الیکشن کمیشن کی کامیابی، عدلیہ کی زیرنگرانی انتخابات

ملک منظور احمد  منگل 20 نومبر 2012
موجودہ الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم  پر تمام جماعتوں کو اعتماد ہے۔ فوٹو: این این آئی/فائل

موجودہ الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم پر تمام جماعتوں کو اعتماد ہے۔ فوٹو: این این آئی/فائل

اسلام آباد: آئندہ عام انتخابات کو شفاف، غیر جانبدارانہ اور آزادانہ بنانے کیلئے جہاں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پہلی مرتبہ خودمختار ادارہ بنانے کیلئے متعدد اقدامات کئے جارہے ہیں وہاں بڑی حد تک ملک کی سیاسی جماعتوں کے الیکشن کمیشن پر اعتماد کو بحال کیاگیا ہے۔

قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے آئندہ عام انتخابات عدلیہ کی نگرانی میں کرانے کیلئے دی گئی درخواست کی منظوری کو ایک مستحسن قدم قرار دیا جارہا ہے، آئندہ عام انتخابات کی شفافیت کیلئے عدلیہ کی نگرانی میں انتخابات کے انعقاد کے فیصلے کو سیاسی جماعتوں نے بھی سنگ میل قرار دیا ہے۔ قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی میں اتفاق رائے سے اس اہم فیصلے کی منظوری دی گئی ہے۔

الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے متعدد اہم فیصلے کئے ہیں، یہ باور کیا جارہا ہے کہ آئندہ انتخابات کی شفافیت پر کوئی انگلی نہ اٹھاسکے، موجودہ الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کی شخصیت اور انکی ساکھ پر تمام جماعتوں کو جہاں اعتماد ہے وہاں ان کی تقرری کو سیاسی جماعتوں کے درمیان تمام تراختلافات کے اتفاق رائے کی ایک عمدہ مثال قرار دیا جاسکتا ہے اور بلاشبہ سیاسی جماعتوں کی ایک مشترکہ کامیابی بھی کہا جاسکتا ہے۔

الیکشن کمیشن نے عدالتی افسروں کی بطور ریٹرنگ افسر خدمات حاصل کرنے کی درخواست کی تھی اور اس درخواست کو تسلیم کرلیا گیا ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات میں بھی اس عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے فیصلے کی وجہ سے اضافہ ہوگیا ہے اور عدالتی عملہ الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ماتحت کام کریگا۔

پاکستان میں جب بھی عام انتخابات کا انعقاد کیاگیا انتخابات کی ساکھ پر متعدد سوالات اور تحفظات ظاہر کئے گئے اور تمام سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات کی شفافیت کو تسلیم نہیں کیا، جس کی وجہ سے آج تک پاکستان کے قیام کے بعد ہونیوالے انتخابات کی ساکھ مسلمہ حقیقت میں نہ بدل سکی۔ حالیہ دنوں میں غیرملکی مبصرین کے ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور ان غیرملکی مبصرین نے متعدد سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کے حکام سے الگ الگ ملاقاتیں کی تھیں۔

وفد نے بعض وزراء کو بتایا کہ پاکستان میں ہونیوالے 2008ء کے انتخابات کی شفافیت پر ہم نے 86 اعتراضات کئے تھے جن میں سے ہمارے 70 سے زائد اعتراضات انتخابی اصلاحات کے باعث دور ہوگئے ہیں جسے ایک اہم پیشرفت قرار دیا گیا۔ وفد کے ارکان نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو خودمختاری دینے اور اس کے ارکان کے شفاف انتخاب اور دیگر انتخابی اصلاحات کی وجہ سے ہمارے 90 فیصد خدشات دور ہوگئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ انتخابات کی ساکھ بہتر ہوگی ۔

سیاسی جماعتیں آئندہ انتخابات میں پنجہ آزمائی کرنے کیلئے عوام میں پذیرائی حاصل کرنے اور کامیابی کے حصول کیلئے انتخابی منشور کو حتمی شکل دینے میں مگن ہیں اور منشور کی تیاری کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے تھنک ٹینک قائم کردیئے ہیں، ہر جماعت اپنے منشور کو آئندہ حکومت سازی کی صورت میں عملی جامہ پہنانے کی دعویدار ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ہمارا منشور پاکستان کی خودمختاری اور ترقی کا روڈمیپ ثابت ہوگا اور قومی خودانحصاری کی راہ ہموار کریگا۔

صدر مملکت آصف علی زرداری پر عدالتی فیصلہ آنے کے بعد سیاسی سرگرمیاں ترک کرنے اور پارٹی عہدہ چھوڑنے کیلئے جہاں اپوزیشن مسلسل دبائو بڑھا رہی ہے وہاں انہوں نے اپنی جماعت کو انتخابات سے قبل متحرک اور فعال بنانے کی غرض سے رابطہ مہم کا آغاز وفاقی وزیر نذر محمد گوندل کے آبائی حلقے ملکوال سے عیدملن پارٹی کے نام سے ایک اجتماع سے خطاب کرکے دیا ہے ۔ اب اسلام آباد میں سیاسی سرگرمیاں ماند پڑتی جارہی ہیں، زیادہ تر ارکان اسمبلی اپنے حلقوں میں مصروف ہیں، سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کے صاحبزادے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر گیلانی قومی اسمبلی کے اجلاس میں اچانک پھٹ پڑے اور ایوان میں جذباتی خطاب کر ڈالا۔

وہ اپنے والد کو حج کرپشن کیس میں ایف آئی اے کی طرف سے بھیجے گئے نوٹس پر رنجیدہ تھے۔ وزیر داخلہ سمیت پورے ایوان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے دوسرے بھائی موسیٰ گیلانی سمیت اسمبلی سے مستعفی ہونے کی دھمکی دیدی۔ ان کی اس جذباتی تقریر کے بعد صدر مملکت آصف علی زرداری کابینہ کے ارکان کو ساتھ لے کر ایک طیارے میں ملتان روانہ ہوگئے، یہ کہا جارہا ہے کہ صدر مملکت کے ساتھ گیلانی کے اختلافات دور ہوگئے ہیں لیکن عملی طور پر یہ اختلافات رفع نہیں ہوسکے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کیخلاف توہین عدالت کا نوٹس خارج کردیا ہے اور اب موجودہ وزیراعظم عدالتی معاملات سے تقریباً آزاد ہوگئے ہیں۔

وزیر قانون وانصاف سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے مختصر عرصے میں حکومت اور عدلیہ کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ بہتر بنانے کیلئے ایک پل کا کردار ادا کیا ہے، فاروق ایچ نائیک کے کردار کو حکومتی حلقوں میں خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے، فاروق نائیک کی وجہ سے این آراو عملدرآمد کیس بھی اپنے منطقی انجام تک پہنچ چکا ہے اور باور کیا جارہا ہے کہ ریاستی اداروں کے درمیان تصادم کے امکانات ختم ہوگئے ہیں، وفاقی دارالحکومت میں ڈی ایٹ ممالک کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کیلئے کئی ممالک کے سربراہان یہاں تشریف لاچکے ہیں۔

اسلام آباد میں سفارتی سرگرمیاں نقطہ عروج پر ہیں، اس کانفرنس کو کامیاب بنانے کیلئے حکومت نے انتظامات کو حتمی شکل دیدی ہے۔بعض ممالک کے سربراہان نے بوجہ اس کانفرنس میں شرکت سے معذرت کا اظہار کیا ہے۔ترقی پذیر ممالک کی تنظیم ڈی ایٹ ایک اہم فورم ہے، وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے کہا ہے کہ ڈی ایٹ کے رکن ممالک کے درمیان 2018ء تک باہمی تجارت ہدف 500 ارب ڈالر حاصل کرلیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔