ابوقاسم کے جوتے اور پانامہ لیکس

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 1 جون 2016

آپ لاکھ مچل لیں، لاکھ غصہ ہو لیں، لاکھ اپوزیشن کو برا بھلا کہہ لیں، لاکھ خطاب کر لیں، لاکھ کہانیاں بنا لیں، لاکھ تلملا لیں، لاکھ مشورے کر لیں لیکن پھر بھی پانامہ لیکس کا بھوت کسی بھی صورت آپ کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ یہ اب آپ کا سایہ ہے اس سے آپ اب جان نہیں چھڑا سکیں گے آپ کی حالت دیکھ بے اختیار ابو قاسم اور اس کے جوتوں کی کہانی یاد آ جاتی ہے ۔اس کے زمانے میں اس کے جوتے اتنے ہی مشہور اور ضرب المثل بن چکے تھے جتنا کہ وہ بے حد کنجوس اور دولت کا پجاری خو د مشہور تھا۔

ابو قاسم بہت دولت مند تھا اور وہ یہ بات ہر کسی سے چھپانے کی کوشش کرتا تھا۔ اس کے جوتے چمڑے کے پیوندوں سے اس قدر اٹ چکے تھے کہ شہر کا سب سے بد حال فقیر بھی ان جوتوں میں دیکھے جانے پر ذلت محسوس کرتا۔ ایک دن اس نے بہت عمدہ سودا کیا، بازار میں اس کا بہت چرچا ہوا اگر کوئی اور ہوتا تو خوشی کے اس موقعے پر عام دستور کے مطابق اپنے ہم پیشہ دوستوں کی شان دا ر ضیافت کرتا لیکن اس نے فیصلہ کیا کہ وہ غسل کرنے حمام جائے گا کیونکہ اسے غسل کیے ایک مدت گزر چکی تھی۔

جب یہ کنجوس اس غیرمعمولی عیاشی سے لطف اندوز ہو رہا تھا تو بغداد کا قاضی بھی وہیں غسل کرنے آ پہنچا۔ ابو قاسم نے قاضی سے پہلے ہی غسل ختم کر لیا اور اس جگہ واپس پہنچا جہاں لباس تبدیل کیا جاتا ہے لیکن اس کے جوتے غائب تھے اور ان کی جگہ جوتوں کا ایک خوبصورت جوڑا جو بالکل نیا تھا موجود تھا۔ ابو قاسم نے وہ نئے جوتے پہنے چلو نئے جوتے خریدنے کی زحمت سے تو چھٹکارا ہوا اس طرح سے سوچتا اور ذہنی طور پر مطمئن ہو کر وہ حمام سے چل دیا جب قاضی غسل کر کے باہر نکلا تو ہاں عجیب منظر تھا اس کے خادموں نے ادھر ادھر بہت تلاش کیا لیکن اس کے جوتے نہ مل سکے ان کی جگہ کسی خستہ حال چیز کا کراہت ناک جوڑا پڑا تھا جسے انھوں نے فوراً ہی پہچان لیا کہ یہ تو ابو قاسم کی مشہور پاپوش ہے۔

قاضی غصے سے آگ بگولہ ہو گیا فوراً خادموں کو مجرم پکڑنے کے لیے بھیجا، خادموں نے مسروقہ مال ابو قاسم کو اپنے پاؤں میں پہنے ہوئے پایا لہٰذا اسے حوالات میں بندکر دیا گیا اور اسے قانون کے پنجے سے بچنے کے لیے بہت بھاری رقم ادا کرنا پڑی۔ ابوقاسم مایوس اور شرمسار گھر لوٹا اور غصے سے اپنے جوتے اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیے جوتے اس کے گھر کے پاس سے گزرنے والی ایک ندی میں جا گرے کچھ روز بعد چند مچھیروں کو احساس ہوا کہ شاید انھوں نے آج کوئی بہت بڑی مچھلی پکڑ لی ہے لیکن جب جال باہر نکالا تو وہاں ابوقاسم کے جوتے براجمان تھے چونکہ جوتے جال میں کئی رخنے ڈال چکے تھے لہٰذا انھوں نے غصے سے کیچڑ میں لت پت جوتے اس کھڑکی میں دے مارے جو اتفاق سے ابو قاسم کی ہی تھی ’’اوہ! یہ بد بخت جوتے‘‘ ۔

ابوقاسم چلایا اب یہ مجھے کسی نئی مصیبت میں نہ ڈال سکیں گے یہ کہتے ہوئے اس نے ایک کدال اٹھائی اور فوراً چپکے سے جا کر اپنے باغ میں ایک گڑھا کھودنے لگا تا کہ انھیں وہاں دفن کر ڈالے لیکن ہوا یوں کہ اسی کا پڑوسی جو اپنے مالدار ہمسائے کی ہر حرکت پر نظر رکھتا تھا یہ سب دیکھ رہا تھا اس نے دل میں سوچا ہونہ ہو وہاں ضرور کوئی خزانہ دفن ہو رہا ہو گا لہذا وہ بھاگم بھاگ صوبے کے حاکم کے محل پہنچا اور سارا قصہ اسے بتا دیا۔

قانون کے مطابق دفینہ خزانے سے جو کچھ بھی حاصل ہوا س کا اصل مالک خلیفہ وقت ہی ہوتا ہے اس لیے حاکم وقت نے ابوقاسم کو اپنے حضور طلب کر لیا اور اس کے جواب پر کہ وہ محض پھٹے ہوئے جوتوں کا ایک جوڑا دبانے کے لیے زمین کھود رہا تھا سب نے زوردار قہقہے لگائے اسے سزا سناتے وقت حاکم صوبہ نے جو جرمانہ کیا اس پر ابو قاسم کے چھکے چھوٹ گئے وہ بے حد دل شکستہ ہوا جوتوں کو جی بھر کر کوسا اور پھر انھیں اٹھا کر شہر سے باہر دور جا کر جوہڑ میں پھینک آیا، جوہڑ دراصل وہ تالاب تھا جس سے سارے شہر کے لیے پینے کا پانی آتا تھا اور اس کے جوتے اس نالی کے منہ پر جا کر اٹک گئے جس کے ذریعے پانی شہر پہنچتا تھا پانی بند ہو گیا۔

شہر سے مستری تالاب کا جائزہ لینے آئے تو دیکھا کہ پانی جوتوں کی وجہ سے بند ہے، جوتے انھوں نے فوراً ہی پہچان لیے کہ یہ ابوقاسم کے ہیں۔ لہذا ابوقاسم کو  پھر حوالات کی ہوا کھانی پڑی اب کے اسے پہلے سے بھی کئی گناہ زیادہ جرمانے کی سزا ہوئی، اب تو جوتے نقصان پہنچانے کی ہر حد پار کر چکے تھے۔ لہذا اس نے انھیں جلا ڈالنے کا فیصلہ کیا، لیکن وہ ابھی گیلے تھے اس لیے اس نے انھیں سو کھنے کے لیے جھروکے میں رکھ دیا ساتھ کے گھر سے ایک کتے نے یہ عجیب و غریب چیز دیکھی اور چھلانگ لگا کر وہاں آیا اور ایک جوتا اٹھا کر چل دیا وہ کتا جوتے کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اس کے منہ سے چھوٹ کر گلی میں جا گرا اور جا کر ایک عورت کے سر پر پڑا جو حاملہ تھی سر پر پڑنے والی ضرب سے حمل گر  گیا اس کا خاوند بھاگا بھاگا قاضی کے پاس پہنچا اور بڈھے کنجوس سے ہرجانے کا مطالبہ کیا جو ابو قاسم کو ادا کرنا ہی پڑا۔ پیشتر اس کے کہ پریشان ابو قاسم عدالت سے اپنے گھر لوٹتا اس نے اپنے منحوس جوتے بڑے تقدس کے ساتھ اٹھا کر قاضی کے سامنے بلند کیے اور اس قدر شدت سے گڑگڑا کر کہ قاضی گھبرا  کر کہا ’’میرے آقا یہ جوتے میری سب مصیبتوں کی اصل وجہ ہیں۔ ان منحوس جوتوں نے مجھے کنگال کر دیا ہے، حضور سے میری درخواست ہے کہ آیندہ ان جوتوں کی وجہ سے جو مصیبت بھی نازل ہو جو یہ ضرورکریں گے اس کا ذمے دار مجھے نہ ٹہرایا جائے۔‘‘

حضور اعلیٰ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں یہ جو پانامہ لیکس ہیں، یہ ابوقاسم کے جوتے ہی ہیں، آپ ان سے جتنی جان چھڑانا چاہیں گے ناکام ہی رہیں گے۔ اس لیے جو سچ ہے اسے سب کے سامنے مان لیجیے عوام کے سامنے آ کر اپنی غلطی تسلیم کر لیجیے، اپنا قصور مان لیجیے، آپ جتنی دیر کریں اتنا ہی آپ کا نقصان اور بڑھتا ہی رہے گا اور پھر ایک روز آپ عوام کے سامنے آ کر شدت سے کہہ رہے ہونگے ’’یہ پانامہ لیکس میری سب مصیبتوں کی اصل وجہ ہے‘‘ ہر راستے کی ایک منزل ہوتی ہے، جو ہر عقل رکھنے والے کو معلوم ہوتی ہے لیکن اگر مسافر اس منزل سے بیگانہ بنا رہے تو پھر قصور عقل کا نہیں بلکہ مسافرکا ہوتا ہے، یاد رکھیے غلط راستے ہمیشہ نہیں چلتے رہتے ہیں، ایک دن اچانک وہ منزل سامنے آ جاتی ہے، جس کا سوچا تک نہیں گیا ہوتا، وہ حشر کا دن ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔