ڈھاکا کی لہورنگ کہانیاں

اسلم خان  پير 23 مئ 2016
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

مہذب دُنیا کا چہرہ بے نقاب ہو رہا ہے، یورپ کا دہرا معیار اور پاکستانی نام نہاد روشن خیالوں کی منافقت عیاں ہو رہی ہے۔ ڈھاکا کے پھانسی گھاٹ پر صرف ایک صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے۔ طیب اردگان، جس نے مہذب یورپ کے چہرے سے منافقت کا نقاب نوچ لیا ہے جو سیاسی وجوہ کی بنا پر سزائے موت کے شدید مخالف ہیں۔

پاکستان کے حامی بنگالیوں کو سب سے پہلے دانشور اور پنجابی فلسفی ڈاکٹر منموہن سنگھ نے خطے میں امن و امان کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔30 جون 2011ء کو بنگلہ دیش کے سرکاری دورے کے آغاز پر نئی دہلی میں بھارت اور بنگلہ دیشی ایڈیٹروں کے مشترکہ اجلاس میں انکشاف کیا تھا کہ بنگلہ دیشی آبادی کا 25 فیصد اعلانیہ بھارت سے دشمنی کا اظہار کرتا ہے۔ اکثریت جماعت اسلامی سے تعلق رکھتی ہے۔

یہ لوگ بنگلہ دیش کا سیاسی منظرنامہ کسی بھی وقت بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ اسلام پسند عناصر بنگلہ دیش کے غیر یقینی سیاسی مستقبل کی علامت ہیں جن کی موجودگی میں ہر وقت اکھاڑ پچھاڑ کا دھڑکا لگا رہے گا۔ بھارت بنگلہ دیش تعلقات کی قربت ان عناصر کی موجودگی میں ممکن نہیں۔ 2009ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو 42 لاکھ ووٹ ملے تھے جس کے بعد نئی دہلی میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئی تھیں ۔

جس کے سدباب کے لیے 1971ء کے گڑے مردے اکھاڑ کر حسینہ واجد نے جنگی جرائم کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنا لیا ورنہ جنرل حسین محمد ارشاد کے مارشل لاء کے خلاف عوامی لیگ اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے شانہ بشانہ جمہوریت کے لیے جنگ لڑی تھی۔نرم مزاج اور کھلے ڈلے پنجابی منموہن سنگھ ہوں یا کالی ماتا کا پجاری انتہا پسند نریندر مودی … سارا بھارت، علاقائی بالادستی کے ایجنڈے پر متفق اور متحد ہے۔ ایک ہم ہیں کہ بھارت سے دوستی کے خوش رنگ غباروں سے دل بہلا رہے ہیں۔ جب کہ ڈھاکا کے پھانسی گھاٹ پر وفائے پاکستان کے جرم میں ضعیف بزرگوں کو سردار لٹکایا جا رہا ہے اور ہم گم سم خاموش ہیں کہ بنگلادیش کے ’اندرونی‘ معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے جب کہ متحدہ پاکستان سے جڑے ان معاملات میں پاکستان آج بھی فریق ہے کوئی مانے یا نہ مانے۔

بھارت نے 2008ء عام انتخابات سے پہلے جماعت اسلامی بنگلا دیش سے مالی تعاون اور دوستی کے ہاتھ بڑھایا تھا جس کی تفصیلات سابق رکن اسمبلی اور مرحوم مشرقی پاکستان میں صوبائی وزیر ابوالکلام محمد یوسف نے تفصیل سے بیان کی ہیں۔ اے کے ایم یوسف نے چونکا دینے والے انکشافات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ2008ء میں ڈھاکا بھارتی ہائی کمیشن نے جماعت اسلامی سے رابطہ کیا کہ وہ اعلیٰ سطحی ملاقات چاہتے ہیں۔ جماعت نے اس وقت سیکریٹری جنرل (اور بعد ازاں مرکزی امیر) شہید مطیع الرحمٰن نظامی کو اِس ملاقات کے لیے نامزد کیا۔

اس ملاقات میں بھارت کے اعلیٰ سِفارت کار نے بتایا کہ بنگلا دیش کی تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ ہے۔ ہم اْن کی مالی ضروریات کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ لیکن جماعت اسلامی سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں رہا۔ ہمارے درمیان رابطے کا فْقدان ہماری کوتاہی تھی۔لیکن اب ہماری حکومت نے اپنی پالیسی پر نظرثانی کی ہے۔ چنانچہ مجھے ہدایت کی گئی ہے کہ بنگلا دیش جماعت اسلامی سے رابطہ کروں، اور یہ پیغام پہنچاوں کہ ہم آپ سے لاتعلقی کے بجائے، اب دوستی کے خواہاں ہیں۔ میل جول اور مشاورت کا سلسلہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔

شہید مطیع الرحمٰن نظامی نے اِس پیام دوستی کا خیرمقدم کرتے ہوئے مثبت جواب دیا، بات چیت آگے بڑھی تو ہندوستانی سفارتکار نے کہا کہ بنگلا دیش کے عام انتخابات قریب آ رہے ہیں۔
ایسے مواقع پر ہم اپنے دوستوں کی انتخابی مہم کے اخراجات میں بھی حصہ بٹاتے ہیں۔ ہماری حکومت کی یہ خواہش ہے کہ اِس بار ہم اپنی نئی دوست بنگلادیش جماعت اسلامی کی انتخابی ضروریات پوری کرنے میں بھی اپنا حصہ ڈالیں۔ لہٰذا آپ بِلا تکلف ہمیں بتائیے کہ آپ کی پارٹی کو کتنی رقم درکار ہو گی۔ شہید نظامی نے سِفارتکار کا باوقار انداز میں شکریہ ادا کیا، اور کہا کہ آپ کو تو علم ہو گا کہ جماعت میں کوئی ایک فرد فیصلہ نہیں کرتا۔ ہمیں چند روز کی مہلت دیجیے تا کہ ہم اپنے ہاں مشاورت کر لیں۔ پھر آپ کو پارٹی کے جواب سے مطلع کر دیں گے۔چند روز بعد وہ دوبارہ بھارتی سفارت کار سے ملے اور اْسے بتایا کہ ہماری جماعت بنگلا دیش کے سب سے بڑے ہمسایہ اور نہایت اہم ملک، بھارت کی جانب سے دوستی کے پیغام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اِس پر خوشی محسوس کرتے ہوئے اِس کا خیر مقدم کرتی ہے۔

آپ ہمیں مخلص دوست پائیں گے۔مالی ضروریات پوری کرنے کی پیشکش پر ممنون ہیں۔ ہمارے درمیان بے لوث دوستی کا تقاضہ یہ ہے کہ کسی قسم کا عطیہ یا امداد نہ لیں۔ ہماری دوستی کو، ہر قسم کی غرض، لالچ، مفاد اور مالی منفعت سے مبرّا، بے نیاز اور بلند ہونا چاہیے۔ ہمارے درمیان صرف ایسی ہی دوستی، دیرپا، پکّی، پائیدار اور خوشگوار ہو گی۔یہ غیر متوقع جواب سْن کر اْس بھارتی سِفارت کار کا چہرہ لٹک گیا۔

مطیع الرحمٰن نظامی کی پٹیشن پر سماعت کے دوران بنگلادیش کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس سریندرا کمار سنہا نے یہ کہا کہ استغاثہ اتنا کمزور ہے کہ اس پر موت کی سزا نہیں دی
جا سکتی۔ لیکن جب سپریم کورٹ نے سزائے موت برقرار رکھی، تو نظامی شہید کے وکیل نے پوچھا کہ پہلے تو آپ نے یہ کہا تھا، مگر سزا کچھ اور دی ہے۔ جواباً چیف جسٹس نے کہا کہ ’’پاکستان کا ساتھ دینا ایسا جرم ہے، جس پر بار بار سزائے موت ملنی چاہیے۔‘‘ سپریم کورٹ کے حتمی فیصلہ سے ایک دن قبل ڈھاکا میں بھارتی ہائی کمشنر نے بنگلادیش سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس سریندرا کمار سنہا سے ایک گھنٹہ طویل ملاقات کی۔

نظامی شہید بنگلا دیش میں دو قومی نظریے اور متحدہ پاکستان کی زندہ و جاوید علامت تھے۔ انھوں نے بھارت کے استعماری عزائم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جماعت اسلامی بنگلا دیش کو خریدنے کے بھارتی عزائم کو ناکام بنا کر، اْسے ناراض کر دیا۔ حرف آخر یہ کہ بظاہر یہ دکھائی دے رہا ہے بنگلادیش بڑی تیزی سے ’’بھارت وَرش‘‘ کی دَلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ اگر وہ سِکِّم کی طرح بھارتی ریاست نہ بھی بنا، تب بھی بھوٹان سے زیادہ اس کا کوئی مقام نہیں ہو گا۔ کیا یہ ہے مشرقی بنگال کے مسلمانوں کا مقدر! نہیں جناب والا ایسا نہیں ہو گا۔ مرحوم خواجہ غفور نے اس کالم نگار کو واضح انداز میں بتایا تھا کہ حسینہ واجد بھی اپنے باپ کی طرح خوفناک انجام سے دوچار ہو گی اور بنگلا دیش دوبارہ دو قومی نظریے اور پاکستان کی طرف پلٹے گا۔

اے درد کے آہْو! کبھی اِس پار نہ آنا
اِس خطّہ سرسبز کے سینے میں ہے دَلدل!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔