بانسری بجاتا نیرو

رئیس فاطمہ  اتوار 29 مئ 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

امتحانی پرچہ جات میں عموماً ایک سوال ہوتا ہے کہ کسی ناول، افسانے یا کسی اہم مضمون کا خلاصہ لکھیے۔ خلاصہ یا سمری کی بنیادی شرط یہ ہوتی ہے کہ اصل تحقیق کے بنیادی خدوخال اس طرح واضح کیے جائیں کہ سارا منظر سامنے آ جائے اور لوگوں کو پورا ناول یا افسانہ پڑھنے کی ضرورت نہ پڑے۔

تو صاحبو! کیوں نہ پاکستان نامی عظیم مملکت اسلامیہ، جمہوریہ پاکستان کے آج تک کے منظر نامے کا خلاصہ کرنے کے لیے چند خبروں کی سرخیاں منتخب کرتے ہیں۔ یہ خیال رہے کہ یہ خلاصہ آج کے ’’عہد زریں‘‘ کا ہے۔ ورنہ تو نواب زادہ لیاقت علی خاں جو بدقسمتی سے بیوروکریسی کی سازش کا شکار ہو کر شہید ہوئے، ان کے بعد کی کہانیوں کا خلاصہ کرنے کے لیے کئی سال درکار ہوں گے۔ الف لیلیٰ کی شہرزاد  نے بے وفائی کا شکار ہونے والے شہزادے کو روزانہ ایک کہانی سنا کر طویل عرصے تک کہانیوں کے سحر میں مبتلا رکھا۔ تب وہ نوجوان لڑکیوں کے قتل سے باز آیا۔ کاش آج بھی کوئی شہرزاد ایسی ہوتی جو بادشاہوں کے طرز زندگی کو جوتی کی نوک پہ رکھتے ہوئے حکمرانوں کو ظلم و سنگدلی سے باز رکھ سکتی…کاش!

اب ذرا اپنے پاکستان کے حالات، حکمرانوں کے ظلم، وڈیروں کی زیادتی، امیروں اور وزیروں کے سروں میں سمائے ہوئے خناس  صنعت کاروں اور نو دولتیوں کی کمینگیوں کے ’’کارناموں‘‘ کا خلاصہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی بیرون ملک رہنے والا آپ سے پاکستان کی تازہ ترین صورت حال جاننا چاہے تو آپ چند لفظوں میں پوری صورت حال کا خلاصہ پیش کر سکتے ہیں۔ پہلے گزشتہ دنوں کی چند خبروں کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیے۔

(1)۔ نوشہرو فیروز میں ایک بااثر وڈیرے (وڈیرہ تو ہوتا ہی بااثر ہے، ورنہ وہ وڈیرہ کیوں کہلائے) کی گاڑی سے دو مزدور بھائیوں کی گدھا گاڑی ٹکرا گئی، جس پر چراغ پا ہو کر وڈیرے نے دونوں بھائیوں کو مجبور کیا کہ وہ منہ میں جوتا دبا کر وڈیرے سے معافی مانگیں۔ دونوں بھائیوں کے جوتا منہ میں دبائے معافی مانگنے کی تصاویر میڈیا پر سب نے دیکھیں اور نیروؔ کو یاد کیا۔

(2)۔ تھرپارکر میں قحط کی تباہ کاریوں سے مزید 4 بچے ہلاک، شدید گرمی اور پیاس سے انسان اور نایاب ہرن اپنی جان سے گئے۔

(3)۔ وزیر اعظم نواز شریف علاج کے لیے لندن جائیں گے، جہاں وہ اپنا طبی معائنہ کرائیں گے۔ (اب تک وہ یقینا طبی معائنے کے بعد وطن عزیز واپس آ چکے ہوں گے) ایک طرف تھرپارکر میں گزشتہ کئی سالوں سے انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے، لوگ بھوک، پیاس، گرمی اور غربت سے مر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم اور پارٹی چیئرمین کے لیے 70 قسم کی لاجواب ڈشیں تیار کروائی جاتی رہی ہیں، منرل واٹر کی بوتلیں اور ایئرکنڈیشنڈ خیموں کی کہانی الگ ہے۔ (کہیں نہ کہیں جدید دور کا نیروؔ اب بھی بانسری بجا رہا ہے)

(4)۔ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کی سفارش پر حکومت اور اپوزیشن ایک ساتھ۔ لاکھوں کے الاؤنس، ایئرٹکٹ، میڈیکل سہولتوں کی بھی تجاویز، سابق ارکان اسمبلی بھی مفید ہوں گے۔ بہت خوب…! کسی ایک معاملے پر تو اپوزیشن اور حکومت ایک صفحے پر نظر آئے۔ ویسے یہ سب شعبدے بازی ہے۔ فرینڈلی اپوزیشن کسے کہتے ہیں؟ اور دوسری طرف اولڈ ایج بینفٹ اسکیم کے پنشن یافتہ، معذور بوڑھے، ضعیف العمر عورتیں، لاچار اور مجبور انسان، حکومت کو نہ سرکاری ملازمین کی پنشن میں خاطر خواہ اضافے کا خیال آتا ہے، نہ اولڈ ایج بینفٹ اسکیم والوں پہ رحم آتا ہے، بہت سے بہت ہوا تو حاتم طائی کی قبر پہ لات مارتے ہوئے پانچ دس فی صد سالانہ بجٹ کے موقعے پر اعلان۔ دوسری جانب لاتعداد غیر ملکی دوروں، عمروں اور حج کے نام پر قومی خزانے کی لوٹ مار اور کھلے عام ڈکیتیاں، اربوں روپے کے قرضہ جات کی معافی۔ ’’مال مفت دل بے رحم‘‘ کی کہاوت سامنے ہے اور پھر یہ شعبدہ باز ارکان اسمبلی جو ہر تال پہ ٹھمکا لگانا جانتے ہیں۔ بوقت ضرورت ڈیسک بجانا اور تالی بجانا بھی جانتے ہیں۔ یہ کام کیا کرتے ہیں؟ یہ آج تک کسی کو پتہ نہیں چلا۔ لیکن ان کے اصل کاموں کی خفیہ فائلیں ایجنسیوں کے پاس ہوتی ہیں، یہ روایت بھی باوثوق ذرائع سے پتہ چلی ہے کہ جمہوریت کے چیمپئن ذوالفقار علی بھٹو نے ڈالی تھی۔

(5)۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 5 روپے، 75 پیسے فی لیٹر تک اضافے کا امکان؟ بانسری بجاتے نیروؔ کو پھر یاد کیجیے۔

(6)۔ ایک خبر اندرون سندھ کے علاقے سے متعلق اور پڑھی کہ پولیس کے چند اہلکاروں نے دو بھائیوں کو ووٹ نہ دینے پر جوتا منہ میں لے کر کتوں کی طرح بھونکنے پر مجبور کیا۔ نہ صرف دونوں بھائیوں پہ تشدد کیا، بلکہ بوڑھی ماں جو بیٹوں کو چھڑوانے گئی تھی اسے بھی زدوکوب کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس خبر کی تفصیل یقینا قارئین نے پڑھی بھی ہو گی اور دیکھی بھی ہو گی۔ میری طرح انھیں بھی تفصیل پڑھ کر وہ رومن حکمران یاد آ گئے ہوں گے جو کسی بھی معمولی قصور پر غلاموں کو بھوکے شہروں کے پنجروں میں ڈلوا دیتے تھے اور خود ان مناظر سے محظوظ ہوتے تھے۔ غلاموں کو شیروں کے پنجروں میں ڈالنے والے بھی پولیس اہلکاروں کی طرح غلام ابن غلام ہی ہوتے تھے۔ کل کے رومن امپائر، مصر کے فرعون، روم کا نیروؔ، اور ہلاکو و چنگیزخان کی جگہ، وڈیروں، جاگیرداروں، حکمرانوں، وزیروں، سرمایہ داروں اور برسر اقتدار پارٹی کے چہیتوں نے لے لی ہے۔ جال وہی پرانے ہیں۔ البتہ شکاری نئے ہیں، اور چالیں بھی نئی ہیں، غلام بھی وہی ہیں، بس نام بدل گئے ہیں۔ یہ غلام ابن غلام ہر سرکاری محکمے میں پائے جاتے ہیں، حکم عدولی پر ملازمت سے فارغ کر دیے جاتے ہیں یا انھیں سیدھا ’’اوپر‘‘ بھیج دیا جاتا ہے، پہلے ’’زن بچہ‘‘ کولہو میں پلوائے جاتے تھے، آج ایک جنبش ابرو سے پورا خاندان نیست و نابود کر دیا جاتا ہے۔ یہ ہے جدید پاکستان کے منظر نامے کا خلاصہ۔

گزشتہ دنوں لکھے گئے ایک کالم کے جواب میں جو کہ مختلف ’’ڈے‘‘ منانے کے حوالے سے لکھا گیا تھا۔ اس کے جواب میں بعض ذمے دار قارئین خصوصاً  ضیاء کھوکھر (اسلام آباد) اور کئی ڈاکٹر صاحبان نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے تجویز دی کہ تھیلیسمیا کی روک تھام کے لیے ضروری نہیں کہ نکاح سے پہلے لڑکے اور لڑکی کا بلڈ ٹیسٹ ہو۔ ہونا یہ چاہیے کہ حکومت کی طرف سے ہر شخص کے لیے لازم قرار دیا جائے کہ وہ اپنا بلڈ ٹیسٹ کروائے اور بلڈ گروپ معلوم کرے۔

نئے بننے والے شناختی کارڈوں میں بلڈ گروپ کا اندراج کیا جائے اور باقی لوگوں کے لیے بچے، بوڑھے، جوان سب کے لیے لازم قرار دیا جائے کہ وہ اپنا بلڈ گروپ معلوم کروائیں اور اسپتال سے کارڈ حاصل کریں جس میں بلڈ گروپ کے ساتھ ساتھ اگر کوئی ممکنہ بیماری ہو مثلاً تھیلیسیما وغیرہ یا کوئی اور مسئلہ تو اس کی بھی نشان دہی کی جائے۔ اس طرح خدانخواستہ اگر کسی کا ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے یا کسی اور ناگہانی وجہ سے خون کی ضرورت پڑ جائے تو ادھر ادھر بھاگنے اور بلڈ ٹیسٹ میں وقت ضایع کرنے کے بجائے سیدھا سیدھا بلڈ بینک سے رابطہ کر کے وقت اور مریض کو بچا لیا جائے۔

اگر اس طرح ہو جائے تو جہاں انسانی جانوں کا نقصان کم ہو جائے گا وہیں خون کی کمی کا شکار بچوں کی پیدائش کا مسئلہ بھی شرعی اور قانونی طور پر حل ہو جائے گا۔ بجائے شادی کے وقت بلڈ ٹیسٹ کے، پہلے سے بلڈ گروپ اور مائنر یا میجر تھیلیسیما کا پتہ چل جائے گا۔ اس طرح بہت سے خاندان اس معاشی، ذہنی اور جسمانی اذیت سے بچ سکیں گے جس سے آج بے شمار بچے اور ان کے والدین گزر رہے ہیں۔

ارکان پارلیمنٹ کو اگر آپسی گالم گلوچ، جوتا کاری، تالیاں بجانے، قصیدہ پڑھنے اور بادشاہ سلامت کے حضور سربسجود ہونے سے فرصت ملے تو وہ یہ بل تو منظور کروا ہی سکتے ہیں کہ ہر شخص کے لیے بلڈ ٹیسٹ ضروری قرار دیا جائے۔ پسماندہ علاقوں میں اور غریب طبقے کے لیے سرکاری اور نجی اسپتالوں میں یہ سہولت مفت فراہم کی جائے تا کہ مزید بیمار نسلیں پیدا نہ ہوں۔ یہ بل اگر پارلیمنٹ میں منظور ہو گیا تو یہ ایک طرح کا صدقہ جاریہ ہو گا۔

میری درخواست ہے کہ دیگر معزز کالم نگار بھی اس جانب توجہ دیں اور بات کو آگے بڑھائیں۔ ساتھ ہی اگر نجی ٹیلی ویژن چینلز مرغوں کی لڑائی دکھانے سے کچھ وقت نکال کر صحت کے اس اہم مسئلے کو اپنے اپنے ٹاک شوز میں اجاگر کریں تو یہ ایک نیک کام ہو گا۔ خون کی کمی کے شکار بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ کم علمی جہالت سے زیادہ خطرناک ہے۔ خدارا اس جانب توجہ دیجیے ورنہ یہاں بھی نیروؔ بانسری بجاتا رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔