شہرکی بد ترین ٹریفک اور مفید تدابیر

قمر عباس نقوی  جمعرات 2 جون 2016

آج کل تعمیرات کے کاروبار کے علاوہ تین طرح کے منافع بخش کاروبار اس شہرِ قائد میں بہت عام ہو چکے ہیں۔ شادی ہال بینکویٹ، اشتہاری کاروباری تعلیمی ادارے اور کوچنگ سینٹرز، شاپنگ کے حوالے سے جدید ڈپارٹمنٹ اسٹورز۔ شہر کے جن مین شاہراہوں پر یہ واقع ہیں وہاں مستقل رش کی وجہ سے ٹریفک جام رہتا ہے۔ اربن ماہرین ٹریفک جام کی دو بنیادی وجوہات بیان کر تے ہیں۔ پہلی وجہ سابقہ سٹی ناظم کی جانب سے شہر کے چوراہوں پر کٹنگ کو بند کرنا، دوسری پارکنگ کے انتظام کا نہ ہونا ہے۔

ہاں البتہ صدر میں چارجڈ پارکنگ پلازہ کی تعمیر ایک اچھا اور مستحسن عمل تھا جو غالباً کچھ وجوہات کی بنا پر زیادہ کامیاب نہ ہو سکا۔ پارکنگ کے معقول انتظام کے نہ ہونے سے لوگ اپنی گاڑیاں سڑکوں کے دونوں اطراف بے ترتیب کھڑے کر کے چلے جاتے ہیں جس سے ٹریفک کی روانی شدید تعطل کا شکار ہو جاتی ہے۔ کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہے، شہر میں ٹرانسپورٹ کے مناسب انتظام کے نہ ہونے سے شہریوں نے اپنی منزلِ مقصود یا جائے ملازمت تک بروقت رسائی کے لیے موٹر سائیکل کا سہارا لے لیا ہے جو آسان اقساط میں باسانی مل جاتی ہیں۔

متوسط طبقہ سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کا سہارا لے لیتا ہے، جن کی ماہانہ آمدنی زیاد ہ ہے وہ مختلف بینکوں کے کار فنانس اسکیموں کے ذریعے زیرو میٹر گاڑی حاصل کر لیتے ہیں۔ کیونکہ یہاں لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد کی طرز پر تعمیر شدہ میٹرو بس پلان تو ہے نہیں، نہ ہی سرکلر ٹرین کا مربوط نظام، شہر میں ڈیفنس، کلفٹن کی طرز کی سڑکیں تو ہیں نہیں، تمام سڑکیں گھمبیر آبادیوں کے بیچوں بیچ ہیں اور نہ ہی ان سڑکوں کا کوئی متبادل ہے۔ اس کے باوجود یہ شہر قائد کا شہر اور منی پاکستان کہلایا جاتا ہے۔

ان تمام چیزوں کا حصول کسی عیش و عشرت کی زندگی کے لیے نہیں بلکہ یہ سماج کی جائز بنیادی اور لازمی ضرورت بن چکا ہے، لیکن ان چیزوں کو رکھنا اور ان کا استعمال کچھ معاشرتی تہذیبی تقاضوں کا متقاضی ہے۔ سڑکوں پر لاتعداد گاڑیوں کا ایک ہی وقت میں آ جانا وہ بھی پرانے ماڈل کی پرانی گاڑیاں جو غریب اور متوسط طبقے کی سواری ہے۔

ان میں بیشتر تعداد ان گاڑیوں کی ہوتی ہے جو کسی اینٹوں کے بھٹے کی چمنیوں کی طرح دل خراش دھواں خارج کرتی ہیں جو بلا شبہ ماحولیات پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔ ٹریفک کی روانی میں تعطل دنیا کے تقریباً ہر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں ایک اہم عالمگیر مسئلہ رہا ہے مگر اس کے باوجود وہ اپنے فرائض سے غفلت یا کاہلی سے کام لینے کی بجائے ان مسائل کے جلد سدباب کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ٹریفک کا مسئلہ دراصل بنیاد ی اور جزوی طور پر انسانوں ہی کے طرز عمل کا قیمتی حصہ رہا ہے۔

شہر میں بلڈرز فلک شگاف رہائشی پلازے کم پیمائش والے پلاٹس پر تعمیر کر رہے ہیں، جن میں پارکنگ کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے ہونا یہ چاہیے کہ کم سے کم ان پلازوں میں تین یا چار فلورز پارکنگ کے لیے مختص ہونے چاہیے جس سے نہ صرف سڑک پر ٹریفک کی روانی میں مدد ملے گی بلکہ سیکیورٹی پوائنٹ آف ویو سے بھی آپ کی گاڑی محفوظ رہ سکے گی۔

اسی طرح سے شاپنگ مالز، بینکوئٹ، تعلیمی اداروں کے مالکان پر قانون لازم کیا جائے کہ وہ ان عمارتوں میں اپنا کاروبار کرنے سے قبل پارکنگ کا معقول انتظام کریں۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی پارکنگ ممنوع قرار دیا جائے۔ کراچی کا ایکسپو سینٹر اور امتیاز شاپنگ مال جدید پارکنگ کی عظیم مثال ہیں۔ شہر میں کچھ فاصلوں پر عوام کی سہولت کے لیے صدر کی طرز پر چارچڈ پارکنگ پلازے بنانے کی طرف توجہ کی ضرورت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اُمید کی جا سکتی ہے پارکنگ سے حاصل ہونے والی کثیر آمدنی کے علاوہ انسانی فلاحی خدمت سے حقوق العباد کے ساتھ ساتھ حقوق اللہ کے فرائض سے سبکدوش ہونے کا سنہرا موقع مل سکے گا۔

میرے پاکستان میں سب سے پہلے تعمیر ہونے والی سب بلند ترین جس عمارت میں ذریعہ معاش ہے وہ پرانے شہر کے عین وسط میں واقع ہے۔ تحریک پاکستان کی جدوجہد میں ایک مقبول نام ابراہیم اسماعیل چندریگر جن کے نام سے آئی آئی چندریگر روڈ جو پورے ملک میں ایک معاشی ہب کی حیثیت سے مشہور ہے۔ یہ عمارت اسی معروف سڑک پر واقع ہے اس عمارت کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے تینوں اطراف شہر کی گنجان آبادی ہے، زیادہ تر علاقہ تجارتی اور کاروباری مراکز پر مشتمل ہے۔

چیمبر آف کامرس اور وسیع و عریض رقبے پر محیط ہمارے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی وہ درس گاہ جس میں خود بانی پاکستان ابتدائی عمر تعلیم کے حصول میں گزار چکے ہیں جس کا نام سندھ مدرسۃ الاسلام اسکول و کالج ہے (یاد رہے یہ اب یونیورسٹی کا درجہ حاصل کر چکی ہے)۔ شاہین کمپلیکس سے شروع ہونے والی اس سڑک پر میڈیا کے مرکزی دفاتر، بینکس، مالیاتی ادارے، ٹیلی فون ایکسچینج، جنرل پوسٹ آفس، ا سٹاک ایکسچینج، بینک دولت پاکستان اور پولیس ہیڈ آفس واقع ہیں۔ ٹاور سے تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد یہ سڑک کیماڑی، منوڑہ جانے کے لیے معروف جزیرائی پل نیٹی جیٹی کو ملا دیتی ہے۔ ان تمام دفاتر کی موجودگی اس سڑک کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔

بڑی کمرشل اور نان کمرشل گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ یہ بڑی پرامن سڑک ہے، کسی بھی قسم کی بد امنی کم از کم ہم نے تو دیکھی نہیں۔ دفتری اوقات کے درمیان اس سڑک پر کسی ہائی وے کی مانند دوڑتی ہوئی ہر طرح کی گاڑیوں کا گزر رہتا ہے۔ متذکرہ عمارت کے سامنے سٹی اسٹیشن کی جامع مسجد ہے۔ بالعموم صبح کے وقت بالخصوص اسکول سے بچوں کی چھٹی کے وقت بچوں کا ایک جم غفیر سڑک کی دوسری طرف جانے میں جلد بازی سے کام لیتا ہے۔ اس کے علاوہ دفاتر سے نمازکی غرض سے نکلنے والے اکثر نمازی حضرات کو سڑک کے ایک طرف کھڑے ہو کر ٹریفک رکنے یا کم ہونے کا طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کچھ گاڑیاں پلازہ سے آڑھی ترچھی اپنی اپنی سمت میں کراس کرتی ہوئی رواں دواں رہتی ہیں۔

عوام کی اس تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں حکومتی ذمے داروں سے عرض کی تھی کہ اس اہم چوراہے پر کم از کم ایک Pedestrian ہی تعمیر کر دیا جائے جس کی تعمیر سے بلا شبہ عوام تو مستفید ہو کر آپکے حق میں دعائیں کریں گے بالخصوص نمازی حضرات بلکہ ہماری اشتہاری کمپنیوں کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ بھی بن جائے گا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ٹریفک میں تعطل کا مسئلہ بھی یکسر حل ہو جائے گا۔ اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ روپے پیسے کی وصولی کے ساتھ دعاؤں کا دروازہ ہر گز ہرگز بند نہ کیجیے یہی ہمارا آپ کو ہمدردانہ مشورہ ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔