ہاتھی کے دانت…؟

رئیس فاطمہ  جمعرات 26 مئ 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

آپ میری اس بات سے یقیناً اتفاق کریں گے کہ پاکستانی قوم جہاں کرپشن میں یدطولیٰ رکھتی ہے، وہیں کسی بھی کاروبار میں معیارکو برقرار نہیں رکھ پاتی، خواہ کاروبارکی نوعیت کیسی بھی ہو، لیکن جوں ہی نام بنا اور لوگوں میں امیج بہتر ہوا، وہیں چند ماہ بعد معیار اور سروس کے معاملے میں نیچے آتے دیر نہیں لگتی۔ بس سارا زور اشتہاربازی کے ذریعے روپیہ کمانا رہ جاتا ہے۔

مثلاً لاہورکی ایک بیکری کی نان خطائیاں بہت مشہور تھی جو بھی لاہور سے آتا بطور سوغات لاتا۔ واقعی بہت ہی لذیذ خستہ اور تازہ ہوتی تھیں، اوپری سطح پر بادام اور مونگ پھلی لگی ہوتی تھی، ہم خود بھی لاہور جاتے تو کراچی والوں کے لیے بطور تحفہ لاتے۔ پھر یوں ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس بیکری کے بے شمار فرنچائزکھل گئے، نان خطائی کے علاوہ کیک اور مٹھائی وغیرہ بھی ملنے لگیں، لیکن فرنچائز کی بہتات کے ساتھ ہی مزہ کہیں غائب ہوگیا۔ نان خطائیوں میں سے بھوسی ٹکڑوں کی بو آنے لگی۔ نتیجہ یہ کہ وہ جو ذائقے سے واقف تھے، انھوں نے کھانے سے توبہ کرلی۔ لیکن وہ نمائشی لوگ جن کا سوائے پیسے کے کوئی معیار نہیں ہوتا۔ وہ اب بھی ان دکانوں سے کیک اور بسکٹ خریدتے ہیں۔ لیکن یہ وہ لوگ ہیں جنھیں ذائقے کا ادراک ہی نہیں۔بس دکان شاندار ہے اس لیے خرید لو۔

اسی طرح پاکستان میں جب پوسٹ آفس کی سروس کا زوال ہوا، لیٹر بکس غائب ہوگئے۔ رجسٹرڈ لیٹر دو دو ہفتوں بعد ملنے لگے۔ تو کھمبیوں کی طرح پرائیویٹ کوریئر کمپنیاں وجود میں آگئیں۔ سروس اچھی دی۔ چوبیس گھنٹے کے اندر (Over Night) کوئی بھی آئٹم اندرون ملک پہنچانے کا ثبوت بھی دیا۔ کئی کئی کوریئر کمپنیاں میدان میں آگئیں، دعوؤں کی بھرمار کے ساتھ ہی تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد من مانے طریقے سے معاوضوں میں اضافہ کرتے رہے۔

جو خود ستائی اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے میں سب سے آگے ہیں۔ اب ان کی کارگزاری ملاحظہ ہو۔ 11 مئی کو دوپہر میں قریبی علاقے کے فرنچائز سے اتوار کے لیے کام بھیجا اور مطمئن ہوگئی۔ لیکن اس وقت پریشانی کی انتہا نہ رہی جب جمعہ 13 مئی کو ایکسپریس سے فون آیا کہ ’’ابھی تک کالم موصول نہیں ہوا۔‘‘ متعلقہ سینٹر پہ شکایت درج کروائی گئی تو وہاں موجود شخص نے نہایت لاپرواہی سے جواب دیا کہ انھوں نے تو Shipment ہیڈ آفس بھیج دیا اب آپ انھی سے پتہ کریں۔ تاہم کئی کئی بار جانے کے بعد وہ کالم 16 مئی کی شام کو ایکسپریس کے دفتر پہنچا۔ اسی لیے گزشتہ اتوار کو میرا کالم نہیں لگ سکا تھا۔ لیکن اس ’’اعلیٰ کارکردگی‘‘ پر متعلقہ ادارے کی طرف سے کوئی معذرت نہیں آئی۔

پھر 16 مئی کی شام کو دوسرے علاقے کے آفس سے دوسرا کالم ایکسپریس بھیجا گیا، جو تادم تحریر (18مئی) اپنی منزل تک نہیں پہنچا ہم پھر متعلقہ سینٹر پہنچے تو وہاں کوریئر کے مخصوص مونوگرام کی ریڈ ٹی شرٹ زیب تن کیے نوجوان نے بھی وہی بیان دیا جو پہلے آفس والوں نے دیا تھا کہ ’’ہم نے تو ہیڈ آفس بھیج دیا اب آپ ان سے معلوم کریں۔‘‘ تب تمام تر آداب خوش اخلاقی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میں نے انھیں احساس دلایا کہ وہ کتنی غلط بات کر رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ اپنی Shipment کی معلومات کے لیے فرنچائز کے مالک کا جو نمبر دیا گیا تھا وہ 17 مئی کی شام کو بھی بند تھا اور 18 مئی کو دوپہر بارہ بجے تک بھی بند تھا۔ بعد میں جب ان سے شکایت کرتے ہوئے کہا گیا کہ پیسے آپ لیتے ہیں، رسید بھی آپ ہی دیتے ہیں تو Shipment نہ پہنچنے کی ذمے داری بھی آپ ہی کی ہے۔

ہم کیوں ہیڈ آفس سے معلوم کریں؟ لیکن وہ بضد تھے اور شاید صحیح بضد تھے اور اپنی بات پہ اڑے تھے کہ وہ نہیں ہیڈ آفس ذمے دار ہے۔ رات کے اس وقت ساڑھے گیارہ بجے ہیں۔ متعدد بار ہیڈ آفس والوں سے بھی رابطہ ہوا۔ انھوں نے ایک گھنٹے میں کالم پہنچانے کی یقین دہانی کروائی۔ شام چھ بجے انھوں نے کہا کہ رائیڈر راستے میں ہے۔ ہم ابھی ایک گھنٹے میں آپ کی Shipment پہنچنے کی تصدیق کرتے ہیں۔ لیکن اب تک ان کا ایک گھنٹہ پورا نہیں ہوا۔ اس لیے ایمرجنسی میں دوسرا کالم لکھ رہی ہوں کہ طبیعت آج کل پھر ناساز ہے۔ میں نے تو اب اس کوریئر سروس سے کچھ بھی بھیجنے سے توبہ کرلی ہے۔

چار سال قبل بھی اسی کوریئر کمپنی کی شکایت میں نے درج کرائی تھی کہ 27 ہزار کا ایک چیک کوریئر والا بلڈنگ کے ایک لاوارث لیٹر بکس میں ڈال گیا تھا۔ جو چوکیدار نے ہمیں لاکر دیا۔ تب بھی شکایت کی گئی تھی۔ جواب یہ ملا تھا کہ نیا لڑکا تھا اس لیے ایسی غیر ذمے داری ہوگئی۔ اس بار تو وجہ صاف ظاہر ہے کہ کراچی سے باہر سے آنے والے غریب بے روزگار نوجوانوں کو کم تنخواہوں پہ بھرتی کرلیا جاتا ہے۔ جو اس بڑے شہر کے راستوں سے قطعی ناواقف ہیں۔ ایسٹ زون کی چیز South میں چلی جاتی ہے۔ مغرب کی مشرق میں۔ حد تو یہ ہے کہ جو لڑکے رسید بناتے ہیں انھیں اردو پڑھنی نہیں آتی۔ اگر پتہ اردو میں لکھا ہوتا ہے تو ان کا اصرار ہوتا ہے کہ اسے انگریزی میں لکھ دیا جائے تاکہ وہ اسپیلنگ دیکھ کرکی بورڈ کے ذریعے مکھی پہ مکھی مار سکیں۔

اور بھی بہت سے لوگوں نے مجھے اس کوریئر سروس کے بارے میں بہت کچھ بتایا تھا کہ ایک شہر سے دوسرے شہر بھیجا جانے والا تحفہ جو مخصوص باکس میں ڈال کر بھیجا جاتا ہے وہ بھی بہت لیٹ پہنچا۔ کئی سال پہلے کسی کی سالگرہ پر اسلام آباد میں نے کچھ بھیجا تھا جو وقت گزرنے کے بعد ملا تھا۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ساکھ بنا لینا کوئی کارنامہ نہیں بلکہ اس ساکھ کو قائم رکھنا ایک مشکل کام ہے۔ خواہ مٹھائی کی دکان ہو، بیکری ہو، نہاری ہاؤس ہو یا کچھ اور۔ بہرحال ساکھ بگڑ جانے کے بعد اس کا سنبھلنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ بات کاروباری اداروں کو سمجھ لینی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔