’’ساڈا کتا، کتا اور تواڈا کتا Tomy؟‘‘

محمد حسان  ہفتہ 28 مئ 2016

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ہمیشہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب ایک عیسائی نن اپنے چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ پورا جسم پردے میں چھپا کر رکھتی ہے، اپنے مذہب کے لئے مردوں سے کنارہ کشی اختیار کرتی ہے تو اسے بڑی عزت دی جاتی ہے کہ اس نے اپنے آپ کو ’گاڈ‘ کے حوالے کردیا ہے۔ لیکن جب کوئی مسلمان خاتون ایسا کرتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ بیچاری ظلم کا شکار ہے، اسے اس کے مذہب نے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر رکھا ہے، اور پھر لوگوں کو حقوقِ نسواں بھی یاد آتا ہے اور آزادی نسواں بھی۔

جب ایک یہودی یا سکھ داڑھی رکھتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے مذہب کی پیروی کر رہے ہیں، تمام مذاہب کے ماننے والوں کو شخصی آزادی حاصل ہے۔ لیکن جب ایک مسلمان داڑھی رکھتا ہے تو اسے ’بنیاد پرست‘، ’مولوی‘، ’شدت پسند‘، حتیٰ کہ ’دہشت گرد‘ تک کہہ دیا جاتا ہے۔

جب کوئی خاتونِ خانہ اپنا سارا وقت اپنے بچوں اور شوہر کے لئے وقف کردے اور گھر پر ہی رہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ عظیم عورت بہت بڑی قربانی دے رہی ہے۔ لیکن جب کوئی مسلمان خاتون ایسا کرتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اسے تو چار دیواری میں قید کردیا گیا ہے اسے آزادی ملنی چاہیے، دنیا کا کوئی مذہب یا قانون ایسا کرنے کا مجاز نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ۔

جب کوئی یہودی، عیسائی یا کوئی بھی غیر مسلم اگر کسی کا خون کردے تو خبروں میں کبھی اس کا مذہب نہیں بتایا جاتا لیکن اگر کوئی مسلمان کسی جرم میں پکڑا جائے تو اس کے ساتھ ساتھ تمام مسلمانوں اور دینِ اسلام کو بھی بدنام کیا جاتا ہے۔

یہ سب باتیں آج مجھے اس لئے یاد آئیں کہ یورپ جو جمہوریت، انسانی حقوق، شخصی اور مذہبی آزادی کا سب سے بڑا علمبردار بنتا ہے اس کے ملک سوئٹزرلینڈ میں ایک اسکول کے دو شامی نژاد بچوں پر انتظامیہ کی جانب سے یہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اپنی خاتون ٹیچرز سے کلاس شروع ہونے سے پہلے اور بعد میں بھی ضرور ہاتھ ملائیں۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اگر بچوں نے خاتون ٹیچرز سے ہاتھ نہ ملایا تو ان کے والدین کو 5 ہزار سوئس فرانک تک جرمانہ بھرنا پڑے گا۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ٹیچرز کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بچوں سے مطالبہ کرسکتی ہیں کہ وہ ان سے ہاتھ ملائیں۔

بچوں کے والد ایک امام مسجد ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہمارا مذہب سوائے چند مخصوص متعلقہ خواتین کے باقی تمام خواتین سے ہاتھ ملانے سے منع کرتا ہے جبکہ سوئٹزرلینڈ کے وزیر انصاف Simonetta Sommaruga کا کہنا ہے کہ ہاتھ ملانا ہماری تہذیب کا حصہ ہے۔ ہاتھ نہ ملانے کا نقصان اب یہ بھی ہوا ہے کہ اس مسلمان خاندان کا سوئٹزرلینڈ کی شہریت اختیار کرنے کا عمل روک دیا گیا ہے اور مائیگریشن آفس کا کہنا ہے کہ ہم معاملات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا انہیں شہریت دی جاسکتی ہے یا نہیں۔

میں اس بلاگ کے ذریعے اپنے دل کی بات کہنا چاہتا تھا، اپنی رائے دینا چاہتا تھا لیکن ان شامی بچوں نے لگتا ہے کہ میرے منہ کے الفاظ چھین لئے۔ ان بچوں نے سوئس میڈیا سے بڑے مزے کی بات کی کہ کوئی ہمیں ہاتھ ملانے پر مجبور نہیں کرسکتا کیونکہ جس طرح آپ اپنی تہذیب کے مطابق خواتین سے ہاتھ ملاتے ہیں بالکل اسی طرح ہم بھی اپنی تہذیب کے مطابق خواتین سے ہاتھ نہیں ملائیں گے کیونکہ ہماری تہذیب کوئی کمپیوٹر ہارڈ ڈرائیو نہیں ہے کہ جس میں سے جب جی چاہا کچھ ڈیلیٹ کردیا اور جب جی چاہا کچھ بھی کاپی کردیا۔

اب ممکن ہے کہ جس طرح باقی دنیا میں اسلام کو بدنام کیا جا رہا ہے بالکل اسی طرح اب اس چھوٹی سی بات کو بنیاد بنا کر سوئٹزر لینڈ جیسے خوب صورت اور پُرامن علاقے میں بھی اسلام دشمنوں کی جانب سے ایک محاذ کھڑا کردیا جائے اور کہا جائے کہ سوئٹزرلینڈ جیسا علاقہ بھی شدت پسند مسلمانوں سے محفوظ نہیں رہا۔ عین ممکن ہے کہ اب اس خاندان کا تعلق کسی دہشتگرد تنظیم یا القاعدہ وغیرہ سے جوڑ دیا جائے تاکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سوئٹزرلینڈ جیسی جگہ میں بھی ایک مہم چلائی جاسکے۔

سوال یہ ہے کہ جب یورپ اپنی تہذیب پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا تو ہم کیوں کریں؟ آپ کا مائیگریشن آفس اس خاندان کے معاملات کا اس لئے جائزہ لے رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں؟ جب آپ کو کسی دوسرے ملک میں اپنی تہذیب پر عمل درآمد سے روکا نہیں جاتا تو آپ کسی کو کیسے روک سکتے ہیں؟ جب معاملہ مسلمانوں کا آتا ہے تو آپ اپنے خود ساختہ انسانی حقوق، مذہبی اور شخصی آزادی کو کس خوشی میں بھول جاتے ہیں؟ آپ اپنی تہذیب پر عمل کریں تو ٹھیک اور ہم کریں تو بد تہذیبی؟ واہ واہ، یہ تو وہ بات ہوئی کہ ’’ساڈا کتا، کتا اور تواڈا کتا Tomy‘‘

ہاتھ نہ ملانے کی صورت میں جرمانے کے فیصلے کو کیا آپ ٹھیک سمجھتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
محمد حسان

محمد حسان

بلاگر گزشتہ 12 سال سے میڈیا اور پبلک ریلیشنز کنسلٹنٹ کے طور پر ملکی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک ہیں۔ انسانی حقوق، سیاسی، معاشی اور معاشرتی موضوعات پر لکھنے کا شغف رکھتے ہیں۔ آپ انہیں ٹوئٹر اور فیس بُک پر BlackZeroPK سے سرچ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔