ٹیلنٹ مواقع اور ملٹی فروٹ ٹری

ہم لسانیات کے ماہر تو نہیں ہیں لیکن آخر پاکستان میں رہنے والے پکے پاکستانی ہیں


Saad Ulllah Jaan Baraq May 29, 2016
[email protected]

KARACHI: پتہ نہیں یہ ''افواہ'' کس کم بخت دشمن نے اڑائی ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی ہے کہ اب روزانہ اخبارات میں اس کی مسلسل ''تردید'' ہو رہی ہے کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی تو ایسا بیان داغے چلے جا رہا ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ جب بھی اخبار اٹھایئے کسی نہ کسی کا ایسا بیان تو ضرور چھپا ہو گا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ بہت ہے اتنا زیادہ کہ کناروں سے چھلک چھلک پڑ رہا ہے، چپہ چپہ ٹیلنٹ سے بھرپور ہے اور کوئی کنکر بھی اٹھایئے تو نیچے سے ''ٹیلنٹ'' ابل ابل کر باہر نکلنے لگتا ہے۔

ہم لسانیات کے ماہر تو نہیں ہیں لیکن آخر پاکستان میں رہنے والے پکے پاکستانی ہیں اس لیے ہمارے اندر بھی ٹیلنٹ بھرا ہوا گا حالانکہ ہمارے اندر اتنا زیادہ ٹیلنٹ بھی نہیں ہے کہ یہ معلوم ہو کہ آخر یہ ٹیلنٹ ہے کیا؟ جو پاکستانیوں کے اندر پاؤں کے انگوٹھے سے لے کر ناک کے نتھنوں تک بھرا ہوا ہے۔ صرف اتنا اندازہ ان بیانات سے لگتا ہے کہ ٹیلنٹ نام کی کوئی قیمتی چیز ہے جو پاکستانیوں میں بے پناہ پایا جاتا ہے۔ اس باب میں ہم نے جب اپنی تحقیق کے ٹٹو کو مہمیز کیا تو سیدھا جا کر یونان جا پہنچا۔

وہاں کے پرانے نوشتوں میں لفظ ''ٹیلنٹ'' اچھی خاصی مقدار اور تعداد میں مذکور ہے خاص طور پر بابائے تاریخ ہیروڈٹس نے تو ٹیلنٹ کی بہت تکرار کی ہے اس کے بیان سے ایسا لگتا ہے جیسے یہ کوئی قدیم یونانی سکہ تھا جو سونے کا بنا ہوتا تھا جیسا کہ ہمارے ہاں قدیم زمانوں میں سونے کا ایک سکہ ''اشرفی'' کے نام سے مشہور تھا۔

ہیروڈٹس نے ایران کے بادشاہ داریوش یا دارائے کبیر کی سلطنت کے بائیس صوبوں کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان صوبوں سے اتنے اتنے ''ٹیلنٹ'' خراج لیا جاتا تھا بلکہ اس نے اور کسی چیز کو منہ بھی نہیں لگایا کہ ان صوبوں میں عوام کی کیا حالت تھی لوگ بھوکوں مر رہے تھے یا ننگے پھر رہے تھے بس ذکر کیا ہے تو صرف ٹیلنٹوں کا اور اتفاق سے ان صوبوں میں مشرق کی طرف جو آخری صوبہ یعنی بائیسویں ساتراپی ہے اس سے خراج میں سب سے زیادہ ٹیلنٹ لیے جاتے ہیں کیوں کہ اس میں سونا بہت تھا جسے نکالنے کا کام چیونٹیاں کرتی تھیں۔

آدمیوں کو صرف اتنا کرنا پڑتا تھا کہ نکل کر جاتے اور چیونٹیوں کے بلوں سے جو سونا چیونٹیاں کھود کر نکال چکی ہوتیں اسے تھیلے بھر بھر کر لے آتے ہیں اور یہ بائیسواں صوبہ ٹھیک اسی محل وقوع پر واقع تھا جہاں آج کل مملکت اللہ داد پاکستان پایا جاتا ہے گویا تاریخی طور پر بھی اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ یہاں قدیم زمانوں سے ٹیلنٹ کی بہتات رہی ہے جو سونے کا ایک سکہ ہوتا تھا اور سونا یہاں بہت ہوتا تھا، لیکن جدید حساب کتاب سے بھی اس مقام پر ''سونا'' بہت پایا جاتا ہے جس کا ثبوت روزانہ دس بارہ کے حساب سے اخبارات میں چھپنے والے یہ بیانات ہیں کہ پاکستان میں ''ٹیلنٹ'' بہت ہے اتنا زیادہ کہ چھلک چھلک کر ''موم بائی'' تک بہہ رہا ہے اور آخر میں یہ افسوس کہ اس ٹیلنٹ سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہاں پر ''مواقع'' موجود نہیں ہیں، کاش اتنے مواقع بھی ہوتے جتنا کہ ''ٹیلنٹ'' موجود ہے۔

اب یہاں بات دو شاخہ ہو گئی ہے یا یوں کہیے کہ یہ ایک ایسا پیڑ ہو گیا یا پاکستان کے نام سے جو ''پیڑ'' ہمارے ''انگنے'' میں اگا ہوا ہے اس میں کسی ماہر ہار ٹیکلچرسٹ یا مالی نے دو پیوند لگا دیے ہیں، ٹھہریئے یہاں ایک اور بات نے بیچ میں گھس کر دم ہلانا شروع کر دی ہے کہیں کسی اخبار میں پڑھا تھا شاید کہ برطانیہ یا امریکا میں ایک شخص نے ایک ایسا پیڑ اگایا ہوا ہے جس کے ایک ہی تنے میں اس نے دس بیس مختلف ''پھلوں'' کے پیوند لگائے ہوتے ہیں چنانچہ جس طرح ڈیپارٹمنٹ اسٹوروں میں ایک ہی چھت کے نیچے بہت کچھ مل جاتا ہے اسی طرح یہ پیڑ بھی گویا ایک ''ڈیپارٹمنٹ ٹری'' ہے یا اپنی سیدھی سادی پاکستانی زبان میں بولے تو وہ ایک پیڑ گویا پھلوں کی پوری دکان ہے اس شاخ سے جی چاہیے تو ''سیب'' توڑیئے یا کسی آئزک نیوٹن کو نیچے بٹھا دیجیے اور اسی شاخ کے پڑوس میں دوسری شاخ سے آم حاصل کیجیے۔

آموں سے بھی جی بھر گیا تو یہ پڑوس میں انگور کی شاخ ہے، انگور بھی اگر کھٹے نکلیں تو اس کے اوپر لیچی کے خوشے لٹک رہے ہیں یا نیچے چیکو بھی خوب پکے ہوئے ہیں، دوسری جانب کیلا ہے تو ساتھ ہی پپیتا یا مالٹا کینو بھی لٹک رہا ہے، مطلب یہ کہ اسی ایک درخت کو لگا کر آپ ایک پوری فروٹ کی دکان یا فروٹ فیکٹری کے مالک ہو گئے، دوسرے معنوں میں آپ خود کو جنت نشین اور بہشت مکین بھی سمجھ سکتے ہیں، پھر جس کے انگنے میں ایسا درخت ہو وہ پھل کھا کھا کر گانا گا سکتا ہے کہ

سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے دوسرے ''پیڑ'' پر

آپ سمجھ رہے ہیں نا کہ ہم بات کو کہاں تک پہنچانے والے ہیں ٹیلنٹ مواقع اور نہ جانے دوسری کتنی نعمتیں دیکھ کر اگر ہم پاکستان کو وہ پیڑ یا ملٹی فروٹ درخت قرار دیں تو کچھ ایسا غلط تک نہیں ہو گا، لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ ملٹی فروٹ ٹری ہمیں مفت میں ملا ہے تو غلط سمجھتا ہے پورے ستر سال کی بے پناہ محنت کر کر کے نہ جانے کتنے ماہر مالیوں نے اس درخت پر کام کیا ہے کیا کیا جتن کیے تب کہیں جا کر یہ ''پیڑ'' وجود میں آیا ہے اب نہ صرف اس میں ''ٹیلنٹ'' سے شاخیں چھکی پڑی ہیں بلکہ ''مواقع'' بھی لٹکے ہوئے ہیں بس صرف ہاتھ بڑھانے کی دیر ہے۔

پھر دیکھئے انداز ثمر باری بے شمار، ویسے تو اس ڈیپارٹمنٹل یا ملٹی فروٹ ٹری میں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن یہاں ہم صرف ان ہی دو پھلوں ٹیلنٹ اور مواقع کی بات کریں گے، کیوں کہ ان دونوں قیمتی اور میٹھے پھلوں کے درمیان ایک پرابلم سی پیدا ہو گئی ہے اور اس پرابلم کا ذکر نہ صرف ہم نے پہلے کیا ہے بلکہ اخبارات میں آنے والے بیانات بھی اس کا پتہ دے رہے ہیں، مثلاً پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں لیکن اس ''ٹیلنٹ'' سے فائدہ اٹھایا نہیں جا رہا گویا ٹیلنٹ تو ہے لیکن مواقع نہیں ہیں جب کہ اس سے بھی زیادہ بڑی تعداد کے لوگ الٹ بات بھی کرتے ہیں، کہ مواقع تو بہت ہیں لیکن ان سے فائدہ اٹھانے کا ٹیلنٹ کسی میں نہیں ہے۔

ویسے ٹیلنٹ کا تو ہمیں کچھ زیادہ پتہ نہیں کہ وہ اس ملک میں کتنا ہے یا کس سطح پر کتنا ٹیلنٹ پایا جاتا ہے لیکن مواقع کے بارے میں ہم خوب جانتے ہیں کہ جن کے اندر ٹیلنٹ تھا وہ کب کے ان مواقع سے فائدہ اٹھا بھی چکے ہیں بلکہ اگر اپ کی اجازت ہو تو ہم یہاں اپنا ایک تازہ بتازہ قول زرین بھی لانچ کر سکتے ہیں اور وہ یہ کہ جن میں ٹیلنٹ ہوتا ہے ان کے لیے موقع ہزار، اور جن کو مواقع حاصل ہیں ان میں ٹیلنٹ بے پناہ، خدا جب گنجے کو گنج دیتا ہے تو ناخن بھی دے دیتا ہے لیکن یہ ناخن ہر گنجے کے نصیب میں نہیں ہوتے، یہ ناخن کئی پشتوں کی محنت کے بعد حاصل ہوتے ہیں وہ ایک امریکی کا قصہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ وہ لندن کے ایک پارک میں گیا تو پارک کی خوب صورتی سے بڑا متاثر ہو گیا مالدار آدمی تھا چنانچہ اس نے مالی سے پوچھا کہ اگر میں امریکا میں ایسا پارک بنانا چاہوں تو کتنا خرچہ آئے گا، مالی نے کہا ۔۔۔ دس ہزار ڈالر اور تین سو سال ۔۔۔ پاکستان کے اس ملٹی فروٹ ٹری کی تشکیل میں بھی صرف پیسہ ہی خرچ ہی نہیں ہوا ہے بلکہ کئی تجربہ کار خاندانوں پارٹیوں اور ماہرین کی ستر سالہ محنت بھی لگی ہے۔

مقبول خبریں