گدھا گاڑیاں بمقابلہ لینڈ کروزر

جاوید قاضی  ہفتہ 28 مئ 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

یہ بات لیاقت علی خاں صاحب سے منسوب ہے، آپ کہتے تھے سندھی گدھا گاڑیاں چلانے والی قوم ہے۔ رات گئی بات گئی۔ مجھے لیاقت علی خاں سے شکوہ شکایت کوئی نہیں ہاں مگر اس بات میں بہت حد تک صداقت ہے کہ بالآخر آج کل سندھ کے دیہی علاقوں میں وڈیروں کی لینڈ کروزریں، گدھا گاڑیوں سے کیوں ٹکراتی ہیں ، کیوں نہیں یہ کسی گاڑی و کسی اور جیپ سے ٹکراتی ہیں۔ یوں تو سندھ میں بھی بہت موٹرسائیکلیں آگئی ہیں، موبائل فونز کا تانتا بندھا ہوا ہے، لیکن گدھا گاڑیاں ہیں کہ کم نہیں ہو رہیں۔ اتنی سائنس آگئی مگر گدھا گاڑیاں نہ گئیں بلکہ اس میں بھی دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔

عجیب ہیں میرے سندھ کے گاؤں، اونچے نیچے راستے، راستے کے ساتھ کھلے نالے، جن میں سے گندا پانی ابل رہا ہوتا ہے، بچے ہیں جن کو اگر چولی پہنی ہوئی ہے تو شلوار نہیں اور اگر شلوار ہے تو چولی نہیں، ناک سے پانی رواں، سر میں مٹی کی تہیں، پاؤں میں چپل نہیں ان کے گھر کے دروازے ہیں یا نہیں بس پھٹی قبا ہوتی ہے جیسے فیض کہتے ہیں ’’زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہو جیسے‘‘ پھٹی پرانی، میلی قبا، مٹی کے غارے سے بنا فرش، آنگن کے کونے پہ ٹیلوں کی چھت سے ڈھکا ، بے دیوار باورچی خانہ ہو یا اک چولہا، کچھ مٹی کے برتن، آٹے کا ڈبا، بیلن و توا وغیرہ، کل ملا کے اک کمرہ اور برآمدا۔ یہ ہیں بچے، عورتیں و گھر جن کی روٹی کے واسطے ان کے مرد گدھا گاڑی لے کر تھر کو گئے ہیں۔

یہ دہقاں نہیں ہوتے یہ ان چھوٹے چھوٹے شہروں کے اس طرح کہیے مزدور ہوتے ہیں جن کے پاس اپنی گدھا گاڑیاں بھی ہوتی ہیں۔ جو مزدوری کرتے بوریاں بھی اٹھاتے ان گاڑیوں پر لادتے ہیں اور اٹھا کے گوداموں وغیرہ میں رکھ آتے ہیں، ان میں اگر کوئی خوشحال ہوگا تو اس کے پاس اونٹ گاڑی ہوتی ہے، جس میں زیادہ سامان لادا جاسکتا ہے۔

گدھا گاڑیوں کے علاوہ ان شہروں میں آپ کو ڈھیر سارے ٹانگے ملیں گے لیکن ان کا استعمال بتدریج کم ہورہا ہے کہ اب چنچی رکشے میدان میں آگئے ہیں جب کہ دہقانوں کے پاس اب بھی بیل گاڑیاں ہیں ، وہ ان گدھا گاڑی والوں سے قدرے بہتر زندگی بسر کرتے ہیں کہ ان کے گھروں میں مہینوں کے لیے اناج باجرہ ہوتا ہے، اک دو بھینسیں ہوتی ہیں، ان کے بچے کھیتوں کھلیانوں میں کھلے گھومتے و کھیلتے ہیں۔ ہاں مگر ان کے گھروں میں فلش سسٹم والے باتھ روم وغیرہ نہیں ہوتے ، پینے کے لیے نہری پانی یا نلکے کا پانی ہوتا ہے۔ بیماریاں ان کے گھروں میں بھی رہتی اور پلتی ہیں مگر جو ان غریبوں میں ابتر غریب ہوتے ہیں، وہ جو کسی زمین کے دہقاں نہیں ہوتے ۔ وہ ہوتے ہیں دیہاتی شہروں کے مزدور، ان کی گلیوں سے گزرتی ہے وڈیرے کی لینڈ کروزر۔فراٹے بھرتی ہوئی۔

میں نے کہا نہ گڑھی خدا بخش تقریباً ہر دیہی شہر کی طرح گدھا گاڑیوں والوں کا شہر ہے۔ ان دیہی شہروں میں آپ کو قبہ والے گھر ملیں گے یا یوں کہیے کچی بستیاں ہوں گی اور ان کے نکڑ میں یا بیچ میں، ہوگی مضبوط قلعہ نما رئیس کی اوطاق۔ یہ ماجرا آپ کو سندھ کے بڑے شہروں، کراچی، حیدرآباد، نوابشاہ، سکھر وغیرہ میں نہیں ملے گا۔ مگر شکارپور، جیکب آباد، لاڑکانہ جیسے بڑے بڑے شہروں میں گدھا گاڑیوں والوں کے انبار ملیں گے۔

بہت سے ایسے بھی ہیں ان گدھاگاڑیوں والے جن کے گھروإ میں بستر بھی نہیں ہوتے ہیں، بس گدھا ادھر باندھ دیا اور گھر کے آنگن میں درخت کے سائے تلے اس گاڑی پے سو جاتے ہیں۔ جب شکار پور میں امام بارگاہ پر حملہ ہوا تو سرکاری اسپتال میں ایمبولینس نہیں تھی تو گدھا گاڑی کو بطور ایمبولینس استعمال کیا گیا، ہاں ان اسپتالوں میں ڈاکٹر بھی ڈیوٹی پہ نہیں تھے سو تو بے چارے گدھے ڈاکٹر بننے سے رہے۔مگر غریب کے لیے اگر اپنی خواتین وغیرہ کو اسپتال بھی لانا ہو زچہ بچہ کے حوالے سے تو بھی یہ گدھا گاڑی استعمال کرتے ہیں۔

آج کل وڈیرے کی گاڑیاں بھی تبدیل ہوگئیں گوکہ غریب کی گدھا گاڑی تبدیل نہ ہوئی۔ پہلے زمانوں میں پاک امریکا دوستی کے دو ہاتھ ملانے والے نشان کے ساتھ ’’ولیز‘‘ جیپ ہوا کرتی تھی۔ کھلی جیپ پھر کرولا کو جیپ سمجھا، پھر ٹویوٹا کی جیپیں آئیں اور پھر ان جیپوں میں اک اعلیٰ جیپ جس کی مالیت ایک کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ ہے جس کو V8 ہالینڈ کروزر کہا جاتا ہے، اس کا فیشن ہے، لینڈ کروزر اتنی آگئی ہیں کہ دیہی شہر کے کسی وڈیرے کے پاس اگر ایسی گاڑی نہیں تو وہ وڈیرا پھر وڈیرا نہیں۔ کل زمینوں سے کمائی جو وڈیرے کی ہوتی ہے وہ اتنی بھی نہیں ہوتی جس سے وہ اوطاق کا خرچہ چلا سکے۔

لینڈ کروزر خرید کر اس کو مینٹین کرسکے، تو پھر ’’یہ دہواں سا کہاں سے اٹھتا ہے‘‘ یہ ہے وہ بری حکمرانی جس کا امین ہے یہ وڈیرا۔ آپ کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے۔ ترقیاتی فنڈ و سرکاری زمینیں ہڑپ کرنا۔ وہ لوکل پولیس سے تپیدار سے، ڈاکٹر ہو یا انجینئر ہو یہی کام لیتا ہے کیونکہ اسے تبادلے کرنے کا اختیار ہے اور پھر جس کی لاٹھی اسی کی بھینس کی طرح اس کا سکہ چلتا ہے ، اگر آئے فوجی آمر تو یہ ادھر اور اگر آئے قائم علی شاہ تو یہ وہاں فٹ۔

ستر سال ہوگئے اس ملک کو بنے ہوئے۔ یہ کارواں اسی طرح رواں دواں ہے مگر اس کو جھٹکا اس وقت آیا جب نوشہرو فیروز میں ایک وڈیرے کی لینڈ کروزر گدھا گاڑی سے ٹکرا گئی، جرگہ بیٹھا اور ان مزدوروں کے دانتوں کے بیچ جوتا ڈال کر معافی منگوائی گئی، مختصر یہ کہ ان کی تذلیل کی گئی اور یہ فوٹجز سوشل میڈیا پر جنگل میں آگ کی طرح شیئر ہوئی اور بات جہاں تک نکلی کہ ہماری متحدہ قومی موومنٹ کو پہلی مرتبہ اس انسان سوز حرکت کا جس کا تعلق ان کے تاریخی حلقے سے نہ تھا، اس کے لیے کراچی پریس کلب کے سامنے اک بھرپور احتجاج کر بیٹھی ، پورا سندھ اس خبر کی زد میں آیا مگر جس پارٹی سے اس کا تعلق تھا، وہ اس سے ترک تعلق نہ کرسکے۔ ہاں لیکن وہ وڈیرا ابھی تک اپنی ضمانت نہیں کرواسکا اور جیل کی سلاخوں کے اندر آزاد ہونے کے لیے بے چین ہے۔

ایک طرف گدھا گاڑیوں والے بے یارو مددگار سندھی مزدور و دہقاں ہیں تو دوسری طرف لینڈ کروزر والے لارڈ ہیں ۔ بیچ میں متوسط نہ طبقہ ہے نہ ایسے لوگ ہیں جو شہروں میں ہوتے ہیں۔ بس صرف امیر ہیں یا غریب ہیں۔ اور یہ تضاد تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ اب غریب کے بچوں کے پاس کچھ بھی نہیں۔ نہ تبدیل ہوئے اور یہ وڈیرے اقتدار سے کبھی بھی دور ہوئے ؟ اقتدار تو ان کا اوڑھنا اور بچھونا ہے، بغیر اقتدار کے ان کی سلطنت اعلیٰ بھسم ہوکے گر جائے گی۔ لیکن کب تک یہ لوگ گدھا گاڑیوں پر سفر کرتے رہیں گے ۔

کب تک بیل گاڑیاں اور اونٹ گاڑیاں ان کے لیے روزگار و سفر کا ذریعہ ہونگی۔ لیاقت علی خان نے نہ جانے کس زاویے سے بات کہی تھی مگر یہ حقیقت ہے کہ اب ان لوگوں کو ان شکنجوں سے ان صدیوں سے ملی غلامی سے آزاد کرنا ہوگا۔ ان طوق و سلاسل کو توڑنا ہوگا۔ کل اس جنگ میں کوئی رنگ و نسل، دیہی و شہری بنیادوں پر روک ٹوک نہیں تھی، تو پھر آج کیوں۔ وہ پروفیسر جمال نقوی تھے، اعزاز نذیر تھے، امام علی نازش جن سے سندھ کے دہقاں اسی انداز سے پیار کرتے تھے، کیا اب کوئی اس شہر کراچی میں ویسا نہیں رہا؟ کہیں سے جواب تو آئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔