بال ٹھاکرے سے یاد گار ملاقات

نصرت جاوید  منگل 20 نومبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

مارچ 2000 کی بات ہے۔ بمبئی ابھی ممبئی نہیں بنا تھا اور میں کلکتہ سے ایک سست رو ریلوے ٹرین کے ذریعہ دو راتوں کے سفر کے بعد وہاں پہنچ گیا۔

اتنے بڑے شہر میں میرا کوئی جاننے والا نہیں تھا۔ صرف ایک صحافی سے جنوبی کوریا کے ایک سفر کے دوران شناسائی ہوئی تھی اور بعد ازاں ای میلز کے ذریعے رابطہ بھی رہا تھا۔ مگر اس پر انحصار کرنا زیادتی ہوتی۔ پھر بھی ریلوے اسٹیشن سے فون ملایا تو پرتپاک خوش آمدید سننے کو ملا اور ایک ایسے ہوٹل میں رہنے کا ذریعہ بھی جو 30 ڈالر روز پر شہر کے تقریباََ وسط میں کشادہ، صاف ستھرا اور دوستانہ ماحول فراہم کرتا تھا۔

پاکستانی صحافی اس شہر میں جاتے ہیں تو ارادہ فلم انڈسٹری کے مشہور لوگوں کو ملنے کا بناتے ہیں۔ میں بال ٹھاکرے کا انٹرویو کرنا چاہتا تھا۔ میرے جاننے اور مدد کرنے والے صحافی کا مسئلہ مگر یہ تھا کہ وہ اور اس کے دوستوں کا تعلق بائیں بازو کے ترقی پسند لوگوں سے تھا اور بال ٹھاکرے اور اس کی تنظیم ایسے لوگوں سے شدید نفرت کرتے تھے۔ بال ٹھاکرے نے اپنی سیاست کا آغاز ہی کمیونسٹ پارٹی کے زیر نگرانی چلنے والی ان مزدور تنظیموں کے سرکردہ افراد اور رہنمائوں کے خلاف دہشت پھیلانے والی غنڈہ گردی سے کیا تھا۔

اس غنڈہ گردی کے ذریعے 1960ء اور 70 کی دہائیوں میں بال ٹھاکرے اور اس کے حامی ٹیکسٹائل ملوں میں مزدوروں کے حقوق کے لیے برپا کی جانے والی ہڑتالوں کو ختم کرایا کرتے تھے۔ ایک بڑے ہی مقبول ہندی روزنامے کے مدیر تک رسائی ہوئی تو ان کے گھر پر شیو سینا والے تین بار حملے کر چکے تھے۔ ان کی بیوی ایک محقق اور اُستاد تھیں۔ انھوں نے شیو سینا پر کتاب بھی لکھ رکھی تھی اور اس کتاب نے دونوں میاں بیوی کا اس شہر میں سکون سے رہنا محال کر رکھا تھا۔ میں نے مگر ہمت نہ ہاری۔ بالآخر اس مدیر تک رسائی ہو گئی جو شیو سینا کے ترجمان ’’سامنا‘‘ کا سب کچھ تھا۔

اس کی ایک واقف کار صحافی کے ساتھ اسکول کے دنوں سے دوستی تھی۔ میں اس تک پہنچا تو اس نے کوشش کرنے کا وعدہ کیا مگر اس شرط کے ساتھ کہ میں ’’صاحب‘‘ کو بتائوں گا کہ میری اس سے دہلی کے ایک سیمینار میں ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے اسکول والے دوست کا تذکرہ نہ ہو گا۔

بالآخر مجھے اطلاع ملی کہ ’’صاحب‘‘ مجھ سے ملنے کے لیے تیار ہیں۔ کب اور کس وقت؟ یہ ابھی طے نہ ہوا تھا۔ بس میں اپنے ہوٹل میں ہی ٹِکا رہوں اور ٹیلی فون کا انتظار کروں۔ موبائل ان دنوں عام نہ ہوئے تھے۔ بال ٹھاکرے کا فون نہ آیا۔میں تین روز تک اپنے ہوٹل میں انتظار کے کرب سے گزتا رہا تھا، تو ’’صاحب‘‘ کے حوالے سے کچھ کشمیری پنڈت ملنے آئے۔ اپنی ملاقاتوں میں وہ بڑے ڈرامائی انداز میں مجھے بتاتے کہ کس طرح ’’ISI کے پروردہ دہشت گردوں‘‘نے انھیں کشمیر چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ’’صاحب‘‘ بھارت کے وہ واحد سیاستدان تھے جو انھیں اور ان کے بچوں کو زندہ رکھ رہے تھے۔ پھر فون آ گیا۔ بلایا ایک بجے گیا تھا۔

مگر 12 بجے سے ’’سامنا‘‘ کے دفتر بیٹھا رہا۔ وہیں کھانا بھی کھایا اور تقریباََ ساڑھے تین بجے حاضر ہونے کا اذن ملا۔ مجھے ’’سامنا‘‘ کے مدیر نے فلیٹوں کی ایک چار منزلہ عمارت کے دروازے پر کھڑا کر دیا اور خود غائب ہو گیا۔ مورچوں میں کھڑے بندوقوں کی لبلبی پر اُنگلی جمائے بھارتی رینجرز کے 12 سے زیادہ جوان مجھے خونخوار نظروں سے دیکھتے رہے۔ پھر اندر سے ایک آدمی آیا۔ میری تلاشی لی اور واک تھرو گیٹ سے گزارا۔ یہی کچھ بال ٹھاکرے کے فلیٹ میں داخل ہونے سے پہلے ہوا۔ بال پوائنٹ اور نوٹ بک بھی لے لیے گئے۔

فلیٹ کے اندر داخل ہوا تو دو کمرے عورتوں اور مردوں سے کچھا کچھ بھرے تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کسی ’’حاضر پیر‘‘ کے روبرو جا کر اپنے دُکھوں کا مداوا چاہتے ہیں۔ پھر ایک نیم اندھیرے کمرے میں جانے کا حکم ہوا۔ ایک تخت نما کرسی پر بال ٹھاکرے بیٹھا تھا۔ اس کے دائیں ہاتھ دو نشستی صوفہ تھا۔ میں وہاں بیٹھ گیا۔ اس نے تخلیہ کا اشارہ کیا اور گہرے شیشوں میں چھپی آنکھوں سے میرا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ سچی بات ہے بجائے خوف کھانے کے میں اپنی ہنسی روکنے کی کوششوں میں مبتلا ہو گیا۔ اس لمبے قد کے آدمی نے بہت تیز زعفرانی رنگ کی دھوتی اور کرتہ پہن رکھا تھا۔ اس کے گلے میں مالائیں تھیں اور تیز خوشبو سے سانس لینا مشکل بنا رکھا تھا۔

میں نے اس کا چہرہ دیکھا تو اس پر میک اپ کی تہیں نظر آئیں۔ یوں لگا جیسے خواجہ سرائوں کے کسی اُدھیڑ عمر ’’گرو‘‘ کے ہاں آ گیا ہوں۔ طویل خاموشی رہی ۔ مجھے ’’مبہوت‘‘ کرنے کے بعد بال ٹھاکرے نے اعلان کیا کہ اس سے سوالات کرنے سے پہلے مجھے کچھ سننا ہو گا۔ یہ کہنے کے بعد اس نے پہلے سے ’’کیوشدہ‘‘ ٹیپیں اپنے دائیں ہاتھ رکھی چھوٹی میز پر بڑے ٹیپ ریکارڈر کے بٹن دبا کر چلانا شروع کر دیں۔ بمبئی کی مختلف مساجد کے چند اماموں کے خطبے ان ٹیپوں میں ریکارڈ کیے گئے تھے۔ زیادہ تر میں یاد دلایا جاتا کہ مسلمانوں نے ہندوئوں پر سات سو برس حکومت کی ہے۔ وہ دن دوبارہ لوٹیں گے۔

زیادہ تر ملائوں کا یہ اصرار بھی تھا کہ ہندوستان پر اپنا راج دوبارہ قائم کرنے کے لیے مسلمانوں کو خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنا ہوں گے اور خدا سے یہ دُعا بھی کہ ان کے ہاں بس لڑکے ہی پیدا ہوں۔ آدھے گھنٹے کی اُکتا دینے والی تقریروں کی ریکارڈنگ سنا کر بال ٹھاکرے نے ٹیپ ریکارڈر کو بند کرنے کا بٹن دبایا اور میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ ’’ہمارے ہاں تو ان سے کہیں اعلیٰ پائے کے دیوانے پائے جاتے ہیں۔‘‘ میں نے ترنت جواب دیا اور بال ٹھاکرے نے بے ساختہ ایسا قہقہہ لگایا جس نے مجھے امریش پوری کی یاد دلا دی۔

’’یار تم تو اپنی ٹائپ کے نکلے۔‘‘ اس نے بالآخر کہا۔ گھنٹی دبائی۔ پاپڑ اور ’’مصالحے والی‘‘ جسے ہم ’’کڑک‘‘کہتے ہیں چائے لانے کو کہا اور پھر وہ کھل گیا۔ اس نے پورا زور یہ لگانے میں صرف کیا کہ وہ مسلمانوں کا دشمن نہیں۔ جب وہ ایک اخبار میں کارٹون بنایا کرتا تھا تو اس کے قریب ترین دوست مسلمان تھے اور وہ ’’تمہاری بکرے والی عید‘‘ کے دن ان کے ہاں جا کر بھنی ہوئی رانیں کھایا کرتا تھا۔ جاوید میاں داد کے ساتھ اس نے دوستی کا دعویٰ بھی کیا۔

مگر پھر کہنا شروع ہو گیا کہ عربوں کے سرمائے سے مسلمان ہندوستان پر دوبارہ اپنی بادشاہت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ’’آئی ایس آئی کے دہشت گردوں‘‘ کے ذریعے اس کے ملک کو کمزور کر رہے ہیں۔ وہ اور شیو سینا ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ میں آج تک یہ سمجھ نہیں پایا کہ میرے تمام تر اُکسانے کے باوجود اس نے دائود ابراہیم کے خلاف ایک لفظ بھی نہ کہا۔ انٹرویو ختم کرنے کے بعد اس نے مجھ سے کرید کرید کر جاننا چاہا کہ مجھے بمبئی کا کونسا اداکار یا اداکارہ پسند ہے۔ وہ مجھے ان سے ملوا سکتا ہے۔ میں نے اسے فلموں میں کوئی دلچسپی نہ رکھنے کا بتا کر مایوس کیا۔ اجازت لی۔ باہر آیا اور سواری کا منتظر تھا کہ ایک نوجوان بھاگا بھاگا آیا۔

’’تمہیں صاب بلا رہے ہیں۔‘‘ میں اس کے ہمراہ واپس فلیٹ پر پہنچا تو اس کی گود میں ایک دس سال کا لڑکا بیٹھا تھا۔ وہ ’’مہا بھارت‘‘ پر بنی سیریل میں گنیش کا کردار ادا کر رہا تھا۔ شاید مشہور بھی ہو گیا ہو گا۔ مگر میں پہچان نہ پایا۔ بال ٹھاکرے کو میری لاعلمی سے مایوسی ہوئی۔ ایک ماہر کلاکار کی طرح ایک پاکستانی صحافی کو وہ دکھانا یہ چاہتا تھا کہ بھارت میں ایک مسلمان بچہ ہندوئوں کے ایک اساطیری دیوتا کا کردار ادا کر رہا ہے اور وہ بال ٹھاکرے سے آشیر باد لینے آتا ہے۔ مگر میری لاعلمی اس کو Bang والا Impact کرنے میں مدد گار ثابت نہ ہوئی۔

بال ٹھاکرے کے مرنے کے بعد میں سب یاد کرنے کے بعد کہنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاں بڑا سورما مانے جانے والا یہ ہندو انتہاء پسند ایک مکمل اداکار تھا۔ اس کا کمال مگر یہ ہے کہ اس نے عملی زندگی میں وہ سب کچھ کر دِکھایا جو فلموں کے گاڈ فادر مارکہ ویلن کیا کرتے ہیں۔ مرہٹہ قومیت کے نام پر اس نے بڑی ہوشیاری سے بمبئی شہرپربرسوں تک اپنی بادشاہت قائم رکھی۔ مگر ۔۔۔ اور یہی بات زمین پر خدا بن جانے و الے فانی انسان اکثر بھلا دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔