بھارت میں کشمیری اور افریقی طلباء پر قیامت!

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 3 جون 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور ایران کے کامیاب سرکاری دوروں کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کل، 4جون 2016کو، افغانستان آرہے ہیں۔ کابل کے حکمران اور افغانستان میں امریکی اہلکار اُن کا سواگت کرنے کے لیے پوری تیاریاں کرچکے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے مودی جی کو بھارت میں چھیاسی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا مژدہ سنایا تھا اور ساتھ ہی (مبینہ طور پر) یہ بھی پیشکش کی کہ بھارت یو اے ای میں مندر بھی تعمیر کرسکتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ مندر عالمِ عرب میں ہندوؤں کی پوجا کا سب سے بڑا مرکز ہوگا۔

سعودی عرب کے دورے میں سعودی بادشاہ نے نریندر مودی کی خدمت میں اپنی مملکت کا سب سے بڑا سول ایوارڈ پیش کیا۔ایسا سعودی اعزاز آج تک پاکستان کے کسی بھی حکمران کو نہیں دیا گیا ہے۔ مودی جی ایران پہنچے تو صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے آگے بڑھ کر ان کی بلائیں لیں اور ان کے ساتھ تجارتی اور اسٹرٹیجک اہمیت کی حامل چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کا معاہدہ کیا۔ کہا جارہا ہے کہ یہ ایرانی بندرگاہ دراصل پاکستان کی گوادر بندرگاہ کو نیچا دکھانے اور اس کی قدروقیمت کم کرنے کا بھارتی، ایرانی اور امریکی مشترکہ منصوبہ ہے۔

(اگرچہ پاکستان میں متعین ایرانی سفیر عزت مآب جناب ہنر دوست نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ چاہ بہار اور گوادر کی بندرگاہیں ایک دوسرے کی حریف نہیں ہوں گی) اب چار جون کو بھارتی وزیراعظم کابل میں ان حالات میں ’’قدم رنجہ فرما‘‘ رہے ہیں جب پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بوجوہ کشیدہ ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ نریندر مودی، افغان صدر جناب اشرف غنی کو بعض خصوصی تحفے (از قسم افغانستان میں بھارت کا بنایا گیا ڈیم) پیش کریں گے۔ کیا ایسے میں پاکستان کو تشویش کا اظہار نہیں کرنا چاہیے؟

بھارت دنیا بھر میں اپنی سفارت کاری کا ڈنکا بجانے کی ہر ممکنہ کوششیں تو کررہا ہے لیکن دوسری جانب  بھارت کے اندر متعدد غیر ملکی سفیر بھارتی تشدد، بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں اور بھارتی کہہ مکرنیوں کے خلاف سخت غصے اور ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں۔ بھارتی حکومت اور بھارتی وزارتِ خارجہ کے خلاف احتجاج کنندہ ان غیر ملکی سفیروں میں افریقی ممالک کے سفرا سب سے آگے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ بھارت کے کئی شہروں میں وقوع پذیر ہونے والے وہ تازہ سانحات ہیں جن میں افریقی طلباء و طالبات کو بھارتی متشدد ہندو شہریوں نے قتل بھی کیا ہے اور انھیں تشدد کا ہدف بنا کر اَدھ مُوا بھی کردیا۔ اس سلسلے کا تازہ ترین سانحہ 26مئی 2016ء کو دہلی کے علاقہ، کشن گڑھ، میں ہوا جب رات کے وقت افریقی ملک، کونگو، کے ایک طالب علم (ایم ٹی اولیور) کو ہندو غنڈوں نے اتنا مارا پیٹا کہ دوسرے روز مذکورہ سیاہ فام مضروب اسپتال میں مر گیا۔ کونگو ایمبیسی نے اس سانحہ پر بھارت کے خلاف سخت احتجاج کیا ہے۔ کونگو میں بھی بھارت کے خلاف افریقی عوام کا احتجاج ابھی تک جاری ہے۔

اس افسوسناک سانحہ سے تین روز قبل نئی دہلی میں دو سوڈانی، ایک نائجیرین اور دو جنوبی افریقن سیاہ فام طلباء و طالبات کو بھی ہندو غنڈوں نے نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ انھیں لُوٹ بھی لیا۔ ان بہیمانہ سانحات کو نسل پرستی کا شاخسانہ بھی کہا جا رہا ہے۔ ابھی دو ماہ قبل بھارتی شہر، بنگلور، میں غنڈوں کے ایک گروہ نے دو افریقی طلباء و طالبات کو دن دیہاڑے مار مار کر قتل کر ڈالا۔ بھارت میں افریقی طلباء کے خلاف ان بڑھتی ہوئی خونی اور متشددانہ وارداتوں کے خلاف افریقہ کے بیالیس ممالک نے بھارت کے خلاف سخت احتجاج کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ بھارت میں برِاعظم افریقہ کے جو چار ہزار طالب علم زیرِ تعلیم ہیں، وہ بھارت چھوڑ کر اپنے اپنے ممالک واپس چلے جائیں۔

بھارت میں افریقی طلباء کے ساتھ ساتھ بھارتی مسلمان اور کشمیری طلباء و طالبات کے ساتھ بھی بہیمانہ سلوک کیا جارہا ہے۔ سب سے بڑی مثال عمر خالد کی ہے جو دہلی کی عالمی شہرت یافتہ درسگاہ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، میں پی ایچ ڈی کے طالب علم اور دہلی ہی کے ایک پسماندہ علاقے (جامعہ نگر) کے رہائشی ہیں۔ والد کا نام ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس ہے۔ ان کی ایک بہن، مریم فاطمہ، امریکا کی ممتاز یونیورسٹی (کولمبیا) میں وظیفے پر پڑھ رہی ہیں۔ عمر خالد ’’جے این یو‘‘ کے ذہین ترین طلباء میں سے ایک ہیں۔ اس کی گواہی مذکورہ جامعہ میں شعبہ ’’ہسٹاریکل اسٹڈیز‘‘ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر سنگیتا داس گُپتا اور دہلی یونیورسٹی میں ہندی کے استاد پروفیسر اپوروناند بھی دیتے ہیں۔

عمر خالد نے گذشتہ دنوں جے این یو کی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر، کنہیا کمار، اور دیگر طلباء کے ساتھ ملکر مقبوضہ کشمیر کے مقتول لیڈروں، مقبول بٹ شہید اور افضل گُرو شہید، سے کی گئی زیادتیوں کے خلاف مظاہرہ کیا تو بھارتی انتظامیہ نے عمر خالد کو جیل میں ٹھونس دیا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے بھارت کے خلاف نعرے لگائے ہیں۔ بھارتی میڈیا میں بار بار پروپیگنڈہ کیا گیا کہ عمر خالد چونکہ مسلمان ہے، اس لیے جہادی اور فسادی ہے اور بھارت کا دشمن بھی۔ ان کے خاندان کی خواتین کو فون پر دھمکیاں دی گئیں۔ امریکا کے ممتاز صحافی، پیٹرگرفن، کو انٹرویو دیتے ہوئے نیویارک میں زیرِ تعلیم عمر خالد کی ہمشیرہ (مریم فاطمہ) نے بھی یہی بات کہی ہے۔ حتیٰ کہ ان کی بارہ سالہ معصوم بہن کو بھی بخشا نہیں گیا۔

مارچ 2016ء کے وسط میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے کلکتہ کے تمام تعلیمی اداروں کے سربراہوں کو ایک چٹھی ملی جس میں حکم دیا گیا تھا کہ ان کے ہاں جتنے بھی کشمیری طلباء و طالبات زیرِ تعلیم ہیں، سب کے بارے میں مکمل تفصیلات (خفیہ اداروں کے) دفتر میں پہنچائی جائیں۔ اس حکم نامے کی خبر پاکر کلکتہ کے تمام تعلیمی اداروں سے وابستہ تمام کشمیری طلباء میں خوف اور تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ کشمیری طلباء نے بجا طور پر اپنی سیفٹی اور سیکیورٹی کے بارے میں اپنے والدین کو آگاہ کرنا شروع کردیا۔

ابھی اس خبر کی بازگشت کم نہ ہوئی تھی کہ بھارتی ریاست راجھستان میں کشمیری مسلمان طلباء کے ساتھ ایک اور سانحہ دیکھنے میں آگیا۔ راجھستان کی میواڑ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم چار کشمیری مسلمان طلباء کو ہندوؤں نے اس لیے شدید زدوکوب کیا کہ انھوں نے اپنے ہوسٹل میں بیف پکایا ہے۔ ان طالب علموں کے نام یہ ہیں: شکیب اشرف، ہلال فرخ، محمد مقبول اور شوکت علی۔ خبروں میں بتایا گیا کہ پہلے ان چاروں کشمیری مسلمان طلباء کو یونیورسٹی مذکور کے ساتھی طلباء نے تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر انھیں پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ چتوڑ گڑھ کے ایس پی پولیس، پرسنّا کمار، نے تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ کشمیری طلباء پر بیف پکانے اور کھانے کا الزام بے بنیاد ہے اور یہ الزام بی جے پی کے طلباء وِنگ ’’اے بی وی پی‘‘ نے لگایا ہے۔

تین دن کی حراست کے بعد چاروں مظلوم و بے گناہ کشمیری طلباء کو رہا کردیا گیا مگر یونیورسٹی کے سربراہ نے کشمیری طلباء کو دھمکی دی کہ اس واقعہ کو ایشو نہیں بنانا، وگرنہ یونیورسٹی سے خارج کردیے جاؤ گے۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت بھر میں کشمیری اور افریقی طلباء و طالبات کس اذیت اور عذاب سے گزر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔