کاش چراغ جلتے رہیں

پاکیزہ منیر  اتوار 29 مئ 2016

ایک رات میں اپنے بچوں کو ساتھ  لے کر بہت ضروری کام سے نکلی، واپسی میں  گیارہ بج گئے۔ گاڑی سڑک پر رواں تھی۔ میں نے بیک میرر میں دیکھا تو دو موٹرسائیکلوں پر دو دو نوجوان یعنی چار مسلسل میری گاڑی کے پیچھے تھے۔ جیسے ہی اسپیڈ بریکر آیا تو مجھے اپنی کارکو آہستہ کرنا پڑا۔ جو میں نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔ کارکے آہستہ ہوتے ہی ایک بائیک نے آگے سے راستہ روکا، دوسری بائیک نے پیچھے سے راستہ روک دیا۔ آگے سے ایک بائیک والا فوراً اترا اور میرے سر پر گن رکھ دی۔ میں اور بچے  خوف زدہ ہو گئے۔ یااﷲ یہ ماجرا کیا ہے۔ چاروں لڑکوں کے درمیان ہم آخر یہ چار نہتے کیا ہے؟ جس نے میرے سر پر گن رکھی اس نے کہا ’’ جلدی جلدی موبائل فون اور رقم وغیرہ نکالو۔‘‘ میرا ایک ہینڈ بیگ تھا اس نے جلدی سے وہ اٹھایا اور یہ جا وہ جا۔

بچے بہت زیادہ خوف زدہ ہوگئے تھے۔ اب بچوں کے ہزار سوالات شروع ہوگئے۔ مما چاروں انکل کہیں سے ڈاکو نہیں لگ رہے تھے۔ سب کتنے اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ مما یہ چورکیسے بنتے ہیں؟اس میں کوئی شک نہیں کہ چاروں نوجوان پڑھے لکھے لگ رہے تھے، بچے بالکل صحیح کہہ رہے تھے کہ انکل توکہیں سے ڈاکو نہیں لگ رہے تھے۔ میں نے اپنی کارکا رخ پولیس اسٹیشن کی طرف کردیا، اس خیال سے کہ رپورٹ درج کروا دوں۔ پولیس اسٹیشن کے گیٹ پرکار روک دی مگر نہ اندر گئی اور نہ ہی رپورٹ درج کروائی۔ کیونکہ  پولیس کا محکمہ اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں کی روک تھام کرسکے۔ اس واقعے کے بعد میرے ذہن میں کئی سوالات پیدا ہوئے۔ میرے بچوں کا سوال کہ مما چورکیسے بنتے ہیں؟

پاکستانی نوجوان ترقی کرنے اورکامیاب زندگی گزارنے کے جذبے سے سرشار ہیں اور انھوں نے زندگی کے ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایا ہے۔ ہماری آبادی کا 29.69 فی صد 15 تا 29 برس کے نوجوانوں پر مشتمل ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کی 18 کروڑ سے زائد آبادی میں 5 کروڑ نوجوان شامل ہیں۔

ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق جن ممالک کی پالیسیاں عوام دوست ہیں ان ممالک کے نوجوان بہتر مستقبل کے لیے اپنے ہی ملک میں رہنا چاہتے ہیں جب کہ پاکستان ان 64 ممالک کی فہرست میں نویں نمبر پر ہے جن کے نوجوان بیرون ملک اپنا مستقبل محفوظ سمجھتے ہیں۔

اگر ملک میں ملازمت کے مواقعے موجود ہوں تو بھلا نوجوان اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے بیرون ملک کیوں جائیں یا پھر کس کو اچھا لگتا ہے کہ شہریوں کی گاڑیاں روک روک کر رہزنی کی وارداتیں کرتے پھریں۔ پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج نہ کروانے کی اصل وجہ ہی یہی تھی کیا یہ نوجوان قصور وار ہیں یا پھر ہمارا سسٹم خراب ہے؟ اصل میں خرابی ہمارے حکمرانوں میں ہیں جن کو بس اپنے مسائل نظر آتے ہیں عوام نہیں۔

خراب یہ نوجوان نہیں ہمارے حکمران ہیں۔ جنھوں نے بے روزگاری کا خاتمہ نہیں کیا۔ ان لوگوں نے کوئی نوجوان دوست پالیسی ملک میں نہیں بنائی جس سے بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکتا، حکومت نے گورنمنٹ جاب پر بہت سال سے پابندی لگائی ہوئی ہے تو آخر ہر برس جو سیکڑوں نوجوان انجینئرز،آئی ٹی ماہر، ڈاکٹرز اور دوسرے شعبہ جات سے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان جب ڈگری حاصل کرتے ہیں تو وہ کہاں جائیں، ملک میں جاب نہیں اور ہر نوجوان تو ملک سے باہر با آسانی نہیں جاسکتا کہ بیرون ملک وہ اپنی زندگی بہتر بنالے اور پھر یہی نوجوان چور اور ڈاکو بنتے ہیں۔

اس واقعے کے بعد میں نے کراچی یونی ورسٹی کے مختلف شعبہ جات میں گئی، اتنے طالب علم، ماشا اﷲ  ہر شعبہ جات میں بھرے پڑے ہیں۔ محنت اور اتنی مہنگائی میں اتنی زیادہ فیس ادا کررہے ہیں بس اسی امید پرکہ جب ڈگری مل جائے گی تو ہم ملک میں رہ کر اس ملک کی خدمت کریں گے مگر افسوس ایسا کچھ نہیں ہوا۔

کراچی یونیورسٹی کا شمار پاکستان کی قدیم یونیورسٹیز میں ہوتا ہے اس کی بنیاد 1953 میں رکھی گئی، ابا حلیم کسے یاد نہیں۔ کراچی یونی ورسٹی میں انڈرگریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اور ڈاکٹورل پروگرامز کروائے جاتے ہیں۔ اس وقت تقریباً 80 ہزار سے زائد طلبا وطالبات زیر تعلیم ہیں یہ تو ایک یونی ورسٹی کی بات ہوئی ہمارے ملک میں کئی ایسی درسگاہیں موجود ہیں جہاں نوجوان زیر تعلیم ہیں والدین اپنے بچوں پر روپیہ پیسہ خرچ کررہے ہیں نوجوان محنت کررہاہے مگر نتائج کیا نکل رہے ہیں، آیئے دیکھتے ہیں۔

اس حوالے سے سی پی ایل سی سے حاصل کردہ حقائق حیران کن ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق جنوری سے 15 نومبر 134,797 افراد اپنے موبائل فونز سے محروم ہوگئے یعنی ہر ماہ 3,163 شہریوں سے موبائل فونز چھین لیے گئے۔ اسی عرصے میں 18,587 شہری اپنی موٹرسائیکلز سے محروم ہوئے یعنی ہر ماہ 1,689 افرادکی موٹر سائیکلز یا تو چھین لی گئی یا پھر چوری ہوگئیں، اسی طرح اہل کراچی کی 1,882 گاڑیاں چوری ہوئیں۔ یا پھر چھین لی گئی یعنی ہر ماہ 171 افراد اپنی گاڑیوں سے محروم ہوئے، میں تو وہ تعداد آپ کو بتارہی ہوں جو رپورٹ ہوئیں اور سرکاری ریکارڈ میں درج ہے، جب کہ اس سے کئی زیادہ تعداد میں ہونے والے واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے، جس طرح میں نے رپورٹ درج نہیں کروائی۔ آخر قصور وارکون ہے؟ آخرکون لوٹ رہا ہے؟ ہمیں یہ نوجوان طبقہ یا پھر ہمارے بے حس حکمران، حکومت کی اولین ذمے  داریوں میں سے ایک ذمے داری  روزگارکا عام ہونا ہوتا ہے مگر یہ حکومت بے روزگاری کے خاتمے میں بھی ناکام ہوچکی ہے۔

حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر (یوتھ اسکیم) شروع کرنی چاہیے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرے ایسے منصوبے مرتب کروائے جائیں جس سے جلد از جلد بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکے۔

انسٹیٹیوٹ آف یورپین بزنس ایڈمنسٹریشن کی جانب سے 125 ممالک میں کیے گئے سروے کے مطابق مشکل حالات کے باوجود پاکستانی نوجوان ذہانت کے اعتبار سے دنیا میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ سروے کے مطابق پاکستانی نوجوان ترقی یافتہ اور صنعتی ممالک کے نوجوانوں کے ہم پلہ ہیں۔

بس ضرورت ہے تو اس بات کی کہ ہمارے حکمران نوجوانوں کے لیے وسائل  پیدا کرے یہ ہمارے ملک کا مستقبل ہیں ان پر خصوصی توجہ دے ملک میں نوجوان طبقے کے مسائل کو دور کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر اقدامات کیے جائیں وسائل پیدا ہوگئے تو مسائل ختم ہوپائیں گے غلط ہمارے معاشرے کے نوجوان نہیں غلط ہمارے ملک کی پالیسیاں ہیں ان کو تبدیل کرنا بہت ضروری ہے۔

مجھے ڈر اس چیزکا ہے بہت امید سے جل رہے ہیں یہ چراغ کہیں بجھ نہ جائے کتنے نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے چور، ڈاکو بن گئے ہیں اور اپنی زندگیاں برباد کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ کئی پڑھے لکھے نوجوان گھروں میں فاقے دیکھ کر چور بن گئے اور زندگی برباد کر بیٹھے، کئی جیل میں چلے گئے، جیل کے اندر لوگوں کی کہانی بھی بہت دردناک ہے ہرکوئی پیشہ ور مجرم نہیں وہاں انشاء اﷲ بہت جلد اس پر بھی لکھوںگی میں دو سے تین ماہ جیل کے چکر لگاتی رہی ہوں اور واقعات، کہانیاں جمع کرتی رہی۔ ان ہی میں سے ایسے نوجوان بھی ملے جو گھروں میں فاقے کی وجہ سے شریف خاندان کے نوجوان جیل کی چار دیواری میں بند پڑے تھے ہمارے ملک کا مستقبل بس روگار نہ ہونے کے سبب تباہ اور برباد ہورہاہے۔

ڈر ہے مجھ کو کہ امید کے یہ چراغ بجھ نہ جائے ہمارے ملک کا روشن مستقبل اندھیروں میں  ہے ان کو روشن کرے توکوئی۔ میری حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ خدارا نوجوان نسل کے لیے زیادہ سے زیادہ روزگار فراہم کرنے کے لیے پالیسی مرتب کی جائے اور پھر ان پر عمل در آمد بھی ہوتاکہ یہ چراغ جلتے رہے۔ زندگی اتنی بے بس اور مجبور پہلے تو نہ تھی جیسی اب ہوگئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔