بائیسویں آئینی ترمیم تحریکِ انصاف کیلیے زہرِقاتل ثابت ہوگی

رحمت علی رازی  اتوار 22 مئ 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

پاکستان میں پانامہ سرکس کی بحث ایک سیاسی بحران کی کیفیت اختیار کر چکی ہے مگر یہ پھپھولا ہے کہ جلنے اور پھوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ حکومت کیا اپوزیشن بھی ڈیڑھ ماہ سے ایک دوجے کے کچے ٹانکے توڑنے کے درپے ہیں، سنسنی ساز میڈیا ہے کہ ہر آدھ پون گھنٹے بعد ایک نئی تال پر تانیں توڑ رہا ہے، کہیں اس کا انگ انگ پھڑک رہا ہے تو کہیں بوٹی بوٹی تھرک رہی ہے، بجلی گرے یا اولے پڑیں سیاستدانوں کو تو بس اپنی دکانداری کی چنتا ہے۔

سیاسی ایوانوں اور خبروں کی دکانوں پر مالی سکینڈلوں کی ہر بازگشت پر کروڑوں، اربوں، کھربوں کی باتیں ہو رہی ہیں مگر عام آدمی کا ذہن ان غیرمانوس ہندسوں کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے، ایک عام شہری تو یہ سمجھنے سے بھی عاجز ہے کہ پاکستان جیسا ایک غریب ملک جہاں غربت، افلاس، بیروزگاری، مہنگائی، بھوک، امراض اور جہالت جیسے جان لیوا مسائل کی چکی میں عوام پستے چلے جا رہے ہیں، وہاں حکمران طبقہ کے لوگ کس طرح امیر سے امیر ترین ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ پانامہ دستاویزات کے حقائق نے دولت کے جن انباروں سے پردہ اٹھایا ہے، اس کی حنوط شدہ لاش کو حزبِ اختلاف اور حکومت کے الزامات اور جوابی الزامات کے کافور نے اس قدر متعفن بنا دیا ہے کہ چوبیس چوبیس گھنٹوں پر پھیلی اس سڑاند میں ہر خاص و عام کو سانس لینا بھی محال ہو گیا ہے۔

وزیراعظم چاہتے تو بانسوں اچھلنے کے بجائے اپنے عہدے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پانامہ شگوفے کو بلوغت تک پہنچنے ہی نہ دیتے، اس معاملہ کو اگر وہ روئیدگی ہی میں سلجھا لیتے تو آج اس ریوڑی کے پھیر میں نہ پڑتے۔ پانامہ پیپرز میں اپنے نونہالوں کے شاملِ فہرست ہونے کی وجہ سے ان پہ واجب آتا تھا کہ وہ اولین فرصت میں چیف جسٹس کو اپنے خاندان تک محدود ریفرنس بھیج دیتے اور رضاکارانہ طور پر وزارتِ عظمیٰ کے عہدہ سے علیحدہ ہو کر خود کو احتساب کے لیے پیش کر دیتے، مگر وہ ایسا کیونکر کرتے کہ اس اوکھلی میں سر دینے سے انہیں قانون کے بے رحم مُوسلوں کی کچلاہٹ کا خوف تھا، ایسا شخص بھلا عام جمہوری حالات میں استعفیٰ کیسے دے سکتا ہے جو آمریت کے نرغے میں بھی ایسا نہ کر سکا۔

بے لگام میڈیا کے چٹخاروں پر پلنے والے پاکستانی عوام اتنے باشعور ضرور ہو گئے ہیں کہ انہیں عالمی اور قومی اُفق پر جنم لینے والی ہر سیاسی کہانی کے اسباب و علل اور مآل و انجام کی ہر زاویہ سے خبر ہوتی ہے، شاید یہی سبب ہے کہ خود کو معصوم فرشتہ بنا کر پیش کرنے پر بھی نوازشریف کے بیانات اور یقین دہانیوں پر عوام نے چنداں یقین نہیں کیا بلکہ سیاسی اداکاری پر وزیراعظم کا باقی ماندہ وقار بھی قوم کی نظروں میں جاتا رہا۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی کی شطرنج کے مہرے بھی اب کھلنے لگے ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ جب تحریکِ انصاف کے 2014ء کے دھرنے کے دوران نواز حکومت وینٹی لیٹر پر منتقل ہو چکی تھی تو پیپلزپارٹی کے جمہوریت بانوں نے اسے نئی آکسیجن مہیا کی اور اسے موت کے منہ سے نکال کر اقتدار کے تاج محل میں واپس لائے، اس وقت بھی خورشید شاہ اور اعتزاز احسن ڈرائیونگ سیٹ پر تھے۔

آخر کیا وجہ تھی اور کونسی مجبوری تھی کہ نون لیگ کے سخت ترین مخالف اعتزاز احسن حکومت گرانے والوں کے بجائے حکومت بچانے والوں میں شامل تھے؟ اس کیوجہ صرف ایک ہی تھی، جمہوریت کی بقاء! اگر جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جاتی یا پھرعمران خان یا طاہرالقادری وفاقی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قابض ہو جاتے تو پیپلزپارٹی کو (جوسندھ میں اقتدار کی مین سٹیک ہولڈر ہے) نواز حکومت سے بھی زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا کیونکہ سندھ میں زرداری اسٹیٹ کے میگا کرپشن پراجیکٹس اپنے عروج پر تھے۔

یہ بات بھی یقینی تھی کہ اگر دھرنوں کے دوران عمران یا قادری اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاتے تو خونی انقلاب اور پھر خونی احتساب کے بغیر ان دونوں سیاسی مہم جوؤں کو فوج، عوام اور عدلیہ کی طرف سے ’’لگے رہو منا بھائی‘‘ کی سند کبھی نہ مل پاتی، اور اگر بالفرضِ محال اس سارے معاملے میں فوج کو بھی مداخلت کرنا پڑتی اور وہ اقتدار پر قابض ہو جاتی تو بھی خونی غسل کے بغیر وطنِ عزیز کی غلاظت کبھی صاف نہ ہو پاتی۔ دونوں صورتوں میں نون لیگ کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی کا صفایا بھی وقت کا عین تقاضا قرار پاتا جس سے بچنے کے لیے پیپلزپارٹی کے اکابرین کو نوازشریف کے حفاظتی دستے کا کردار ادا کرنا پڑا۔

نوازشریف پر پیپلزپارٹی کے بڑے احسانات ہیں، وہ آج وزیراعظم ہیں تو صرف آصف زرداری کی وجہ سے، جس وزارتِ عظمیٰ سے استعفے کے لیے آج ان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے، اس کے لیے انھوں نے اقتداری مفادات کے لیے اٹھارہویں ترمیم کی حمایت تک کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ پیپلزپارٹی بھی آج اگر سندھ میں ننگی نہا رہی ہے تو اس کا سہرا نوازشریف کے سر جاتا ہے۔ نوازشریف کی خواہش اقتدار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے تیسری بار وزیراعظم بننے کے لیے ملک دشمن اٹھارہویں ترمیم کی باجماعت حمایت کی حالانکہ لمحۂ موجود میں ان کی وفاقی حکومت کو صوبوں کے پردھان بن جانے کے بعد انتظامی و سلامتی معاملات میں ہر قدم پر پیچیدہ معاملات کا سامنا ہے۔

فوج، رینجرز، ایف آئی اے اور نیب جیسے ادارے بھی اسی اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے بے اختیار و بے بس نظر آتے ہیں جس سے دہشت گردی اور کرپشن جیسی اہم جنگ میں مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو پا رہے۔ ایک طرف نوازشریف کو محترمہ شہید کے ساتھ کیے گئے میثاقِ جمہوریت پر عمل نہ ہونے کا ملال ہے تو دوسری جانب وہ زرداری کے ساتھ ’’میثاقِ مُک مکا،، پر پوری تندہی سے عمل پیرا ہیں۔ زرداری نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بن جائیں گے۔

زرداری تو اقتدار کے نشے میں اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ وہ ایک اور اننگ آرام سے اپنے نام کر لینگے اور اسی دوران وہ نون لیگ سمیت بقیہ تمام سیاسی پارٹیوں کو سیاسی حکمتِ عملی اور مخاصمانہ چالوں سے معدوم کرنے میں کامیاب ہو جائینگے مگر پانچ سالہ دورِ اقتدار میں پرلے درجے کی بیڈ گورننس نے انہیں سندھ کی لسانی ہوم گراؤنڈ کے علاوہ باقی سب صوبوں سے آؤٹ کر دیا۔

زرداری ٹولے کی طاغوتی روش کے باعث سندھی عوام بھی متبادل سندھی پیشوا کی تلاش میں ہیں۔ بلاول کو لانچ کرنے اور زرداری کے منظرعام سے عنقا ہو جانے کا مطلب بھی یہی تھا کہ لوگ ایک بار پھر ’’بھٹو برانڈ‘‘ کو اپنی روحانی بلیدگی کا سبب جان لینگے، باپ بیٹے میں نزاع کا ماحول بھی اس لیے ظاہر کیا گیا کہ زرداری سے نفرت کرنیوالے بلاول سے محبت کرنے لگ جائینگے مگر بلاول کی بدن بولی اور لہجے نے اس کی سیاسی ناپختگی کا پول کھول دیا ہے ، پرانی بوتل میں بھری اس نئی شراب کی باس اتنی ناخوشگوار ہے کہ اب کوئی مستانہ دیوانہ پی پی پی کے میخانے کا رُخ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

پیپلزپارٹی کے زعماء کو کسی حد تک یہ چانن ہو چکا ہے کہ اب وہ وفاق میں حکومت نہیں بنا سکتے۔ سندھ میں پاؤں جمائے رکھنے کے لیے ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچتا کہ وہ نون لیگ کے ساتھ ملکر من پسند بیوروکریٹوں اور بالخصوص ٹیکنوکریٹوں پر مشتمل ایک ایسا کٹھ پتلی الیکشن کمیشن تشکیل دیں جو بدترین دھاندلی کے فارمولہ پر عمل کرتے ہوئے ان کی منشاء کے انتخابی نتائج فراہم کرے، اس نیک مقصد کے لیے آئین کی بائیسویں ترمیم کا سہارا لیا گیا ہے جس کی منظوری کے لیے شاہ محمود قریشی بھی پیپلزپارٹی کے شانہ بشانہ حکومت کا ساتھ دینے کے لیے پیش پیش تھے۔ ایسے دم چھلا الیکشن کمیشن کے خلاف ہم گزشتہ کالم میں طبع آزمائی کر چکے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ آئین کی بائیسویں ترمیم نہ صرف نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے روشن مستقبل کی ضمانت ہو گی بلکہ یہ تحریکِ انصاف کا سیاسی طور پر گلا کاٹنے کے لیے زہر میں بجھی تلوار بھی ثابت ہو گی۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی قومی اسمبلی میں ایک دوسرے کی حریف ضرور ہیں لیکن حقیقت میں یہ دونوں ایک دوسرے کے مفادات کی محافظ ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ نون لیگ کے طوطے میں پیپلزپارٹی کی جان ہے، چنانچہ جب بھی اس طوطے کی جان خطرے میں ہوتی ہے پیپلزپارٹی کو روحانی تکلیف لاحق ہو جاتی ہے اور وہ اسے بچانے کے لیے ایڑی چوٹی کے زور سے جمہوری ہتھکنڈے آزمانے لگ جاتی ہے۔

اس کے برعکس پی ٹی آئی کے لیے یہ طوطا وبالِ جان ہے اور عمران خان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو چکی ہے کہ جب تک وہ اس طوطے کا شکار نہیں کرینگے وہ سیاسی چمن کے میوے کھانے سے محروم رہیں گے۔ یہ امر قابلِ تاسف ہے کہ عمران خان سیاسی طور پر نرے مٹی کے مادھو اور پیرِ نابالغ واقع ہوئے ہیں۔ سیاست تو چال، چالاکی اور دُوراندیشی کا نام ہے جب کہ وہ ہر چیز کو جذبات کی آنکھ سے دیکھنے کے عادی ہیں، جذباتی شخص کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ گھر آئے دشمن پر بھی اعتبار کر لیتا ہے، ہمیں تو ان کے مشیروں میں بھی دُور دُور تک کوئی عاقل و بالغ نظر نہیں آتا۔

اس بار پیپلزپارٹی نے جی بھر کے انہیں استعمال کیا اور انہیں تادمِ آخر اس کا پتہ نہیں چل پایا۔ پانامہ لیکس پر پی ٹی آئی نے سٹریٹ پاور استعمال کرنے کا پلان بنایا تو پیپلزپارٹی بغیر انتظار کیے کپتان کی ہمنوا بن کر میدان میں آ گئی، پھر دیکھتے ہی دیکھتے عمران خان نے کنڈکٹری سنبھال لی اور پیپلزپارٹی ڈرائیونگ سیٹ پر فروکش ہو گئی۔

یہ وہی عمران خان ہیں جو حلق کے پورے زور کے ساتھ شور مچاتے تھے کہ زرداری اور نوازشریف ملے ہوئے ہیں اور خورشید شاہ کو حزبِ اختلاف کی لیڈری چھوڑ کر نوازشریف کا منشی بن جانا چاہیے، پھر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ پارلیمنٹ سے واک آؤٹ کے بعد اسمبلی کے باہر متحدہ اپوزیشن کی نیوز کانفرنس میں چیئرمین پی ٹی آئی مؤدبانہ انداز میںخورشید شاہ کے پیچھے کاغذوں کا پلندہ پکڑے کھڑے تھے، اس منظر کو پی پی کے ایک جیالے نے موبائل میں فریزکر لیا اور سوشل میڈیا پر ان تاثرات کے ساتھ اپ لوڈ کیا، ’’باادب، باملاحظہ، ہوشیار! قائدِ حزبِ اختلاف جناب خورشید شاہ صاحب ایک نیوز کانفرنس کے دوران میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں، ان کے عقب میں ان کے منشی جناب عمران خان مؤدب انداز میں کھڑے ہیں‘‘۔

اسی بات پر قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران خواجہ آصف نے خورشید شاہ کو دادِ تحسین پیش کی کہ ’’شاہ جی میں تہاڈے تے خوش آں، بڑے طریقے نال کھڈے لَین لایا جے‘‘۔ خواجہ آصف کی اس داد پر خورشید شاہ زیرلب مسکرا دیے اور عمران خان احتجاجاً واک آؤٹ کر گئے جب کہ پی ٹی آئی کے دیگر ارکان انہیں راہداری میں چھوڑ کر پھر واپس اپنی نشستوں پر آ گئے۔ خورشید شاہ نے عمران خان سے نہ صرف اپنا بدلہ لے لیا بلکہ شاہ محمود قریشی کو ساتھ ملا کر ان کے پر کاٹنے بھی شروع کر دیے ہیں۔

حکومت اور اپوزیشن کے مک مکا کا اندازہ تو یہیں سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہی پیپلزپارٹی جو وزیراعظم پر بار بار دباؤ ڈالتی رہی کہ وہ پارلیمنٹ میں آ کر ان کے سات سوالوں کے جواب دیں، پھر جب خدا خدا کر کے یہ کفر ٹوٹا تو متحدہ اپوزیشن سوچی سمجھی تدبیر کے تحت اسمبلی سے واک آؤٹ کر گئی جس سے نہ صرف ان کی پوزیشن کمزور ہوئی بلکہ سنجیدہ حلقوں کو ان کی نیت پر شک بھی ہونے لگا۔ میڈیا بھی اپوزیشن کے اس غیرسیاسی رویے پر صرف اس لیے انگشت بدنداں ہو کر رہ گیا کہ اگر وزیراعظم کے ایوان میں آنے کے بعد واک آؤٹ ہی کرنا تھا تو پھر پارلیمان کا بائیکاٹ کرنے کا کیا جواز تھا۔

متحدہ اپوزیشن کی اس حماقت پر تو خیر جو حیرت ہوئی سو ہوئی، نوازشریف کے پارلیمنٹ میں آ کردلائل سے عاری روایتی تقریر پڑھنے، حزبِ اختلاف کے سوالوں کے جوابات گول کر جانے اور اُلٹا سوال پوچھنے والوں سے مزید سوال پوچھنے پر قوم کو مایوسی ہوئی۔ شریف خاندان کی معصوم کہانی وزیراعظم کی زبانی سن کر ان کی معجزانہ امارت کے بارے میں عوام کے ذہن میں مزید شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ وزیراعظم نے یہ کہہ کر خود کو پیدائشی رئیس ظاہر کیا کہ جب ڈالر 4 روپے، سی ایس پی افسر کی تنخواہ 500 روپے اور سونا 155 روپے فی تولہ تھا اس وقت ان کے ایک کروڑ 80 لاکھ روپے کے اسٹاک تھے۔ انھوں نے 23 سال میں 10 ارب روپے ٹیکس دینے کی شیخی بھی بگھاری حالانکہ حقیقت میں یہ شریف خاندان کے 60 کاروباری افراد کا مجموعی ٹیکس ہے جو برائے نام طور پر ادا کیا گیا۔

انھوں نے اپنے والد کے گلف اسٹیل ملز کے مالک ہونے کی بھی نئی کہانی سنا دی جسکا افتتاح اس وقت کے یو اے ای کے فرمانروا نے کیا اور اس کی جو تصویر انھوں نے پیش کی اس میں میاں شریف کے بجائے نوازشریف خود نظر آ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے ایک صریح دروغ گوئی یہ بھی کی کہ جلاوطنی کے بعد انھوں نے جدہ میں جو اسٹیل ملز لگائی اسے 2005ء میں 17 ملین ڈالرز میں فروخت کر کے لندن میں فلیٹس خریدے مگر وہ ان کے ثبوت دینے سے قاصر رہے حالانکہ یہ آن ریکارڈ ہے کہ یہ فلیٹس انھوں نے 1993-94ء میں خریدے جو ان کی آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کی ملکیت تھے جسکے بارے میں انھوں نے کسی بھی اہم سوال کا جواب نہیں دیا۔

یہ ثبوت بھی دستاویزی شکل میں موجود ہیں کہ برطانوی ہائیکورٹ کے حدیبیہ پیپرز ملز قرض نادہندگی کیس میں 16 مارچ 1999ء اور 5 نومبر 1999ء کے فیصلے، جن میں بتایا گیا کہ شریف برادران نے لندن میں پراپرٹی گروی رکھ کر 15 فروری 1995ء کو حدیبیہ پیپرز ملز کے لیے قرضہ حاصل کیا جب کہ 2013ء کے عام انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی میں نوازشریف نے حدیبیہ پیپر ملز کو اپنی کمپنیوں میں سے ایک ظاہر کیا، پیر کو قومی اسمبلی سے اپنے خطاب میں انھوں نے اسے کچھ اور انداز سے پیش کیا، یعنی لندن میں اپنے فلیٹس ہونے کا اعتراف تو کر لیا مگروہ یہ وضاحت نہ کر سکے کہ ان فلیٹس کی مالک آف شور کمپنیوں کو انھوں نے انکم ٹیکس گوشواروں میں کیوں ظاہر نہیں کیا۔

پانامہ پیپرز اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ 2006ء سے 2014ء تک مریم نواز نیسکول اور نیلسن کی مالک تھیں لیکن نہ تو مریم اور نہ ہی ان کے شوہر نے ان کو ظاہر کیا۔ اپنی آف شور کمپنیوں کو ظاہر نہ کرنا صادق و امین کے زمرے میں نہیں آتا، یہ کمپنیاں محض فلیٹوں کی ملکیت ہی نہیں، مالی معاملات میں بھی ملوث رہی ہیں، وزیراعظم نے اس اہم ترین سوال کا جواب نہیں دیا جو انہیں اور ان کے خاندان کو ایک نہ ایک دن دینا پڑیگا۔ اگر اپوزیشن یہ اہم سوال ایوانِ زیریں میں اٹھاتی تو اس سے پارلیمنٹ مضبوط ہوتی اور عام آدمی بھی ان حقائق سے آگاہ ہوتا مگر کیا کہا جائے کہ اپوزیشن اور حکومت کے زیر وبم میں اُلجھ کر اصل سوال اب بھی لاجواب ہے۔

آف شور کمپنی نکل آنے پر اب تو عمران خان بھی نوازشریف کی صف میں کھڑے ہو گئے ہیں کیونکہ انھوں نے بھی الیکشن کمیشن کو بتائے گئے اپنے اثاثہ جات میں نیازی سروسز لمیٹڈ کا تذکرہ نہیں کیا۔ کپتان نے وزیراعظم کے خطاب کے دو روز بعد اسمبلی میں آ کر اپنی آف شور کمپنی کے ثبوت لہرا لہرا کر وضاحت تو دیدی تاہم اس میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی تو کسی تحقیقاتی کمیشن کی طرف سے نامزدکردہ کوئی فرانزک آڈٹ کا ماہر ہی کر سکے گا۔

یہ راز ہماری فہم سے بالا ہے کہ عمران خان مانچسٹر میں اپنی فنڈ ریزنگ مہم ادھوری چھوڑ کر صرف اس لیے اسلام آباد پہنچے تھے کہ انھوں نے وزیراعظم سے اپوزیشن کی طرف سے کئے گئے سات سوالوں کے جواب لینے کے لیے اسمبلی سیشن میں شرکت کرنا تھی اور وہ بنی گالہ سے گاڑیوں کے قافلے میں طمطراق کے ساتھ روانہ ہونے سے پہلے میڈیا سے گفتگو کرتے یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ’’کیا میاں صاحب میری تقریر سننے کے لیے اسمبلی میں رکیں گے؟ مجھے تو لگ رہا ہے کہ وہ خطاب کرتے ہی وہاں سے بھاگ جائینگے‘‘۔ کیا تضاد ہے کہ نوازشریف تو ایوان میں موجود رہے مگر عمران خان، جو ان کے خلاف ثبوتوں کے انبار لے کر آئے تھے، دیگر اپوزیشن کے ساتھ خود ہی اسمبلی سے واک آؤٹ کر گئے اور جو باتیں انہیں اسمبلی میں کہنی چاہئیں تھیں وہ اسمبلی سے باہر آ کر کہیں۔

اس ساری رام لیلا کی اندرونی روداد یہ ہے کہ زرداری کے فرمان کے مطابق خورشید شاہ نے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے ملکر مجموعی استعفوں کا پلان بنایا، انہیں یقین تھا کہ اس پر جملہ فریقین متفق نہیں ہونگے اور جب ایسا ہی ہوا تو کچھ اپوزیشن کے ساتھیوں نے یہ مشورہ دیا کہ نوازشریف سوالوں کے جواب دے بھی دیں تب بھی ایوان کا ماحول خراب کیا جائے گا مگر خورشید شاہ اس پلان پر صرف اس لیے راضی نہ ہوئے کہ وہ اپنے اصل پلان کے مطابق وزیراعظم کو یقین دہانی کرا چکے تھے کہ اپوزیشن پارلیمان کا ماحول مکدر نہیں کریگی، نہ سوالات پوچھے گی اور نہ ہی فقرے کسے گی، اسی شرط پر وزیراعظم پارلیمنٹ میں آنے پر رضا مند ہوئے تھے۔

شاہ محمود قریشی چونکہ اعتزازاحسن اور خورشید شاہ کے زیرخانہ رازدان بن چکے تھے جنکے ذریعے عمران خان کو ڈرایا گیا کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سر پر ہے اور فوج اس وقت تاک میں بیٹھی ہے کہ کوئی غیریقینی صورتحال پیدا ہو اور وہ مداخلت کرے، خدانخواستہ اگر ایسا ہو گیا تو پی ٹی آئی کو، جو وزارتِ عظمیٰ کے قریب قریب ہے، سب سے زیادہ نقصان ہو گا اور پھر اقتدار میں آنے کے لیے اسے مزید دس گیارہ سال انتظار کرنا پڑیگا، لہٰذا بہتر یہی ہو گا کہ نوازشریف سوالوں کے جواب دیں نہ دیں، اپوزیشن بہرحال پارلیمان سے واک آؤٹ کر جائے گی اور مشترکہ ٹی او آرز کے لیے حکومت کو ڈرا دھمکا کر اس پر دباؤ ڈالے گی، یہ وہ اسکرپٹ تھا جسکا حصہ مجبوراً عمران خان کو بھی بننا پڑا۔

تحریکِ انصاف کے پیپلزپارٹی سے الحاق کی اصل وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی اس وقت زبردست اندرونی خلفشار کاشکار ہے اور اس کے اندر چار طاقتور دھڑے بن چکے ہیں جن میں دو بنیادی دھڑے شاہ محمود قریشی اور چوہدری سرور کے ہیں۔ سب سے طاقتور گروپ شاہ محمود کا ہے جن کے ساتھ حتمی طور پر 40 سے زائد پی ٹی آئی کے ممبران ہیں، شیریں مزاری اور شفقت محمود بھی ان ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ جہانگیرترین کے مشورے پر جماعتی انتخابات ملتوی کر دینے پر شاہ محمود کو عمران خان پر قہر کا غصہ ہے اور وہ پی ٹی آئی کو چھوڑنے کا بھی سوچ رہے ہیں مگر عمران خان پر یہ بات ہنوز مکمل واضح نہیں۔ عمران خان کو یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ شاہ محمود اور چوہدری سرور کے جانے سے ان کی پارٹی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے گی اور اس اَمر سے پارٹی کی انتظامی موت بھی بے نقاب ہو جائے گی۔

بڑے چہروں کے کنارہ کر جانے سے کپتان کے پاس صرف آف شور کمپنیوں والے دو پروڈیوسر رہ جائینگے جنہیں مستقبل میں بائیسویں ترمیم والا الیکشن کمیشن نااہل قرار دے دیگا۔ شاہ محمود قریشی کو پانامہ لیکس سے چنداں کوئی دلچسپی نہیں، وہ پیپلزپارٹی سے ملکر عمران خان کو سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ پی پی سے ان کی علیک سلیک اندرون سندھ کرپشن کے خلاف مارچ کے دوران گہری ہوئی جب عمران خان نے حسبِ وعدہ انہیں جوائن نہ کیا۔ پیپلزپارٹی انہیں دوبارہ ساتھ ملانے کے لیے کوشاں ہے اور اس کے لیے وہ کچی پکی سی حامی بھی بھر چکے ہیں تاہم انہیں معلوم ہے کہ پیپلزپارٹی اب شاید وفاق حاصل نہ کر سکے اور سندھ میں کوئی وزارت ان کے شایانِ شان نہ ہو گی۔

پانامہ لیکس کا مخمصہ سر نہ اٹھاتا تو ابھی تک شاہ محمود قریشی نون لیگ کے وزیر دفاع یا وزیر خارجہ ہوتے، ان کی مانگ وزارتِ خارجہ کی تھی مگر نواز شریف کے لیے یہ معاملہ ذرا پیچیدہ سا ہے۔ خورشید شاہ کی طرح شاہ محمود کی بھی کوشش ہے کہ وزیراعظم کوفی الوقت پانامہ بحران سے نکالا جائے۔

شاہ محمود قریشی اس وقت دو کشتیوں کے سوار ہیں، نون لیگ میں شمولیت کا آپشن تو ہے ہی، مگر ان کی ترجیحا ً سعی یہی ہو گی کہ وہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی ملی بھگت سے ایسا تحقیقاتی کمیشن متشکل کروائیں جو عمران خان، جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کو آف شور کمپنیوں اور قرضہ معافی کی مد میں مجرم قرار دے اور وہ سیاست کے لیے نااہل قرار پائیں، اس صورت میں شاہ محمود پی ٹی آئی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھال کر پارٹی کے بلا شرکتِ غیر مالک بن سکتے ہیں، اس وقت جس پارلیمانی کمیٹی پر حکومت اور اپوزیشن کا اتفاق ہوا ہے وہ اس بات پر پہلے ہی راغب نظر آتی ہے کہ جن لوگوں نے قرضے معاف کروائے یا جن حضرات کی آف شور کمپنیاں ہیں مگر ان کا ذکر پانامہ پیپرز میں نہیں ہے، دو ٹی او آرز ان کی بابت بھی بنائے جائینگے، اس پلاننگ میں ایم کیو ایم کو خصوصاً استعمال کیا گیا جو پانامہ پیپرز سے ہٹ کر بھی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہے۔

پیپلزپارٹی زرداری کو بچانا چاہتی ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ کک بیکس، کمیشن اور سرکاری عہدہ پر رہ کر رسوخ کے استعمال جیسا ٹی او آر مجوزہ شرائطِ کار کا حصہ بنے۔ حکومت کے اسی ٹی او آر کے خوف سے پیپلزپارٹی نے اب تک حکومت کو ٹف ٹائم دیا ہے۔ اگر نون لیگ اس ٹی او آر پر مصر ہو گی تو اغلباً خورشید شاہ کو اس لیے اعتراض نہ ہو گا کہ اس کا نشانہ صرف زرداری اور رحمان ملک بنیں گے اور زرداری ویسے بھی اب سیاست سے سنیاس لے چکے ہیں چنانچہ ایسی کسی بھی صورت میں بلاول اور خورشید شاہ کا راستہ مسدود نہیں ہو گا۔ اگلی باری لینے کے لیے پیپلزپارٹی چانکیائی چال سے نوازشریف کو بھی نااہل کروانا چاہتی ہے۔

پارلیمانی کمیٹی کی شرائطِ کار طے ہو جانے کے بعد اگر کمیشن پارلیمنٹ سے بنے گا تو اس میں صرف عمران خان اور ان کے ہمنوا پھنسیں گے جب کہ نوازشریف اور زرداری دونوں ایک ایک بکری، مرغی دیکر جان کی امان پا لینگے اور اگر کمیشن چیف جسٹس کی سربراہی میں بنے گا تو یہ بات طے ہے کہ پھر نوازشریف، ان کا خاندان (بشمول شہباز شریف) اور عمران خان سیاست کے لیے نااہل ہو جائینگے، اس کام کے لیے چیئرمین سینیٹ کا کردار نظر نہ آتے ہوئے بھی انتہائی اہم ہو گا جو اس وقت بھی اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ عمران خان ٹی او آر پر اعتراض کرینگے تو انہیں یہ کہہ کر منا لیا جائے گا کہ آپکا دامن تو صاف ہے، آپکو کس چیز کا خوف ، آپ سرخرو ہو ہی جائینگے۔

خورشید شاہ اور اعتزاز احسن کی اس وقت کوشش ہے کہ وہ نوازشریف کی جگہ نون لیگ کا کوئی اور وزیراعظم لے آئیں، تحقیقاتی کمیشن پر اتفاق ہونے یا نہ ہونیکی دونوں صورتوں میں پیپلزپارٹی ایسے شدنی چھوڑ سکتی ہے کہ تحقیقات کے دوران نوازشریف کو کمیشن میں پیش ہونا پڑیگا چنانچہ وہ کمیشن کے فیصلہ سنانے تک مستعفی ہو جائیں، تب نوازشریف کو ان کی یہ شرط بہرطور ماننا پڑیگی۔ نئے وزیراعظم کے لیے جو 3 نام دیے جائینگے وہ اسحاق ڈار، ایازصادق اور چوہدری نثار کے ہو سکتے ہیں۔ ایاز صادق خورشید شاہ کے لیے سودمند ہونگے جب کہ اعتزازاحسن کا خیال ہے کہ چوہدری نثار وزیراعظم بننے پر نون لیگ کی پوری کابینہ فارغ کر دینگے اور چند ہی ماہ میں مسلم لیگ (ن) کا ایسا ناس مارینگے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے قابل نہیں رہے گی۔

نوازشریف کی خواہش کے باوجود شہبازشریف کے وزیراعظم بننے پر اپوزیشن کبھی راضی نہ ہو گی، نوازشریف کے مستعفی ہونیکا سیاسی فائدہ براہِ راست پیپلزپارٹی کو ہو گا جو عنقریب تختِ لاہور کو حاصل کرنے کے لیے بلاول کی سرکردگی میں پنجاب سے احیائی مہم کا آغاز کرنیکا ارادہ رکھتی ہے۔ اُصولی طور پر تو حکومت اور اپوزیشن تحقیقاتی کمیشن کے لیے دائرہ ہائے کار بنانے کی مجاز ہی نہیں، دو یا دو سے زیادہ چور ملکر اپنے ہی اوپرکٹنے والی ایف آئی آر کا متن کیسے لکھ سکتے ہیں۔ یہ ٹی او آر نہ تو پارلیمنٹ نہ سینیٹ بنا سکتی ہے، یہ دونوں ایوان سیاسی ہیں، مجوزہ ٹی او آر جوڈیشل کمیشن کا کام ہے جس کے لیے چیف جسٹس کو خط لکھا جائے تو زیادہ منصفانہ ہو گا۔

پانامہ لیکس پر بنی پارلیمانی کمیٹی قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہے اور اس کے مرتب کردہ متفقہ شرائطِ کار پر جو تحقیقاتی کمیشن بنے گا، وہ ایک دوسرے کو بچانے اور کئی ایک سے سیاسی انتقام کے لیے ہی کار آمد ہو گا، بحیثیت ِمجموعی آئینی ترامیم کے بغیر کمیشن قومی دولت لوٹنے والے بے رحم ڈاکوؤں کا احتساب کرنیکی غرض سے نہیں ہو گا، ایسے کمیشنوں کے ہوتے ہوئے اس ملک میں بلاامتیاز احتساب کا خواب ہمیشہ خواب ہی رہیگا جسے شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اب اصل طاقت کو مخل ہونا ہی پڑیگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔