قومی تہذیب کی تشکیل کے فکری پہلو… (تیسرا حصہ)

اللہ رکھیو سومرو  جمعـء 3 جون 2016

برہمن اور پانامہ زدہ اچھوت: قومیتوں میں بٹے انسانی گروہوں کے موجودہ ارتقائی مرحلوں میں قابل فہم اساسی بنیادوں کی انتہائی واضح تفریق کے باوجود عا لم انسانیت کے مشترکہ ارتقائی مرحلے پر موجودہ مادہ پرستی کی انتہائی اشکال میں نامعقولیت پر مبنی تذلیل انسانیت کا پہلو کچھ زیادہ ہی واضح طور پر نظر آنے لگا ہے، کیونکہ ترقی یافتگی و ترقی پذیری کے فرق کے باوجود ممالک عالم میں اپنے اپنے فوق المادہ و فوق الطبع محققین کی جگر سوزیوں کے نتیجے میں مرتب شدہ داخلی و خارجی تقاضوں کی اساس پر قائم جدید مادی انتظام معاشرت و نظام تمدن کے عملی اطلاق کی کوششوں کے ابتدائی ہولناک نتائج میں اقوام عالم میں رائج ان نظریات کے دم پر ’’مقد س دیوتا ‘‘(حزب اقتدار) کے طور پہچانے جانے والی وہ ہستیاں جن کے احترام میں ’’آنکھیں‘‘ جھک جانی چاہئیں تھیں وہ ’’پانامہ وائرس پازیٹو‘‘ ظاہر ہونے پر اچھوت قرار دیے جانے لگے ہیں ، لیکن اس کے باوجود ان مادی نظریات کے سب سے قیمتی گہنے اور ان کی مانگ کے سِندُور کی حیثیت رکھنے والے ’’برہمن‘‘ (حزب اختلاف) اسی قانون بین الاقوام سے مسیحائی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔

جس قانون بین الاقوام نے اس وائرس کی تخلیق اور اس کی بالیدگی میںنہ صرف  اساسی کردار ادا کیا ہے بلکہ یہ دیوتاؤں کے بھی دیوتا کے طور پر ان پانامہ گزیدہ حضرات کوایک بار پھر اچھوت سے برہمن بنانے کی ’’شُدھی‘‘ کے سا تھ ساتھ انھیں اس سے زیادہ کسی اور ’’خطرناک و خفیہ وائرس‘‘ میں جکڑ نے کا ’’چمتکار‘‘ بھی رکھتا ہے۔ چونکہ موجودہ انسا نی ارتقائی مرحلے میں یہ بات الم نشرح ہو چکی کہ اقوام عالم کی تاریخ میں پائے جانے والے ان کے مسیحا ؤں کو مؤرخ، محقق، مدبر، منتظم و برگزیدہ بیان کیا گیا ہے  لیکن ممالک عالم میں رائج موجودہ جدید انتظام معاشرت و نظام تمدن کی برکات سے اقوام عالم میں ’’پانامہ زدہ‘‘منتظم و مدبر جنم لیتے ہوئے پائے جانے لگے ہیں۔

اقوام کی عظمت رفتہ : ممالک عالم میں مادی نظریات پر قائم کیے گئے، انتظام معاشرت و نظام تمدن کا جوں جوں مزید سخت اطلاق کے مرحلوں میں یہ وائرس اور بھی زیادہ طاقتور ہوکر اقوام عالم میں انتشار، انفراق و اضطراب پھیلاتا چلاجائے گا جس کے لازمی نتائج میں استعمار و استبداد کے شکنجے میں تڑپتی عالم انسا نیت کے لیے سانس لینا بھی دوبھر ہو جائے گا۔ یعنی عالم انسانیت کے موجودہ ارتقائی مرحلے پر قوموں اور تہذیبوں کی جڑیں ہلانے کے لیے کسی لشکر کشی کی ضرورت باقی نہیں رہی بلکہ ’’ لیکس کی وباء‘‘ پھیلا دینا ہی کافی ہے، جو کہ جدید استبداد و استعمار کے ہاتھوں اقوام عالم کے مفتوح و محکوم ہوجانے کی ناقابل تر دید کھلی دلیل ہے۔ قابل غور با ت یہ کہ فوق المادہ و فوق الطبع کے قائل موجودہ وسیع النظر دانشوروں و ادیبوں کا یہی استبدادی انسانی گروہ آئیڈیل بنا ہوا ہے ، جو کہ ان مادی نظریات کا خالق ہے اور عالم انسانیت کے موجودہ ارتقائی مرحلے پر جن کی حشر سامانیوں سے نمٹنے کے لیے تاریخ کا از سر نو جدید خطوط کی رو شنی میں جائزہ لیا جانا بے حد ضروری ہو چکا ہے۔

تہذیبی ورثہ اور استبدادی علمبردار: کوئی بھی ذی ہوش و عقل انسان اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ رائج قانون بین الاقوام کی آشیر باد سے فلسطین پر استبدادی و غاصبانہ قبضے کی بنیاد پر تشکیل پا نے والے ملک اسرائیل سے متعلق انسانی گروہ کو موجودہ عالمی معاشی نظام کا سرخیل ہونے کے باعث ان پر انتظام معاشرت کے تمام مادی نظریات کی پرورش اور ممالک عالم میں ان کے سودی نظام کو مادر رحم جیسا تحفظ فراہم کرنے والے قوانین کی ترویج و اطلاق کی ذمے داریوں سے مبراء قرار نہیں دیا جا سکتا ۔

قابل غور نکتہ یہ کہ مادہ پرست انتظام معاشرت ، نظام تمدن اور DateExpire تہذیبوں کے برآ مد ہونے والے کھنڈروں کی بنیاد پر عالم انسانیت کو قومی تشخص کی فرضی و قیاسی توضیحات سے ان کو اپنی عظمت رفتہ حاصل کرنے کا درس دینے والا یہ انسانی گروہ اپنے تہذیبی اثاثے یعنی تابوت سکینہ اور ’’بنی اسرائیلی قومی تشخص‘‘ تو نہ بچا سکا ہے لیکن وہ کرہء ارض پر  DateExpire تہذیبوں کے اثاثوں کی حفاظت اور ان کے مادہ پرستانہ اند ا ز معاشرت کے فروغ کے لیے عالمی اداروں کو متحرک کیے رکھنے کے کارخیر میں سرگرداں دیکھا جا سکتا ہے ۔

اور ان کی اس طرح کی دیکھ بھال کے نتیجے میں مقا می تہذیبیں اب صرف ایک دن کا ’’کلچر ڈے‘‘ بن کر رہ گئی ہیں اور سال کے باقی ماندہ دن مغربی نظام تمدن کے پرخلوص چیلوں کو ان مادی نظریات کی خدمت گزاری کے لیے مخصوص کیے جانے ممکن بن سکے ہیں ۔ جس سے جدید استبداد و استعمار دن بدن مضبوط اور ناقابل شکست بنتا دکھائی دیا جانے لگا ہے۔

کیونکہ جدید فوق المادہ و فوق الطبع نظریات کی روشنی میں یہ پہلو واضح ہوا چاہتا ہے کہ اقوام عالم کو اپنی تباہ شدہ تہذیبوں کے کھنڈرات تو نظر آتے ہیں لیکن جد ید تغیر پذیر استبداد و استعمار کو وہ خاطر میں نہیں لارہے ہیں۔

قدیم نظریات کی جدید تہذیب : عالم انسانیت کے موجودہ ارتقائی مرحلے پر اقوام عالم کے سامنے یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ موجودہ استبداد و استعمار کا تاج اعلان بالفور کے ناجائز غاصبانہ اقدام کے دم قدم پر قومی تہذیبوں کی صف میں در آنے والے ملک اسرائیل سے متعلق انسانی گروہ کے سر پر ہے ۔ جن کا نسبی تعلق معلوم تار یخ کی برگزیدہ ہستی حضرت ابراہیمؑ کی اولاد سے ہے۔ جب کہ ’’القرآن‘‘ نے عالم انسانیت کو ٹھوس فوق المادہ و فوق الطبع بنیادوں پر اندھوں سے بھی زیادہ راہ گم کر دہ مادہ پرستانہ انسانی روش، فطرت ، جبلت ، ترجیحات و میلانات کو سمجھانے کے لیے قوم بنی اسرائیل کو تحقیقات ابراہیمؑ کی آفاقی تحقیقات و تعلیمات جتاتے اور بتاتے اور ان کی جانب سے مسلسل روگردانی کے تسلسل میں ان کے مد مقابل ’’ اُمت ‘‘ کے تشخص سے ایک ایسے انسانی گروہ کے قیام کو بیان فرمایا ہے کہ جس کی تشکیل اور تکمیل کو تہذیب خانہ کعبہ سے نہ صرف منسوب کیا جا چکا ہے بلکہ بنی اسرائیل کے یہودی قومی تشخص اپنا لیے جانے کو تہذیب بیت المقدس سے ان کی بے دخلی قرار دیتے ہوئے دیگر انسانی گروہوں سے ماں کی سی شفقت اور مہربان کردار پر مبنی ذمے داریاں ادا کرنے پر مامور انسانی گروہ (اُمت) کو انتظام معاشرت کی غرض سے قائم کی گئی تہذیب بیت المقدس کی وارثی بھی عطا کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔