگتا ہوں اپنی بستی میں شام کیسے پڑتی تھی اور مور کس رنگ سے بولتا تھا۔

ہم اپنی گمشدہ جنّت اپنے دھیان میں بسائے پھرتے ہیں۔ ہمارا حافظہ ہمارا دشمن بن گیا ہے۔ حافظے نے بی بی حوّا کو بھی بہت ستایا تھا۔ جنّت سے نکلنے کے بعد جنّت انھیں ایک عمر تک یاد آتی رہی۔ انھوں نے جنّت کو بہت یاد کیا، بہت روئیں۔ جنّت کی یاد میں بہنے والے آنسو جو زمین پر گرے ان سے مہندی کے پیڑ اگے۔ قصص الانبیاء میں لکھا ہے کہ روئے ارض پر جتنے مہندی کے پیڑ ہیں وہ سب بی بی حوّا کے آنسوئوں کا فیض ہیں۔‘‘

ہجرت کے تجربے کو انتظار حسین، منیر نیازی اور اے حمید نے جس طرح برتا ہے وہ انھیں دوسروں سے یکسر الگ کرتا ہے، لیکن ’’جستجو کیا ہے‘‘ میں جو زندگی سانس لے رہی ہے وہ ہزاروں دلوں کی دھڑکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔