کرن جوہر کے ساتھ ٹی وی پروگرام کرنے کا مزہ ہی اور ہے : فرح خان

فرخ اظہار  پير 19 نومبر 2012
 ٹیلی ویژن کے ناظرین کی تعداد کروڑوں میں ہے اور اس کے اثرات گہرے ہیں۔  فرح خان فوٹو : فائل

ٹیلی ویژن کے ناظرین کی تعداد کروڑوں میں ہے اور اس کے اثرات گہرے ہیں۔ فرح خان فوٹو : فائل

 ’’انڈیاز گوٹ ٹیلنٹ‘‘ نے ٹیلی ویژن کے کروڑوں ناظرین کی توجہ حاصل کی اور ایک مقبول شو ثابت ہوا۔

اس پروگرام کو سیمی فائنل سے معروف کوریو گرافر فرح خان کا ساتھ نصیب ہوا، جس سے اس کی رونق میں اضافہ ہوا۔ وہ سیمی فائنل میں منصف کے طور پر شریک ہوئیں اور شرکاء کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فیصلے کیے۔ فرح خان نے شو کے اس سیزن کو ’زبردست‘ قرار دیا ہے، لیکن رسماً نہیں اور اس لیے بھی نہیں کہ وہ اس میں شریک تھیں، بلکہ یہ واقعی ان کا فیورٹ پروگرام ہے۔ اسی پروگرام کے پچھلے سیزن کے دوران بھی اپنے انٹرویو میں انھوں نے اس کی بے حد تعریف کی تھی۔ فرح خان کی یہ رائے شو کے پروڈیوسر کے لیے یقیناً کسی اعزاز سے کم نہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کا باعث بنی ہو گی۔ پروگرام کے سیمی فائنل سے اس کے ساتھ اپنا تعلق جوڑنے والی فرح خان سے بات چیت آپ کی خدمت میں پیش ہے۔

٭ آپ نے اس شو کو اختتامی مرحلے میں جوائن کیا۔ اس کی وجہ؟
اس پروگرام کی جج کے طور پر مجھے شروع ہی میں آفر کی گئی تھی، لیکن اس وقت میں ’’شیریں فرہاد‘‘ کے ساتھ مصروف تھی۔ یہ میری فلم کا نام ہے۔ اس لیے انکار کر دیا تھا، لیکن پروڈکشن ہائوس نے مجھ سے برابر رابطہ رکھا اور ان کا اصرار تھا کہ میں کم از کم سیمی فائنل پر اس میں ضرور شریک ہو جاؤں۔ اس پر میں نے کچھ سوچ کر اکتوبر کے وسط میں انھیں رابطہ کرنے کے لیے کہا۔ میں فلم نمٹا چکی تھی اور پروڈیوسر کی کال آئی تو انھیں ’اوکے‘ کر دیا۔

٭ شاید یہ پہلا موقع ہے کہ آپ کسی پروگرام کی ایک قسط کی جج بنی ہیں۔ اس پر کچھ کہیے۔
جی ہاں! اب تک میں نے ایسا کوئی پروگرام نہیں کیا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ مجھے سیمی فائنل میں بہ طور منصف بلایا گیا ہے۔ اس طرح یہ ایک نیا تجربہ تھا اور مجھے بہت مزہ آیا۔ وہاں کرن جوہر کی موجودگی میرے لیے خوش گوار ثابت ہوئی۔ وہ ایک زبردست آرٹسٹ ہے اور اس کے ساتھ کام کر کے مصنوعی پن کا احساس بالکل بھی نہیں ہوتا۔ وہاں میں نے جتنا بھی وقت گزارا، ایسا لگا کہ میں اپنی فیملی کے درمیان ہوں۔ اپنے عزیزوں کے ساتھ ہوں اور ایک خوش گوار اپنائیت کا احساس میرا احاطہ کیے رہا۔

٭ اس پروگرام میں دی گئی ڈانس پرفارمینس پر تبصرہ کیجیے۔
زبردست، اس میں شریک تمام ڈانسرز نہایت باصلاحیت تھے اور بہت مہارت سے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ میں ان کے کوریو گرافرز کو مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ آپ یقین کریں کہ میں ان کی کوئی کم زوری نہیں پکڑ سکی۔ سب ایک دم پرفیکٹ تھا۔ میں حیران رہ گئی۔ آپ جانتے ہیں کہ میں نے بے شمار ڈانس پرفارمینس دیکھی ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک ڈانسر میری نظر سے گزرا ہے، لیکن وہاں موجود تمام لوگ نہایت ماہر تھے اور ان کی پرفارمینس کا جواب نہیں۔

٭ آپ کا پسندیدہ ریالٹی شو کون سا ہے؟
یہ میرا 14واں پروگرام تھا، جس میں منصف کے طور پر شریک ہوئی اور اب تک اپنے تمام پروگراموں کو انجوائے کیا ہے۔ انڈین آئیڈول میرا پہلا ریالٹی شو تھا اور میرے لیے ایک شان دار تجربہ تھا۔ میں اسے اب تک فراموش نہیں کرسکی۔ اس کا فارمیٹ بھی مجھے بے حد پسند آیا تھا۔ اس کے علاوہ ڈانس انڈیا ڈانس بھی مجھے بہت پسند ہے۔ ریالٹی شوز کی بھیڑ میں چند ہی قابل توجہ ہیں۔ دراصل یہ سب ایک ہی قسم کے پروگرامز ہیں، لیکن انھیں پیش کرنے کا طریقہ اور جان دار اسکرپٹ ان کی کام یابی کا باعث بنتا ہے۔

اب اگر میں اپنے فیورٹ شو کی بات کروں تو انٹرٹینمنٹ کے لیے’’کچھ بھی کرے گا‘‘ کا نام لوں گی۔ مجھے بہت مزہ آیا۔ اس شو نے میری توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی۔
٭ اگر اپنے لیے صلاحیت کا انتخاب آپ پر چھوڑ دیا جائے تو۔۔۔؟
ایسا ممکن تو نہیں، لیکن آپ نے پوچھا ہے تو، میں اپنے لیے سریلی آواز چاہوں گی، تاکہ گائیکی کے شعبے میں نام کمائوں۔ اس کے علاوہ ایک ایتھلیٹ بننے کی خواہش کروں گی۔

٭ اپنے بچوں کے بارے میں کچھ بتائیے۔ مثلاً ان کی دل چسپی اور میلان طبع سے متعلق آپ نے کیا اندازہ لگایا؟
وہ ڈانس کے رسیا ثابت ہوئے ہیں۔ معلوم نہیں یہ انھیں ورثے میں ملا ہے، یا پھر ان میں خود ہی اس کا رجحان پیدا ہو گیا ہے۔ میری بیٹی ڈانس کی مشق کرتی نظر آتی ہے۔ اپنے بھائیوں سے مقابلہ بھی منعقد کرتی ہے اور خود ہی جج بن کر فیصلہ بھی کرتی ہے۔ میرا بیٹا کوریو گرافر کے روپ میں متحرک نظر آتا ہے۔ میرے بچے یہ بات جانتے ہیں کہ میں انھیں سمجھتی ہوں اور کبھی ان کے شوق کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنوں گی۔ اس لیے وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے سے ہچکچاتے نہیں ہیں۔ اگرچہ ابھی انھیں پڑھنا لکھنا ہے اور عملی زندگی کا آغاز کرنے میں کافی وقت لگے گا، لیکن انھوں نے مستقبل کی تیاری کر دی ہے۔

٭ ٹیلی ویژن اور سنیما میں کس طرح فرق کرتی ہیں۔ یوں کہہ لیجیے کہ کہاں کام کرنے میں آسانی محسوس ہوتی ہے؟
بھئی، میں تو ان دونوں میڈیمز کے درمیان پسنے کی عادی ہو چکی ہوں۔ اگرچہ اب مجھے معاملات سے نمٹنا آگیا ہے، لیکن کبھی کبھی کام کا بے حد دبائو مجھے زندگی سے بیزار کر دیتا ہے۔ ٹیلی ویژن کو تو میں سنبھال لیتی ہوں، لیکن فلم کے دوران سوشل لائف بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اب میں اپنی فلم نمٹا چکی ہوں اور اپنے بچوں کو زیادہ وقت دے سکتی ہوں، کیوں کہ ٹیلی ویژن پر کوئی خاص مصروفیت نہیں ہے۔

٭ کس ہوسٹ کی موجودگی میں پروگرام کرنے کا زیادہ مزہ آتا ہے؟
مجھے وشال ملہوترا کے ساتھ کام کر کے بہت مزہ آتا ہے۔ وہ زبردست آرٹسٹ ہے۔ میں نے اس کے پروگرام ’’انٹرٹینمینٹ کے لیے کچھ بھی کرے گا‘‘ میں شرکت کی تھی۔ وہ ایک خوب صورت تجربہ ثابت ہوا اور وہاں میرا وقت بہت اچھا گزرا۔ اس کے علاوہ منش پال کا اندازِ میزبانی مجھے پسند ہے۔ وہ شان دار طریقے سے پروگرام کو لے کر چلتا ہے۔ میری نظر میں اس کا انتخاب کسی بھی شو کی کام یابی کی ضمانت ہے۔

٭ آپ کا ٹیلی ویژن سے تعلق خاصا مضبوط ہے۔ بڑے پردے کے مقابلے میں اسے کتنی اہمیت دیتی ہیں؟
دیکھیے، اس وقت تو سپراسٹارز تک چھوٹی اسکرین پر کام کرنے کے لیے بے تاب نظر آرہے ہیں۔ امیتابھ جی سے لے کر شاہ رخ خان اور دیگر نام ور آرٹسٹوں نے ٹی وی کے ذریعے اپنے پرستاروں اور ناظرین سے تعلق جوڑا ہے۔ اس کے بعد تو میری رائے کی ضرورت ہی نہیں بچتی۔ بلاشبہہ ٹیلی ویژن کے ناظرین کی تعداد کروڑوں میں ہے اور اس کے اثرات گہرے ہیں۔ میں آپ کو اکثر ٹیلی ویژن پر نظر آتی ہوں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ میری نظر میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔

٭ ٹیلی ویژن پر کون سا پروگرام شوق سے دیکھتی ہیں؟
میرا فیورٹ پروگرام ’’بگ باس‘‘ ہے اور مجھے جب بھی موقع ملتا ہے، اسکرین کے سامنے جم کر بیٹھ جاتی ہوں۔ میں اس گھر کے اندر ہونے والی ’خانہ جنگی‘ کا لطف اٹھاتی ہوں اور سلمان خان کی موجودگی نے تو اسے چار چاند لگا دیے۔ اس کے علاوہ ڈانس پر مبنی مقابلے میں توجہ حاصل کر لیتے ہیں، لیکن بگ باس وہ واحد پروگرام ہے، جس کے لیے خاص طور پر وقت نکالتی ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔