وزیراعظم مستعفی ہو کر صرف اپنی صحت پر ہی توجہ دیں

رحمت علی رازی  اتوار 29 مئ 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

پاکستان ان دنوں سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ داخلی اور خارجی سطح پر بھی عضو معطل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ سفارتی دیوالیہ پن اور ناکام ترین خارجہ پالیسی نے پاکستان کے وجود پر بڑے بڑے سوالیہ نشان داغ دیے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے جیسے حکومت کے بغیر پاکستان بے ملاح کی بیڑی ہو۔ یہ سب کچھ صرف اور صرف لیڈر شپ کے فقدان کی وجہ سے ہے۔ ڈیڑھ پونے دو ماہ سے پانامہ لیکس نے یہاں ایک طوفانِ بدتہذیبی برپا کر رکھا تھا‘ اس کی آنچ ابھی کم نہ ہوئی تھی کہ ملا اختر منصور کی پاکستان میں ہلاکت کا معاملہ سامنے آ گیا۔

امریکا نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغان طالبان رہنما کو بلوچستان میں ڈرون حملہ میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ایسی صورتحال میں جب پاکستان کی طرف سے سخت ردِعمل کا اظہار کیا جانا مقصود تھا وزیراعظم اچانک اپنے علاج کے لیے دوبارہ لندن چلے گئے‘ وہاں اپنے علاج کے علاوہ پانامہ لیکس کا علاج بھی کرتے رہے‘ وہ وہاں پہنچنے پر بڑے ہشاش بشاش نظر آئے اور اپنی فیملی کے ساتھ لندن کی فوڈ اسٹریٹس میں لذیذ کھانے کھاتے بھی دِکھائی دیے۔ لندن پہنچنے پر جب صحافیوں نے نوازشریف سے پاکستان کی سرزمین پر امریکن ڈرون حملے پر ان کا موقف جاننا چاہا تو انھوں نے بڑے دھیمے اور سہمے لہجے میں اس کا رسمی سا تذکرہ کیا کہ ڈرون حملہ پاکستان کی خودمختاری کے خلاف ہے۔

امریکا کی جانب سے پیشگی اطلاع دیے جانے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے پاکستان کے ساتھ حملے سے قبل کسی نوعیت کی کوئی اطلاع شیئر نہیں کی اور جان کیری کا فون انہیں رات ساڑھے دس بجے آیا جب کہ ملامنصور کو اسی روز تین بجے سہ پہر کو ہلاک کیا جا چکا تھا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وزیراعظم کو جان کیری کا فون موصول ہوا‘ انھوں نے اس کے ساتھ کیا گفتگو کی اور کتنا سخت موقف اختیار کیا، یہ انھوں نے قوم کو بتانا کیوں پسند نہ کیا اور لندن جانے تک کیوں خاموشی اختیار کیے رکھی؟ بطور وزیراعظم پاکستان ان کا یہ قومی فریضہ تھا کہ وہ ڈرون حملہ کی خبر منظرعام پر آنے کے فوراً بعد خود امریکا کو فون کرتے اور ان سے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے کہ انھوں نے کیا سوچ کر پاکستان کی ریڈلائن کو عبور کیا اور کس پیرائے میں پاکستان کے معروضی آئین اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی؟

بالفرض اگر انھوں نے کسی نامعلوم خوف کی وجہ سے ایسا کرنا مناسب نہیں سمجھا تو کم از کم جان کیری کے تاخیری فون پر تو وہ ان سے احتجاج کر سکتے تھے مگر انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انھوں نے امریکا کے فون کے بعد ایک ہنگامی پریس کانفرنس کے ذریعے امریکا اور اقوامِ عالم کے سامنے پاکستان کا تشویشی مقدمہ رکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ انھوں نے تو یہ بھی روا نہ سمجھا کہ عسکری قیادت سے صلاح مشورہ کر کے اس نازک صورتحال پر فوری طور پر کوئی مناسب لائحہ عمل تیار کیا جائے اور مستقبل میں امریکا کی اس طاغوتی جارحیت کے آگے بند باندھنے کی حکمت عملی وضع کی جائے۔ نواز شریف کے اس سرد رویے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انہیں ملک و قوم کو درپیش حضرات اور چیلنجز کا احساس نہیں ہے بلکہ انہیں صرف اور صرف اقتدار کی فکر ہے۔

پانامہ لیکس کی جان لیوا بیماری نے وزیراعظم کے رگ و ریشہ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ وہ عارضۂ قلب کے پرانے مریض ہیں اور 2011ء میں وہ دل کا علاج بھی کروا چکے ہیں۔ محققین کے مطابق دل کی بیماری کا تعلق براہِ راست ذہنی تناؤ، ضرورت سے زیادہ تفکر اور پریشانیوں سے ہے۔ 2013ء میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد ان کی پریشانیوں میں خاطرخواہ اضافہ ہو جانے کے باعث ان کے ذہن پر نفسیاتی اثرات کے ساتھ ساتھ دل پر بھی دباؤ بڑھا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے وہ ارادہ باندھ رہے تھے کہ دل کا چیک اَپ کروائیں مگر مصروفیت کی بناء پر وہ ایسا نہ کر سکے۔

جب پانامہ لیکس کے الزامات ان پر قیامت بن کر ٹوٹے تو ان کے دل کی دھڑکن مزید تیز ہو گئی جس نے ان کی صحت پر غیرمتوقع طور پر بُرا اثر ڈالا۔ چونکہ ان کی بیماری کی اصل وجہ کا تعلق لندن سے تھا چنانچہ انھوں نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کے لیے برطانیہ کا رُخ کیا۔ بظاہر تو وزیراعظم نے برطانیہ کے دورہ کو میڈیکل چیک اَپ کے لیے مخصوص کیا مگر درحقیقت یہ دورہ میڈیکل چیک اَپ کے ساتھ ساتھ پانامہ چیک اَپ سے زیادہ تعلق رکھتا تھا۔

وطن واپسی پر بھی جب پانامہ کا قضیہ حل نہ ہو پایا تو ان کی صحت نفسیاتی طور پر مزید بگاڑ کا شکار ہو گئی جس کا براہِ راست اثر ان کے دل پر پڑا اور اس بار انھوں نے اپنے مکمل علاج کے لیے دوبارہ برطانیہ کا رُخ کیا‘ اس علاج کا 50 فیصد تعلق تو ڈاکٹروں سے جب کہ 50 فیصد آصف زرداری سے ہے جو اگر انھیں مفاہمتی ریلیف دینے پر آمادہ ہو جاتے تو ان کی آدھی سے زیادہ بیماری دُور ہو سکتی تھی۔ نوازشریف نے اپنی بیماری کو تو خود ہی مشکوک بنایا۔

پہلے انھوں نے لندن کے ایک عام کلینک سے اپنا چیک اَپ کرایا اور ساتھ ساتھ پانامہ لیکس کے معاملے کو بھی سلجھاتے رہے اور مہنگی ترین گھڑیاں اور دیگر سامان خریدتے رہے پھر پاکستان واپسی پر پانامہ لیکس کے الزامات پر عوام کو مطمئن کرنے کے بجائے شدید ترین گرمی میں جلسے کرنے شروع کر دیے اور ہر دَور میں حکمرانوں سے مفادات حاصل کرنے کے لیے مشہور مولانا پر نوازشات کی بارش کرتے رہے بلکہ دوبارہ لندن جاتے وقت انھیں ساتھ بھی لے گئے تا کہ وہ سیاسی حکیم سے ان کی خواہش کے مطابق مک مکا کر سکیں‘ لندن سے ایسی خبریں بھی آ گئیں کہ سیاسی حکیم کو صدرِ مملکت کا عہدہ دوبارہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس پر نوازشریف کے درباریوں نے اس فیصلے پر خوشی کے شادیانے بجانے شروع کر دیے۔

مولانا فضل الرحمان آصف زرداری کے بھی اچھے وقتوں کے ساتھی رہے ہیں اور زرداری کو آج بھی یقین واثق ہے کہ خدانخواستہ اگر کل کو کہیں پھر ان پر اچھا وقت آیا تو مولانا صاحب بانہیں کھولے ان کے قدم لینے چلے آئینگے۔ نوازشریف کو مولانا کی یہ خاصیت معلوم تو تھی کہ وہ ’’کر بھلا سو ہو بھلا ‘‘ کے فلسفہ پر بری طرح ایمان رکھتے ہیں مگر وزیراعظم حواس باختگی میں برطانیہ کے پہلے دورہ میں انہیں ساتھ لے جانا بھول گئے ورنہ الٹے سیدھے عطائیوں سے پھَکیاں لینے کی ضرورت پیش نہ آتی اور اب تک تو وہ شفایاب بھی ہو چکے ہوتے۔

یہ تو طے تھا کہ نواز شریف بہ نفس نفیس زرداری سے نہیں ملیں گے اور زرداری خود بھی اس ملاقات سے گریزاں ہونگے کیونکہ ان کی پارٹی دیگر اپوزیشن جماعتوں کی معیت میں ٹی او آر کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کے بعد اس کے اجلاس منعقد کرنے کے پڑاؤ تک آ پہنچی ہے۔ بلاول اور خورشید شاہ بھی اپنے ذرائع سے خبردار کر چکے تھے کہ آصف علی زرداری نوازشریف سے ملاقات نہیں کرینگے۔ زرداری کو بھی کماحقہ‘ یہ علم تھا کہ اس نازک موڑ پر اگر وہ نوازشریف سے ملاقات کر لیتے تو پیپلز پارٹی کی اب تک کی ساری سیاسی کوشش اکارت جاتی اور پھر ان پر نوازشریف کی ذات کو بچانے کا الزام لگنا بھی یقینی سا امر تھا جس سے ان کی پارٹی کے سیاسی بدحالی کے سب سے نچلے گڑھے میں لڑھک جانے کا امکان واضح تھا۔

جہاں ایک طرف میاں نواز شریف اپنا میڈیکل چیک اپ کروا رہے تھے، دوسری جانب مولانا فضل الرحمان زرداری کی رہائشگاہ پر ان سے پے در پے ملاقاتیں کر رہے تھے۔ دیرینہ دوستوں میں بدھ تک تین ملاقاتیں ہو چکی تھیں‘ ان سب ملاقاتوں میں جتنی بھی باتیں ہوئیں، لب لباب ’’کچھ دو کچھ لو‘‘ ہی تھا۔ زرداری صاحب پانامہ ریلیف ڈوز دینے پر مائل تو تھے لیکن ان کی اپنی بھی کچھ بیماریاں ہیں جن کا مداوا میاں صاحب کے پاس ہے۔ آصف زرداری کے مطالبات کی فہرست تو بہت طویل ہے مگر ان کا سب سے بڑا مسئلہ ڈاکٹر عاصم ہیں جن کی رہائی کی صورت میں وہ بھلے چنگے ہو سکتے ہیں۔

مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم کو بچانا نوازشریف کے بس کی بات نہیں۔ ڈاکٹر عاصم نیشنل ایکشن پلان کے تحت گرفتار ہوئے ہیں اور وہ رینجرز، نیب اور ایف آئی اے تینوں کے مشترکہ مہمان ہیں۔ 500 ارب کے قریب مبینہ کرپشن کرنیوالے ہائی پروفائل مبینہ قومی مجرم کو مکھن کے بال کی طرح کھینچنا ناممکنات میں سے ہے۔ بات اگر ایف آئی اے یا نیب تک ہی محدود ہوتی تو حکومت اپنا رسوخ استعمال کر کے ڈاکٹر عاصم کو کم از کم ضمانت ضرور دلوا سکتی تھی اور پھر لمبی لمبی تاریخوں اور ثبوتوں کی نایابی کے سبب ان کا کیس کمزور ہوتا ہوتا ایک دن خود ہی ختم ہو جاتا مگر یہ معاملہ رینجرز نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے اور اب تو نیب بھی حکومت کی دھونس سے دہلنے والی نہیں‘ سو نوازشریف زرداری کا یہ مطالبہ پورا کرنے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں ہیں۔

جہاں تک آصف زرداری کی خودساختہ جلاوطنی اور وطن واپسی کا مطالبہ ہے، اس سے بھی نوازشریف کا کوئی سروکار نہیں، البتہ مقتدرہ کی طرف سے گرین سگنل ملنے پر ہی زرداری کی واپسی ممکن ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں دیگر تمام مطالبات جو مولانا کے سامنے رکھے گئے ہیں، وہ ثانوی نوعیت کے ہیں جن پر وزیراعظم بخوشی رضامند ہو سکتے ہیں۔ بظاہر تو ہمیں نہیں لگتا کہ زرداری صاحب نوازشریف کو کوئی زوداثر ریلیف دے پائیں گے۔ پیپلزپارٹی کے متحرک راہنماؤں نے بھی فضل الرحمان زرداری ملاقات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ ان پر صرف ایک ہی دھن سوار ہے کہ کسی نہ کسی طرح وزیراعظم کو نون لیگ کی حکومت سے الگ کیا جائے۔ اس کے لیے وہ روز و شب دوڑ دھوپ کر رہے ہیں۔

خورشید شاہ اور اعتزاز احسن متفقہ شرائطِ کار مرتب کرنے کے لیے نئی نئی ترکیبیں سوچ رہے ہیں‘ دوسری طرف ان کا ایک گروپ وزیراعظم اور ان کے خاندان کو نااہل قرار دلوانے کے لیے الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈال رہا ہے، اسی سلسلے میں کچھ عناصر نے وزیراعظم کی اہلیت کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں پٹیشن بھی دائر کر دی ہے۔ یہ ساری صورتِ حال دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے لیے انتہائی شرم کا مقام ہے کہ امریکا کے ڈرون حملے کے بعد پاکستان میں ایک ناقابلِ قیاس بحران اور غیریقینی کی فضا پیدا ہو چکی ہے اور دور دور تک نہ تو حکومت کہیں نظر آتی ہے، نہ اپوزیشن کے سیاسی لیڈران منظرعام پر ہیں۔

صرف اس لیے کہ یہ ملکی مفاد کا معاملہ ہے اور حالیہ دنوں میں ثابت ہو گیا ہے کہ سیاستدانوں کو سوائے ذاتی مفاد کے اور کسی چیز کی پروا نہیں۔ اب شنید ہے کہ وزیراعظم کی اتنی جلد وطن واپسی شاید ممکن نہ ہو سکے کیونکہ ڈاکٹروں نے انھیںاوپن ہارٹ سرجری تجویز کی ہے جس کے لیے انھیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رہنا ہو گا۔ آپریشن کے بعد انھیں طویل آرام کا مشورہ دیا جا سکتا ہے۔ گمان غالب ہے کہ نوازشریف اب زرداری کی طرح بیرونِ ملک ہی استراحت فرمائیں گے جب تک کہ پاناما لیکس کی بلا سر سے ٹل نہیں جاتی۔ وزیراعظم کی عدم دستیابی میں امورِ مملکت کیسے چلائے جائیں گے، اس بابت آئین مکمل خاموش ہے لیکن زبانی طور پر کہا جا رہا ہے کہ اسحاق ڈار یہ فریضہ انجام دیں گے جنھیں وزیراعلیٰ پنجاب اور مریم نواز کی مکمل مشاورت حاصل ہو گی۔

وزیراعظم کی ملک سے طویل تعطیل کی صورت میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم کے استعفیٰ پر شور مچایا جا سکتا ہے اور ممکن ہے حالات بگڑ جانے پر وزیراعظم لندن میں بیٹھ کر مستعفی ہو جائیں اور وزیرخزانہ باقاعدہ طور پروزارتِ عظمیٰ سنبھال لیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کو ایسا موقع آنے سے پیشتر ہی رضاکارانہ طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے کیونکہ قانون میں کوئی ایسا طریقہ کار موجود نہیں کہ وہ کسی کو اپنا جانشین یا قائم مقام مقرر کر سکیں۔

صدرِ مملکت کے ملک سے باہر جانے کی صورت میں چیئرمین سینیٹ قائم مقام کا عہدہ سنبھالتا ہے‘ اسی طرح چیف جسٹس آف پاکستان کا قائم مقام سپریم کورٹ کا سینئر ترین جج ہوتا ہے مگر وزیراعظم کے غیرسرکاری دورے یا بیماری کی صورت میں قانونی طور پر ان کا کوئی قائم مقام نہیں ہو سکتا‘ یہ بڑی نازک صورتِ حال ہے‘ خدانخواستہ ریاست میں کوئی ہنگامی صورتِ حال پیدا ہو جائے یا کوئی دشمن ممالک جارحیت کا مرتکب ہو تو ایمرجنسی یا جنگ کے احکامات صرف وزیراعظم ہی جاری کر سکتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ جسمانی آپریشن کے لیے وزیراعظم کو بے ہوشی کی ادویات لینے کے بعدکوما کی حالت میں جا سکتے ہیں، ایسے میں ہنگامی حالات میں ان سے کوئی آرڈر جاری نہیں کروائے جا سکتے چنانچہ بہتر یہی ہو گا کہ وزیراعظم لمبی چھٹی پر رہنے کی وجہ سے مستعفی ہو کر اسپیکر یا اپنی پارٹی کے کسی سینئر وزیر کو وزیراعظم بننے کا موقع دیں۔ اپوزیشن کو ملکی مفاد کے بجائے صرف اپنی باری کی چنتا ہے۔ ان سیانوںگیانوں نے پونے دو ماہ سے پاناما سرکس پر وہ قیامتِ صغریٰ برپا کی ہوئی ہے کہ خدا کی پناہ! اور جب ملکی سلامتی اور خودمختاری کا مسئلہ آیا توسب کو سانپ سونگھ گیا اور سارے کے سارے جا گھسے اپنے اپنے بلوں میں۔

ملامنصور کا نوشکی ڈرون حملہ میں مارا جانا امریکا کی طرف سے پاکستان کے لیے یہ ایک واضح پیغام تھا کہ پاکستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہنوز باقی ہیں جنہیں ختم کرنے کے لیے امریکا پاکستانی علاقے کے اندر گھس کر انہیں نشانہ بنانے سے گریز نہیں کریگا۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے وسیع پیمانے پر جانی و مالی نقصان اٹھایا ہے اور ساری دنیا پاکستان کی ان قربانیوں کی معترف ہے مگر امریکا ہمیشہ کی طرح آج بھی ہم سے ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرنے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کر رہا۔ وہ پاکستان کی فوج اور ایجنسیوں پر بھی افغان طالبان کی حمایت کا بیہودہ الزام لگا چکا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ یہ دہشتگردی خود امریکا کی پیدا کردہ ہے‘ اور طالبان بھی امریکا کے اپنے تخلیق کیے ہوئے ہیں‘ یہ بلائیں امریکا نے ہی پاکستان کے گلے چموڑی ہیں۔ امریکا کے ارادے انتہائی خطرناک ہیں اور اس نے پاکستان کو بھی عراق، شام اور صومالیہ کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔ یہ تو پاکستان اور پاکستانیوں کی خوش بختی ہے کہ انہیں اللہ نے جنرل راحیل شریف جیسا بہادر مجاہد عطا کر دیا ورنہ آج پاکستان کی حالت بھی عراق اور شام سے مختلف نہ ہوتی۔

چاہیے تو یہ تھا کہ امریکا کے ڈرون حملے پر پاکستان کی طرف سے شدید ردِعمل سامنے آتا اور وزیراعظم لندن کا دورہ منسوخ کر کے ایک لمحہ ضایع کیے بغیر اعلیٰ سطح کا اجلاس بلاتے جس میں جنرل راحیل شریف اور دیگر مسلح افواج کے سربراہان بھی شریک ہوتے اور باہمی مشاورت کے بعد سرکاری بیان کے ذریعے امریکی جارحیت پر سخت ردِ عمل کا اظہار کیا جاتا‘ اس کے ساتھ ساتھ امریکا اور افغانستان کو وارننگ جاری کی جاتی کہ آیندہ ایسا کوئی اقدام پاکستان کی سالمیت و خودمختاری پر حملہ تصور کیا جائے گا اور یہ کہ اس کا پوری طاقت سے جواب دیا جائے گا، مگر حیف! کہ حکومت کی طرف سے اس گھمبیر ایشو پر مکمل خاموشی رہی۔

سانحہ کے دوسرے روز مشیرِ خارجہ طارق فاطمی نے حکومت کی ناک بچانے کے لیے اتنا ضرور کیا کہ امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو دفترِ خارجہ طلب کر کے رسمی احتجاج کے چند جملے اس کے گوش گزار کر دیے۔ دراصل یہ کام وزیراعظم کا تھا جو بدقسمتی سے لندن میں ’’علاجِ اعظم‘‘ کروانے چلے گئے‘ وہ چاہتے تو انگلینڈ ہی سے اپنا بیان جاری کر سکتے تھے مگر انہیں تو اپنی کرسی عزیز تھی‘ وہ امریکا کے خلاف بیان دے کر بھٹو نہیں بننا چاہتے تھے۔

ان کی مشاورت سے اگر سیکرٹری خارجہ بھی بیان جاری کر دیتے تو اس میں کوئی وزن ہوتا‘ حقیقت میں تو یہ کام وزیر خارجہ کا تھا جس کا قلمدان ہی کابینہ میں موجود نہیں۔ سفیروں کے آگے احتجاج ریکارڈ کروانے والی حکومتوں کو جدید جمہوری دنیا میں کمزور حکومتیں تصور کیا جاتا ہے‘ دوسرے لفظوں میں اخلاقی جرأت سے عاری حکومتیں اس طرح کے اقدام کا سہارا لیتی ہیں‘ اور جن معاملات کے احتجاج سفارتی سطح پر درج کروائے جاتے ہیں وہ ثانوی نوعیت کے بھی نہیں ہوتے۔ اتنے بڑے مسئلہ پر پاکستان کے مشیرِ خارجہ نے اگر امریکی سفیر سے احتجاج کرنا مناسب سمجھا تو اس کا ایک ہی مطلب لیا جا سکتا ہے کہ پاکستان اپنے ریاستی علاقہ میں امریکی ڈرون حملوں کو اتنا بڑا ایشو نہیں سمجھتا‘ اور دوسرے روز احتجاج کا مطلب اس ایشو کی اہمیت کو اور بھی کم کر دیتا ہے۔

کچھ ناقدین میڈیا پر شور مچاتے رہے کہ فوج بھی اس سلسلے میں مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ عرض یہ ہے کہ پاکستان کی فوج بھلے ہی حکومت پر اثرانداز ہے تاہم وہ عالمی سطح پر کوئی اس طرح کا پالیسی بیان جاری نہیں کر سکتی جو سراسر سویلین حکومت کے دائرئہ اختیار میں آتا ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ داخلی معاملات میں سکیورٹی کے بڑے فیصلے فوج ہی کرتی ہے مگر خارجی صورتِ حال اس سے قطعی مختلف ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ وزارتِ خارجہ کے بعد اگر فوری ردِ عمل دینا کسی کی اولین ذمے داری تھی تو وہ تھی وزارتِ داخلہ۔ یہ کتنی بے حسی اور دوغلی کی بات ہے کہ ہمارے وزیر داخلہ بھی مسلسل تین روز چپ سادھے رہے اور جب میڈیا نے تیروتفنگ کسنے شروع کیے تو انھوں نے ایک تھڑے باز قسم کی پریس کانفرنس کر کے پاکستان کے موقف کو اور بھی کمزور کر دیا اور ادھر ادھر کی بے تکی اور ٹھنڈی باتیں کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ امریکا مہاراج پاکستان کا آج بھی آقا ہے اور اس کے ٹکڑوں پر پلنے والے ایک ادنیٰ سے غلام کی کیا حیثیت کہ وہ اسے آنکھیں دکھائے۔ چوہدری نثار کی فیملی امریکا میں مقیم ہے‘ وہ ذاتی اور حکومتی نمایندہ کی حیثیت میں بھی امریکا کو لعن طعن نہیں کر سکتے۔ یہ لوگ کسی نہ کسی طرح سے امریکا کے احسان مند ہیں۔

حکومت تو حکومت اپوزیشن جماعتیں چار قدم اور بھی آگے نکل گئیں۔ حکومتی ٹولے کو گنگ پا کر خورشید شاہ نے محض پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ایک ٹاک شو میں ڈھیلے سے منہ کے ساتھ وزارتِ خارجہ ہی کے گھسے پٹے الفاظ دہرا کر اپنا سیاسی حق ادا کر دیا کہ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری کے خلاف ہیں۔ ہمیں سب سے زیادہ افسوس عمران خان پر ہوا۔ جس روز ملا منصور کی ہلاکت کی خبر میڈیا پر سُپر نیوز بنی ہوئی تھی، اسی روز باغ (آزاد کشمیر) میں وہ جلسہ کرنے چلے گئے، اور بجائے اس کے کہ وہ اپنی تقریر کا آغاز امریکا کو سخت پیغام دینے سے کرتے، انھوں نے حسبِ عادت نوازشریف کو بے لباس کرنے میں تسکین جانی۔

لوگ اس انتظار میں تھے کہ چلو شروع میں نہیں تو کم ازکم تقریر کے درمیانی یا آخری حصہ میں وہ ضرور ڈرون حملہ کے خلاف بات کریں گے اور امریکا کو آڑے ہاتھوں لیں گے مگر لیلائے اقتدار کے اس حواس باختہ مجنوں نے عوام کو جی بھر کر مایوس کیا۔ مانا کہ نوازشریف کرپٹ ہیں، غیردیانتدار ہیں، قومی حمیت سے عاری ہیں، انہیں ملکی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد عزیز ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی ایک کم فہم اور کمزور وزیراعظم ثابت ہوئے ہیں اور ان کا ملک پر مزید حکمرانی کرنا پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے گھاٹے کا سودا ہے، لیکن دن رات انہیں برا بھلا کہنے، ہروقت ان کی عزت رگیدتے رہنے اور دھونس دھرنے کرنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔

ہمیں تو عمران خان کی اس حجت کی بھی سمجھ نہیں آپا رہی کہ جب ان کی جماعت متحدہ اپوزیشن کا حصہ بن چکی ہے‘ اس میں دوٹوک مؤقف اختیار کرنے کی بجائے اپوزیشن کے ساتھ مل کر حکومتی مؤقف کو ماننے پر لگی ہوئی ہے اور وزیراعظم کو ریلیف دینے کے لیے مضحکہ خیز ٹی او آرز بنانے کے درپے ہے‘ اگر ایسا ہو گیا تو عوام ایسی اپوزیشن اور پی ٹی آئی کو کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔ راحیل شریف کو لوگ اس لیے پسند کرتے ہیںکہ ان میں قومی جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ فتنہ پردازوں نے جب شور مچایا کہ امریکا کو جواب دینے میں فوجی قیادت بھی خاموش ہے، لیکن اس ضمن میں جب حکومت کا ورژن نہ آیا تو مجبوراً راحیل شریف کو سامنے آنا پڑا۔

اپنے منصب کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے انھوں نے امریکا کو براہِ راست جواب دینے کے بجائے امریکی سفیر کو بلا کر خوب تسلی کی اور اسے یاد دلایا کہ ملا فضل اللہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان پر حملے کرتا ہے، ہم نے اسے ٹارگٹ کرنے کے لیے کبھی افغانستان کی سرزمین پر کارروائی کا نہیں سوچا تو پھر امریکا نے ملا اختر منصور کو ٹارگٹ کرنے کے لیے پاکستان کے اندر آ کر ڈرون حملہ کرنے کی جسارت کیسے کی؟ جنرل راحیل شریف نے امریکا کے اس مشن کو طالبان راہنما پر نہیں بلکہ پاکستان پر حملہ قرار دیا۔ امریکا کا دعویٰ ہے کہ ملامنصور علاج کی غرض سے ایران گیا ہوا تھا جہاں اس کی فیملی بھی رہائش پذیر ہے‘ اور ڈیڑھ ماہ بعد جب وہ تفتان سرحد کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا تو انٹیلی جنس کی اطلاع پر اسے ڈرون کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ نوشکی کے قریب جس گاڑی کو نشانہ بنایا گیا اس میں دو افراد سوار تھے جن کی لاشیں اس حد تک جل چکی تھیں کہ ان کی پہچان ممکن نہ تھی۔ ایک شخص جس کی پہچان محمد اعظم کے نام سے ہوئی، وہ اس گاڑی (ٹیکسی) کا ڈرائیور بتایا جاتا ہے جب کہ دوسرا شخص ولی محمد ہے جس کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ گاڑی کے باہر پڑے ہوئے ملے۔ امریکا کا دعویٰ ہے کہ ولی محمد ہی ملا منصور ہے جس نے پاکستانی دستاویزات تیار کر رکھی تھیں۔ بلوچستان کے مقامی ذرایع کہتے ہیں کہ جس گاڑی کو نشانہ بنایا گیا وہ سڑک سے کافی ہٹی ہوئی تھی اور اس کی باڈی پر گولیوں کے نشانات موجود تھے۔

چوہدری نثار نے پریس کانفرنس میں یہ عقدہ کھولا کہ پاکستان ایئرفورس کی معلومات کے مطابق جس ڈرون نے ملا منصور کی گاڑی کو ہٹ کیا، وہ پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہی نہیں ہوا۔ دوسری جانب افغان رکن پارلیمنٹ شنکئی خاور خیل نے ایرانی خبر رساں ایجنسی کو اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ ملا اختر منصور 3 ماہ قبل افغانستان میں مارا گیا تھا اور اس خبر کو افغان حکومت اور امریکا نے بڑی فنکاری سے خفیہ رکھا اور بلوچستان میں جو آدمی مارا گیا وہ ولی محمد نہیں تھا۔ اس کا مطلب صاف واضح ہے کہ یہ سارا ڈراما پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے رچایا گیا اور ملا منصور کا ولی محمد کے نام سے بنا ہوا پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نشانہ بنائی گئی گاڑی کے باہر پھینک دیا گیا۔

اس سے یہ معمہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ نوشکی کے قریب جعلی ملا منصور کی گاڑی کو ڈرون کے ذریعے نہیں بلکہ افغان انٹیلی جنس کے ذریعے زمینی کارروائی میں جلایا گیا۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا پاکستان کے متعلق کتنے قبیح عزائم رکھتا ہے۔ فی الوقت اس نے پاکستان کا منہ بند کرنے کے لیے امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے بدست کولیشن سپورٹ فنڈ کی جگہ ایک نئے فنڈ کی منظوری دیدی ہے جس کی سالانہ 80 کروڑ ڈالر کی قسط پاکستان کو دینے کا اقرار کیا گیا ہے مگر یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ ابھی تک ایف۔16 کا معاہدہ بھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے اور صدارتی انتخابات کے بعد امریکا کیا چال چلے گا یہ آنیوالا وقت ہی بتا سکتا ہے۔

اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ خطے میں امریکا کی تزویراتی پالیسیاں یکسر بدل رہی ہیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان نے اپنی فارن پالیسی ازسرِنو مرتب نہ کی تو بہت جلد وہ خطے میں تنہا ہو جائے گا‘ اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ پاناما لیکس پر اپنے تحفظ کے بجائے پاکستان کے تحفظ کے لیے ایک دوراندیش اور مضبوط وزیر خارجہ کی تعیناتی کی فکر کرے اور یہ تبھی ممکن ہے جب وزیراعظم ملک و قوم کو دوعارضہ میں مبتلا کرنے کے بجائے وزارتِ عظمیٰ سے علیحدہ ہو کر اپنی صحت پر مکمل دھیان دیں‘ اسی میں ملک کا بھی فائدہ ہے اور ان کی ذات کا بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔