کسانوں کے مظاہرے اور دھرنے

ظہیر اختر بیدری  منگل 31 مئ 2016
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پچھلے کچھ عرصے سے پنجاب میں کسانوں کی طرف سے مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ کسانوں کے مظاہروں، دھرنوں اور احتجاج کی پر زور حمایت وہ جاگیردار بھی کررہے ہیں جو حکومتوں پر بھی قابض ہیں۔ سیاست پر بھی اس حمایت کی وجہ یہ نظر آرہی ہے کہ کسان جو مطالبے کررہے ہیں ان کا تعلق حکومت سے ہے۔

مثلاً گندم کی قیمتوں میں اضافہ، بار دانے کا حصول، کھاد کی قیمتوں میں کمی وغیرہ یہ ایسے مطالبے ہیں جن کو پورا کرنا حکومتوں کا کام ہے اور حکومتیں اس قسم کے بے ضرر مطالبوں کو کم زیادہ پورے بھی کرتی رہتی ہیں لیکن پاکستان جیسے زرعی ملک میں جہاں وڈیرہ شاہی نظام مضبوط بھی ہے اور سیاست اور اقتدار پر قابض بھی ہے کیا کسانوں، ہاریوں کے یہی مطالبے ہونے چاہئیں جو وہ کررہے ہیں یا زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیردارانہ نظام کے مکمل خاتمے کا مطالبہ ہونا چاہیے؟ نہ یہ سوال مبہم ہے نہ اس کے ایک سے زیادہ جواب ہیں۔

کسانوں اور ہاریوں کا پہلا مطالبہ زرعی اصلاحات کے ذریعے وہ لاکھوں ایکڑ زرعی زمین کو جاگیرداروں کے قبضے سے واگزارکر کے اسے بے زمین ہاریوں اورکسانوں میں تقسیم  ہونا چاہیے لیکن ایسا ہو نہیں رہا ہے بلکہ فروعی مطالبات پر کسانوں کی طاقت ضایع کی جارہی ہے کیا ہم اسے کسان رہنماؤں کی سیاسی بے بصیرتی کہیں یا جاگیرداروں کی سازش کہ وہ اصل مسئلے کو پس پشت ڈال کر نان ایشوز پرکسانوں کو سڑکوں پر لاکر ان کی طاقت کو ضایع اور انھیں غلط راہوں پر ڈال رہے ہیں۔

پاکستان اور ہندوستان جب 1947 میں آزاد ہوئے تو ہندوستان کی سیاسی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک تھا کہ فیصلہ سلاطین اور انگریزوں کے پروردہ اس  طبقے کو ختم نہ کیا گیا تو نہ ملک صنعتی ترقی کرسکے گا نہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کو سیاست میں آگے آنے کا موقع ملے گا۔ سو انھوں نے پہلا کام یہ کیا کہ سخت زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیردارانہ نظام کو ختم کر کے سیاست اور اقتدار سے وڈیرہ شاہی کو الگ کردیا۔

جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان میں جاگیردار طبقہ ختم ہوگیا اور مڈل اور لوئر مڈل کلاس کو سیاست اور اقتدار میں آنے کا راستہ کھل گیا۔پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ایوب خان، بھٹو اور ضیا الحق نے زرعی اصلاحات خلوص نیت سے نہیں کیں بلکہ اسے بدنیتی اور بے دلی کے ساتھ ساتھ بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ابھی سندھ اورجنوبی پنجاب میں جاگیردار طبقہ نہ صرف مضبوط ہے بلکہ سیاست اور اقتدار پر اس کی گرفت بڑی مضبوط ہے۔

پاکستان میں جب تک بایاں بازو فعال تھا تو اس کی سیاست کی پہلی ترجیح زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ تھا لیکن بائیں بازوکی سیاست میں غیر فعالیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ نان ایشوز پرکسانوں کو سڑکوں پر لایا جانے لگا ۔کیا کسانوں اور ہاریوں میں ایسے رہنما موجود نہیں جو اس ملک کی پسماندگی میں ایک بڑی وجہ جاگیردارانہ نظام کی موجودگی کو سمجھتے ہیں۔ موروثیت جاگیردارانہ کلچرکا ایک اہم وصف ہے ہماری سیاست میں جو ولی عہدی کلچر متعارف اور مستحکم ہوا ہے وہ اسی جاگیردارانہ نظام کی دین ہے۔

آج ہم صنعتکاروں اور جاگیرداروں کو ایک روح دو جسم کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ وہ ہماری اشرافیائی جمہوریت کا اعجاز ہے اس مخلوط نظام میں ان طبقات کے مفادات چونکہ مشترک ہوتے ہیں لہٰذا وہ ایک دوسرے کے بہ ظاہر مخالف تو نظر آتے ہیں لیکن انھیں ان کے طبقاتی مفادات ایک دوسرے سے جوڑے رکھتے ہیں۔ پاکستان میں باری باری کا جو سسٹم چل رہا ہے۔ اس میں یہی دو طبقات یعنی صنعت کار اور جاگیردار باری باری حکومت میں آرہے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد سے لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔

آج کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو آپ یہ طبقاتی تماشہ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ اقتصادی جھگڑے اپنی جگہ پر لیکن باری باری والوں کو جب کوئی ’’تیسرا خطرہ‘‘ سامنے نظر آتا ہے تو وہ اپنے اقتصادی جھگڑوں کو پس پشت ڈال کر ’’تیسرے‘‘ کے خلاف اس طرح کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس کے خلاف پروپیگنڈے کاپتہ اس طرح کھول دیتے ہیں کہ بے چارے عوام کی عقل اس دھول میں گم ہوکر رہ جاتی ہے۔

پانامہ لیکس کا جو طوفان اٹھاتھا اسے اس طرح دبادیاگیا کہ اب اس کا شمار نہ زندوں میں ہوتا ہے نہ مردوں۔ یہ کارنامہ ان ہی جمہوری بادشاہوں نے انجام دیا جو ابھی تک ایک دوسرے کے حریف نظر آرہے تھے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس لڑائی میں جبہ و دستار والوں نے اور کندھوں پر چادر ڈالے رکھنے والوں نے شاہ کے مصاحبوں کا کردار پوری ایمانداری سے ادا کیا۔پاکستان جس بغلول سیاست میں 69 سالوں سے پھنسا ہوا ہے اس سے نجات اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک جاگیرداروں اور صنعت کاروں کے گٹھ جوڑ کو توڑا نہیں جاتا۔ سندھ اور جنوبی پنجاب ابھی تک وڈیرہ شاہی اور جاگیرداری کے پنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ سندھ کا مڈل کلاس بوجوہ ابھی تک وڈیروں کا مصاحب بنا ہوا ہے وہ وڈیرہ شاہی کلچر کو سندھی تہذیب کا نام دے کر اس طبقے کا در پردہ حمایتی بنا ہوا ہے۔

اس موقعے پر مجھے جی ایم سید سے وہ طویل بات چیت یاد آرہی ہے جو بیماری کے دوران جی ایم سید نے کی تھی۔ اگرچہ ان باتوں کا تعلق تقسیم سے لے کر نصف صدی کی سیاست سے تھا لیکن ایک بات جو سید صاحب دہراتے رہے وہ یہ تھی کہ سندھ میں جاگیردارانہ نظام ختم ہوگیا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ سید صاحب مرحوم کس تناظر میں یہ بات کررہے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں وڈیرہ شاہی نظام موجود ہے اور اس کے خاتمے تک ملک ترقی کی سمت پیش رفت نہیں کرسکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔