پاک امریکا تعلقات عدم استحکام کا شکار کیوں؟

انیس باقر  جمعـء 3 جون 2016
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

جب پاکستان نیا نیا بنا، میں نے بھی اپنے بزرگوں سے کراچی کی نئی نئی کہانی سنی۔ یہ شہر بمشکل 7،8 لاکھ کا ہوتا تھا، لیاری روایتی طور پر بلوچ حضرات پر مشتمل تھا، صدر، بندر روڈ، لسبیلہ، پارسی، کرسچن، گرومندر پر ملی جلی آبادی تھی، مارٹن کوارٹر جہانگیر روڈ پر عام طور پر نو واردان، خصوصاً گورنمنٹ کے درمیانی درجہ کے ملازم، لالوکھیت ابھی بننا شروع ہوا تھا۔

یہ 56ء کا ابتدائی عشرہ ہوگا، تین ہٹی کا پل ابھی بنا نہ تھا، برسات کے دن تو راستے بند ہوتے تھے۔ گویا لالوکھیت، ناظم آباد، لسبیلہ سے کٹ جاتے تھے، برنس روڈ اور بہار کالونی، آگرہ تاج کالونی بس چکے تھے، لیاری ادبی اور سیاسی محفلوں کا گڑھ تھا، بھارت سے مہاجرین کی آمد تھی، کراچی سے قدیم ہندو باسیوں کی روانگی کا رقت اندوز منظر تھا، کیوں کہ بعض جدید عمارتیں خالی ہورہی تھیں، جو حال ہی میں ہندوؤں کی تیار کی ہوئی تھیں۔ قائداعظم کی حکومت ابتدا میں تھی، کیا مجال جو کوئی کسی پر دھاوا بول سکے، قانون کا سکہ ہر طرف پھیلا تھا۔

مجال جو ہندوؤں پر کوئی دھاوا بول سکے، لوٹ مار کرسکے۔ بھارت سے 1948 اور 1949 سے مہاجرین بحری جہاز سے لنگر انداز ہوتے رہتے تھے، ان میں جوشیلے سیاسی مہاجرین تھے جو عام طور پر اکیلے تھے، 1949 میں ان کا احوال یہ تھا۔ لائٹ ہاؤس، بندر روڈ پر کمیونسٹ پارٹی کا دفتر تھا جس کو آنجہانی سوبھوگیان چندانی چلاتے تھے، چند کمرے تھے، ان میں کاوش رضوی، عزیز سلام بخاری اور کچھ عرصہ بعد حسن ناصر شہید نے بھی یہیں بسیرا کرلیا تھا۔ سائیکلو اسٹائل مشین اور ٹائپ رائٹر رواں دواں رہتا تھا۔ ان پڑھے لکھے لوگوں میں ایک باوقار قسم کی پارٹی وجود میں آگئی، جس میں کاوش رضوی، چند دنوں کے لیے سجاد ظہیر کے ہمراہ انھوں نے بھی قیام کیا۔ کبھی کبھی یہاں عبدالمجید سندھی ان لوگوں سے ملنے آجاتے تھے۔

شہر میں ایک طرف کالج وجود میں آرہے تھے تو دوسری جانب سائٹ ایریا، منگھوپیر میں ٹیکسٹائل ملز لگ رہی تھیں، بلکہ ولیکا مل کا افتتاح تو خود قائداعظمؒ نے کیا۔ بھارت سے جو لوگ میڈیکل سے وابستہ آئے تھے وہ ڈاؤ میڈیکل، جو لوگ فیکٹری میں کام کرنے کو ترجیح دیتے تھے ان میں حسن ناصر نے فیکٹری میں کام کرنا شروع کردیا اور ایک حلقہ ایسا بھی آیا تھا جو ہاریوں میں کام کرنے کو بہتر جانتا تھا وہ حیدر بخش جتوئی کے ہمراہ کان پر چل دیے، جن میں سائیں عزیز اﷲ، ہادی نقوی اور کاوش رضوی کا قافلہ تھا، جو پندرہ لوگوں پر مشتمل تھا۔ یہاں تک کہ ہاری حق دار تحریک کا زبردست احتجاج اور عالمی سامراج کے خلاف جدوجہد کا آغاز ہوتا رہا، اسی لیے جب کبھی مظاہرے ہوتے تھے تو طلبا، مزدور اور کسان تینوں فرنٹ پر لوگ متحد ہوتے تھے۔

بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ 1952 کے ابتدائی دنوں میں اگر جنرل اکبر خان، فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر کے حلقوں میں کشیدگی پیدا نہ ہوگئی ہوتی تو کمیونسٹ انقلاب آچکا ہوتا، کیوں کہ شہر میں مزدوروں کی بہت بڑی منظم قوت موجود تھی اور دانشوروں اور طلبا میں بھی نظم و ضبط تھا اور حکومتی اداروں میں بھی کامریڈوں کی مضبوط رسائی تھی، اس لیے فیض صاحب اور جنرل اکبر خان اپنے منصوبے میں کامیاب ہوجاتے۔ جب کہ سید سجاد ظہیر نے عین وقت پر مزدوروں اور کسانوں کے پلاٹون کو اس منصوبے میں شریک ہونے سے انکار کردیا۔ بقول سجاد ظہیر یہ عوامی انقلاب ہرگز نہ ہوگا اور زیادہ عرصے تک نہ چل سکے گا، رد انقلاب کی قوتیں جلد صف آراء ہوجائیںگی اور پھر عوامی انقلاب کا تصور بھی پیدا نہ ہوگا۔ یہ تھا دراصل اکبر خان اور فیض احمد فیض کے ہمنواؤں کا خیال۔

جوں جوں صورت حال آگے بڑھ رہی تھی سیاسی استحکام میں کامریڈوں کا عمل دخل بڑھ رہا تھا، یہاں تک کہ بائیں بازو کی حامی قوتیں سیاسی افق پر چھانے لگی تھیں یہاں تک کہ عوامی سطح پر ایک وقت ایسا آگیا کہ اگر سربراہ کوئی نصف نعرہ لگائے یعنی کہے امریکا تو دوسری جانب سے آواز آتی مردہ باد، روس اور چین نواز قوتیں ملک میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی تھیں۔ پاکستان میں حکمران قوتوں کو اس بات کا پورا ادراک تھا اسی لیے امریکی مفادات کا دفاع آسان نہ تھا، مگر اسٹیبلشمنٹ کو اس پہلو کا خاصا ادراک تھا اسی لیے پاکستانی حکمرانوں اور ان کے امریکی حلیفوں کو ایسی پالیسی وضع کرنی تھی جو بظاہر اتنی واضح طور پر امریکی مفاد میں نہ ہو اور لوگوں کو ہضم بھی ہو، مگر ہر طریقے سے امریکی مفادات کا تحفظ کرتی ہو۔

اسی لیے امریکی مفادات کا تحفظ مذہب کی آڑ میں کیا گیا اور جب جنرل اکبر خان اور فیض صاحب کے حامیوں نے ہوٹل میٹروپول کے گرد پلان بنایا تھا ، سجاد ظہیر شریک نہ ہوئے اور راز فاش ہوگیا۔ ایوب خان نے حکومت کو خبر دے دی اور انقلاب ایک خواب بن گیا۔ جب افغانستان میں روس کے خلاف امریکی جنگ کا آغاز ہوا تو پہلے خلیجی اور بعض افریقی ممالک سے کمک منگوالی گئی، ساتھ ہی مدرسوں کا جال بچھایا گیا تاکہ فکری اور حربی محاذ یکساں مضبوط ہوں۔ ابتدا میں امریکا نے سخت اور کٹر محاذ تعمیر کیا اور جب افغانستان میں ملا عمر کی حکومت قائم ہوگئی تو وہاں ہزاروں سال پرانا مہاتما بدھ کے مجسمے کو بھی برباد کردیا گیا۔ اب امریکا نے اپنے مزاج اور پسند کا اسلام چاہا جو ممکن نہ تھا اور کشیدگی میں اضافہ ہوتا گیا۔ 25 برس گزر گئے مگر مسائل حل نہ ہوئے۔

پاکستان کی اپنی ایک پالیسی ہے جو ملا عمر کے فلسفے کے قریب تر ہے مگر عالمی پیمانے پر مماثلت نہیں ہے، اس لیے نظریات میں یکسانیت نظر نہیں آتی۔ یہ عجیب بات ہے کہ ڈرون حملوں میں جو بھی طالبان کا لیڈر جاں بحق ہوا زیادہ تر وہ شخص کسی نہ کسی طرح پاکستان کی سرزمین سے ملحق رہا ہے کیوں کہ وہ امریکی اثر و رسوخ کے خلاف رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی وہ روس کا کٹر مخالف تھا اور بائیں بازو کا کھلاڑی تھا، قوم پرست نیشنلسٹ تھا اور جب وہ دائیں بازو کا فرد بنا تب بھی امریکا مخالف رہا، اس کی وجہ ہے کہ امریکا نے اپنے مکمل حامی کو بھی مکمل آزادی نہیں دی۔

شمالی امریکا کی پٹی پر بیٹھ کر امریکا اپنے حامی کو اتنی آزادی نہیں دیتا کہ وہ خارجہ امور میں آزاد کردے جیسا کہ روس نے معاہدے کے دوران فیڈرل کاسترو کو لکھا تھا۔ داخلہ اور خارجہ پالیسی میں ایک حد تک کی مختاری۔ یہی وجہ تھی کہ تاریخ کے نشیب و فراز میں یہ سوویت یونین اور ایشین فیڈریشن میں کسی الجھن کا شکار نہ ہوئے۔ گو کہ 100 سال بعد کوئی امریکی صدر پہلی بار کیوبا کی سرزمین پر اترا۔ مگر جیسے یہ صدر اوباما کیوبا کی سرزمین پر اترے، فیڈرل کاسترو نے کیوبا کی سرزمین پر جن جزائر کو امریکا نے ہتھیا رکھا ہے، ان کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ گوانتا ناموبے کا مسئلہ اسی شدت سے اٹھایا گیا جیسا کہ ان کی غیر موجودگی میں اٹھایاجاتا رہا اور اب آپ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر نظر دوڑائیں۔

یہ فیلڈ مارشل ایوب خان کا دور ہو یا آج کا، یہ بات ابتدائی 1959 کی بات ہے، جب ایوب خان نے دفاعی نوعیت کا ایک معاہدہ ترکی اور ایران کے ساتھ کیا اور اس معاہدے کو سینٹو (Cento) کا نام دیاگیا۔ چونکہ یہ معاہدہ نہ کوئی معاشی انقلاب لاسکا اور نہ کوئی دفاعی اہمیت نمایاں کام کرسکا بلکہ آزاد خیال حکومتوں کو اس علاقے میں پروان نہ چڑھنے دیا گیا بلکہ ایران انقلاب نے پورے مشرق وسطیٰ کی سیاست کا نقشہ ہی بدل ڈالا، ادھر افغانستان میں یکے بعد دیگرے دو تبدیلیاں رونما ہوئیں، پہلے افغان ثور انقلاب جس کو امریکا نے ناکام بنایا مگر افغانستان کے حالات سیاسی طور پر ابتر ہوگئے۔

اس لیے امریکا نے مداخلت کرکے طالبان کو استعمال کیا اور ماضی میں پاکستان ہر مرحلے میں افغان مجاہدین کے شانہ بشانہ رہا، اس لیے ماضی کے جو مرحلے گزر گئے اور ان کا خمیازہ بھی ہم نے بھگت لیا، یہاں تک کہ عالمی سیاست میں یوٹرن بھی لے لیا مگر پاکستان کو کسی حال میں بھی امریکا نے معاف نہ کیا اور ڈرون حملے ہر موقع پر کرتا رہا۔ اگر چند ماہ کے لیے پاکستان پر ڈرون حملے بند کردیے گئے تو بھی پاکستانی لیڈروں نے کریڈٹ لینے کی کوشش کی جب کہ ہرگز ایسا نہیں کیوں کہ پاکستان کے بجٹ سے لے کر دفاعی حکمت عملی بھی امریکی مشوروں کے تابع ہوتی ہے۔

اس لیے پاکستان کے احتجاج کے کچھ معنی نہیں ہوتے۔ پھر عجیب اتفاق ہے تمام اہم افغان لیڈران جن کا پاکستانی سیاست میں کلیدی کردار ہے ان کی اہم کاوشیں پاکستان کی سرزمین سے منسلک پائی گئی ہیں، یہاں تک کہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بھی۔ کرپشن چونکہ پاکستان کا کلیدی مسئلہ ہے لہٰذا کاغذات کی تیاری پاکستان میں آسان ہے، اس لیے عالمی افق پر پاکستان کو تو مسائل درپیش آئیںگے۔ اب ملا منصور کی ہلاکت کا ذمے دار امریکا کو بنا کر نوشکی میں مقدمہ درج کرنے سے امریکا کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔