طاغوت سے انکار۔ غلطی ہائے مضامین (2)

اوریا مقبول جان  پير 23 مئ 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

جدید علم سیاست، بشریات، معاشرت یا سماجیات وغیرہ کے سانچے میں ڈھلے ہوئے افراد کا ایک المیہ یہ ہے کہ اللہ کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو کھینچ تان کر ان علوم کے سانچے میں فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو انھیں اس مبلغ علم نے عطا کیا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک چھوٹے سے بارہ سو الفاظ پر مشتمل کالم میں اتنے تضادات جمع ہو جاتے ہیں کہ آدمی سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے کہ یہ شخص کہنا کیا چاہتا ہے۔

چونکہ آج کا سکہ جمہوریت ہے، اس لیے اسلام کو بھی اس کے مطابق فٹ کرو اور اگر ممکن ہو سکے تو انسانوںکی معلوم پانچ ہزار سالہ تاریخ کو جمہوریت کے سانچے میں کانٹ چھانٹ کر کے ڈھال دو۔ ابن خلدون پر ایک تہمت باندھتے ہوئے موصوف فرماتے ہیں کہ جس سیاسی گروہ یا فرد کو عامۃ الناس کی ایک بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے‘ اس کے لیے مستحکم ریاست قائم کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

اور اگر کوئی اقلیتی گروہ  کسی سبب سے برسراقتدار آ جائے تو بغاوت  اٹھتی اور سیاسی نظام کو درہم برہم کر دیتی ہے‘‘ یہ ہے ان کے نزدیک انسانی تاریخ کا نچوڑ اور مزید فرماتے ہیں کہ ’’دور حاضر میں اس کو جمہوریت کہتے ہیں۔‘‘ یعنی ان کے نزدیک وہ تمام مطلق العنان بادشاہ جو پانچ ہزار سالہ انسانی تاریخ پر چھائے رہے صدیاں وہ اور ان کی اولاد حکومتیں کرتی رہیں۔ وہ فرعون اور نمرود جن کے مقابلے میںاللہ نے اپنے جلیل القدر پیغمبر بھیجے تا کہ ان کے اقتدار کو ختم کرکے اللہ کا اقتدار اس دھرتی پر قائم کریں‘ وہ سب کے سب جمہوری حکمران تھے اور عوام کی اکثریت ان کی حمایت کرتی تھی۔

اس تاریخ میں روم کے بادشاہ بھی تھے اور ایران کے حکمران بھی۔ ہلاکو اور تیمور کی سلطنت میں بھی بہت وسعت تھی‘ سکندر اعظم جیسا ظالم جس نے تھیبس شہر کے شیرخوار بچے سے لے کر نوے سالہ بوڑھے تک سب کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، وہ جو آدھی دنیا پر حکمران رہا، چنگیز خان کی فتوحات اور عظیم سلطنت، برصغیر میں قطب الدین ایبک سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک شامل تھے۔ انگریز جو یہاں برسراقتدار رہا‘ اپنی تعداد میں کبھی بھی تیس ہزار سے زیادہ نہ تھا۔ یہ اقلیتیں تھیں جو طاقت کے زور پر دنیا پر ہزاروں سال حکومت کرتی رہیں۔

مجھے لگتا ہے کہ آیندہ کالم میں وہ اس کا جواب یہ دیں گے کہ ان سب بادشاہوں کی افواج دراصل سیاسی پارٹیاں تھیں اور عوام ووٹر۔ کہتے ہیں ریاست عصبیت پر قائم ہوتی ہے۔ مغلوں کی ہندوستان میں کونسی عصبیت یا قبیلے تھے، روم جو پورے یورپ پر حکمران رہا کس خاندانی یا نسلی عصبیت پر حکمران رہا۔ فرعون کی نسل تو ایک مختصر خاندان تھا۔ انگریز کی ہندوستان میں اور فرانس کی افریقہ میں کونسی عصبیت تھی۔ طاقت ہی اس دنیا کا قانون ہے اور غلبہ ہی اقتدار کا راستہ ہے۔

اسلام اور باقی تمام نظام ہائے زندگی میں فرق یہ ہے کہ باقی نظام یا افراد غلبہ حاصل کر کے اپنا ذاتی، خاندانی، قومی یا پارٹی کا اقتدار قائم کرتے ہیں جب کہ اسلام ہے کہ غلبہ حاصل کر کے اللہ کا اقتدار قائم کرو۔ یہی انبیاء کا راستہ ہے اور اسی کی تکمیل سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی۔ قرآن پاک کی بے شمار آیات ہیں جو اس کائنات میں اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنے اور طاغوت کی بادشاہت کو ختم کرنے کا حکم دیتی ہیں۔ اللہ نے اس حاکمیت کو قائم کر کے حدود و قوانین کی فہرست بنائی ہے جنھیں نافذ کرتا ہے۔

اللہ فرماتا ہے ’’اور جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں (المائدہ45)۔ کس قدر واضح حکم ہے اور ایک اور مقام پر ہماری جدید منافقانہ روش کے بارے میں اللہ نے کس قدر کھول کر بتا دیا ہے۔ ’’کیا تو نے نہیں دیکھا، ان لوگوں کو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے اس کتاب پر جو تیری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تجھ سے پہلے نازل کی گئی تھیں اور پھر چاہتے ہیں کہ فیصلے کے لیے اپنا معاملہ طاغوت کے پاس لے جائیں، حالانکہ انھیں اس کا انکار کرنے کا حکم دیا گیا تھا (النساء 60)۔

زمین پر اللہ کی حاکمیت کا قیام ہی تھا جس کے لیے اولوالعزم رسول بھیجے گئے، ورنہ نمرود اور فرعون دونوں موصوف کالم نگار کے نزدیک اس زمین پر ریاست اور حکومت دونوں ہی چلا رہے تھے بس انھیں ذرا سی ہدایت ہی چاہیے تو تھی۔ یہ انبیاء ان کے سامنے کھول کھول کر بیان کرتے اور اپنی راہ لیتے۔ نہ جہاد کی ضرورت تھی اور نہ آگ میں جلنے کے امتحان کی۔ خود سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی مکے کے تربیت یافتہ سو کے قریب صحابہ کرام کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ کی ریاست قائم کی تھی اور بدر کے میدان میں صرف تین سو تیرہ نہتے جن کے پاس دو گھوڑے، چھ زریں اور آٹھ تلواریں تھیں لے کر طاغوت سے مقابلے پر اتر آئے تھے۔

دلیل یہ دی جاتی ہے کہ میثاق مدینہ سے جمہوری طور پر اقتدار حاصل کیا گیا تھا اور سب کو ساتھ ملا کر حکومت قائم کی گئی تھی۔ جیسے آج کے دور میں کچھ دو اور کچھ لو کے اصول پر ہوتا ہے۔ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس سے بڑا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ آپؐ نے اس طرح کی جمہوری پیشکش مکے میں ٹھکرا دی تھی جب تمام سرداران قریش نے آپ کو متفقہ سردار بنانے کی پیشکش کی تھی‘ لیکن آپ نے فرمایا تھا کہ اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج بھی رکھ دیں تو میں ان کی بات نہیں مانوں گا۔ مدینے میں قانون اللہ کا نافذ ہوا تھا، آخری اور حتمی فیصلے کی حیثیت رسول اکرمؐ کو حاصل تھی۔ کسی عیسائی‘ یہودی یامشرک کو قانون سازی میں اختیار حاصل نہ تھا۔

اگر ریاست اور حکومت دین کا مقصد نہیں تھا تو پھر فتح مکہ کے بعد رسول اکرمؐ نے پورے جزیرہ نما عرب میں صحابہ کو حاکم کیوں بنا کر بھیجا تھا۔ وہ وہاں اللہ کا قانون نافذ کرنے گئے تھے صرف تبلیغ کرنے نہیں گئے تھے۔ حضرت عثمانؓ کی خلافت سے موصوف کالم نگار نے جس طرح جمہوریت نکالنے کی کوشش کی ہے اس پر مجھے ان مغرب سے مرعوب دانشوروں پر ترس آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ عبدالرحمن بن عوفؓ نے مدینے کے افراد سے رائے لی تھی۔ اس لیے یہ ووٹنگ ہو گئی۔ خلیفہ ہمیشہ رائے سے منتخب ہوتا ہے۔

کاش وہ جانتے کہ اسلام میں اہل الرائے کی شرائط بہت کڑی ہیں۔ مدینہ کی آبادی اس وقت اکثریت میں صرف صحابہ کرام پر مشتمل تھی۔ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کو صرف تیرہ برس ہوئے تھے اور مدینہ میں وہی لوگ موجود تھے جن کو رسول اللہ نے خود درس حکمت دیا تھا۔ یہ صالحین کا ایک شہر تھا جس میں ہر کوئی صاحب الرائے کے مقام پر فائز تھا۔

کیا عبدالرحمن بن عوفؓ نے مصر، شام، کوفہ، بصرہ، یمن، فارس گھوڑے دوڑائے تھے کہ جاؤ جا کہ ریفرنڈم کروا کر آؤ کہ تم لوگ حضرت علیؓ یا حضرت عثمان میں کس کو خلیفہ چاہتے ہو۔ اگر مدینے والوں کی رائے لی جا سکتی تھی تو باقی پوری سلطنت کی بھی رائے لی جا سکتی تھی۔ لیکن مدینے کے لوگوں کے بارے میں یہ مسلم حقیقت تھی کہ ان کی اکثریت یعنی ننانوے فیصد صاحب الرائے اصحاب کرام کی ہے‘ اس لیے ان کی رائے پر فیصلہ کر دیا گیا۔ یہ اس جمہوریت کے برعکس ہے جس میں ایک قاتل، چور، ڈاکو اور ہیروئن بیچنے والے کی رائے یا ووٹ اور ایک نیک، پرہیزگار اور عالم کا ووٹ برابر ہوتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جس نبیؐ برحق نے مدینے کی ریاست کو قائم کر کے، اللہ کے قوانین کا نفاذ کر کے دکھایا ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے حکومت کے بارے میں صرف ایک ہی رہنمائی فرمائی کہ خلافت قریش میں سے ہو گی۔

یہ حدیث دراصل آپؐ کی بصیرت اور علم کی بنیاد پر کی گئی پیش گوئی تھی جو حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی اور اگلے سات سو سال تک مسلمانوں کی قیادت اور سیادت صرف  قریش کے ہی ہاتھ میں رہی۔ اسلام میں خلافت علیٰ منہاج النبوہ کا تصور ہے جس کے خلاف اٹھنا بغاوت اور فساد فی الارض ہے۔ یہ وہ حکمرانی ہے جو زمین پر اللہ کی حاکمیت قائم کرے اور اس کا قانون نافذ کرے وہ جائز اور برحق ہے اور اس کسوٹی پر خلافت راشدہ پوری اترتی ہے لیکن اگر کوئی حکمران ایسا نہیں کرتا تو خواہ وہ بظاہر کلمہ گو مسلمان ہو اس کے خلاف آواز بلند کرنا جہاد ہے بلکہ افضل ترین جہاد ہے۔ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا جب آپؐ پہلے جمرہ پر کنکریاں پھینک رہے تھے اور کہا یا رسول اللہؐ کونسا جہاد افضل ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے، دوسرے جمرہ پر یہی سوال کیا، پھر تیسرے جمرے پر سوال کیا آپؐ خاموش رہے اور جب آپ سواری پر بیٹھنے لگے تو اسے بلایا اور ’’کہا ظالم حکمرانوں کے سامنے کلمۂ حق کہنا‘‘ (مسند احمد، ابن ماجہ)۔ یہی نہیں بلکہ جو شخص ایسے حکمران کے ہاتھوں مارا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے سید الشہداء کہا ہے۔ ’’حاکم نے جابر سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’(سید الشہداء، حمزہ بن عبدالمطلب و رجل قام الٰی امام جائر فامرہ نھا فقتلہ) ’’شہدا کے سردار حمزہ بن عبدالمطلب ہیں اور وہ شخص بھی جو جابر حکمران کے سامنے کھڑا ہوا‘ اسے نیکی کا حکم دیا اور برائی سے منع کیا اور حکمران نے اسے قتل کر دیا‘‘۔

رسول اکرمؐ کی یہی حدیث ہے جس کی بنیاد پر پوری امت چودہ سو سال سے سیدنا امام حسینؓ کو سید الشہداء کے لقب سے پکارتی ہے۔ امت کی تاریخ بھری پڑی ہے ان لوگوں سے جو اس افضل ترین جہاد کے لیے نکلے اور شہداء کے سرداروں میں جن کے نام درج ہوئے کیا یہ امت حضرت احمد بن حنبلؒ پر برسائے جانے والے کوڑوں کی احسان مند نہیں کہ جن کی استقامت نے دین کو قائم رکھا۔ وارثین سنت امام حسینؓ ہر دور میں اس امت میں موجود رہے جنھیں موصوف کالم نگار فساد فی الارض کا نام دیتے ہیں۔ فساد فی الارض کا قانون صرف خلیفہ راشد کے خلاف کھڑے ہونے والے گروہ پر نافذ ہوتا ہے۔ کیا موجودہ دور کے حکمران جو طاغوت کے پروردہ، ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہیں ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓ کے وارث ہیں۔

اس سے بڑا مذاق کیا ہو گا۔ زمین پر آج فرعون و نمرود ووٹ کی طاقت سے برسراقتدار آتا ہے اور افغانستان اور عراق میں ویسا ہی ظلم روا رکھتا ہے جیسا فراعین رکھتے تھے۔ طاغوت صرف طاغوت ہے طاقت سے حکمرانی حاصل کرے یا ووٹ سے۔ اس کا انکار ہر مسلمان پر فرض ہے ورنہ وہ مسلمان نہیں۔ اور ہمارے حکمران اس کے کاسہ لیس اور حواری ہیں۔ طاغوت سے بھی بدتر۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔