گلستان ادب   (دوسرا حصہ)

نسیم انجم  اتوار 22 مئ 2016
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ترقی پسند شاعر و ادیب ڈاکٹر جمال نقوی کا نام اور کام گلستان ادب میں تازہ پھولوں کی طرح مہک رہا ہے۔ نثرنگاری اور شعر و سخن کے اعتبار سے اب تک وہ 31 کتابوں کے تخلیق کار ہیں، اسی میں تراجم کی کتب بھی شامل ہیں جب کہ ان کی آٹھ کتابیں زیر طبع ہیں۔ ان کی شایع ہونے والی کتابوں میں چند کتابیں تو میرے حافظے میں موجود ہیں۔

جمال نقوی کی تراجم کی کتاب ’’کہانیاں دیس دیس کی‘‘ جیساکہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ اس کتاب میں چینی، روسی، ہندی، مراٹھی، گجراتی اور سندھی و پنجابی زبانوں کی کہانیاں شامل ہیں جنھیں جمال نقوی نے فنی مہارت کے ساتھ ترجمہ کیا ہے کہ قاری کو مصنف و مترجم کے تخلیق و ترجمے میں کچھ زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا ہے۔ ان کہانیوں کا قاری دیس دیس کی تہذیب و ثقافت اور ماحول سے واقف ہوجاتا ہے اور دلچسپی اور تجسس برقرار رہتا ہے۔

’’نئے دن کی بشارت‘‘ اس کتاب کا عنوان بھی متاثر کن اور پرکشش ہے اور شاعری بھی حالات زمانہ کی عکاس ہے، ان کی شاعری میں موسموں کی حدت اور سماج کی تلخیاں و ناانصافیاں نمایاں ہیں، انھوں نے وطن سے محبت، ہتھیاروں کے نقصانات، محبت و امن کا فروغ اور قابل قدر شخصیات سے عقیدت و محبت کے گیت لفظوں کی شکل میں سنائے ہیں۔ ان کا انداز شاعری اچھوتا اور دلفریب ہے، موسیقیت کی مدھر آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ غرض جمال نقوی کی تحریروں میں ایک مقصد اور فلاح انسانی کا درس پنہاں ہے۔

’’سندر بن میں آگ‘‘ شاعر صدیقی کا شعری مجموعہ حال ہی میں شایع ہوا ہے، اس سے قبل بھی شعر و سخن کے حوالے سے ان کی چار کتابیں جن کے عنوانات بالترتیب کچھ اس طرح ہیں، ’’آنکھوں میں سمندر‘‘، ’’بجھتے سورج نے کہا‘‘، ’’جگر لخت لخت‘‘ اور ’’پانی کا ملک پتھر کے لوگ‘‘ شایع ہوچکی ہیں اور وہ تعریف و توصیف اور داد و تحسین اور اب گلستان ادب میں ان کی اہمیت مسلم ہے، شاعر صدیقی نے غزلیں بھی تخلیق کی ہیں اور نظمیں بھی، فلمی گیت بھی لکھے جو بے حد مشہور ہوئے۔ اور ان گیتوں و نغموں کی مٹھاس آج تک زبان کو شیریں کیے ہوئے ہے۔

موسیقی کے شائقین اکثر بھولے بسرے گیت گنگنانے لگتے ہیں، ان گیتوں کو امر کرنے میں شہناز بیگم، احمد رشدی، مالا، فردوسی بیگم، رونا لیلیٰ اور میڈم نورجہاں اور دوسرے گلوکاروں کے نام نمایاں ہیں۔ شاعر صدیقی کی جنم بھومی کلکتہ ہے، لیکن زندگی کا بیشتر حصہ سابق مشرقی پاکستان اور پھر کراچی میں گزرا۔ آج کل بھی کراچی ہی میں مقیم ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے گوشہ نشین ہیں، اس کی وجہ وہ کام اور کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں، کام ہی عزت و توقیر کا باعث ہوتا ہے۔

’’سندر بن میں آگ‘‘ گیت، نغمات اور دوہے کا مجموعہ ہے اور شعرا و تنقید نگاروں نے ان کی شاعری کے حوالے سے مضامین لکھے ہیں، افتخار عارف نے ان کی شاعری پر اپنی رائے اس انداز میں پیش کی ہے کہ ’’آنکھوں میں سمندر‘‘ ایک درد مند شاعر کے تخلیقی وجود کا بہت خوبصورت اظہار ہے، اسلوب بیان کی سادگی، آہنگ کی دلآویزی اور تجربے کی سچائی نے ان کی شاعری میں اعلیٰ معیار کی ایک ایسی سطح قائم کردی ہے جو قابل ستائش بھی ہے اور قابل رشک بھی۔ ’’سندر بن میں آگ‘‘ اس کتاب کے پبلشر شاعر علی شاعر کا ایک تفصیلی انٹرویو بھی شامل ہے۔ شاعر صدیقی نے شاعر علی شاعر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے چینل والوں سے شکوہ اور ناقدری کا ذکر بھی کیا کہ ’’جن چینلز پر میرے نغمے گائے جاتے رہے ہیں ان لوگوں نے نغموں کے خالق کو بلانے کی زحمت گوارا ہی نہیں کی‘‘۔

شاعر صدیقی کی بات درست ہے، یہ دور بے حسی کا ہے، تعلقات، سفارش کے بل پر لوگ ترقی کی سیڑھیاں چڑھنے پر یقین رکھتے ہیں لیکن اکثر اوقات منہ کے بل گر بھی جاتے ہیں کہ سانچ کو آنچ نہیں، جھوٹ کی بنیادیں بہت کمزور ہوتی ہیں، کبھی نہ کبھی ڈھے جاتی ہیں۔ چاند کی روشنی کرنسی کی چمک کو بہت جلد ماند کردیتی ہے۔ افسوس ہوتا ہے ایسے لوگوں کی ذہنیت اور مردہ ضمیر پر کہ دوسرے کے شاہکاروں کو اپنے نام سے منسوب کرلیتے ہیں اور ایسا کرتے ذرہ برابر شرم نہیں آتی ہے۔ شاعر صدیقی کے ساتھ بھی جعلسازی کی گئی اور کئی نغموں کو شاعر صدیقی کے نام کے بجائے کسی اور شاعر کے نام سے چلایا گیا۔ یہ ظلم نہیں تو کیا ہے؟

’’پانی کا ملک پتھر کے لوگ‘‘ سانحہ مشرقی پاکستان کے پس منظر میں لکھی ہوئی کتاب ہے جو شاعری پر مشتمل ہے اور 1971 کا نوحہ ہے۔ ایک ایسا خونیں واقعہ اور المناک داستان ہے جو ہوس اقتدار کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی۔ حکمرانوں کی ایسی طمع جس نے خون کے دریا بہا دیے، سفاکی و بربریت کے ریکارڈ توڑ دیے گئے، اپنے لوگ دشمن بن گئے، وطن عزیز کا ایک حصہ بھارت کی سازش کی وجہ سے جدا ہوگیا۔’’پانی کا ملک پتھر کے لوگ‘‘ اس کتاب میں وہ تحریریں موجود ہیں جو مسلمانوں کے لہو میں ڈوبی ہوئی ہیں۔

شاعر صدیقی کی شعری کاوشیں معاشرتی تلخ حقائق اور اپنے عہد کی سچی ترجمان ہیں۔ سہ ماہی ’’بیلاگ‘‘ کی پابندی سے اشاعت مدیراعلیٰ عزیز جبران انصاری کی مرہون منت ہے اور مذکورہ پرچہ اپنی خصوصی تحریروں کے حوالے سے مستند حیثیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر خاص شخصیات کا تعارف اور اہل قلم کی تاریخ پیدائش و وفات اور سچی وکڑوی باتیں، جنھیں ہم تلخ حقائق بھی کہہ سکتے ہیں، ادبی جعلسازیاں اور کھرا سچ جیسے مضامین اور خصوصی گوشے، پچھلے شمارے میں جمیل الدین پر غلام ابن سلطان کا مضمون اور تازہ شمارے میں انتظار حسین کے ارتحال پر خصوصی مضمون اور ماجد خلیل کا گوشہ شایع ہوا ہے۔

’’انشا‘‘ بھی سہ ماہی جریدہ ہے ’’انشا‘‘ کے مدیراعلیٰ صفدر علی خان کی محنت اور ادب سے سچی محبت کے نتیجے میں پابندی سے خصوصی تحریروں کے ساتھ اشاعت کے مرحلے سے گزرتا ہے افسانے، خاکہ نگاری، شاعری اور مقالات سے مزین پرچہ اہل ادب کی توجہ کا مرکز ہے، اسی طرح ’’زاویہ نگاہ‘‘ جو ماہانہ ہے، اس کے چیف ایڈیٹر نصرت مرزا اور ایڈیٹر یوسف راہی ہیں، یہ پرچہ دنیا بھر کے حالات کا احاطہ کرتا ہے، اہم اور حساس مسائل مضامین کی شکل میں قارئین کو پڑھنے کو ملتے ہیں۔

حیدرآباد سے شایع ہونے والا پرچہ سہ ماہی ’’ارتفاع‘‘ خالص ادبی پرچہ ہے۔ شوکت علی شوکت کی علم دوستی، ادب سے لگن کی بدولت پابندی سے شایع ہوتا ہے۔ شوکت علی شوکت اس پرچے کے مدیراعلیٰ اور منتظم ہیں۔ شاعر بھی ہیں۔ ان کی شاعری معاشرتی روایتوں اور سماجی حقائق کی ترجمان ہے۔ ’’ارتفاع‘‘ ایک معیاری پرچہ ہے۔

’’ڈاکٹر انور سدید کی ڈاکٹر وزیر آغا شناسی‘‘ ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی ادب اور ادیبوں سے عقیدت و خلوص، محنت و ریاضت کے نتیجے میں مذکورہ کتاب منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی ہے ضخامت کے اعتبار سے 315 صفحات پر مشتمل ہے۔ سرورق ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر انور سدید کی تصویروں سے مزین ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم ایک بہت بڑے اور قیمتی ادبی خزانے کے مالک ہیں اور ماشا اللہ تحقیق و تنقید اور شعر و سخن کے حوالے سے 56 کتابیں لکھ چکے ہیں، جو یقیناً بہت بڑی بات ہے۔ ان کے جو کوائف درج ہیں اس میں ادبی کتب 52 اور نصابی 27 ہیں۔

حسن ترتیب میں اہم اور مستند لکھاریوں کے نام نمایاں ہیں جنھوں نے سیر حاصل گفتگو اور معلومات کے در بذریعہ مضامین وا کیے ہیں۔ انھی میں ڈاکٹر زاہد ، منیر عامر، ممتاز عارف، اختر مرزا، سلیم آغا قزلباش، ذوالفقار احسن اور دوسرے اہل قلم حضرات کے نام نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر انور سدید کے دو مضامین بعنوان ’’ڈاکٹر وزیر آغا سے میری پہلی ملاقات‘‘ وزیر آغا کے انتقال پر اس مضمون کی آخری سطور 7 ستمبر 2010 کو رات کے ساڑھے گیارہ بجے وہ آکسیجن نیٹ میں تھے قلم قرطاس منگوا کر اپنی بیٹی کے لیے یہ لکھا: ’’بیٹی! اب تم گھر جاؤ میں بھی سونے لگا ہوں‘‘ اور صرف پانچ منٹ کے بعد وزیر آغا ابدی نیند سو گئے۔لیکن اپنے تحقیقی، تنقیدی اور شعری تخلیقیت کے باعث ادبی دنیا میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔