سات سوال اور حاتم طائی

رئیس فاطمہ  اتوار 22 مئ 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

گزشتہ چند دنوں سے پانامہ لیکس کے حوالے سے اپوزیشن کے سات سوالوں کی گونج ہر طرف سنی جا رہی ہے۔ اس ہنگامے پر مجھے نہ جانے کیوں حاتم طائی یاد آ گیا، جس نے کسی کے سات سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے لیے فی سبیل اللہ جہاں گردی قبول کی تھی اور دیگر چھ سوالوں کے ساتھ ساتھ ’’حمام بادگرد‘‘ کی خبر بھی لایا تھا، لیکن معاوضے میں کچھ بھی قبول نہ کیا تھا، کیونکہ وہ ’’خدمت خلق‘‘ اور انسانیت پہ یقین رکھتا تھا۔

میں سوچتی ہوں کہ جب گئے وقتوں میں انتہائی مشکل اور بظاہر ناقابل حل سوالوں کے جواب حاتم نے ڈھونڈ لیے تو شریف برادران اینڈ کمپنی کو کوئی ایسا جوہر قابل نہیں مل رہا، جو ان سوالوں کے تشفی بخش جوابات اپوزیشن کو دے سکے؟ جب کہ شریف برادران اینڈ کمپنی کے پاس بے شمار ’’نورتن‘‘ حاضر خدمت ہیں۔ بس فرق ان کے نو رتنوں اور مغل اعظم جلال الدین محمد اکبر کے نو رتنوں میں یہ ہے کہ مغل اعظم کے نو رتن ذہانت، قابلیت، خداداد صلاحیت، ایمانداری، بذلہ سنجی سمیت امور سلطنت کے مشکل ترین معاملات سلجھانے میں اپنی مثال آپ تھے۔ جب کہ موجودہ شریف شاہزادوں کے جعلی نو رتن محض آف شور کمپنیوں سمیت انھیں ’’انوکھا لاڈلا‘‘ ثابت کرنے میں ماہر ہیں۔

تو پھر جب یہ ’’بے مثال نو رتن وزیر باتدبیر‘‘ شریف النفس شہزادوں کو ہر مصیبت میں سے مکھن میں پڑے بال کی طرح نہایت ڈھٹائی اور ہاتھ کی صفائی سے نکال لیتے ہیں، تو آخر یہ ان سات سوالوں کے جوابات پارلیمنٹ میں دینے سے کیوں گھبرا رہے ہیں؟ مانا کہ آج کوئی بھی انمول رتن بلامعاوضہ یا بنا کسی ذاتی فائدے کے کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں ہو سکتا، لیکن متعدد بیرون ملک آف شور کمپنیوں میں لگے سرمائے اور منافعے کی مسحور کن خوشبو بھی انھیں اپوزیشن کے سات سوالوں کے جوابات لکھ کر اور یاد کروا کر وزیراعظم کو اسمبلی میں بھیجنے کے لیے کیوں تیار نہیں؟

نو رتنوں کے ذکر پر ’’دیوالی کی گڑیا‘‘ کی طرح سجی بنی خاتون یاد آ گئیں، جنھوں نے کھانا پکانے کے ایک پروگرام میں ’’نو رتن ہانڈی‘‘ کے نام کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے یہ ہوش ربا انکشاف کیا تھا کہ نو رتن دراصل اکبر اعظم کے وہ نو (9) غلام تھے جن کے نام سے یہ ہنڈیا منسوب ہے۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ کبھی کسی بھی پروگرام میں اس ’’کوہ گراں‘‘ جیسی غلطی کی تردید نہیں کی گئی۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ اپنی غلطی ہمیشہ اعلیٰ ظرف لوگ تسلیم کرتے ہیں۔

شاید اسی مقولے کی صداقت کے تحت وزیراعظم اینڈ کمپنی نے اپوزیشن کے سوالوں اور پانامہ لیکس کے انکشافات کو ہوا میں اڑا دیا۔ کس طرح اڑایا؟ ترکی کے صدر کی صاحبزادی کی شادی میں شرکت کے لیے جمہوریت کے علمبردار وزیراعظم مع اپنے تمام خاندان کے گزشتہ دنوں ترکی روانہ ہو گئے، خاص کر وہ تمام لوگ اس شادی میں شریک ہوئے جن پر اپوزیشن کے سات سوال بھاری پڑ رہے تھے۔ جیسا کہ خود میاں صاحب، ان کی بیگم، بیٹی، نواسی، چھوٹے بھائی شہباز شریف، ان کی اہلیہ، صاحبزادے سب پانامہ لیکس کے سوالوں کو ہری جھنڈی دکھا کر ’’بائے بائے‘‘ کر گئے۔

کیوں نہ چلتے چلتے کچھ تذکرہ صحافتی اقدار کا بھی ہو جائے، کرپشن کی گند میں لتھڑے ہاتھوں کو صاف کرنے کے لیے ہمارے کچھ صحافی بھائی، بہن، اینکر پرسن، خوشبودار ٹشو پیپر مٹھیوں اور جیبوں میں لیے تیار کھڑے ہیں۔ کیا یہ کرپشن نہیں ہے کہ بعض اینکر پرسن بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ جس پارٹی کے حامی ہیں، ان کے لیڈروںکو معصوم اور بے گناہ ثابت کرنے کے لیے سیاسی اکھاڑے کے منجھے ہوئے پہلوانوں کو لا کر بٹھا دیا اور انھیں اپنیلیڈروں کا دفاع کرنے کا بھرپور موقع دیا جب کہ مخالف پارٹی یا اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں کو بات کرنے کا موقع نہ دیا۔

کسی زبردست من چلے نے صورتحال سے واقفیت پر زبردستی بولنا چاہا تو بریک کا ٹائم آگیا۔ اور پھر وقفے کے بعد سوال بدل دیا گیا۔ صحافی برادری میں ایسے بھی نام ملتے ہیں جنھوں نے صحافت کے پیشے کی آبرو رکھی۔ آج بھی اکا دکا جواں مرد موجود ہے۔ لیکن حکمرانوں کے طریقہ واردات بدلتے رہتے ہیں، پہلے صحافیوں کو ’’لفافے‘‘ مراعات، اور نوکریوں کے جال میں پھانسا جاتا تھا۔ آج بڑے بڑے عہدوں کا لالچ دے کر ان کی ہمدردیاں حاصل کی جاتی ہیں۔

ہمارے وہ صحافی اور اینکرز کرپشن کے خلاف پروگرام کرتے ہیں، خبریں اور کالم لگاتے ہیں، لیکن کیا ہم نہیں جانتے کہ یہ سب کس کس طرح آگ کے دریاؤں کو عبور کر کے خبریں عوام تک پہنچاتے ہیں۔ کس کس کی تیوری پہ پڑے بل انھیں دیکھنے پڑتے ہیں۔ کس خبر کی اور کس کالم کی کون کون سی سطریں وہ حذف کرنے پہ مجبور ہیں۔ لیکن وہ جو شاہ کے وفادار ہیں، انھیں ہمیشہ میٹھی ٹکیاں ملتی رہتی ہیں۔ کوئی بھی حکومت آئے وہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔

کبھی کبھار پبلک کو بے وقوف بنانے کے لیے چہیتے اینکر پرسن حکومت وقت سے کوئی چبھتا ہوا سوال بھی کر لیتے ہیں تا کہ مارکیٹ ویلیو بنی رہے۔ لیکن پبلک سب کچھ جانتی ہے۔ وہ یہ بھی جانتی ہے کہ ہونا ہوانا کچھ نہیں، جب اسٹیبلشمنٹ نے زرداری کو جانے دیا تو اب وہ کیا کمال دکھائے گی، بس وقت کو طول دیا جا رہا ہے۔ کچھ دن بعد رمضان کی گرمی سب کچھ بھلا دے گی، کرپشن کے مگرمچھ حج اور عمرے کرنے چلے جائیں گے۔ پھر بجٹ آئے گا، عید آ جائے گی اور آف شور کمپنیوں کا شور تھم جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔