تاریخ کاآخری سبق

جاوید چوہدری  جمعـء 3 جون 2016
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ہنری ہشتم سولہویں صدی میں برطانیہ کا بادشاہ تھا‘ وہ 1509ء سے 1547ء تک تخت نشین رہا‘ وہ نرینہ اولاد کا خواہش مند تھا مگر ملکہ کیتھرائن کوشش کے باوجود اسے ولی عہد نہ دے سکی‘ بادشاہ نے دوسری شادی کا فیصلہ کیا لیکن کیتھولک فرقے میں دوسری شادی کی اجازت نہیں تھی‘ اس زمانے میں یورپ کے تمام بادشاہ کیتھولک ہوتے تھے‘ وجہ ویٹی کن سٹی اور پوپ تھا‘ بادشاہ جب تک پوپ سے اپنی بادشاہت کی تصدیق نہیں کرا لیتا تھا یورپ کے دوسرے بادشاہ اسے بادشاہ نہیں مانتے تھے چنانچہ بادشاہ کا کیتھولک ہونا لازمی تھا۔

ہنری ہشتم نے دوسری شادی کی اجازت کے لیے پوپ سے رابطہ کیا مگر پوپ نے اس خواہش کو ’’حرام‘‘ قرار دے دیا‘ بادشاہ نے دوسری‘ تیسری  اور چوتھی بار درخواست کی‘ پوپ نہ مانا‘ بادشاہ بھی بادشاہ تھا‘ وہ غصے میں آ گیا اور اس نے ویٹی کن کے مقابلے میں چرچ بنانے کا اعلان کر دیا‘ یہ اعلان ’’چرچ آف انگلینڈ‘‘ کی بنیاد بنا‘ بادشاہ نے 1534ء میں ’’چرچ آف انگلینڈ‘‘ بنایا‘ اپنا ’’پوپ‘‘ تعینات کیا‘ آرچ بشپ نے بادشاہ کو دوسری کے بجائے تیسری‘ چوتھی اور پانچویں شادی کی اجازت بھی دے دی اور یوں بادشاہ کو ولی عہد اور دنیا کو نیا فرقہ مل گیا‘ آج دنیا کے 160 ممالک میں چرچ آف انگلینڈ کی شاخیں ہیں اور وہ عیسائی مرد جو کیتھولک رہ کر دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں وہ چرچ آف انگلینڈ سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔

ہم اس واقعے کا تجزیہ کریں تو ہم دو نتائج پر پہنچیں گے‘ مذہب کے بے لچک رویئے اور بادشاہوں کی خوفناک طاقت‘ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب مذہب اپنی لچک کھو دیتے ہیں‘ جب یہ وقت کے تقاضوں کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں تو لوگ نیا فرقہ ایجاد کر لیتے ہیں‘ یہ پروٹیسٹنٹ اور چرچ آف انگلینڈ کے نام سے نئی عیسائیت‘ نئی شریعت تخلیق کر لیتے ہیں اور اس فرقہ وارانہ تخلیق کاری کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ آپ یہ جاننے کے لیے ویٹی کن کی تاریخ پڑھ لیں‘ دنیا میں ایک ایسا وقت بھی تھا جب پوری عیسائی دنیا پر ویٹی کن کی حکومت تھی‘ پوپ کا فرمان پتھر کی لکیر ہوتا تھا‘ یہ اگر کافی کو حرام قرار دیتا تھا تو کافی پانچ سو سال تک عیسائی دنیا میں حرام رہتی تھی لیکن آج وہ ویٹی کن کہاں ہے؟

پوری عیسائی دنیا پر حکومت کرنے والی ویٹی کن اسٹیٹ آج صرف 110 ایکٹر تک محدود ہے‘ یہ دنیا کی مختصر ترین ریاست کہلاتی ہے‘ ویٹی کن کو کیا ہوا‘ یہ کہاں چلا گیا؟ ویٹی کن کو اس کے بے لچک رویئے اور پوپس کے سخت احکامات کھا گئے‘ یہ اسے ریت کی طرح بکھیرتے چلے گئے‘ ویٹی کن کے پادری اس قدر سخت تھے کہ جب مسلمان عیسائی دنیا کو گھوڑوں کے سموں تلے کچل رہے تھے اس وقت ویٹی کن میں یہ بحث چل رہی تھی حضرت عیسیٰ ؑ نے صلیب پر چڑھنے سے پہلے خمیری روٹی کھائی تھی یا پتیری‘ یہ لوگ گلیلیو جیسے سائنس دانوں کو اس جرم میں جلا دینے کا حکم دے دیتے تھے ’’تم نے زمین کو چپٹا کیوںقرار دے دیا‘‘ اور جب گلیلیو رحم کی اپیل کرتا تھا تو پادری جواب دیتے تھے ’’تمہاری ریسرچ کو بائبل سپورٹ نہیں کرتی لہٰذا تم سزائے موت کے حق دار ہو‘‘ اور گلیلیو معافی مانگ کر جان بچانے پر مجبور ہو جاتا تھا‘ یہ وہ سختی تھی۔

یہ وہ بے لچک رویئے تھے جنہوں نے ویٹی کن اسٹیٹ کو چھوٹا سا شہر‘ پادریوں کو چرچ کا چوکیدار اور بائبل کو ’’بک‘‘ بنا دیا‘ ویٹی کن تاریخ کا چوتھا سبق ہے اور یہ سبق بتاتا ہے دنیا میں مذہب جب بے لچک اور سخت ہو جاتے ہیں تو یہ ختم ہو جاتے ہیں اور یہ اگر ختم نہ ہوں تو بھی یہ طاقوں‘ دیواروں اور نقشوں تک محدود ہو جاتے ہیں‘ تاریخ کا ایک اور سبق بادشاہ بھی ہیں‘ یہ بادشاہ خواہ اتنے طاقتور کیوں نہ ہوں کہ یہ آگسٹس کی طرح اگست اور جولیس سیزر کی طرح جولائی بن کر انسانی کیلنڈر کا حصہ بن جائیں‘ یہ ہنری ہشتم کی طرح دنیا کے سامنے ویٹی کن کا متبادل کھڑا کر دیں‘ یہ اکبر اعظم کی طرح دین اکبری ایجاد کر لیں‘ یہ شاہ جہاں کی طرح تاج محل جیسا عجوبہ بنا دیں اور یہ اورنگ زیب کی طرح فتاویٰ عالمگیری تشکیل دے دیں لیکن یہ بہرحال زوال پذیر ہو جاتے ہیں‘ یہ بالآخر وقت کے پاؤں تلے کچلے جاتے ہیں۔

آج سے سو سال پہلے تک دنیا کے 90فیصد حصے پر بادشاہوں کی حکومت ہوتی تھی‘ یہ بادشاہ قانون بھی ہوتے تھے‘ آئین بھی‘ فتویٰ بھی اور ظل الٰہی بھی لیکن یہ آج کہاں ہیں؟ آج دنیا کے 90 فیصد حصے پر جمہوریت ہے اور اگر کسی جگہ کوئی بادشاہ یا ملکہ ہے تو یہ اپنے محل تک محدود ہے یا پھر یہ گرتی ہوئی دیواروں کی آوازیں سن رہے ہیں‘ بادشاہوں کا خاتمہ تاریخ کا پانچواں سبق ہے‘ یہ سبق بتاتا ہے وقت کی اکیسویں صدی میں بادشاہت کی کوئی گنجائش نہیں‘ اس صدی میں فرد واحد اور اس فرد واحد کی انا کی تسکین ممکن بھی نہیں! آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ دنیا کا نقشہ سامنے بچھا کر بیٹھ جائیں‘ کرہ ارض کو ایک کونے سے دوسرے کونے تک دیکھیں اور پھر اس سوال کا جواب دیں ’’کیا آپ کو دنیا میں کوئی ایسا ملک ترقی کرتا نظر آ رہا ہے جس میں فرد واحد کا حکم سپریم ہے‘ جس میں بادشاہ اور ملکہ ہیں اور مملکت کے تمام اختیارات ان کے ہاتھ میں ہیں‘‘ مجھے یقین ہے آپ کو دنیا کے وہ تمام ملک‘ تمام سیاسی جماعتیں اور تمام کاروباری ادارے زوال پذیر نظر آئیں گے جن میں بادشاہت ہے یا جن میں فرد واحد کا فرمان قانون ہے۔

آپ سوچئے لیبیا کے کرنل قذافی کا کیا حشر ہوا‘ تیونس کے زین العابدین بن علی کہاں ہیں‘ عراق کے صدام حسین کا کیا بنا‘ مصر کے حسنی مبارک کہاں کھڑے ہیں‘ شام کے بشار الاسد تخت بچانے کے لیے کتنے لوگوں کی قربانی دے چکے ہیں اور تاریخ کا یہ سبق اب کتنی رفتار سے سعودی عرب‘ یو اے ای‘ کویت اور قطر کے شاہی خاندانوں کی طرف بڑھ رہا ہے؟ آپ کانگریس اور پیپلز پارٹی کا حشر بھی دیکھ لیجیے اور آپ دنیا کے ان تمام کاروباری اور صنعتی گروپوں کا انجام بھی ملاحظہ کر لیجیے جن کی عنان ایک شخص یا ایک خاندان کے ہاتھ میں تھی‘ آپ کو فیصلے تک پہنچتے دیر نہیں لگے گی ‘دنیا میں بادشاہت‘ فرد واحد کی حکمرانی اور بے لگام اختیارات تینوں ختم ہو چکے ہیں۔

دنیا میں بے شک ایک ایسا وقت تھا جب بادشاہ دوسری شادی کی اجازت نہ ملنے پر اپنا چرچ الگ کر لیتا تھا اور خلیفہ ملکہ کو خوش کرنے کے لیے فقہ میں تحریف کر دیتا تھا لیکن وہ زمانے گزر چکے ہیں‘ اب دنیا میں بادشاہ‘ بادشاہت اور شاہانہ مزاج تینوں کی گنجائش نہیں‘ دنیا میں اب بادشاہ کا بچہ بادشاہ ہو گا‘ حکمران کی بیگم حکمران پیدا کرے گی اور سیٹھ کے سارے برخوردار سیٹھ ہوں گے یہ ممکن نہیں رہا‘ تاریخ ثابت کر چکی ہے دنیا میں مذہبی رہنماؤں کے بے لچک رویئے چل سکتے ہیں اور نہ ہی بادشاہوں کی ضد۔ تاریخ بڑی ظالم ہے‘ تاریخ ایک قبر میں دوسری شادی کی اجازت نہ دینے والے پوپ کو دفن کر دیتی ہے اور دوسری قبر میں غرور شاہی کوگاڑھ دیتی ہے اور پیچھے رہ جاتے ہیں ویٹی کن اور بکنگھم پیلس ۔ویٹی کن مذہب کی علامت بن کر 110 ایکٹر کا ملک بن جاتا ہے اور شہنشاہیت کا غرور آدھے کلومیٹر کے بکنگھم پیلس میں بھٹکتا رہتا ہے‘ یہ تاریخ کا چوتھا اور پانچواں سبق تھا۔

دنیا کی دس ہزار سال کی ریکارڈڈ ہسٹری کا ایک چھٹا سبق بھی ہے اور یہ سبق ہے قانون۔ آپ ایک بار پھر دنیا کا نقشہ میز پر بچھائیں اور کرہ ارض کو دو حصوں میں تقسیم کریں‘ اسلامی دنیا اور کافر دنیا‘ آپ اس کے بعد دونوں دنیاؤں کا جائزہ لیں‘ آپ کو کافر دنیا میں امن بھی ملے گا‘ خوش حالی بھی‘ اطمینان بھی‘ سکون بھی‘ علم بھی‘ ٹیکنالوجی بھی اور احترام انسانیت بھی‘ آپ کو پتہ چلے گا کعبہ ہمارا ہے لیکن اس کی توسیع کا کام برطانیہ کی ایک ایسی کمپنی کر رہی ہے جس کی مینجمنٹ میں یہودی بیٹھے ہیں‘ ہمارے امام حج کا خطبہ یہودی کمپنی کے ساؤنڈ سسٹم پر دیتے ہیں اور ہم یہ خطبہ یہودیوں کے ایجاد کردہ ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں‘آپ کو پتہ چلے گا اسلامی دنیا کے 72 فیصد امراء نے یورپ‘ امریکا اور مشرق بعید میں جائیدادیں خرید رکھی ہیں‘ یہ لوگ سال کا 40 فیصد وقت کافر معاشروں میں گزارتے ہیں۔

دنیا کی 93 فیصد ٹیکنالوجی اور علم کافر دنیا کے پاس ہے اور ہم سر کے درد سے لے کر اوپن ہارٹ سرجری تک کافروں کے محتاج ہیں‘ کیوں؟ آخر کیوں؟ اور ہم میں اور ان میں اور ہمارے معاشروں میں کیا فرق ہے؟ اس فرق کو قانون کہتے ہیں‘ کافر معاشرے صرف قانون کی حکمرانی کی وجہ سے کافر نہیں رہے اور ہم ایماندار اور مومن لوگ قانون کی کمی کی وجہ سے دنیا بھر کے جوتے کھا رہے ہیں‘ مذہب ہمارا سچا ہے‘ نبی ہمارا آخری اور برحق ہے‘ اللہ ہمارے ساتھ ہے‘ تاریخ ہماری شاندار ہے۔

قدرتی وسائل سے ہم مالا مال ہیں اور صلاحیتیں قدرت نے ہمیں زیادہ دے رکھی ہیں لیکن ہم اس کے باوجود دنیا سے پیچھے ہیں‘ کیوں؟ وجہ صرف قانون ہے! مومنوں کے پاس سب کچھ ہے لیکن قانون نہیں اور کافروں کے پاس کچھ بھی نہیں مگر قانون ہے اور تاریخ کا چھٹا سبق ہے دنیا کا ہر وہ معاشرہ‘ ملک‘ ریاست ‘ ادارہ اور کمپنی ختم ہو جاتی ہے جس میں قانون کی حکمرانی نہ ہو‘ جس میں قانون کے سامنے پہنچ کر بھی بادشاہ بادشاہ اور غلام غلام ہو‘ یہ دونوں برابر نہ ہو سکیں‘ ہم مسلمان جب بھی اسلامی ریاست کا نام لیتے ہیں تو ہمیں حضرت عمر فاروق ؓ یاد آجاتے ہیں‘ ہم اگر حضرت عمر ؓ کو دو لفظوں میں ’’ایکسپلین‘‘ کرنا چاہیں تو وہ دو لفظ کیا ہوں گے؟ وہ لفظ ہوں گے ’’عدل فاروقی‘‘ یہ قانون کی حکمرانی تھی جس نے دنیا میں آج تک حضرت عمر فاروق   ؓ کا کوئی متبادل پیدا نہیں ہونے دیا اور یہ متبادل اس وقت تک پیدا بھی نہیں ہو گا جب تک کسی حکمران کے دل میں قانون پر عمل داری کے لیے اپنے بیٹے کی لاش پر کوڑے برسانے کی ہمت پیدا نہیں ہوتی۔

یہ تاریخ کا آخری سبق ہے‘ ریاست اگر دیوتاؤں کی بھی ہو اور اس میں قانون اور انصاف نہ ہو تو وہ ختم ہو جاتی ہے اور ہم لوگ پاکستان کو 70 سال سے قانون اور انصاف کے بغیر چلا رہے ہیں‘ یہ آخر کب تک زندہ رہے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔