طاغوت سے انکار۔ غلطی ہائے مضامین (آخری قسط)

اوریا مقبول جان  جمعـء 27 مئ 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

اس موضوع پر درجن بھر تحریریں دونوں جانب سے پیش کی جا چکی ہیں جن میں ایک لفظ بار بار استعمال ہوا ہے ’’طاغوت‘‘۔ یوں لگتا ہے ہم دونوں نے یہ تصور ذہن میں باندھ لیا ہے کہ پڑھنے والوں کو اس لفظ کی اصل، ماہیت اور معانی سے مکمل واقفیت ہے۔

اس لیے آج تک ہم دونوں نے اس اہم ترین قرآنی اصطلاح پر تفصیل سے گفتگو نہیں کی۔ حالانکہ اگر صرف قرآن پاک کو ہی تفہیم کے لیے استعمال کر لیا جائے تو اس لفظ کے معانی، مطالیب اور مفہوم کھل کر واضح ہو جاتے ہیں۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے جن پیرائیوں میں اس لفظ کو استعمال کیا ہے اس سے ہر زمانے کے طاغوت کی بھی نشاندہی ہو جاتی ہے۔ عربی لغت میں اس کے لفظی معانی بت، جادوگر، گمراہوں کا سردار، سرکش، دیو اورکاہن کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ عربی لغت کے ماہر امام جوہری نے طاغوت کی تعریف ان لفظوں میں کی (والطاغوت الکاہن و الشیطان و کل راس فی الضلال)۔ طاغوت کا اطلاق کاہن  اور شیطان پر بھی ہوتا ہے اور اس شخص پر بھی جو کسی گمراہی کا سرغنہ ہو۔ قرآن حکیم میں یہ لفظ آٹھ بار آیا ہے اور ہر بار اﷲ نے اس کے مطالیب واضح کیے ہیں۔

پہلی دفعہ سورہ بقرہ میں ٹھیک آیت الکرسی کے بعد آیت نمبر 256 اور 257 میں دو بار آیا اور حق و باطل کی تمیز کے لیے آیا۔ اﷲ فرماتے ہیں ’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے، ہدایت کا راستہ گمراہی سے ممتاز کر دیا گیا۔ اس کے بعد جو شخص ’’طاغوت‘‘ کا انکار کر کے اﷲ پر ایمان لے آئے گا، اس نے ایک مضبوط کنڈا تھام لیا جس کے ٹوٹنے کا امکان نہیں اور اﷲ خوب سننے اور جاننے والا ہے (البقرہ 256)۔ اس کے بعد اﷲ ایک ذمے لیتا ہے ’’اﷲ ایمان والوں کا رکھوالا ہے، وہ انھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے، لیکن جن لوگوں نے کفر کیا وہ طاغوت کے ساتھی ہیں جو انھیں روشنی سے نکال کر اندھیروں میں لے جاتا ہے (البقرہ 257)۔ دونوں آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ طاغوت سے انکار ایمان کی شرط اول ہے۔ اﷲ اور طاغوت کی فرماں برداری ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتی۔ تیسری مرتبہ قرآن پاک میں اس کا ذکر سورہ النساء کی 51 ویں آیت میں ہے۔

یہ ان اہل کتاب کے بارے میں ہے جو یہودی یا عیسائی ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ بت پرست مسلمانوں سے بہتر ہیں۔ ’’جن لوگوں کو کتاب میں سے ایک حصہ دیا گیا، کیا تو نے نہیں دیکھا وہ بتوں اور ’’طاغوت‘‘ کی تصدیق کر رہے ہیں اور کافروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مومنوں سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اﷲ نے لعنت ڈال دی ہے اور جس پر اﷲ پھٹکار ڈال دے اس کے لیے تم کوئی مدد گار نہ پاؤ گے‘‘ (النساء51،52)۔ اس آیت کی شان نزول یہ ہے کہ مدینے کا یہودی کعب بن اشرف مکہ گیا تھا تو ابوسفیان نے پوچھا کہ ہمارا مذہب اچھا ہے کہ مسلمانوں کا تو اس نے کہا تمہارا یعنی بت پرستی۔ اﷲ نے یہاں بتوں اور طاغوت کو علیحدہ کیا یعنی مکے کے مشرکانہ نظام کو طاغوت کہا۔ اس کے بعد سورہ النساء کی ساٹھویں آیت میں تو اﷲ نے بات اتنی واضح کر دی کہ قیامت تک طاغوت کی پہچان میں مشکل پیش نہ آئے اور ان کے ساتھیوں کو پہچاننا بھی آسان ہو۔

فرمایا ’’کیا تم نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس کلام پر بھی ایمان لائے جو تم پر نازل کیا گیا اور اس پر بھی تم سے پہلے نازل کیا گیا، لیکن اس کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنا مقدمہ فیصلے کے لیے ’’طاغوت‘‘ کے پاس لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ کھل کر انکار کریں اور شیطان چاہتا ہے کہ انھیں بھٹکا کر پرلے درجے کی گمراہی میں مبتلا کر دے (النساء 60)۔ یہاں اﷲ نے وضاحت کے لیے شیطان اور طاغوت کو علیحدہ کر کے بتایا۔ یعنی طاغوت وہ لوگ ہیں جو اﷲ کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے اور بدترین گمراہی کا شکار وہ مسلمان ہیں جو ان کے پاس ان کے قوانین کے مطابق فیصلہ کروانے جاتے ہیں۔ اس آیت کو آج کے دور کے کسی بھی ریاستی نظام پر رکھ کر پرکھ لیں مجھے کوئی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ طاغوت بھی سمجھ میں آ جائے گا اور اس کا وہ نظام بھی جو اﷲ کے قوانین سے انکار پر بنیاد رکھتا ہے۔

اس کے  بعد اﷲ نے اسی سورہ النساء کی 76 ویں آیت میں پوری دنیا میں لڑنے والے دو گروہوں کی نشاندہی فرما دی۔ ’’جو لوگ ایمان لائے ہوئے ہیں وہ اﷲ کے راستے میں لڑتے ہیں اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ طاغوت کے راستے میں لڑتے ہیں، لہٰذا اے مسلمانو! تم شیطان کے دوستوں سے لڑو۔ شیطان کی چالیں کمزور ہیں (النساء 76)۔ یہاں اﷲ نے لفظ قتال کا استعمال کیا ہے یعنی ایمان والوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ شیطان کے دوست طاغوت سے جنگ کرتے ہیں اور کافروں کی پہچان یہ ہے کہ وہ طاغوت کے ساتھ مل کر جنگ کرتے ہیں۔

یہاں بھی بات اتنی واضح ہے کہ کسی وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اس کے بعد سورہ المائدہ کی آیت نمبر ساٹھ میں بنی اسرائیل کے ان گروہوں کو طاغوت کے بندے کہا گیا جنہوں نے اللہ کے احکامات سے انکار کیا اور ان کو بندر اور سُور بنا دیا گیا۔ ساتویں دفعہ سورہ النحل کی آیت نمبر 36 میں اس کا ذکر ہے ’’ہم نے ہر امت میں کوئی نہ کوئی پیغمبر اس ہدایت کے ساتھ بھیجا کہ تم اﷲ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو‘‘۔ آخری یعنی آٹھویں دفعہ سورہ الزمر کی 17 ویں آیت میں اللہ نے فرمایا ’’جن لوگوں نے طاغوت کی غلامی سے پرہیز کیا اور اللہ سے لو لگا لی، خوشی کی خبر انھی کے لیے ہے‘‘ (الزمر 17)۔ ان تمام آیات سے طاغوت کا صرف اور صرف ایک ہی مفہوم نکلنا ہے ’’اﷲ سے سرکشی اور بغاوت‘‘ اور اس کے حکم سے انکار۔ آپ اس معیار پر ان تمام لوگوں کو رکھ کر دیکھ لیں جو اﷲ کے قانون کو دقیانوسی، قدیم اور آج کے دور کے لیے ناقابل عمل سمجھتے ہیں۔

وہ اسے پسماندگی کی علامت گردانتے ہیں۔ اﷲکے کلام کو سینے سے لگاتے ہیں لیکن اس کے مطابق فیصلہ کرنے سے انکار کرتے ہیں بلکہ اپنے فیصلے اس نظام کے مطابق بنائے گئے قوانین سے کرتے ہیں جو اﷲ سے سرکشی اور بغاوت پر مبنی ہیں۔ دنیا کی ہر جدید ریاست کے  اقتدار اعلیٰ کا ماخذ اور منبع عوام ہیں۔ عوام جسے چاہیں اس پر سرفراز کر دیں جب کہ اسلام کے نزدیک یہ منصب ’’الملک‘‘ یعنی حاکم مطلق صرف اور صرف اﷲ کے پاس ہے اور وہ صرف اس لیے کہ آئین کی کتاب کے آرٹیکل میں اس کا نام رکھ دیا جائے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ یہی تو اﷲ نے فرمایا کہ وہ مجھ پر ایمان لاتے ہیں، آئین میں مجھے حاکم بھی لکھتے ہیں لیکن اپنے فیصلے طاغوت سے کرواتے ہیں۔

اینگلو سیکسن قوانین کے مطابق ان کی عدالتیں کام کرتی ہیں۔ ان کی خارجہ اور داخلہ پالیسی ان لوگوں کی مطیع ہے جو اﷲ سے سرکشی اور بغاوت کے علمبردار ہیں۔ وہ ان کے شانہ بشانہ لڑتے ہیں۔ فیصلہ کرنا یا کروانا، جنگ یا قتال کرنا، اﷲکی بادشاہی سے انکار کرنا یا اسے ماننا کیا یہ سب ایک سیاسی اور اجتماعی نظام کا حصہ نہیں ہوتا۔ دنیا کے تمام جدید علوم اس بات پر متفق ہیں کہ انسان کو ریاست کی ضرورت صرف دو اہم ضرورتوں کے لیے ہوتی ہے ایک امن عامہ اور رعایا کا تحفظ اور دوسرا انصاف۔ ورنہ لوگ ہزاروں سال اپنی سڑکیں خود بناتے تھے، اپنے کمزوروں کا خیال خود رکھتے تھے، ان کے اپنے طبیب اور حکیم تھے، وہ کاروبار بھی خود کرتے تھے اور فلاح و بہبود بھی۔ ہاں انصاف اور تحفظ کے لیے انھیں ایک ادارے کی ضرورت تھی اور وہ تھا ریاست۔ یہ ریاست انصاف کے مطابق فیصلے کرتی ہے۔ اﷲ فرماتا ہے جو میرے قوانین کے مطابق فیصلے نہیں کرتا وہ طاغوت ہے۔ کیا یہ صرف معاشرتی ذمے داری ہے۔ نہیں یہ سیاسی اور ریاستی مذہب ہے اور اسلام کا مقصود بھی۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ طاغوت کے زیر اثر اس عالمی نظام میں طاغوت کا نکار کیسے کیا جائے اور اﷲ کی بندگی اور غلامی کا طوق کس طرح پہنا جائے۔ اﷲ نے انسانوں کی ہمت و استعداد کے مطابق اس کا راستہ دکھایا ہے۔ اﷲ فرماتا ہے ’’اﷲ کا تقویٰ اختیار کرو جس قدر تمہاری استطاعت ہے (التفا بن 16)۔ استطاعت کا علم ہر انسان کو ہوتا ہے اور اﷲ کو تو اس کا بخوبی علم ہے۔ اﷲ نے جس کو جتنی استطاعت اور طاقت دی ہے اس کی اسی حساب سے جوابدہی ہو گی۔ جس کو اﷲ نے قلم عطا کیا اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اس قلم کو طاغوت کے انکار کے لیے کس قدر استعمال کیا۔

جس کو اﷲ وزارت عظمیٰ عطا کرے گا اس کی جواب دہی اسی حساب سے ہو گی اور ممبران پارلیمنٹ کی اسی کسوٹی پر۔ جو وزیراعظم استطاعت رکھتے ہوئے بھی اگر طاغوت کے قانون کے خلاف عمل نہیں کرے گا، اس کا جواب دہ اﷲ کے حضور ہو گا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب اگر معاشی حالات کے لیے، یحییٰ خان اگر امن عامہ کی بحالی کے لیے، ضیا الحق اگر عوامی امنگوں کے لیے اور پرویز مشرف فوج کے سپہ سالار کی عزت کے لیے حکومت پر قبضہ کرنے کی استطاعت رکھتے اور نظام کو بدلنے کی قوت بھی تو پھر کل روز آخرت ان سے ان کے پاس موجود استطاعت کے بارے میں ضرور سوال ہو گا کہ اس قوت سے جو ان کو عطا کی گئی انھوں نے کس قدر طاغوت کا انکار کیا گیا۔ یہ کامیابی اور ناکامی کے سودے نہیں۔ یہ انکار اور اقرار کی منزل ہے۔ قیامت کے روز ہزاروں پیغمبر ایسے ہوں گے جن کے پیچھے ایک بھی امتی نہ ہو گا۔کیا وہ ناکام ہو گئے۔ ان سے زیادہ کامیاب کون ہے۔کامیابی تو ہے ہی طاغوت سے انکار اور اﷲ کی غلامی کے اعلان میں پوشیدہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔