پرانے سرمایہ درانہ نظامِ معیشت کا نیا جال کارپوریٹ کلچر

غلام محی الدین  اتوار 22 مئ 2016
جس میں دنیا نہ چاہتے ہوئے بھی پھنستی چلی جا رہی ہے ۔  فوٹو : فائل

جس میں دنیا نہ چاہتے ہوئے بھی پھنستی چلی جا رہی ہے ۔ فوٹو : فائل

 اسلام آباد: آج ہم جس عہد سے گزر رہے ہیں، وہ کارپوریٹ کلچر کا عہد کہلاتا ہے۔گو کہ کارپوریٹ کلچر کے حقیقی معنی اور تعریف کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیوں کہ یہ ایک ہشت پہلو موضوع ہے اور روزانہ ایک نئی شکل میں سامنے آتا ہے۔ معروف کالم نویس ڈاکٹر لعل خان اس بارے میںلکھتے ہیں ’’آج کے عہد کا سب سے گہرا تضاد انتہاؤں کو چھوتی ہوئی معاشی ناہمواری ہے۔ بہتات میں بھی قلت ہے۔ دولت کے انبار چند ہاتھوں میں مجتمع ہیں۔ ذرائع پیداوار اور جدید ٹیکنالوجی میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ کرۂ ارض پر موجود تمام انسانوں کی ضروریات سے کہیں زیادہ پیداوار کی جاسکتی ہے لیکن اس کے باوجود نسل انسان کی اکثریت غربت، محرومی اور ذلت میں غرق ہو رہی ہے‘‘۔

اسی بات کو کارل مارکس نے تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل اپنی کتاب ’’سرمایہ‘‘ میں یوں لکھاتھا: ’’ایک طرف دولت کے انبار ہیںاور عین اسی وقت دوسری جانب بدحالی، مشقت کی اذیت، غلامی، جہالت، ظلم اور ذہنی پس ماندگی کی انتہا ہے۔‘‘

مندرجہ بالامختصرتمہید اس جدید معاشی اصطلاح کی بھرپور منظر کشی کرتی بھی ہے اور نہیں بھی لیکن اس احوال سے ایک عام آدمی کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ صدیوں پہلے قائم ہونے والے آقا اور غلام کے درمیان رشتے آج بھی قائم ودائم ہیں۔ زمانۂ قدیم میں ایک آقا ایک اچھے غلام کو اُس کی مختلف خوبیوں اورصلاحیتوں کی وجہ سے خریدتاتھا جب کہ اب اچھے سے اچھا (با صلاحیت) غلام خود بکنے کے لیے آقاؤں کے دروازوں پر منتظر کھڑاہوتا ہے کہ جانے کب اُس کی کسی آقا کو ضرورت پڑ جائے۔ غلام اور آقا کے درمیان رشتے کی اس تبدیلی کو بھی ہم کارپوریٹ کلچر کہ سکتے ہیں۔

کارل مارکس نے ایک مزید پیش گوئی یہ بھی کی تھی ’’سرمائے کی عالمگیریت سے، ریاست کا وجود متروک ہوجائے گا‘‘۔ یہ بھی اس عہد میں سچ ثابت ہوچکی ہے ، گلوبلائیزیشن کے اس دور میں اربوں کھربوں مالیت کی کرنسی ہر روز قومی ریاستوں کی سرحدوں کو روندتی ہوئی محو سفرہے۔ اس حقیقت کو چھپانے کے لیے ایک قومی ریاست کی متروکیت اور خستہ حالی کے باوجود، انقلابی تحریکوں کو کچلنے اور استحصالی ڈھانچے کی حفاظت کے لیے ریاست کوقائم رکھنا حکمران اور سامراجی طبقہ جو جواز تراشتا ہے، وہ اُس کی مجبوری ہے۔ مثلاً کبھی جمہوریت خطرے میں ہوتی ہے تو کبھی مذہب کو خطرے میں ڈال دیا جاتا ہے اور یوں انقلاب یا سماجی انتشار کے مخصوص دور میں استحصالی طبقہ اپنی حاکمیت اور ملکیت کو مزید جابر بنانے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔

کارپوریٹ کلچرکی حرکیات
کارپوریٹ کلچر کی مطلق العنانیت کو کاروباری مفادات پر مکمل کنٹرول کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ یہ کنٹرول اس قدر سخت ہوتاہے کہ کارپوریٹ سیکٹر اگر جنگ چاہے تو جنگ چھڑجاتی ہے، اگر اسے جینیاتی طور پر حیاتیات کی نظرثانی تعریف درکار ہو تو اس کے لیے جینیاتی طور حیات کی نظرثانی شدہ پراڈکٹس حاضر ہو جاتی ہیں۔ اگر تیل کی زیادہ مقدار چاہیے، ٹیکس بریک یا ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ چاہیے، تو وہ بھی فراہم ہوجاتی ہے۔ اگر یہ کلچر بچوں کے قوانین سے متعلق پابندیاں ہٹانا چاہے تو پابندیاں ہٹ جاتی ہیں اور اگر وہ بوڑھے، جوانوں یا غریبوں کی بے بسی کے ذریعے کوئی منافع کمانا چاہے تو اس کلچر کو کوئی روک نہیں سکتا۔ یہ سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں اور کاروباری میڈیا پر گرفت کے ذریعے اس بات کویقینی بنا سکتا ہے کہ مزاحمت کرنے والے سیاسی، سماجی اور معاشی سطح پر بانجھ ہو جائیں۔ آج ڈونلڈ ٹرمپ کو بنانے اور ہیلری کو سپورٹ کرنے والا یہ ہی کلچر ایک کنٹرولڈ پس منظر میں کام کررہا ہے۔

کارپوریٹ کلچر کا دو رخہ پہلو
اس کلچر کا ایک ظاہری روپ نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی ہیں ۔ آج ٹیلی کمیونی کیشن، اسلحے، مالیات اور خوراک سے وابستہ صرف 190ملٹی نیشنل اجارہ داریاں 85 فی صد عالمی معیشت پر قابض ہیں۔ صرف 85 امیر ترین افراد کے پاس ساڑھے تین ارب لوگوں سے زیادہ دولت ہے۔’’بزنس انسائیڈر‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی کارپوریٹ کمپنیاں دنیا کی بیشتر ریاستوں سے زیادہ امیر ہوچکی ہیں۔

یاہو (Yahoo)کا مالیاتی حجم منگولیا سے، ای بے (eBay)کا مالیاتی حجم مڈغاسکر سے، امیزون (Amazon) کی آمدن کینیا کے جی ڈی پی سے، مارگن سٹینلے کا مالیاتی حجم ازبکستان سے،فورڈ کا مالیاتی حجم مراکش سے،جنرل موٹرز کا مالیاتی حجم بنگلا دیش سے،جنرل الیکٹرک کی آمدن، نیوزی لینڈ سے،کونوکو فلپس کی آمدن، پاکستان کے جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔

متعدد ملٹی نیشنل کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو افسروں کی تنخواہیں ریاست کو دیے جانے والے ٹیکسوں سے زیادہ ہیں۔ ملٹی نیشنل اجارہ داریاں نہ صرف امریکی کانگریس میں سیاستدان خرید لیتی ہیں بل کہ تیسری دنیا کے زیادہ تر حکمران بھاری رشوت اور کک بیکس کے عوض ان کے ہاتھ بک جاتے ہیں۔ تیسری دنیا کی ریاستیں ان کے قابو میں ہوتی ہیں، وہاں محنت اور وسائل کے استحصال سے بلند شرح منافع حاصل کیا جاتا ہے۔ اس لیے وہاں کے حکم راں چاہیں بھی تو ایک آزاد اور مستحکم معیشت قائم نہیں کر پاتے ہیں بل کہ یہ پس ماندہ ممالک سرمایہ کاری کرنے والے سامراجی اجارہ داروں کو استعمال کے لیے محنت کشوں کی شکل میں خام مال بھی مہیا کرتے ہیں۔

نجکاری، ڈی ریگولیشن، کنٹریکٹ لیبر، دہاڑی دار مزدوری، غیر انسانی اجرتیں، پنشن اور ہیلتھ الاؤنس کا خاتمہ، یونین سازی پر پابندی وغیرہ، اس کارپوریٹ کلچرکے وہ بنیادی پہلوہیں جن کی پردہ داری کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔یہ عالمگیر کارپوریٹ کمپنیاں جو کارپوریٹ کلچر کو جنم دیتی ہیں، کا کسی ایک ملک سے تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کا استحصال اور ڈاکہ زنی کسی ایک ملک یا خطے تک محدود ہوتاہے۔ جب کبھی سرمایہ داری کا بحران گہرا ہونے لگے تو ساتھ ہی اس کلچر کی وحشت بھی بڑھ جاتی ہے۔ انسان دوست دانشور اس کا علاج ’’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہوجاؤ‘‘ تجویز کرتے ہیں۔

کارپوریٹ کلچرکی حقیقت
دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ کارپوریٹ کلچر سرمائے کی چکاچوند سے عوام الناس کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتا ہے۔ کارپوریٹ کلچر کی اشرافیہ کے ملبوسات کی نمائش پر ضخیم کتابیں لکھی جا چکی ہے۔ بہت برس پہلے جدید نفسیات کے بانی سگمنڈ فرائیڈ نے دنیا کو خبردار کردیا تھا کہ اگر نفسیات کے علم کو انسانوں کی خواہشات سے کھیلنے کے لیے استعمال کیا گیا تو یہ علم انسانیت کے گلے میں ہڈی ثابت ہو گا۔ اس تنبیہ سے گریز کرنے کی سزا آج کا بے بس اور ذہنی بیماریوں میں مبتلا عام انسان تو بھگت ہی رہا ہے، خود اس سے فائدہ اُٹھانے والے بھی اس جہنم میں جل رہے ہیں۔

یہ جہنم وہ ذہنی بیماریاں ہیں جن کے علاج کے لیے ادویات کی تیاری کا بجٹ کھربوں ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اور اس کاروبار میں منافع کی شرح اس قدر زیادہ ہے کہ خود اس سے فائدہ اُٹھانے والے بھی اس خوف سے یہ ہی ادویات کھانے پر مجبور ہیں کہ کہیں منافع کی شرح کم نہ ہو جائے؟ حیرت ہے کہ یہ لوگ بیماریوںکے اس دوزخ میں بھی ادویات کو منہگے داموںفروخت کرنے سے باز نہیں آتے بلکہ یوں کہ باز آ نہیں سکتے۔

یاد رہے کہ صنعتی ترقی کے عروج کے بعد کارپوریٹ کمپنیوں نے اس علم (نفسیات) کو توڑ مروڑ کراپنے فائدے کے لیے اس طرح استعمال کیا کہ جیتے جاگتے انسان منڈی میں بکنے والی جنس بن کر رہ گئے۔ بڑے بڑے سرمایہ داروں اور عالمی مالیاتی اداروں نے تشفی کے لیے ایک لفظ ’’کارپوریٹ‘‘ متعارف کرایا اور پھر اس کے کلچر کو یوں پروان چڑھایا کہ یہ عام آدمی کے ذہن میں ایک جائز ضرورت بن کر بیٹھ گیا۔

اس کلچر نے سادہ انسانوں کو بتایا کہ زندگی کا مقصد شان دار سہولتیں اور منہگے برانڈ کی مصنوعات کوحاصل کرنا اور کارپوریٹ سیکٹر میں نوکری کرنا ہے۔ اس بھاشن کے لیے دنیا کے چوٹی کے ماہرین نفسیات کی خدمات منہ مانگے داموں خریدی گئیں۔ ہر شعبے میں ہونے والی تحقیقات کے نتائج کو اپنی مرضی کے مطابق بنانے کے لیے جہاں سائنس کے میدان میں سرمایہ کاری کی گئی تو وہیںاس کلچر کو فروغ دینے کے لیے سیاست میں بھی خوب پیسہ لگایا گیا اور اس وقت دنیا میں زیادہ تر حکومتیں یا تو خود سرمایہ داروں کی ہیں یا پھر ان ہی کارپوریٹ کمپنیوں کی بغل بچہ ہیں۔

پینٹ، کوٹ ،ٹائی بڑا سا دفتر، ایک بڑی سی گاڑی اور رہنے کو ایک عالیشان گھر، ہر انسان کا آئیڈیل بن چکا ہے۔ اس آئیڈیل کو پانے کے لیے دنیابھر میں انسان ، کارپوریٹ کلچر کے جس جال میں مقید ہے،اس کو ماہرین نے ایڈورٹائیزنگ کا نام دے رکھا ہے۔جب زمانے کی چال ڈھال اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی راہ ہموار ہو چکی تو ان کمپنیوں کو پڑھے لکھے مزدوروں کی ضرورت پڑی ،جواعلٰی تعلیم حاصل کر کے ان کمپنیوں کے منافع کو قائم رکھنے کے لیے لازمی تھے۔ دیکھ لیں! آج دنیا میں ہر جانب پڑھے لکھے مزدور نظر آرہے ہیں، جو اس کلچر کی معیشت کا پہیہ بنتے ہیں۔

جان پارکنز کی کتاب Confession of an Economic Hitman منظرِ عام پر آئی تو دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ پچیس سال تک اس کتاب کو شائع کرنے کی کسی پبلیشر کو جرأت نہیں کی تھی، اس لیے کہ اس نے مجبور اور چھوٹی معیشتوں کو تباہ و برباد کرنے کی کہانی، سودی بینکاری اور عالمی قرضوں کے نظام سے پردہ اٹھادیا تھا، جس کو کارپوریٹ کلچر چھپانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ جان پارکنز کہتاہے ’’جب بڑے بڑے سودی مالیاتی ادارے وسائل سے مالامال ملکوں کو بڑے بڑے تعمیراتی منصوبوں، مثلاً موٹروے، ایئرپورٹ، میٹرو بس اور ڈیم وغیرہ بنانے کے لیے قرضے دیتے ہیں تو وہ ان ملکوں کی معیشتیں اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں، یہ ادارے ان معاشروں کے محدود طبقے کو پرتعیش زندگی گزارنے کے لیے وسائل بھی مہیا کرتے ہیں ،جو ان وسائل سے اُن کا ہی تیار کردہ مال خریدنے لگتے ہیں۔

وہ مزید لکھتا ہے کہ ’’جب میں افریقا اور لاطینی امریکا کے ممالک میں معاشی قرضوں کے لیے حکومتوں سے مذاکرات کیاکرتا تھا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا کہ جن ملکوں کا (ہم نے) قرضوں سے خون نچوڑ رکھا ہے، جہاں غربت، افلاس، بھوک، بیماری اور جہالت گردش کر رہی ہے، وہاں شہروں میں عالمی ریستورانوں، اور عالمی برانڈ کی دکانوں میں بھی اضافہ ہونے لگتا تھا۔ ان آؤٹ لیٹس کے خریدار ان کمپنیوں کے وہ اعلیٰ عہدیدار ہوتے تھے، جو وہاں کے وسائل لوٹنے کے لیے قائم کی جاتی تھیں یا پھر ان این جی اوز کے اہل کار ہوتے تھے، جن کو دنیا بھر کی حکومتیں سرمایہ فراہم کرتی تھیں۔

ان امیر لوگوں کے لیے وہاں علیحدہ اسکول، اسپتال اور کلب کھولے جاتے تھے، یہ لوگ علیحدہ قسم کے شاپنگ مالز میں خریداری کرتے اور ان کے ادب اور موسیقی کے لیے بھی علیحدہ فیسٹیول منعقد ہوتے تھے۔ یہ فیسٹیول ایک عالمی کارپوریٹ کلچر کی تصویر ہوتے لیکن ان میں علاقائی زبانوں، موسیقی اور ادب کو بھی نمائندگی دی جاتی تھی ، جیسے کسی عجائب گھر کی گیلریوں میں، ایک گیلری علاقائی ثقافت کے لیے مخصوص کر دی جاتی ہے‘‘ بل کہ اب تو کارپوریٹ کلچر کی اشرافیہ کے لیے تخلیق کیے گئے ادب کو بھی ایک نئی شکل میں ڈھالا جارہا ہے۔ گو کہ یہ عام آدمی کے ذوق کی چیز نہیں، اس ادب میں جن موضوعات پر بحث کی جاتی ہے، اس کا عام آدمی سے دور کا بھی واسطہ نہیںہوتا۔ مثلاً ماضی قریب میں نو آبادیاتی گورے خودکو غیر متعصب ثابت کرنے کے لیے جو نظمیں، افسانے اور ناول تحریر کرتے رہے، وہ صرف تفنن طبع کے لیے تھے۔

اب صورت حال یہ بھی ہے کہ پس ماندہ ملکوںمیں لکھنے والوں کی ایک نسل پیدا ہو گئی ہے، جوہے تو بہت محدود ہے لیکن اُن لوگوں کو بہت بھاتی ہے، جن کا ایجنڈا صرف یہ ہی ہے کہ دنیا میں مشرق سے لے کر مغرب تک بظاہر ایک ہی طرح کا کلچر پروان چڑھے، جسے عرف عام میں ’’لائف اسٹائل‘‘ (طرزِ حیات) کہا جاتا ہے۔ ان کا موقف ہے’’اگر دنیا میں ہر ملک کے شہروں میں بسنے والے افراد ایک طرح کا پیزا، برگر اور چکن نہیں کھائیں گے، ایک طرح کی جینز، شرٹ اور کوٹ نہیں پہنیں گے، شیمپو، صابن، ٹوتھ پیسٹ استعمال نہیں کریں گے تو ان کارپوریٹ کمپنیوں کا مال کیسے بکے گا؟‘‘

کارپوریٹ کلچر کا ادب
یہ کلچر ایک خاص طرح کا ادب بھی تخلیق کراتا ہے۔ ایسا ادب جس کے تلازمے، استعارے اور صنف کی ساخت مغرب سے درآمد کی گئی ہو لیکن اس میں کہانی کسی پس ماندہ بستی کی سنائی جائے تاکہ قاری کو حیرت کے جہان میں لے جایا جا سکے کیوںکہ اس ناول یا افسانے کو پڑھنے والے کے لیے غربت، بھوک، بیماری، اُوپلے، میلے دانت، پھٹے پاؤں، سب ایک انوکھے ماحول کی چیزیں ہوں گی۔ ایسا ادب ایک خاص مقصد اور خاص تصور کے ساتھ تخلیق کیا جاتا ہے۔ افسانوں، ناولوں، ڈراموں اور کہانیوں میں مخصوص تصور سے کردار تخلیق کیے جاتے ہیں۔ جس طبقے ، شئے یا اقدار کے خلاف نفرت پیدا کرنا ہوتی ہے۔ اسے منفی طور پر پیش کیا جاتا ہے، مثلاً جب انگریز یہاں آیا تھا تو اُس نے فورٹ ولیم کالج کی بنیاد رکھی، تب ایسے ہزاروں ادیب وجود میں آئے، جنہوں نے یہاں کے صدیوں سے قابل احترام کرداروں کو منفی انداز میں پیش کیا‘‘

کارپوریٹ کلچرکی تھیوری
دنیا بھر میں کارپوریٹ سیکٹر کو جن اصول و ضوابط پر چلایا جاتا ہے، اُس میں ایکس، وائی، زی تھیوری بھی شامل ہے۔ یہ تھیوری کیا ہے؟ دور جدید میں جتنا ارتقا سائنسی علوم میں ہوا، اس سے کہیں زیادہ ارتقاء سماجی علوم میں ہوا۔ان علوم میں نفسیات اور سوشیالوجی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ان پر کی گئی تحقیق سے سماجی ماہرین نے انسانوں کی کارکردگی کے حوالے سے تین نظریات پیش کیے جن کا استعمال عام طور پر مینیجمنٹ سائنس میں کیا جاتا ہے۔ یہ ہی نظریات ایکس، وائی اور زی تھیوری کہلاتی ہے، جو کچھ یوں ہے

ایکس فیکٹر: عام انسان کام سے بچنا چاہتا ہے اور وہ بغیر جبر اور دباؤکے کام نہیں کرتا۔
وائی فیکٹر: لوگ دباؤ اور خوف کے بجائے اپنی فطری جبلت کے مطابق کام کرنا چاہتے ہیں۔
زی فیکٹر: کسی شخص کے کام کرنے کا انحصاراس بات پر ہے کہ جس کے لیے کام کیا جا رہاہو، وہ اس کی ضروریات کا کس حد تک خیال رکھتا ہے۔
کارپوریٹ سیکٹر میں اس فارمولے کو الٹا پڑھا جاتا ہے اور اسے زی،وائی، ایکس کی ترتیب سے استعمال کیا جاتا ہے، یعنی کام کرنے والوں کو سب سے پہلے احساس دلایا جاتا ہے کہ ادارہ آپ کا بہت زیادہ خیال رکھتا ہے، تم لوگ دباؤ یا خوف کے بغیر اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق کام کرنے کی راہ پر گامزن ہو، اگر کبھی صورت حال یہ ہوجائے، یعنی جبر اور دباؤ کے بغیر کام نہیں ہوگا تو ادارہ آپ کی’’ان فٹ‘‘ خدمات سے معذرت کر لے گا۔

یہ کارپوریٹ ادارے اپنے پڑھے لکھے مزدوروں کو یہ خوش گمانی بھی دیتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور دنیا تیز رفتاری سے ترقی کرتے ہوئے سب سے اچھے دور میں شامل ہو رہی ہے۔ یہ ادارے، اجارہ داروں کے زیر تسلط عالمی مالیاتی اور شماریاتی اداروں کی رپورٹوں سے پر فریب قسم کے اعداد و شمار بھی تیار کراتے ہیں تاکہ کارپوریٹ ادارے کے مثبت تاثر میں کمی نہ ہو۔ یہ ادارے میڈیا کے ایک حصے کے تعاون سے نہایت کامیابی کے ساتھ پوری دنیا میں ان اعداد و شمار کو پھیلانے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ بہ ظاہر یہ زی، وائی ، ایکس کی ترتیب بہت خوش نما ہے لیکن کارپوریٹ سیکٹر ہمیشہ ہی ’’ہائر اینڈ فائر‘‘کی خفیہ پالیسی پربھی گامزن رہتا ہے۔جب تک مزدور کی صحت اجازت دے توٹھیک ورنہ خداحافظ۔ یہ کارپوریٹ ادارے، کام کرنے والے کی فلاح سے زیادہ، ادارے کی فلاح (نفع) اور اجارہ داری کی فضا پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔

حال ہی میں چند عالمی اداروں نے کچھ ایسے ہی اعداد و شمار پیش کیے اور ان کی روشنی میں کارپوریٹ دانشوروں نے شور مچایا تھا ’دیکھو راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا ہے، آج دنیا اپنی ترقی کی انتہا دیکھ رہی ہے ۔۔۔۔پچھلی دہائیوں اور صدی کی نسبت اس وقت دنیا میں امن ہے، صحت کی سہولتیں بھی دنیا کی آبادی کے وسیع حصے کو میسر ہیں، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایجادات ا ور دریافتوں سے دنیا میں سب استفادہ کر رہے ہیں۔

زندگی کا کوئی بھی شعبہ لے لیں دنیا میں ہر سو ترقی ہورہی ہے (یعنی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں)۔۔۔۔ لیکن یہ ادارے اپنے بیان میں فٹ پاتھ پر بیٹھے غریب مزدور کے گھر کے چولہے کو جلانے میں ناکام رہتے ہیں۔ دنیا میں یقیناً ترقی ہوئی ہے،آج سے چند دہائیاں قبل جن امراض کا علاج نا ممکن تھا، اب وہ قابل علاج ہیں لیکن یہ اُن کے لیے ہے، جو پیسہ رکھتے ہیں، مثال کے طور پر اگر آپ کا دل یا جگر ناکارہ ہو رہا ہے تو آپ نیا دل یا جگر لگوا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے آپ کو دولت اور تعلقات چاہییں۔ ہمارے ملک میں تو خیر ابھی تک پولیو جیسے مرض پر قابو نہ پایا جا سکا،دوران زچگی ماؤں کی شرح اموات کو کم نہ کیا جا سکا، ایسے میں یہ اعضا کی پیوند کاری تو عام لوگوں کوخواب ہی محسوس ہوتی ہے۔

دنیا کی دولت اور وسائل پر آج بھی چھے سے سات فی صد افراد اور خاندانوں کا قبضہ ہے۔حال ہی میں برطانوی این جی او ’آکسفیم‘ کی تحقیقاتی رپورٹ اس ضمن میں ایک واضح ثبوت ہے، جس کے مطابق دنیا کی 50 فی صد دولت پر صرف 50 افراد قابض ہیں۔کارپوریٹ فلاسفی نے پڑھے لکھے مزدوروں کو چند آسائشیں دے کر اپنا تسلط آج بھی قائم رکھا ہوا ہے لیکن تعلیم آج بھی غریب کے بچے کے لیے ایک خواب ہے لیکن یہ فلسفہ یہاں بھی کمال دکھاتا ہے، سکول کالجز یونی ورسٹیوں کی جدید عمارات بنا کر ایک اسٹینڈرڈ قائم کیاجاتا ہے اور پھر ان ہی پڑھے لکھے مزدوروں سے ان کی کمائی کا بہت بڑا حصہ ہتھیا لیا جاتا ہے، جو وہ ان ہی کارپوریشنز میں کام کر کے کماتے ہیں۔ یہ ہی حال ٹیکنالوجی اور صحت میں ترقی کا ہے۔

آپ کوئی بھی اعداد و شمار اٹھا کر دیکھ لیجے! آپ کو تعجب ہو گا کہ ان کو ردو بدل کے بعد یہ نہیں بتایا جاتا کہ انسانوں کو کیسے مصنوعات میں تبدیل کیاجاتا ہے ۔ ان کی بنیادی جبلتوں پر اثر انداز ہوکر کیسے ایک مصنوعی طلب پیدا کی جاتی ہے اور پھر اس طلب کے نام پر رسد کی شکل میں ان سے ان کی محنت کا پیسہ واپس ان ہی کارپوریشنوں اور کارپوریٹ کلچر کے حواریوں کے پاس منتقل ہو جاتا ہے۔ اس کارپوریٹ کلچر کو سحر انگیز بنانے اور اسے ایک منصفانہ نظام کے طور پر پیش کرنے کے لیے نچلے طبقے کے چند افراد کو منافع کی انڈسٹری میں آنے کا موقع بھی دیا جاتا ہے اور پھر شمولیت کی ان کی کہانیوں کو برسوں گلیمرائیز کر کے آنے والی نسلوں کے ذہنوں کو اُسی کارپوریٹ فلاسفی کے تابع بنا دیا جاتا ہے، جو اُن کاہدف ہوتی ہیں لیکن ایسے اربوں افراد کا ذکر، جو اس منافع اور ہوس کی جنگ میں موت سے بھی بد تر زندگی گزارتے ہیں، شاذر و نادر ہی کیا جاتا ہے ۔

تضاد تو یہ بھی ہے کہ ایک طرف معمولی سی انفیکشن کے لیے دوا خریدنے کے پیسے نہیں اور دوسری جانب کلوننگ جیسی سہولیات میسرہیں۔ ایک طرف پینے کا صاف پانی نہیں تودوسری جانب منہگی سے منہگی شراب حاضر ہوتی ہے۔اسلحے کی صنعتوں اور کارخانوں کا خوراک کے کارخانوں سے زیادہ نفع کمانا بذات خود ان اعداد و شمار اور کارپوریٹ فلاسفی کے کھوکھلا ہونے کا واضح ثبوت ہے۔

استحصال اب جدید اور سائینٹی فِک طریقوں سے کیا جاتا ہے۔اب ذہنوں کو تابع کرنے کی اس جنگ میں کارپوریٹ کلچر نے انتہائی عیاری سے چھوٹے چھوٹے جال بُن رکھے ہیں، انہیں چیلنج کرنے والے یا تو مار دیے جاتے ہیں یا باغی کہلاتے ہیں یا پھر انہیں سودائی کے طور پر مشہور کر دیا جاتا ہے۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ دہشت گرد بھی تیار کیے جاتے ہیں اور ان کے خوف کو ٹی وی سکرینوں کے ذریعے بیچ کر نفع بھی کمایا جاتا ہے، اس کے باوجود خوف برقرار رہتا ہے۔

کارپوریٹ کلچر کے حامیوں کی دلیلیں
کارپوریٹ کلچر کے حق میں بات کرنے والے بھی کم نہیں، وہ اس بات کو سرے سے ہی غلط قرار دیتے ہیں کہ منافع کمانے کے لیے ناجائز طریقوں کے استعمال کو کارپوریٹ کلچر کہا جاتا ہے۔ وہ نہایت عاجزی سے عرض کرتے ہیں کہ آپ کارپوریٹ کلچر کو اس طرح نہ لیں، جس طرح کبھی ٹیلی فون ، ٹیلی ویژن یا وی سی آرکو لیا گیا تھا۔ وہ مانتے ہیں کہ ٹیلی فون، ٹیلی ویژن اورڈی وی ڈی کے منفی اثرات ضرور ہیں مگر یہ اُن کے لیے ہی ہیں جو ان اشیا کا منفی استعمال کرتے ہیں ورنہ تو ہر ایجاد نے زندگیوں کو سہولت ہی فراہم کی ہے، ایسے ہی کارپوریٹ کلچر ہے۔ ہمیںکارپوریٹ کلچر کی تعریف کسی بزنس ٹائی کون یا ایکسپرٹ سے کرانی چاہیے کیوںکہ جس طرح کسی ٹی وی کا سرکٹ اس کا بنانے والا اور مکینک ہی بتا سکتا ہے بالکل اسی طرح کارپوریٹ کلچر کی تعریف بھی کوئی مولوی اللہ دتہ نہیں کر سکتا۔ آپ کارپوریٹ کلچر کو کسی آرگنائزیشن کا کلچر کہ سکتے ہیں۔

وہ مزید دلیل دیتے ہیں کہ عشروں پہلے سے اس تصور کو تشکیل دینے والے اس کلچر کے مثبت اورمنفی پہلوؤں پر بات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس بات چیت سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کارپوریٹ کلچر اصل میں کسی بھی ادارے میں مالکان اور کارکنوں کے ان روّیوں کا مظہر ہوتا ہے جن کے تحت وہ فیصلے اور پھر ان پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ یہ کلچرمالکان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ میرٹ پر، موزوں ملازمت کے لیے موزوں فردکا چناؤ کریں، سفارش اور رشوت کونہ مانا جائے۔ یہ ہی وہ کلچر ہے جو ٹیلنٹ اور محنت کی قدر کرتے ہوئے، اُن ملازمین کو بہترین تن خواہ اور مراعات دینے کا پابند ہے، جو ملازم کمپنی کی ساکھ،کاروبار اور منافع کو بڑھاتے ہیں، وہ مراعات پاتے ہیں اور ہڈحرام اور نالائق لوگ سرپرستی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یہ ہی وہ کلچر ہے جو کام کرنے کے لیے ملازمین کو بہترین سے بہترین ماحول فراہم کرتا ہے۔

یہ ماحول صرف ملازمین کے لیے خوب صورت دفتر فراہم نہیں کرتا بل کہ ان کے نفسیاتی اطمینان کی فراہمی کی شرط بھی عائد کرتا ہے۔ جو ادارے ’’کارپوریٹ کلچر‘‘ کو اپنا لیتے ہیں، ان کے ملازمین پوری تندہی سے ادارے کے مفاد کو اپنا مفاد سمجھتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ اسی لیے یہ کلچر کاروبار کو کامیابی سے مشروط کرتا ہے۔ جو یہ کہتے ہیں کہ کارپوریٹ کلچر میں ادارے اپنی کامیابی کے لیے جائز و ناجائز طریقے اور راستے اختیار کرتے ہیں، وہ درست بات نہیں، مثلاًجو ادارہ کارپوریٹ کلچر کے اصولوں کو اپناتا ہے وہ منفی ہتھکنڈے استعمال کر ہی نہیں سکتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایسے اداروں کا سب سے بڑا اثاثہ ان کی ساکھ ہوتی ہے،جوخراب ہو جائے تو سب کچھ تباہ ہوجاتا ہے۔

دنیا اورپاکستان میں اس کلچر کے اثرات
یہ بات طے ہے کہ پوری دنیامیں اس کلچر نے نہایت کاری گری کے ساتھ اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں۔ماہرین کی رائے ہے کہ آئندہ ایک دہائی میں یہ کلچر اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ افروز ہوگا۔جن ممالک میں اس کلچر نے کلی طور پر اپنے قدم جمالیے ہیں، اُن میں زیادہ تر یورپ کے ملک شامل ہیں،جب کہ متعدد ایشیائی ممالک میں بھی یہ کلچر تیزی سے فروغ پا رہا ہے اور پاکستان بھی ان میں شامل ہے۔

وطن عزیز کی تازہ ترین گمبھیر صورت حال اس کلچر کی گواہی ہے کہ امیر، امیر تر جب کہ غریب غریب تر ہو رہا ہے۔ ملک کے غیر ملکی قرضے تشویش ناک حد کو چُھو رہے ہیں اور پاکستان سے’’برین ڈرین‘‘ کی شرح انتہا پر پہنچی ہوئی ہے۔ بد عنوانی اور رشوت و سفارش کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق کی پائمالی آج کوئی نئی بات نہیں۔۔۔۔۔۔لیکن اس کلچر کا حصہ بننے کے کے لیے ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اس لیے اس کلچر کے تیز بہاؤ کے سامنے کسی انقلاب کا بند باندھے جانے کی امیدیں دن بدن دم توڑ ہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔