عوام کو الجھنوں کا شکار مت کیجیے

مقتدا منصور  جمعرات 2 جون 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ دنوں افغان طالبان امیر ملا اختر منصور ایران سے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد جب بلوچستان کے ضلع نوشکی میں ڈرون حملے میں مارا گیا، تو اس کے پاس سے ولی محمد کے نام کا پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ برآمد ہوا۔ غیر ملکیوں بالخصوص افغان باشندوں کو پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا اجرا کوئی نئی بات نئی ہے۔ یہ کھیل 1980 کے عشرے سے جاری ہے۔

اس عمل کے پس پشت متعلقہ محکمے کے اہلکاروں کی کرپشن اور بدعنوانی کے علاوہ حکمران حلقوں کی خاموش رضا مندی بھی شامل رہی ہے۔ ان تین دہائیوں کے دوران ان گنت ایسے واقعات رونما ہوئے جب افغان باشندے پاکستانی پاسپورٹ پر بیرون ملک سفر کے دوران منشیات کی اسمگلنگ سمیت مختلف سنگین غیرقانونی سرگرمیوں کے تحت گرفتار ہوئے، مگر ریاستی منصوبہ ساز افغانستان میں تزویراتی گہرائی حاصل کرنے کی خواہش میں مسلسل آنکھیں بند کیے رہے۔

اس میں شک نہیں کہ پاکستان کا ریاستی انتظامی ڈھانچہ اپنی فرسودگی کے باعث کمر ہی نہیں بلکہ گردن تک کرپشن اور بدعنوانیوں کی دلدل میں دھنساہوا ہے۔ معاملہ صرف لاکھوں افغان باشندوں کو پاکستانی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ جاری کرنے تک محدود نہیں ہے، بلکہ بنگلہ دیش اور برما سمیت کئی قریبی ممالک سے غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے باشندے بھی ریاستی اداروں کی کرپشن اور بدعنوانیوں کے باعث پاکستانی شہریت کے حامل ہوچکے ہیں جب کہ عالمی سطح پر انتہائی مطلوب افراد کی پاکستان میں موجودگی اور پاکستانی شہری دستاویزات کا حامل ہونا ، صرف کرپشن اور بدعنوانی ہی نہیں ہے بلکہ ریاستی اداروں کی پیشہ ورانہ نااہلی اور بے حسی کی علامت بھی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے اپنی پریس کانفرنس میں ملا منصور کے مارے جانے پر نوحہ گری کے ساتھ بہرحال اس حقیقت کو بھی تسلیم کرلیا کہ قومی ڈیٹا بیس جیسے اہم ادارےNADRA میں بھی کرپشن، بدعنوانی اور نااہلی اپنے عروج پر ہے۔

انھوں نے اس مسئلے کا حل یہ پیش کیا ہے کہ ہر خاندان کے سربراہ کو خط لکھ کر اس کے فوری خاندانی شجرے (Family tree)کی شناخت کی جائے گی۔ ان کے خیال میں یہ عمل 6ماہ میں مکمل کر لیا جائے گا۔ ائیرکنڈیشن کمرے میں بیٹھ کراس قسم کی تجاویز دینا بہت آسان ہے جب کہ زمینی حقائق اس سے بالکل مختلف ہیں۔ اول تو ملک میں مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے ملک کی آبادی کا صحیح تخمینہ ممکن نہیں ہے۔ دوسرے اگر کل آبادی19کروڑ تسلیم کرلی جائے اور ہر خاندان میں اوسطاً 5افراد فرض کر لیے جائیں، تو تقریباً4کروڑ خاندان اور اتنے ہی ان کے سربراہ بنتے ہیں۔

بظاہر یہ کام آسان لگتا ہے کہ 4کروڑ افراد سے ان کے خاندان کی تصدیق6 ماہ میں مکمل ہوجائے گی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک تھکا دینے والا مرحلہ ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔اول، عوام کی اکثریت ناخواندہ ہے، جو اس قسم کے تیکنیکی مسائل کی باریکیوں کو سمجھ نہیں پاتی  جب کہ بیشتر خواندہ افراد بھی اس قسم کے معاملات کی نزاکتوں کو سمجھنے کی اہلیت سے عاری ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ مشق کے طولانی ہوجانے کے علاوہ نئے اور پیچیدہ مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

دوئم، نادرا کے عملے کی نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے عام شہری عام شناختی کارڈ کے حصول میں جن پریشانیوں اور مشکلات کا شکار ہے، اس کا اندازہ ٹھنڈے کمرے میں بیٹھنے والے وزراء کو نہیں ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ گھنٹوں قطار میں لگنے کے بعد جب مطلقہ اہل کار محض رشوت لینے کی خاطر بے مقصد قسم کا اعتراض لگا کر فارم واپس کرتا ہے، تواپنی فیکٹری یا دفتر سے چھٹی لے کریا دکان بندکر کے آنے والے اس شہری پر کیا گذرتی ہے۔ لہٰذا یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ وفاقی وزارت داخلہ کے اس فیصلے کے نتیجے میں نہ صرف عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوگا بلکہ نادرا عملے کے لیے کرپشن اور بدعنوانیوں کا نیا راستہ بھی کھل جائے گا جب کہ صحیح اور درست معلومات اس مشق کے بعد بھی حاصل ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔

سوال یہ ہے کہ پھر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ تو اس مسئلے کا حل مقامی حکومتی نظام ہے، جس پر مسلم لیگ(ن) اورپیپلز پارٹی دونوں ہی یقین نہیں رکھتیں۔ دنیا بھر میں شہریوں کی رجسٹریشن کے لیے مقامی حکومتوں کو بااختیار بنایا جاتا ہے، اگر یونین کونسل کے چیئرمین کو یہ ذمے داری سونپ دی جائے کہ وہ اپنی یونین کونسل میں آباد تمام شہریوں کی کیٹیگریز کے لحاظ سے فہرست مرتب کرے ۔ اس عمل کی مانیٹرنگ اور جوابدہی کا واضح مکینزم ترتیب دیے جائے، تواس صورت میں ایک طرف عام آدمی کو پریشانیوں میں مبتلا کیے بغیر مطلوبہ معلومات تک رسائی ممکن ہوسکے گی جب کہ دوسری طرف کرپشن اور بدعنوانیوں پر بڑی حد تک قابو پایا جانا بھی ممکن ہو سکے گا۔ یہ بھی طے ہے کہ یونین کونسل کے ذریعے شہریوں اور ان کے خاندان کی تصدیق زیادہ بہتر انداز میں ہوسکتی ہے۔

اس سلسلے میں یہ اعتراض بھی سامنے آسکتا ہے کہ ہمارے یہاں چونکہ نہ تو نظام میں شفافیت ہے اور نہ ہی اخلاقی معیارات اچھے ہیں، اس لیے صرف بیوروکریسی ہی پر کیا موقوف سیاستدان بھی اس حمام میں برہنہ ہیں۔ ٹیکس چوری سے دیگر بدعنوانیوں تک ریاستی منتظمہ سمیت سیاسی قیادتیں بھی حسب توفیق کرپشن کی گنگا میں نہا رہی ہیں۔

اس اعتراض کا تعلق کسی ایک ادارے یا شعبہ تک محدود نہیں ہے، بلکہ پورے ریاستی انتظامی ڈھانچے میں پائی جانے والی فرسودگی کا اظہار ہے۔ اس سلسلے میں مختلف ممالک میں ہونے والے تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان انتظامی ڈھانچوں میں زیادہ کرپشن اور بدعنوانی ہوتی ہے، جہاں اختیارات کی مرکزیت قائم ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی اور مانیٹرنگ کے فعال میکنزم کے نتیجے میں کرپشن اور بدعنوانیوں پر قابو پانا خاصی حد تک آسان ہوجاتا ہے۔ یورپ اور امریکا سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں شہریت کی دستاویزات کی تصدیق اور سوشل سیکیورٹی کارڈز کا اجرا مقامی حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے۔

جدید دنیا میں شہریوں کو بہتر سہولیات مہیا کرنے کے لیے ایک طرف جمہوری نظم حکمرانی کو زیادہ سے زیادہ شراکتی (Participatory) بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، تاکہ عوام ان منصوبوں کی منصوبہ بندی میں حصے دار بن سکیں، جو خصوصی طور پران کی سہولیات کے لیے تیار کیے جاتے ہیں، جب کہ دوسری طرف متعارف ہونے والی نت نئی ٹیکنالوجی کو بھی عوامی مفاد میں استعمال کیا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں عوامی خدمات کے شعبہ جات پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے  تاکہ عوام کسی پریشانی یا دشواری کے بغیر مطلوبہ خدمت سے استفادہ کرسکیں۔ یہی سبب ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جہاں اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا گیا ہے، وہاں ایک طرف عوام کے لیے خدمات کے حصول میں آسانیاں پیدا ہوئی ہیں، جب کہ دوسری طرف کرپشن اور بدعنوانیوں میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔

اس کے برعکس پاکستان میں سب سے زیادہ فرسودگی اور کرپشن عوامی خدمات کے سرکاری محکموں اور شعبہ جات میں پائی جاتی ہے۔ شناختی کارڈ، پاسپورٹ یا  ڈرائیونگ لائسنس کا حصول ہو، یا مکانات اور پلاٹوں کی خرید وفروخت ہو یا پھر کوئی اور خدمت جو سرکار سے ملتی ہو، ان کے حصول کے لیے عوام کو کرپشن اور بدعنوانیوں کے باعث سب سے زیادہ پریشانیوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے چونکہ درج بالاخدمات عام شہری کی ضرورت ہوتی ہیں، اس لیے سرکاری اہلکار ان مجبوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کرپشن اور بدعنوانیوں کے کئی اسباب ہیں۔

اول، تقریباً سبھی ریاستی ادارے ڈیڑھ سو برس پرانے قوانین اور طریقہ کار کے تحت کام کررہے ہیں، جو فرسودگی کی آخری حدود کو چھو رہے ہیں۔ دوئم، مانیٹرنگ اور جوابدہی کا کوئی واضح میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری افسران اور اہلکار بے نتھے بیل بن چکے ہیں جو مختلف قوانین اور قواعد و ضوابط کو منفی طور پر استعمال کر کے عوام کو اس حد تک پریشان کرتے ہیں  کہ وہ تنگ آکر ان کی مٹھی گرم کردیں۔

البتہ نجی شعبے میں قائم خدمات کے بعض شعبہ جات نے اپنے طریقہ کار کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور انتظامی ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوارکر کے  عوام کو خاصی حد تک سہولیات مہیا کی ہیں۔ اس سلسلے میں نجی شعبہ میں قائم بینکوں کا کردار سب سے زیادہ نمایاں ہے جنہوں نے مختلف نوعیت کے کارڈز اور آن لائن بینکنگ کے ذریعے رقوم کی وصولی اور ادائیگی کو انتہائی آسان بنا دیا ہے، جب کہ سرکاری بینکوں میں ٹوکن کا ایک صدی پرانا نظام آج بھی رائج ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ شہری دستاویزات کی شفافیت کے ساتھ ازسرنو تجدید انتہائی ضروری ہوچکی ہے تاکہ جعل سازی اور جعلی دستاویزات کا خاتمہ کیا جاسکے اور ان تمام شہری دستاویزات کو کالعدم کیا جاسکے، جو غیر قانونی طور پر جاری کی گئیں مگر اس مقصد کے لیے عوام کو پریشانیوں اور دشواریوں میں مبتلا کرنا دراصل بیوروکریسی کے لیے کرپشن اور بدعنوانیوں کا نیا راستہ کھولنے کے مترادف ہے۔

اس لیے ہمارا مشورہ ہے کہ پورے ملک میں یونین کونسلوں کو فعال بناتے ہوئے انھیں یہ ذمے داری سونپی جائے کہ وہ اپنیUC کے رہائشیوں کے کوائف کی تصدیق کرکے صوبائی حکومت کے ذریعے وفاقی حکومت تک پہنچائیں۔ ساتھ ہی یہ بھی عرض ہے کہ اگر کسی نظام میں شفافیت اور جوابدہی کا واضح میکنزم موجود ہو، تو اس سسٹم میں خرابیِ بسیار کی گنجائش کم سے کمتر ہوجاتی ہے۔ اس لیے بیوروکریسی پر اعتبار کرنے کے بجائے عوامی نمایندوں پر اعتمادکیا جائے  تاکہ عوام کی دشواریاں کم سے کم ہوسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔