وزیراعظم کی علالت اور نئی صورت حال

قانونی اورآئینی حوالےسےبھی بحث و مباحثہ ہو رہا ہے کہ وزیراعظم کی غیرفعالیت یا عدم موجودگی میں امور مملکت کون چلائے گا


Editorial May 30, 2016
حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اس معاملے کو وسیع تر ملکی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے خوش اسلوبی سے طے کیا جائے، فوٹو : فائل

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی علالت کے باعث ملکی سیاست میں نئی بیان بازی شروع ہو گئی ہے، اخباری اطلاعات کے مطابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی اوپن ہارٹ سرجری ہو گی، اللہ انھیں صحت عطا کرے، اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے تمام سیاسی رہنماؤں نے ان کی جلد صحت یابی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے، ملکی سیاست میں یہ طرز عمل خوش آیند ہے، بہر حال وزیراعظم کی علالت اور ملک سے غیر حاضری کے باعث سیاسی و قانونی حلقوں میں انتظامی حوالے سے بحث و مباحثہ جاری ہے، بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اوپن ہارٹ سرجری یقینی طور پر خاصا پیچیدہ عمل ہوتا ہے اور اس کے بعد مریض کو بیڈ ریسٹ کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

ایسی صورت میں وزیراعظم کے لیے ملک کے انتظامی معاملات چلانا خاصا مشکل ہو گا، قانونی اور آئینی حوالے سے بھی بحث و مباحثہ ہو رہا ہے کہ وزیراعظم کی غیرفعالیت یا عدم موجودگی میں امور مملکت کون چلائے گا اور اس کی آئینی و قانونی پوزیشن کیا ہو گی۔ تحریک انصاف کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ملک میں بحران پیدا ہو چکا ہے اور وزیراعظم کو مستعفی ہو جانا چاہیے، سابق چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری نے بھی کہا ہے کہ وزیراعظم کسی دوسرے شخص کو وزیراعظم بنا دیں، اس حوالے سے وزیراعظم ہاؤس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ آئین کی دفعہ12 کے تحت وزیراعظم تین ماہ کی رخصت پر جا سکتے ہیں، اس عرصہ میں کسی اور کو وزیراعظم نامزد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

آرٹیکل 90 کے تحت وزیراعظم وفاقی وزراء کے ذریعے ذمے داریاں انجام دے سکتے ہیں۔ ادھر آئینی و قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کی عدم موجودگی میں وفاقی وزراء کا ان کے اختیارات استعمال کرنا غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، کابینہ اجلاس کی صدارت وزیر اعظم کے سوا کوئی نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ بار کے صدر بیرسٹر سید علی ظفر نے کہا کہ اگر وزیر اعظم لمبے عرصہ تک ملک سے غیر حاضر رہتے ہیں اور اہم اجلاسوں کی صدارت کرنے سے قاصر ہوں تو ان کی جگہ پارلیمنٹ نیا وزیر اعظم منتخب کر سکتی ہے لیکن ان کے متعین کردہ اختیارات کو کوئی بھی استعمال نہیں کر سکتا، وزیر اعظم مکمل ہوش و حواس میں وڈیو لنک کے ذریعہ کابینہ و دیگر اجلاسوں کی صدارت کر سکتے ہیں۔

جسٹس (ر) شائق عثمانی نے کہا کہ وزیراعظم کے اختیارات کو کوئی استعمال نہیں کر سکتا، وزیر اعظم ملک سے غیر حاضر رہتے ہیں تو قومی اسمبلی کسی اور کو منتخب کر کے معاملات کو چلا سکتی ہے۔ حکومت کا بھی یہ کہنا ہے کہ وزیراعظم ویڈیو لنک کے ذریعے کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوں گے۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اس معاملے کو وسیع تر ملکی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے خوش اسلوبی سے طے کیا جائے، اس معاملے میں کسی کو بھی غیر ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے پاکستان نئے مسائل سے دوچار ہو سکتا ہے۔

مقبول خبریں