ای کامرس۔۔۔ بس چند ’’کلکس‘‘ اور مطلوبہ شے آپ کے پاس

سید بابر علی  اتوار 29 مئ 2016
پاکستان میں آن لائن شاپنگ کا فروغ، انٹرنیٹ مرچنٹ اکاؤنٹ کے حصول میں مشکلات رکاوٹ بنی ہوئی ہیں ۔ فوٹو : فائل

پاکستان میں آن لائن شاپنگ کا فروغ، انٹرنیٹ مرچنٹ اکاؤنٹ کے حصول میں مشکلات رکاوٹ بنی ہوئی ہیں ۔ فوٹو : فائل

آن لائن کاروبار ایک ایسا جدید طریقۂ تجارت ہے جس میں صارف گھر بیٹھے اپنی من پسند چیز کو کچھ ہی دیر میں حاصل کرسکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی نسبت پاکستان میں آن لائن خریداری کا رجحان زیادہ پرانا نہیں، لیکن مواصلاتی انفرا اسٹرکچر میں بہتری کے بعد آن لائن شاپنگ اسٹورز کی بھرمار نے پاکستانی صارفین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی ہے۔ کراچی جیسے شہر میں جہاں امن و امان کی صورت حال خراب ہونے میں لمحہ بھی نہیں لگتا، یہ سہولت نعمت مترقبہ سے کم نہیں ہے۔ ویب سائیٹ یا اسمارٹ فون کی ایک ایپلی کیشن اشیائے خورونوش سے معروف برانڈ کے جوتوں اور کپڑوں تک کو چند ہی لمحوں میں آپ کی دسترس میں کردیتی ہے۔

پاکستان میں آن لائن شاپنگ کا آغاز انٹرنیٹ پر ٹی شرٹ، گھڑیوں، کتابوں اور چشموں کی فروخت سے ہوا۔ تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کے بعد سے اس کاروبار کے حجم میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آٰیا ہے۔ اب پاکستان کے بڑے شہروں کے رہائشی گھر بیٹھے موبائل فونز، کمپیوٹر، جوتے کپڑے، ریفریجریٹر ایئرکنڈیشنر تک محض ایک کلک پر خرید سکتے ہیں۔

پاکستان میں آن لائن شاپنگ کے فروغ میں درپیش رکاوٹوں میں سے ایک رکاوٹ صارف سے رقم کی وصولی کا طریقۂ کار ہے۔ بڑی آن لائن شاپنگ ویب سائٹس نے کریڈٹ کارڈ ، کیش آن ڈیلیوری اور رقوم وصول کرنے کے لیے بہت سے طریقے متعارف کروا رکھے ہیں، تاہم نئے اور چھوٹے کاروباری افراد کو شاپنگ ویب پورٹل بنانے میں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ انٹرنیٹ ویب سائٹ پر خریدوفروخت کے لیے انٹرنیٹ مرچنٹ اکاؤنٹ کا ہونا ضروری ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 2002میں انٹرنیٹ مرچنٹ اکاؤنٹ کے قواعد وضوابط وضح کردیے تھے۔

تاہم پاکستان میں آن لائن شاپنگ، آن لائن بینک کاری کریڈٹ کارڈ، ڈیبٹ کارڈ سے ادائیگی اور انٹرنیٹ صارفین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں انٹرنیٹ مرچنٹ اکاؤنٹس کی تعداد نسبتاً کم ہے۔ ای کامرس کی صنعت سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آن لائن شاپنگ پورٹل کے فروغ میں ایک اہم رکاوٹ انٹرنیٹ مرچنٹ اکاؤنٹ کا حصول ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی کی اکثریت کریڈٹ کارڈ استعمال نہیں کرتی اور جن کے پاس کریڈٹ کارڈ موجود ہیں وہ اسے انٹرنیٹ پر استعمال کرنے میں تذبذب کا شکار رہتے ہیں، کیوں کہ انہیں دھوکے بازی کا نشانہ بننے کا ڈر لاحق ہوتا ہے، جب کہ کچھ لوگوں کے نزدیک خریداری کے لیے سب سے بہتر طریقہ آن لائن کے بجائے خود دکان پر جا کر اشیاء خریدنا ہے، کیوں کہ اس طرح آپ اپنی مطلوبہ اشیاء کو اچھی طرح دیکھ بھال کر خریدتے ہیں۔

پاکستان میں اس کاروبار کے لیے کیش آن ڈیلیوری کا استعمال سب سے زیادہ کیا جا رہا ہے۔ اس طریقۂ کار میں صارف کی مطلوبہ پروڈکٹ کو گھر پر پہنچانے کے بعد ہاتھوں ہاتھ پیسے وصول کرلیے جاتے ہیں۔ آن لائن کاروبار میں بڑھتی ہوئی مسابقت نے اسٹورز کو اپنے صارفین کے لیے سروس یا اشیاء کی قیمتوں میں رعایت دینے پر بھی مجبور کردیا ہے۔ خصوصاً کھانے پینے کی چیزوں میں یہ طریقہ سب سے زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے۔

آن لائن خریداری میں فروخت کنندہ اور خریدار دونوں ہی کو فائدہ ہے، کیوںکہ صارف کا وقت اور فروخت کنندہ کی فزیکل اسٹور کھولنے اور ملازمین کی فوج بھرتی کرنے کے جھنجھٹ سے جان چھُٹ جاتی ہے، جس کا فائدہ خریدار کو قیمت میں رعایت کی شکل میں ملتا ہے۔ پاکستان میں آن لائن خریداری کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بابت دراز ڈاٹ پی کے کی کمیونی کیشن ہیڈ سمن جاوید کا کہنا ہے کہ ہمیں عوام سے جس طرح کا ردعمل مل رہا ہے، اسے مدنظر رکھتے ہوئے اور لوگوں کا اس پر بڑھتا ہوا اعتماد پاکستان میں ای کامرس کے روشن مستقبل کی دلیل ہے۔

دراز اور اس جیسی دوسری آن لائن شاپنگ ویب سائٹس سے خریداری کی شرح میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے جس کا اہم سبب پاکستان میں تھری جی اور فورجی سروس کے آغاز کے بعد انٹرنیٹ کے معیار میں بہتری اور اسمارٹ فونز کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ گھر بیٹھے اپنی من پسند چیزوں کی خریداری نے عوام کی زندگی میں سہولتوں کا ایک نیا در وا کردیا ہے۔ اگر ای کامرس کو نجی اور حکومتی شعبے کی طرف سے فروغ دیا جائے تو یقیناً اس سے ہماری برآمدات میں اضافہ ہوگا، جس کے ملک کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

اگر ہم ٹیکنالوجی کو موثر طریقے سے استعمال کریں تو اس سے پاکستان کی برآمدات کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں بننے والی بہت سی مصنوعات کی غیرملکی منڈیوں میں بہت زیادہ مانگ ہے لیکن وہاں کے خریدار سیکیوریٹی خدشات کی وجہ سے پاکستان آنے سے کتراتے ہیں۔ لیکن ہم شاپنگ ویب پورٹل کی مدد بیرون ملک پاکستانی مصنوعات متعارف کرواسکتے ہیں، اور یقیناً برآمدات بڑھنے سے ملک کے زر مبادلہ میں بھی اضافہ ہوگا۔

پروڈکٹ کے معیار اور ڈیلیوری کے درمیان ہونے والے نقصان کی بابت سمن جاوید کا کچھ یوں کہنا ہے، ہمارے اسٹور پر تمام مصنوعات معیاری ہوتی ہیں، لیکن اس کے باوجود صارف کو کسی نقصان سے بچانے کے لیے واپسی کی پالیسی رکھی ہے، تاکہ صارف پروڈکٹ کے معیار سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں ہم سے مطلوبہ اشیاء واپس یا تبدیل کرواسکے۔ ڈیلیوری کے درمیان ہونے والے کسی بھی نقصان کا ذمے دار آن لائن اسٹور ہی ہوتا ہے۔

آن لائن شاپنگ میں دھوکا دہی کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے: ای کامرس میں دھوکا دہی کے امکانات کم ہیں، کیوں کہ تمام ٹرانزیکشنز ایک طریقۂ کار اور ریکارڈ کے ساتھ ہوتی ہیں۔ تاہم کیش آن ڈلیوری کی صورت میں کبھی کبھار ایسا ہوجاتا ہے کہ پروڈکٹ کی ترسیل کرنے والے فرد کو مار پیٹ کر وہ پروڈکٹ رکھ لی جاتی ہے۔ لیکن ایسے واقعات کی شرح بہت کم ہے۔ حکومتی سطح پر ای کامرس کے لیے کوئی قانون وضح نہیں کیے گئے ہیں۔ تاہم تھری جی اور فور جی کے لائسنس کے اجراء سے اس صنعت کی بالواسطہ مدد ہوئی ہے، لیکن اس کے فروغ کے لیے ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان کا مثبت پہلو اُجاگر ہوگا، بل کہ اس سے ملنے والا کثیر زرمبادلہ پاکستانی معیشت کی بہتری میں اہم کردار ادا کرے گا۔

آن لائن خریداری کے حوالے سے ایک نجی یونیورسٹی کے طالب علم اور آن لائن اشیاء کے خریدار حارث رحمان کا کہنا ہے کہ آن لائن خریداری میں آپ کے سامنے مصنوعات کی ایک وسیع رینج موجود ہوتی ہے اور مختلف ڈسکاؤنٹ واؤچر اور ڈیل کی شکل میں رعایت بھی مل جاتی ہے۔ میں اب آن لائن خریداری ہی کو ترجیح دیتا ہوں، کیوںکہ اس سے آپ بازاروں میں گھوم کر وقت ضایع کرنے سے بچ جاتے ہیں۔

لیکن کچھ لوگوں کا آن لائن خریداری کا تجربہ زیادہ خوش گوار نہیں رہا ہے۔ ایسے ہی ایک صارف عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ میں نے ایک بڑی آن لائن شاپنگ ویب سائٹ پر کپڑوں کی خریداری کی، لیکن جو کپڑے مجھے بھیجے گئے وہ ڈیزائن پسند کیے گئے ڈیزائن سے یکسر مختلف تھا۔ ہیلپ لائن پر شکایات درج کرانے کے بعد بھی نہ ہی وہ ڈیزائن تبدیل کیا گیا اور نہ ہی کمپنی کے کسی نمائندے نے میرے مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدگی ظاہر کی۔ پاکستان میں اب پراپرٹی کا کاروبار بھی آئن لائن ویب سائٹ کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ اس طریقۂ کار میں لوگ اپنی جائیداد کی خریدو فروخت اور کرائے پر دینے کے لیے متعلقہ ویب سائٹ پر مطلوبہ معلومات درج کردیتے ہیں۔

آن لائن کاروبار میں اہم کردار سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک کا بھی ہے، جس کے ذریعے دست کاری، کپڑے اور دیگر اشیاء کی خریدوفروخت کا کاروبار کام یابی سے جاری ہے۔ خواتین کی بڑی تعداد فیس بک پر ہاتھوں سے بنے تہنیتی کارڈز، دست کاری کا سامان اور ڈیزائنر ملبوسات کی فروخت سے گھر بیٹھے ہزاروں روپے کما رہی ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں آن لائن شاپنگ کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان سے روایتی کاروبار کی بقا کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں، لیکن ان تمام باتوں سے قطع نظر بازار اور شاپنگ سینٹرز میں جا کر خریداری کرنا ایک سماجی روایت ہے اور دوستوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا ایک بہانہ بھی۔ اس لیے اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ آن لائن اسٹور فزیکل اسٹور کا ختم کردیں گے۔

ای کامرس کیا ہے؟
ای کامرس ایک ایسا طریقہ تجارت ہے جس میں کوئی بھی فرد گھر بیٹھے انٹرنیٹ پر کمپیوٹر کی مدد سے مختلف خدمات (بینک، ریسٹورینٹ، یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی وغیرہ) سے مستفید ہوسکتا ہے، بل کہ سوئی سے لے کر گاڑی تک خرید سکتا ہے۔

ای کامرس رقوم کی بذریعہ انٹرنیٹ منتقلی، سپلائی چین مینیجمنٹ، انٹرنیٹ مارکیٹنگ، انوینٹری مینیجمنٹ سسٹم اور موبائل کامرس جیسی ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی ہے۔ دنیا بھر میں آن لائن تجارت کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

آن لائن شاپنگ ای کامرس ہی کی ایک شاخ ہے جس میں صارف انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے فروخت کنندہ سے براہ راست مختلف اشیاء یا خدمات خریدتا ہے۔ ان ویب اسٹورز پر تمام مصنوعات کو مختلف درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جس سے صارف کو نہ صرف اپنی مطلوبہ اشیاء خریدنے میں کم وقت لگتا ہے بل کہ وہ صرف ایک کلک پر متعلقہ پروڈکٹ کی تمام معلومات بھی حاصل کر سکتا ہے۔ ان شاپنگ پورٹلز پر اہم مذہبی اور قومی تہواروں پر رعایت بھی دی جاتی ہے۔ اس طریقۂ کار کو تیکنیکی زبان میں بی ٹو سی (بزنس ٹو کنزیومر) کہا جاتا ہے۔

مواصلات اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تیزرفتاری سے ہونے والی پیش رفت نے آن لائن شاپنگ کا رجحان ترقی یافتہ ممالک سے ترقی پذیر ممالک تک پھیلا دیا ہے۔ آن لائن شاپنگ کی 25ہزار سے زاید کمپنیوں کی نمائندگی کرنے والی ای کامرس یورپ ایسوسی ایشن، غیرسرکاری تنظیم ای کامرس فاؤنڈیشن، آن لائن ادائیگی کی خدمات مہیا کرنے والی امریکی کمپنی گلوبل کلیکٹ اور عالمی بینک کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق دنیا کی کُل آبادی کا 48 فی صد دو ارب 73کروڑ70لاکھ افراد (ایک دن سے چودہ سال تک کی عمر کے بچوں کو ہٹا کر) انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے اور اس میں سے 20فی صد یعنی ایک ارب 13کروڑ90لاکھ (ایک دن سے چودہ سال تک کو ہٹا کر) افراد انٹرنیٹ کے ذریعے خریداری کرتے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق2015 میں دنیا بھر میں ای کامرس کے ذریعے ہونے والا لین دین 15.9فی صد اضافے کے ساتھ2251 ارب ڈالر سے زاید رہا۔ 2015 میں صرف دنیا کے دس ممالک چین، امریکا، برطانیہ، جاپان، جرمنی، فرانس، اسپین، کینیڈا، روس اور آسٹریلیا کے صارفین نے 1594ارب ڈالر آن لائن خریداری پر خرچ کیے، جس کا فی کس اوسط 1707ڈالر بنتا ہے، جب کہ گذشتہ سال دنیا بھر میں ہونے والی آن لائن خریداری میں چین ، امریکا اور برطانیہ کا 61فی صد حصہ رہا۔ ویب سائٹ سے خریداری میں ایشیا پیسیفک خطہ سرفہرست رہا۔ جغرافیائی لحاظ سے دنیا بھر میں آن لائن خریداری کے اعداد و شمار کچھ یوں رہے:

آن لائن شاپنگ سے قبل کی احتیاطی تدابیر

آن لائن شاپنگ میں سہولت کے ساتھ فراڈ کے خطرات بھی موجود ہیں۔ تاہم احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے فراڈ کے امکانات کو ختم یا کم کیا جاسکتا ہے۔ آن لائن خریداری کرتے
وقت درج ذیل امور کو ذہن میں رکھیں :
٭ جس ویب سائٹ پر خریداری کے لیے گئے ہیں وہاں پرائیویسی اور واپسی یا ری فنڈ کی پالیسی کو بہ غور پڑھیں۔
٭ کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے ادائیگی کرتے ہوئے محفوظ براؤزر استعمال کریں اور ویب سائٹ پر مالی لین دین کے تحفظ کے لیے کیے گئے سیکیوریٹی اقدامات پر عمل یقینی بنائیں۔
٭ اپنا کریڈٹ کارڈ نمبر، پن نمبر اور دیگر تفصیلات محفوظ طریقے سے درج کریں۔
٭ پروڈکٹ وصول کرتے وقت اچھی طرح اس بات کا اطمینان کرلیں کہ آپ کو مطلوبہ چیز ہی درست حالت میں فراہم کی گئی ہے۔
٭ ویب سائٹ پر موجود اشیاء کے معیار اور قیمت کے بارے میں اچھی طرح تسلی کرلیں۔ خریداری سے قبل دوسری ویب سائٹ اور فزیکل اسٹور پر بھی اپنی مطلوبہ چیز کی قیمت کا موازنہ کرلینا زیادہ بہتر ہے۔ پروڈکٹ کی دھندلی تصاویر، برانڈ کے نام کے ہجے میں فرق ہونے کی صورت میں اس شے کو نہ خریدیں۔
٭اگر آپ کسی نئی ویب سائٹ سے پہلی بار خریداری کر رہے ہیں تو اس کمپنی کا ریکارڈ اور سوشل میڈیا پر اُن کی مصنوعات اور خدمات کے حوالے سے کیے گئے تبصروں کو پڑھ لینا آپ کو کسی ممکنہ نقصان سے بچا سکتا ہے۔
٭ادائیگی سے قبل فروخت کنندہ کی جانب سے فراہم کی گئی وارنٹی، گارنٹی اور قواعد و ضوابط کو لازمی پڑھیں۔
٭مالی اور نجی معلومات کو چرانے والے سافٹ ویئر اور وائرس سے محتاط رہیں۔ اگر آپ کے درج کیے گئے ایڈریس کو کسی اور ویب سائٹ پر ری ڈائریکٹ کردیا جائے تو اس ویب لنک کو فوراً بند کردیں۔


٭ ضرورت سے زیادہ نجی معلومات طلب کرنے والی ویب سائیٹ سے بچیں۔ مثال کے طور پر اگر خریداری کے لیے ادائیگی کرتے وقت آپ سے والدہ کا نام، پاس ورڈ، بینک اکاؤنٹ کی معلومات مانگے تو وہاں سے خریداری نہ کرنا زیادہ بہتر ہے۔ اپنے پاس ورڈ کو مضبوط بنائیں اور خریداری کے بعد اسے تبدیل کردینا زیادہ بہتر ہے۔ صرف محفوظ انٹرنیٹ کنکشنز پر ہی معلومات دیں۔ کریڈٹ کارڈ یا بینک اکاؤنٹ نمبر درج کرتے وقت ویب سائٹ کے توسیع کردہ توثیقی سرٹیفکیٹ کے فعال ہونے کو یقینی بنائیں۔ براؤزر کے ایڈریس بار پر مطلوبہ ویب سائٹ ایڈریس سے قبل سبز رنگ میں دکھائی دینے والا https://اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ مطلوبہ ویب سائٹ کی توثیق کی جاچکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔