نئے بجٹ کی آمد

عابد محمود عزام  جمعرات 2 جون 2016

موجودہ حکومت اپنا چوتھا وفاقی بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے، جس سے پہلے ہر بار کی طرح حکومت کی جانب سے عوام کو طفل تسلیاں دی جا رہی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح عوام نے اس بجٹ سے بھی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں کہ شاید حکومت انھیں ریلیف دے اور بجٹ ان کے لیے خوشیوں کا پیغام لائے۔ عوام مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ، تعلیم و صحت کی سہولیات کے فقدان اور دیگر بہت سے مسائل سے چھٹکارے کے لیے حکومت کی جانب دیکھ رہے ہیں۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آیندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں عوام پر مزید بوجھ نہ ڈالنے اور ریلیف دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ حکومت اپنے وعدوں کا پاس رکھ سکے گی؟ عوام کو کس حد تک ریلیف مل سکے گا؟ بے روزگاری کا مسئلہ حل ہو سکے گا؟ کیا کم آمدنی والوں کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہو سکے گا؟ مہنگائی کا بوجھ ہلکا ہو سکے گا؟ بجٹ میں حکومت کی ترجیحات کیا ہوں گی؟

بجٹ عوام دوست ہو گا یا عوام دشمن ہو گا؟ یہ سب کچھ تو بجٹ آنے کے بعد سامنے آ جائے گا، لیکن بجٹ سے امیدیں کم اور اندیشے زیادہ ہیں۔ حکومت کی ترجیحات یہ بتا رہی ہیں کہ عوام کو اس بار بھی مایوس کیا جائے گا اور اس سال پیش کیا جانے والا بجٹ بھی حکومت کے خالی خولی دعوؤں اور نعروں کی طرح عوام کی مایوسی میں مزید اضافہ کرے گا اور اس سال بھی ائیرکنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھے معاشی ماہرین کہلوانے والوں کی جمع تفریق سے بننے والا بجٹ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔

یہ حقیقت ہے کہ ہر سال بجٹ پیش کرنے سے پہلے عوام کسی نہ کسی درجے میں امیدوں کے دیپ ضرور جلاتے ہیں کہ بجٹ میں شاید ہمارے لیے کچھ آسانی و خوشی کا سامان موجود ہو، لیکن عوام کو ہر بار نت نئے ٹیکسوں اور روزمرہ کی اشیائے ضروریہ میں بے تحاشا مہنگائی کا تحفہ ہی ملتا ہے، جو مصائب و مسائل کی شکار اکثریت کے دکھوں میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد سے یہاں ایسے ہی چلا آ رہا ہے، کبھی لوٹ کھسوٹ سے پاک، مثالی اور عوام دوست بجٹ پیش نہیں کیا گیا، جو عوام کے دکھوں کا مداوا کر سکے، بلکہ حکمرانوں کی جانب سے ہر بار بجٹ پیش کر کے عوام کی خواہشات کا قتل کیا جاتا ہے۔ کسی دور میں بجٹ میں کچھ حصہ عوام کا بھی رکھا جاتا تھا اور بجٹ میں کیے گئے اعلانات میں تھوڑی بہت سچائی بھی ہوتی تھی، لیکن اب وہ سنجیدگی ختم ہو چکی ہے اور بجٹ صرف جھوٹ اور فریب کا ایک پلندا بن کر رہ گیا ہے۔

بجٹ میں عوام کو کوئی سہولت نہیں دی جاتی اور اگر کسی سہولت کا اعلان ہوتا بھی ہے تو اس پر عمل نہیں کیا جاتا اور عالمی مالیاتی اداروں کے احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے آئے دن چھوٹے بجٹ بم گرا کر عوام کے جذبات کو مزید مجروح کر دیا جاتا ہے۔ چند روز ہی گزرتے ہیں کہ قیمتوں میں اضافے اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے اعلانات کے ساتھ عوام پر مہنگائی کا ایک نیا حملہ کر دیا جاتا ہے۔ اب بجٹ سوائے فریب اور جعلسازی کے کچھ نہیں ہوتا۔ حکومت تو اعداد و شمار کو مسخ کر کے عوام کو بے وقوف بناتی ہی ہے، جب کہ اپوزیشن پارٹیاں پہلے تو عوام پر لگائے گئے ٹیکسز کی مخالفت کرتی ہیں، لیکن بعد ازاں یہ شاید حکومت سے ملی بھگت کے نتیجے میں خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔

حیرت کی بات ہے کہ بجٹ میں غربت و افلاس کی چکی میں پسنے والے عوام پر ایک سے ایک نئے ٹیکس کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے، جس سے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، جب کہ دوسری جانب امیروں کے لیے حکومت ٹیکسوں میں چھوٹ اور نوازشات کی بارش کر دیتی ہے۔ بڑے بڑے کاروبار، محلات، جائیدادوں اور بڑے بڑے پلازوں کے بااثر مالک آف شور کمپنیز یا دیگر طریقوں سے ٹیکس دینے سے بچ نکلتے ہیں۔ دنیا بھر میں امیروں سے ٹیکس لے کر غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا ہے، لیکن یہاں غریبوں سے بے جا ٹیکس لے کر امیروں کی عیاشیوں اور اللوں تللوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔

حکومت کو اپنے ملک کے عوام کی ضروریات، سہولیات اور خواہشات کو مد نظر رکھ کر ایسا بجٹ بنانا چاہیے جو واقعی عوام دوست بجٹ ہو اور عوامی امنگوں کا آئینہ دار ہو، لیکن حکومت اپنے ملک کے عوام کے بجائے عالمی اداروں کی خواہشات کو مد نظر رکھ کر بجٹ بناتی ہے۔ ہماری حکومتیں قرضے عالمی مالیاتی اداروں سے لیتی ہیں، اس لیے بجٹ بھی انھیں کے اشاروں پر بنائے جاتے ہیں، جب کہ عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے اپنے قرضے واپس لینے کی آسان صورت یہی ہوتی ہے کہ عوام پر مزید ٹیکس لگا دیا جائے۔

2013ء میں مسلم لیگ نون کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی عوام کو یقین دلایا تھا کہ صرف دو سال بعد آسانیاں ہی آسانیاں ہوں گی، لیکن حکومت کا چوتھا سال شروع ہو چکا ہے مگر وعدہ کی گئیں آسانیوں کا دور دور تک نشان نہیں۔ وزیر خزانہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ نئے بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف دیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اشیائے صرف اور کھانے پینے کی چیزوں میں مہنگائی کو پر لگے ہوئے ہیں۔ حکومت مہنگائی روکنے میں ناکام رہی ہے، بلکہ حکومت کے پاس مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے سرے سے کوئی میکانزم ہی نہیں ہے۔

اب رمضان المبارک قریب ہے، منافع خوروں نے ابھی سے لوٹ مار شروع کر دی ہے، لیکن حکومت رمضان المبارک میں عوام کو سہولت دینے کا کوئی منصوبہ ہی نہیں بنا سکی ہے۔ اس کے علاوہ عوام کو تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔ غریب آدمی تعلیم سے محروم اور اس کے پاس علاج معالجے کے لیے پیسے نہیں ہوتے، جب کہ سرکاری اسپتالوں اور سرکاری اسکولوں کی حالت انتہائی قابل رحم ہے۔ بجٹ میں تعلیم، صحت اور عوام کی دیگر سہولیات کو مدنظر رکھنا حکومت کی ذمے داری ہے، لیکن حکومت ہمیشہ سے اپنی اس ذمے داری سے کنی کتراتی آئی ہے۔ بجٹ حکومت کی اسٹرٹیجی کا عکاس ہوتا ہے، جب کہ موجودہ حکومت کی اسٹرٹیجی یہ ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ لیا جائے اور ان کے احکامات کے مطابق بجٹ بنایا جائے اور عوام پر نت نئے ٹیکس لاگو کیے جائیں۔

ہمارے ملک کا ہر سربراہ یا وزیر خزانہ بجٹ آنے سے پہلے یہ اعلان کرتا ہے کہ آیندہ بجٹ عوام دوست ہو گا مگر جب بجٹ کا اعلان ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ محض ایلیٹ دوست ہے اور متوسط اور غریب افراد کی گردن میں شکنجہ اور زیادہ کس دیتا ہے، حالانکہ بجٹ عوام دوست اسی وقت ہی کہلا سکتا ہے، جب عام آدمی کو بجٹ میں زیادہ سے زیادہ ریلیف ملے اور عام آدمی کی مشکلات کم کرے۔ ہمارے معاشی پالیسی سازوں کو ایسی ترجیحات کو سامنے رکھ کر بجٹ بنانا چاہیے، جس سے عوام کے مسائل کم ہوں، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو، نئے روزگار میسر آئیں۔ اگر حکومت روزگار کے مواقعے فراہم کرے گی تو ملک میں خوشحالی آئے گی۔ بیروزگاری اور غربت ہی ملک میں دہشتگردی، چوری، ڈکیتی، لوٹ مار کو جنم دیتی ہیں۔ بجٹ میں حکومت کی اولین ترجیح عالمی مالیاتی اداروں کے بجائے عوام کو سہولیات فراہم کرنا ہونا چاہیے، بصورت دیگر کسی صورت بھی عوام دوست بجٹ نہیں ہو سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔