کیا کچھ رہ گیا ہے کہنے کو

مقتدا منصور  جمعرات 26 مئ 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

امریکی صدر بارک اوباما کی جانب سے افغان طالبان ر ہنما ملا اختر منصور کے ڈرون حملے میں مارے جانے کے اعلان کے بعد اس کی موت میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں بچی ہے۔ ملا اختر منصور کی پاکستانی سرزمین پر موجودگی اور مارا جانا دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ اس سے قبل القاعدہ کا سربراہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد کے مضافات میں مارا جاچکا ہے، جہاں وہ کئی برسوں سے سکون کے ساتھ رہائش پذیر تھا۔ایسی ہی رپورٹ ملا اختر کے بارے میں بھی ہے  جو ولی محمد کے نقلی نام سے کئی برس تک کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں رہائش پذیر رہا۔ وہ اسی نام سے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی رکھتا تھا۔

اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد حسب معمول نام نہاد تجزیہ نگاروں نے امریکا پر ملاحیاں بھیجنا شروع کردیں، لیکن کسی میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ اپنے گریبان میں جھانک سکے اور اپنے منصوبہ سازوں کی کوتاہ بینی، نااہلی اور غلط فیصلوں پر تنقید کرسکے۔ تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ تعلقات کے بگاڑ کی ذمے داریاں کہیں کم کہیں زیادہ فریقین پر عائد ہوتی ہیں۔

اس لیے صرف امریکا کو مورد الزام ٹہرانا کسی طوردرست بات نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے، پاک امریکا تعلقات میں امریکی کردار پر گفتگو کرتے وقت تاریخ کے مختلف ادوار میں رونما ہونے والے مد و جزر کو ضرور مدنظر رکھا جائے۔اس کے علاوہ اس موضوع  پر اظہار خیال کرتے ہوئے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اول، امریکا ایک عالمی طاقت ہے، جس کے اپنے مخصوص عالمی مفادات ہیں۔ ان مفادات کے حصول کے لیے وہ کسی بھی خطے میں کسی بھی ملک کو استعمال کرسکتا ہے۔ دوئم، امریکا سے تعلقات ہماری ضرورت اور مجبوری ہے، امریکا کی دلچسپی نہیں۔ سوئم، پاک امریکا تعلقات میں سرد مہری اور گرم جوشی کے ادوار ستمبر1947 میں پہلے امریکی سفیر کے تقرر کے بعد ہی سے شروع ہوگئے تھے، جو آج تک جاری ہیں۔

چند برس قبل واشنگٹن میں حسین حقانی کی کتاب کی رسم اجرا کے موقعے پر پاکستان میں سابق امریکی سفیر رابرٹ اوکلے نے اپنی صدارتی تقریر میں جن خیالات کا اظہارکیا تھا، وہ پاک امریکا تعلقات کے مدوجزر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ عالمی سیاست میں ممالک کے درمیان مخلصانہ دوستی ایک احمقانہ تصور ہے۔ دو ممالک اپنے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔

آپ ہمارے اور ہم آپ کے قریب اپنے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر آئے ہیں۔ آپ اپنی قومی سلامتی کو لاحق خطرات سے بچنے کی خاطر ہمارا سہارا لیتے ہیں، جب کہ ہمیں جب بھی اس خطے میں اپنے اہداف کے حصول کے لیے حلیف کی ضرورت پڑی، آپ کو ان خدمات کو مہیا کرنے کے لیے تیار پایا۔ یعنی کوئی بھی خدمت جبراً نہیں لی گئی، بلکہ اس میں ہمیشہ آپ کی رضا و رغبت شامل رہی۔ اس کے علاوہ ہر خدمت کے عوض آپ کو مناسب معاوضہ دیا گیا جو ہمیشہ بروقت اداکیا گیا۔ ہم نے جن شرائط پر خدمات حاصل کیں، ان سے کسی سطح پر کبھی انحراف نہیں کیا۔ اس کے برعکس آپ نے ہمیشہ ان شرائط سے انحراف کیا۔ یہ ایک طویل تقریر تھی، جس میں بعض اہم مگر تلخ حقائق کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا تھا۔

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تقسیم ہند کے ساتھ ہی سرد جنگ شروع ہوگئی تھی۔ امریکا کو اس خطے میں ایک ایسے حلیف کی شدید ضرورت تھی، جو سوویت یونین کو بحر ہند کے گرم پانیوں تک پہنچنے سے روکنے میں معاون ثابت ہوسکے۔ اس لیے اس کی اولین ترجیح بھارت تھا، لیکن پنڈت نہرو کے سوشلسٹ خیالات ان تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ دوسری طرف پاکستان اپنی قومی سلامتی کے خود ساختہ خوف میں مبتلا کسی مضبوط سہارے کی تلاش میں تھا۔ یوں امریکا نے بحالت مجبوری پاکستان کو اس خطے میں اپنا حلیف بنایا۔ سیٹو اور سینٹو کی دستاویز اور ان معاہدوں پر لکھی گئی کتابوں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امریکا نے پاکستان پر مختلف مواقعے پر واضح کردیا تھا کہ اسے دیا جانے والا اسلحہ صرف اس خطے میں کمیونزم کا راستہ روکنے کے لیے ہے۔

پاک امریکا تعلقات میں گرم جوشی کا پہلا دور 1952 میں آئزن ہاور کے اقتدار میں آنے کے بعد شروع ہوا۔ یہ دور1962میں رونما ہونے والے دو واقعات کی وجہ سے سرد مہری میں تبدیل ہوگیا۔ اول، پاکستان نے امریکا کی خواہش کے مطابق چین بھارت جنگ میں حصہ نہیںلیا حالانکہ اس کی ذمے داری اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو پر عائد ہوتی ہے، جنہوں نے پاکستان سے کسی قسم کا تعاون لینے سے خود ہی انکار کردیا تھا۔

دوئم، اسی برس امریکا نے میزائل ٹیکنالوجی میں سوویت یونین پر برتری حاصل کرلی، یوں اس خطے میں اس کے اہداف خاصی حد تک تبدیل ہوگئے تھے جس کی وجہ سے پاکستان کی اہمیت میں بھی کمی آگئی تھی۔ سرد مہری کا یہ دور جنرل یحییٰ کے دور میں مختصر مدت کے لیے کم ہوا جب پاکستان نے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر کو خفیہ طور پر چین کے دورے پر جانے میں معاونت فراہم کی، مگر بھٹو مرحوم کے پورے دور میں تعلقات پر سرد مہری کے گہرے بادل چھائے رہے۔

جنرل ضیا کے دور میں جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں اور پاکستان کی مقتدر اشرافیہ نے سیاسی قیادتوں اور اہل دانش کے مشوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس جنگ میں براہ راست شریک ہونے کا فیصلہ کیا، تو پاک امریکا تعلقات میں گرم جوشی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ اس دوران پاکستانی حکمرانوں اور مذہبی جماعتوں نے امریکا کے ایما پر مذہب کے تصور جہاد کی جو تشریح و تفہیم کی اس نے سیاسی وسماجی ڈھانچے میںکئی پیچیدہ مسائل کو جنم دیا جن سے پاکستان آج تک نبرد آزما ہے۔

ساتھ ہی پاکستان کی قومی سلامتی بھی ان گنت پیچیدہ مسائل کا شکار ہوگئی۔ اس زمانے میں پاکستانی منصوبہ ساز افغانستان کے معاملات میں مداخلت کو بڑے فخر کے ساتھ تزویراتی گہرائی (Strategic depth)قرار دیا کرتے تھے۔ اس تزویراتی گہرائی نے خود پاکستان کو کن بحرانوں سے دوچار کیا اور آج تک گھیرا ہوا ہے؟ اس غلط تصور اور اس کے نتیجے میں کیے گئے غلط فیصلوں کو ہمارے منصوبہ سازآج بھی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں حالانکہ اس کھیل نے پاکستان کے پورے سیاسی و سماجیFabricکو بری طرح تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ پریسلر ترامیم کے بعد سرد مہری کا دوسرا دور شروع ہوا جو9/11 تک جاری رہا۔

9/11کے بعد ایک بار پھر گرم جوشی کا دور شروع ہوا، جو امریکا سے زیادہ خود ہماری غلط منصوبہ بندیوں کے باعث جلد ہی تیسری سرد مہری کا شکار ہوگیا جو آج خطرناک شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ دراصل پاکستان میں قائم ہونے  والی کوئی بھی حکومت خارجہ امور کے ایسے متحرک اور فعال اہداف تیار نہیں کرسکی جوعالمی ترجیحات سے مطابقت رکھتے ہوں جس کی وجہ سے ہم بڑی طاقتوں کے ہاتھوں استعمال تو ہوجاتے ہیں، مگر اپنے ملک و معاشرے کے لیے عالمی برادری سے ٹھوس اور پائیدار فوائد حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں، جب کہ بدنام الگ ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ روز اول ہی سے بدترین کنفیوژن اور تہذیبی نرگسیت میں مبتلا چلی آرہی ہیں، جس نے ہمیشہ غلط فیصلے کیے اور ان پر بے جا اصرار کیا ہے۔

عرض ہے کہ امریکا پر تنقید کرنے سے پہلے اپنے گریبانوں میںبھی جھانک لینا چاہیے۔کیاان68 برسوں میں ہمارے حکمرانوں اور منصوبہ سازوں نے کبھی کوئی ایسا فیصلہ کیا جو دانشمندی ، دوراندیشی اور حب الوطنی کا عکاس ہو؟ لیکن اس وقت ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ ملک کی مختلف کمیونٹیز کو ملک دشمن اور غدار قرار دینے والی حکمران اشرافیہ کا خود اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ جس کے مختلف محکمے اور شعبے غیر ملکی دہشت گردوں کو اپنی سرزمین پر پناہ دیتے ہیں۔ انھیں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کرتے ہیں اورعالمی سطح پر ملک کی رسوائی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔