الن فقیر کا نقش۔۔۔ فقیر واحد بخش

زاہد نثار  اتوار 22 مئ 2016
ان کی گائیکی پر شاہ عبداﷲجھوم اٹھے، وہ اپنی آمدنی کا بڑا حصہ فلاحی کاموں پر خرچ کرتے ہیں ۔  فوٹو : فائل

ان کی گائیکی پر شاہ عبداﷲجھوم اٹھے، وہ اپنی آمدنی کا بڑا حصہ فلاحی کاموں پر خرچ کرتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

 موسیقی و رقص کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خصوصاً لوک موسیقی اور اس سے ذرا آگے صوفی موسیقی کا پڑاؤ ہے۔ صوفیانہ کلام کی معنویت اور جمالیاتی ذوق کو تسکین دینے کی صلاحیت اسے دوام بخشتی ہے۔ صوفیانہ کلام کا بے پناہ اثر اور گہرائی و گیرائی ہمیشہ سے بلند خیال اذہان کے لیے ایک جلا بخش ذریعہ رہا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں صوفیا کرام کی علمی ادبی تبلیغی اور روحانی خدمات سے ہر دور کے علم رسیا افراد نے استفادہ کیا ہے۔

انہی صوفیا کرام کی عوامی سطح پر پزیرائی ان کی بلند خیالی عام فہم تک رسائی، عمیق کلام اور انسانیت سے بے لوث محبت کی بدولت ہے۔ صوفیا کرام کی موسیقی، شاعری اور وجدانی رقص کی روایات بھی تا ریخ کا حصہ ہیں اور ان کی ہمہ جہتی آج تک روشن مثالوں کی صورت کتابوں اور سینہ بہ سینہ روایات میں موجود ہیں۔ خواجہ اجمیر کی محبت سے لبریز زبان ہو یا امیر خسرو کی دل نشیں و یکتا نغمگی، شاہ حسین کا ماں کا عظیم استعارہ ہو یا میاں محمد بخش کی حقیقت کی پرتیں کھولتی ہو ئی سچ بیانی، بلھے شاہ کی معرفت ہو یا روحل فقیر کی عشق پروردہ واردات قلبی، شاہ لطیف سائیں کی وائی ہو یا خواجہ غلام فرید کی کافی ، رحمان بابا کی آفاقیت سے شناسائی ہو یا شہباز قلندر کی رقص میں محویت یا انور لعل کی حق موجود سدا موجود کی گو نج، یہ سب اسی خطے کی روشن روایات ہیں۔

صوفیا کرام کی محبت کو عام کرنے میں ان کے عقیدت مندوں اور مریدین کی بے پناہ کاوشیں بھی قابل ستائش ہیں۔ ایسی ہی ایک روایت کے امین شاہ عبدالطیف بھٹائی سے والہانہ عشق کرنے والے مرحوم صوفی فن کارسائیں الن فقیر بھی تھے، جن کی رسیلی اور منفرد آواز کانوں کو تسکین کے ساتھ ساتھ روح تک کو بھی سرشار کر جاتی تھی۔ الن فقیر کا مخصوص اندازِ گائیکی سندھ کی زرخیز ثقافت کا آئینہ دار ہے۔

الن فقیر کے بعد ان کے نام اور انداز کو زندہ رکھے ہوئے فقیر واحد بخش عرف الن فقیر جونیئر ہیں، جن کا تعلق جنوبی پنجاب کی آخری تحصیل صادق آباد کے نواحی علاقے سنجر پور کی بستی کنڈیر سے ہے۔ 1959 میں رسول بخش عباسی داؤد پوتہ کے گھر پیدا ہونے والے فقیر واحد بخش کو بچپن ہی سے لوک موسیقی اور معروف علاقائی رقص جھومر سے والہانہ لگاؤ تھا۔

پرائمری تک تعلیم کے بعد والد کے ساتھ کھیتی باڑی میں حصہ لینا شروع کیا۔ سندھ میں اولیا کرام کے مزارات مبارکہ کی زیارت اور وہاں کے صوفیوں سے براہ راست فیض حاصل کرنے کو زندگی کا حاصل سمجھنے والے فقیر واحد بخش کو الن فقیر سے ملنے کی شدید خواہش بھٹ شاہ لے آئی، جہاں 1986 میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار پر منعقدہ صوفی محافل سے قبل نزدیکی میدان میں سندھی روایتی کُشتی ملاکھڑا کا افتتاح الن فقیر رقص سائیں شاہ لطیف کا کلام سناکر کر رہے تھے۔ فقیر واحد بخش الن فقیر کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوئے ان کی بے ساختگی، رقص اور کلام کی رواں ادائیگی نے فقیر واحد بخش کا دل موہ لیا اور انہیں الن فقیر سے گو یا عشق ہو گیا۔

الن فقیر کا رقص اور جھومر کے بول کے ساتھ ساتھ گویا سارا ماحول رقص میں تھا وہ دیوانہ وار الن فقیر کو تکتے رہے۔ ملاکھڑے کے بعد الن فقیر نے صوفی محفل میں اپنے فن کا جادو جگایا اور وہیں فقیر واحد بخش کو باقاعدہ اپنا شاگرد بنالیا۔ صوفی روایات کے مطابق شکر بانٹی گئی اور پھر الن فقیر کی ہدایت پر انہوں نے جنوبی پنجاب میں اپنی صوفیانہ بولی کو پھیلانے کا بیڑا اٹھایا ۔ فقیر واحد بخش کو الن فقیر جونئیر کہا جاتا ہے۔ انہیں شاہ عبدالطیف کا کلام ازبر ہے۔ اور محافل اور تقاریب میں ان سے فرمائش کے طور پر ان کے استاد کا گایا ہوا کلام بھی سنا جاتا ہے۔

فقیر واحد بخش کے بقول بیرونی ممالک میں ان کی کلاہ کو بہت حیرانگی اور تجسس سے دیکھا جاتا ہے اور اس کی ثقافتی اور تاریخی حیثیت کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد 21 میٹر طویل پگ یا پٹکا باندھا کرتے تھے۔ یہ موجودہ ہیلمٹ پگ کا جدید ورژن ہے، جسے ہم ٹھنڈا ہیلمٹ بھی کہتے ہیں۔ یہ نہ صرف موسمی حالات سے مقابلہ کرنے میں معاون و مددگار ہے بل کہ جنگی نقطہ نظر سے تیر تلوار یا بھالے کے اچانک وار سے بھی بچاؤ میں کارگر ثابت ہوتا تھا۔ یہ بطور وراثتی امانت کے قبائل کے سروں کی زینت بھی ہے۔

فقیر واحد بخش اپنی کام یابی کا سبب صوفی ازم اور انسانوں سے محبت کو گردانتے ہیں۔ 2002 ء میں سعودی عرب کے حکم راں شاہ عبداﷲ کے دورۂ پاکستان کے دوران جب صدر پرویز مشرف، وزیراعظم میر ظفراﷲ جمالی اور دیگر حکومتی عہدے داران موجود تھے، شاہ عبداﷲ فقیر واحد بخش کی پرفارمینس سے بے حد خوش ہوئے اور ہاتھ ہلا ہلا کران کے کلام ’’اﷲ اﷲ کر بھیا‘‘ کا جواب دیتے رہے۔

2003 ء میں کوئٹہ میں منعقدہ ایک تقریب میں فقیر واحد بخش اس وقت کے صدر پرویز مشرف کا ہاتھ پکڑ کر انھیں اسٹیج پر لے گئے اور اپنے ساتھ جھومر کھیلنے پر مجبور کردیا ۔ حال ہی میں امریکا میں ڈیلاس اور ہیوسٹن میں پاکستان ڈے کے حوالے سے مارچ 2016 ء میں منعقدہ مختلف تقریبات میں شرکت کر کے پاکستان کی بھر پور نمائندگی کی۔

فقیر واحد بخش 6 بار انڈیا جا چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غلام علی کا انڈیا میں کنسرٹ منسوخ ہوا، لیکن لوگوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں اپنی پرفارمینس پیش کروں، کیوںکہ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ اجرک اور یک تارا نیز مختلف النوع جواہرات جن میں زمرد، یا قوت اور نیلم وغیرہ شامل ہیں ان کا گویا جزوِ بدن ہیں۔ فقیرواحد بخش روایتی موسیقی کی اونچ نیچ سے آگاہ ہیں اور وہ لوک موسیقی کو بھی بھر پور انداز میں گاتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ پرفارمینس سے قبل اﷲ تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ وہ ان کی عزت رکھے اور تاکہ پاکستان کی بھر پور نمائندگی ہو۔

ان کے جھومر رقص اور صوفی کلام سے نہ صرف ہم وطن بل کہ غیرملکی بھی بہت متاثر ہوتے ہیں اور وہ وجد کی حالت میں آکر جھومنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان سے بار بار فرمائش کر کے کلام سنا جاتا ہے۔ ان کو اپنے استاد الن فقیر کا گایا ہوا گیت ’’اللہ اللہ کر بھیا‘‘ بہت پسند ہے اور وہ ہر محفل میں اس کلا م کو بھر پور انداز میں گاکر خوب داد سمیٹتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ یہ سب اﷲ کا خاص کرم ہے۔ اب ان کو اپنی شناخت نہیں کروانا پڑتی بل کہ لوگ ان کو ان کے فقیر ی رنگ اور حلیے کی وجہ سے دنیا بھر میں پہچان لیتے ہیں۔

فقیر واحد بخش کی چھے بیٹیاں اور ایک بیٹا فقیر ساجد علی ہے، جو کہ اپنے والد کے ساتھ پرفارمینس دیتا ہے۔ سندھ اور پنجاب کے سنگم پر واقع ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد سے تعلق رکھنے والے اس خوش رنگ اور خوش گلو صوفی فنکار کی زندگی کا نصب العین صرف اور صرف امن اور انسانیت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وطن عزیز میں دہشت گردی اور فرقہ بازی نیز قبائلی و لسانی عصبیت کو صوفیا کرام کے روحانی پیغام ہی سے روکنا ممکن ہے۔ ان کا کہنا ہے وہ جہاں بھی گئے پاکستان اور پاکستانیت کی ترجمانی کی اور اپنے فن کے ذریعے پاکستان کا مثبت امیج دنیا تک پہنچایا۔

فقیر واحد بخش کی مختلف غیرملکی سفارت خانوں کی تقاریب میں شان دار پرفارمینس سے حاضرین کے دل میں پاکستان سے محبت کا جذبہ جنم لیتا ہے اور ان کا انداز حاضرین کا دل موہ لیتا ہے۔ وہ اپنی آمدن کا بڑا حصہ اپنے گاؤں میں مختلف فلاحی کاموں میں صرف کرتے ہیں۔ پانی کی ٹربائن، اسکولوں میں واش روم، مساجد کے لیے پانی کی سہولت نیز غریب لڑکیوں کی شادی جیسے مصارف پر وہ اپنی آمدنی کا بڑا حصہ خرچ کرتے ہیں۔ وہ تعلیم خصوصاً بچیوں کی تعلیم کے لیے بھی کوشاں ہیں اور مقامی گرلز اسکول کو ہائی اسکول کا درجہ دلانا ان کا مشن ہے۔

وہ اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کو انسانیت کی معراج قرار دیتے ہیں۔ ملک بھر میں مختلف میلوں اور تقاریب میں اپنی روحانی و وجدانی کیفیتوں کے بھر پور اظہار کی بدولت فقیر واحد بخش پاکستان میں اور بیرون ملک اپنی ایک پہچان بنا رہے ہیں۔ ان کے شاگرد بھی ہیں جن کو وہ درس دیتے ہیں کہ ہمیشہ صوفی ازم کو پھیلانے کے لیے کوشاں رہیں اور پاکستان کے لیے تن من دھن قربان کرنے سے دریغ نہ کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔