کاغذی ڈالر کا شکنجہ اور قیدی ممالک(آخری حصہ)

خالد گورایا  بدھ 1 جون 2016
k_goraya@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں آج دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ماہرین معیشت اس بات کا جواب دیں کہ ملکی معیشت کی نفی یعنی CDMED کا نفاذ آئین کے کس نقطے کے مطابق کیا گیا۔ کس عدالت نے ملکی معیشت کی منتقلی کو سامراجیوں کی طرف کرنے کا حکم دیا، کس اسمبلی سے وزیر اعظم یا وزیرخزانہ نے اجازت لی تھی۔ جولائی 1955ء سے 2016ء تک روپے کی قیمت میں مسلسل کمی کی جاتی رہی۔ سامراجی نمایندے معین قریشی کو کن سیاستدانوں نے نگران وزیراعظم 1993ء میں بنایا تھا۔ اس ایجنٹ نے ایک طرف روپے کی قیمت 25.00 سے 30.163 فی ڈالر کر کے 21 فیصد کمی کر دی تھی اور ساتھ ہی امپورٹ پر 80 فیصد ڈیوٹی کو 50 فیصد کم کر کے 30 فیصد کر دی تھی۔

اس طرح مجموعی کمی روپے کی قیمت میں 71 فیصد کر دی۔ سڈمڈ CDMED دراصل سامراجی امپورٹ ڈیوٹی ہے کہ آپ کے لیے باہرکی اشیاء اسی نسبت سے سستی ہو جاتی ہیں اور آپ کے ملک کی تیار اشیاء بیرونی منڈی مقابلے میں اسی نسبت سے مہنگی ہو جاتی ہیں۔ عالمی سامراج امریکا نے 1934ء جنوری کو غیرضمانتی کاغذی ڈالروں کی نکاسی کے 20.67 ڈالر سے 35.00 ڈالر فی اونس سونا کر کے 69 فیصد پھیلائے گئے، کاغذی ڈالروں کو عالمی معیشت میں جذب کر لیا تھا۔

فلسفی خادم تھیہم کہتا ہے کہ ’’سامراج کاغذی ڈالروں کو بے تحاشا اس لیے پھیلا رہا ہے کہ کاغذی ڈالر تمام ملکوں کی معیشت کی ضرورت ہیں لیکن اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ جس نسبت فیصد سے غیر ضمانتی کاغذی ڈالر معاشی غلام ملکوں کی معیشت میں گردش کر رہے ہیں، اسی نسبت فی صد سے ان ملکوں کا سرمایہ سامراجی ملکوں کو منتقل ہو رہا ہے۔ جتنا زیادہ سرمایہ ان ملکوں میں داخل ہو گا۔ اشرافیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ Safe Heaven Currency کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر کے بیرونی ملکوں میں اثاثے یا بینک بیلنس بنائے جائیں۔ سوئس بینکوں میں 2 کھرب ڈالر پاکستان کے سابقہ اور موجودہ سیاسی لیڈروں کے موجود ہیں۔

سامراجی امریکا درحقیقت سامراجی ملکوں میں ایسے دروازے کھلے رکھتا ہے، جہاں زیادہ سے زیادہ ڈالر اکٹھے ہوتے جائیں۔ کیونکہ یہ ڈالر بعد میں غیر ضمانتی ڈالروں کے زمرے میں الزامات لگا کر ضبط بھی کیے جا سکتے ہیں۔‘‘ CDMED کا نفاذ بھی ایسے ہی غیرضمانتی ڈالروں کی نکاسی کا طریقہ ہے، پہلے امریکا سونے کے مقابلے ڈالروں کی زائد تعداد کو بڑھاتا تھا۔ اب CDMED کے ذریعے کاغذی ڈالروں کی بجائے جس ملک میں اس کا نفاذ کرتا ہے، اس ملک کی کرنسی کی قیمت میں کمی کر کے کرنسیوں کی قدر اپنے اپنے ملکوں میں کم کر دیتا ہے۔ جیسے ایک شے پہلے ایک سو روپے کی تھی۔

ایک سال بعد وہ شے دو سو روپے ہو جاتی ہے۔ عالمی منظر نامے میں اشیا کی قیمتوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو کراچی میں سفید چینی 1950ء میں 37 روپے 54 پیسے فی من (40 سیر) تھی۔ دسمبر 2015ء کو دوہزار 4 سو روپے کی 40 کلوگرام تھی، چینی کی قیمت میں اضافہ 6293 فیصد اضافہ ہو گیا تھا۔ امریکا سمیت یورپی ملکوں میں سفید چینی 1950ء میں 4.98 سینٹ فی پونڈ تھی۔ مارچ 2015ء میں سفید چینی 12.8 سینٹ فی پونڈ تھی اس طرح یورپی ملکوں اور امریکا میں سفید چینی کی قیمت میں اضافہ 157 فیصد ہوا تھا۔ پاکستان میں دسمبر 1947ء کو سندھ میں گندم آٹا 10 روپے من تھا۔ مارچ 2016ء میں 40 کلوگرام آٹے گندم کی قیمت 2 ہزار روپے تھی۔ آٹے گندم کی قیمت میں اضافہ 19900 فیصد ہو چکا تھا۔

امریکی اور یورپی ملکوں میں گندم آٹا ایک باشل 27.25 کلوگرام ایک امریکی ڈالرکا تھا۔ مارچ 2015ء میں 230.8 ڈالر کی ایک میٹرک ٹن تھی۔ پاکستان میں 1950ء میں بڑا گوشت 12 آنے (75پیسے) فی سیر تھا۔ 2016ء میں 400 روپے فی کلو تھا اس طرح گوشت کی قیمت میں اضافہ 53233 فیصد ہو گیا تھا۔ جن ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں مسلسل کمی کی جاتی رہی ہے ان تمام ملکوں میں اشیا کی قیمتوں میں بھی اسی نسبت سے اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستانی روپیہ 1947-48ء میں 3.318 روپے کا ڈالر تھا جو 106.8910 روپے پر پہنچ گیا۔ اس طرح ڈالر کے مقابلے میں 3122 فیصد کمی کر دی گئی یہ دراصل سامراجی قرضے اشیا (درآمدات) کے استعمال کرنے کا ڈالر ٹیکس ہے۔ دوسرے لفظوں میں سامراج نے باہرکی اشیا یعنی درآمدات پر 1947-48ء سے 2013-14ء تک ڈیوٹی میں 3122 فیصد کمی کر دی تھی اور پاکستانی اشیا یعنی برآمدات (Exports) پر 3122 فیصد ڈیوٹی زیادہ کر دی تھی۔CDMED کا معاشی دباؤ ملک میں تیار ہونے والی تمام اشیا کی قیمتیں لاگتوں کے بڑھنے سے مہنگی ہوتی رہتی ہیں۔

امریکا نے پورے ملکوں کے عوام سے لوٹے ہوئے ڈالروں کے بدلے پوری دنیا میں فوجی اڈے اور 68 بحری بیڑے دنیا کے 12 سمندروں میں تیار کر رکھے ہیں۔ اس طرح جی سیون گروپ کے شکنجے سے نکلنے کے لیے معاشی غلام ملکوں کے عوام کو عوامی انقلاب کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ چین پر سامراجی قرضہ 959510.0 ملین ڈالر 2014ء میں تھا۔ چین میں سامراجیوں 36 ہزار ملٹی نیشنل کمپنیاں چینی عوام کا خون نچوڑ رہی ہیں۔ دوسری طرف ملٹی نیشنل کمپنیاں 2013ء میں سامراجیوں نے چین میں 305784.0 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی اور 2013ء میں چین سے باہر ملٹی نیشنل کمپنیوں نے 206381.0 ملین ڈالر کا نفع بھیجا تھا جو 2013ء کی سرمایہ کاری کا 48 فیصد بنتا ہے۔

انڈیا پر 2014ء میں سامراجی قرض 463230.0 ملین ڈالر تھا۔ انڈیا میں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے 2014ء میں 43971.0 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔ اس پر نفع 2014ء میں سامراجی ملکوں کو منتقل ہوا جو 17767.0 ملین ڈالر تھا۔ جو 2014ء کی سرمایہ کاری کا 147 فیصد تھا۔ ترکی میں غیر ملکی سرمایہ کاری 2014ء میں 15334.0 ملین ڈالر ہوئی تھی۔ اس پر نفع 2639.0 ملین ڈالر باہر منتقل ہوا۔ انڈونیشیا پر 2014ء میں قرضہ 293397.0 ملین ڈالر تھا۔ اس طرح یہ توقع کرنا کہ سامراج سے معاشی آزادی چین، انڈیا، انڈونیشیا یا اور کوئی معاشی غلام ملک دلائے گا یہ خوش فہمی ہے۔ معاشی آزادی کی جنگ چینی عوام، انڈین عوام، انڈونیشین عوام کو لڑنی ہو گی۔ کیونکہ عالمی سامراج ایک جھونپڑے میں پیدا ہونے والے بچے اور شہری لوئر مڈل کلاس کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کا معاشی استحصال کر رہا ہے۔

عوام کو اس عالمی کرنسی وار میں ہر ملک کی کرنسی ایک یونٹ برابر ایک یونٹ کے حصہ لینا ہوگا۔ اگر ایک ڈالر ایک روپیہ اور ایک روپیہ برابر ایک سعودی ریال اور ایک سعودی ریال برابر ایک انڈین روپیہ ہو تو اس عالمی سطح پر جو امریکا نے CDMED کے ذریعے ہر ملک کے درمیان تضاد کھڑا کیا ہوا ہے کرنسیوں کی یونٹ برابری ہونے سے ملکوں کے درمیان معاشی فاصلے کو ختم کر دے گا اور ہر ملک اپنے اپنے ملک میں پیداوار بڑھانے کے لیے صحیح منصوبہ بندی کرنے لگے گا اورکرپٹ عناصرکرپشن نہیں کرسکیں گے۔ یہ سب عوامی انقلاب کے ذریعے ممکن ہے۔ جمہوری آزادی اور معاشی آزادی عوام کے لیے لازم و ملزوم ہیں کرنسیوں کو سونے کے پھندے سے نجات ملے گی کیونکہ سامراجی منڈی میں چند ممالک ڈالر اور سونے کی قیمتیں اپنے مفاد کے مدنظر مقررکرتے ہیں اور معاشی غلام ملکوں کو اپنا ’’معاشی قیدی‘‘ بنائے ہوئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔