بُک شیلف

اپنی بات کو بھرپور دلائل، حوالوں اور منطقی پیمانے پر کہنے کا یہ فن صحت مند معاشروں کی علامت ہے،:فوٹو:فائل

اپنی بات کو بھرپور دلائل، حوالوں اور منطقی پیمانے پر کہنے کا یہ فن صحت مند معاشروں کی علامت ہے،:فوٹو:فائل

بے لاگ
(اردو بلاگرز کی منتخب تحاریر)
مرتیبن: رمضان رفیق، خاور کھوکھر
صفحات: 208، قیمت: 300 روپے
ناشر: منور پبلی کیشنز، لاہور

اخباری کالم کی طرح ’بلاگ‘ کی بھی کوئی لگی بندھی تعریف کرنا ایک امر محال ہے۔ اخبار میں تو مدیر اور ادارتی حکمت عملی سے گزرنا ہوتا ہے، جب کہ بلاگ لکھنے والے ایسی کسی بندش سے آزاد ہوتے ہیں، چوں کہ انٹرنیٹ نے اسے وسیلہ اِبلاغ بخشا تو اخباری تحریروں سے ایک حد فاصل ذریعہ اِبلاغ کے فرق سے پیدا ہوئی، کم شرح خواندگی کے باوجود اخبارات کو ایک اہم اِبلاغی حیثیت حاصل ہے، جو بھرپور وسعت کے باوجود انٹرنیٹ کو حاصل نہیں۔

اس کے ساتھ مطبوعہ ذرایع اِبلاغ کی برقی ذریعہ اِبلاغ سے مسابقت میں نقطۂ نظر اور رائے سازی کے مواد کے حوالے سے اخبارات کو ایک فوقیت حاصل تھی، بلاگ اس کا ایک مستحکم جواب ہے۔

کسی اخبار میں کالم، مضمون یا مراسلے کا موقع یا مطلوبہ جگہ نہ پانے والے لکھاریوں نے انٹرنیٹ کے وسیلے سے ’بلاگ‘ کو اپنے اظہار کا آزادانہ وسیلہ بنایا، پھر جب انہیں سب کچھ کہہ سکنے کی آزادی ملی، تو اس میں بے باکی اور بے رحم تنقید در آنا کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی۔ بلاگ کو سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) نے مہمیز کیا، نتیجتاً منضبط طریقے سے اپنی رائے کا اظہار کرنے والے بلاگروں کی ایک بہت بڑی تعداد سامنے آگئی، لیکن اخباری مضامین اور کالموں کے مقابلے میں یہ قارئین تک اتنی رسائی نہ پا سکے، جب کہ مرتب کے بقول،’’ہمارے روایتی پڑھنے والے اپنی کاغذی کتابوں کے اس قدر رسیا ہیں، کہ ان کو یہ نیا مشروب پرانی پیالی میں پیش کیا جا رہا ہے۔‘‘ کتاب کا مقصود قارئین کو ان بلاگروں کی انٹرنیٹ پر موجود تحریروں تک لانا ہے۔

اس کتاب میں مختلف موضوعات اور اسلوب کے حامل 60 سے زاید بلاگوں کو شامل کیا گیا ہے، جب کہ دیگر بلاگروں کے بھی برقی پتے درج کیے گئے ہیں۔

صحافت وادی بولان میں
مولف: کمال الدین احمد
صفحات: 395، قیمت: 200 روپے
ناشر: بلوچ اکیڈمی، کوئٹہ

یہ کتاب 1978ء میں منصۂ شہود پر آنے والی کتاب کا اِعادہ ہے۔ بلوچستان کی صحافت کے طلبا اور محققین کے لیے یہ کتاب ایک بنیادی اور اہم دستاویز ہے۔ چالیس ابواب میں منقسم اس کتاب کے مندرجات کو بہت مختصر مختصر موضوعات پر استوار کیا گیا ہے۔ کتاب کے ابتدائی ابواب میں یہاں کے جغرافیائی حالات اور آب وہوا سے لے کر زرعی پیداوار اور رہن سہن تک کا جائزہ لیا گیا ہے۔

بٹوارے سے پہلے کوئٹہ چھاؤنی میں انگریز فوج کے قیام کی بنا پر دوسرے علاقوں سے یہاں آنے والوں کو کڑی چھان بین اور تفتیش کے بعد ہی آنے کی اجازت مل پاتی، عدم اطمینان کی صورت میں واپسی کی راہ دکھا دی جاتی۔ 1935ء کے زلزلے کے سانحے کے بعد یہاں جب صحافت کی کونپل پھونٹی، تو یہ وہ زمانہ تھا، جب ہندوستان کے دیگر شہروں سے آنے والے اخبارات کے قارئین بھی خفیہ کارندوں کی نظروں میں ہوتے تھے۔

یہاں تک کہ گورے نے ہندوستان میں نافذ ’پریس ایکٹ‘ کا اطلاق اس خطے میں نہیں کیا، چناں چہ یہاں اخبار نکالنے کے لیے عبدالصمد اچکزئی نے پنجاب جاکر ڈیکلریشن حاصل کیا۔ اس کے بعد شایع ہونے والے اخبارات اور خبروں سے ضخامت، طباعت، آمدنی اور ترسیل تک کے معاملات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہی نہیں بل کہ یہاں کے نامہ نگاروں، صحافیوں اور صحافتی تنظیموں کا تذکرہ بھی ایک اہم حصہ ہے۔ آخری حصے میں صحافیوں اور اخبارات کے مسائل کا تذکرہ کیا گیا ہے اور ان کی ترقی کے لیے اہم تجاویز بھی دی گئی ہیں۔ ساتھ ہی یہاں کی صحافت کے دل چسپ واقعات بھی شامل کیے گئے ہیں۔

گیلا کاغذ
مصنف : امرت مراد
صفحات: 110، قیمت: 200 روپے
ناشر: مہردر پبلی کیشن، کوئٹہ

فلیپ پر شاہ محمد مری کے اس دکھ سے کتاب کا آغاز ہوتا ہے کہ ’’ماہ نامہ سنگت ایک بہت اچھی ابھرتی ہوئی افسانہ نگار کی نگارشات کو مزید اپنے صفحوں کی زینت نہ بنا سکے گا۔‘‘ کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایک افسانے میں لاچار فقیر اور بھوکے کتے کے سمبندھ نے خاصا متاثر کیا۔ پڑھت کے دوران اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عقل وخرد کی باتوں میں گندھا کوئی دل چسپ مضمون پڑھ رہے ہیں، اس پر افسانہ آرائی اور پھر تحریر کی ادبی چاشنی سوا ہے۔

افضل مراد بہ عنوان ’امرت زندہ ہے!‘ میں رقم طراز ہیں ’’امرت واقعی ایک دانش وَر خاتون تھی، بچوں کے ادب سے آغاز کیا۔ پھر شاعری کی دنیا میں مگن ہوئی، نثری نظموں کا مجموعہ ’پیوند لگی زندگی‘ دعوت مطالعہ دیتا ہے۔

ایم فل کے لیے لکھے گئے مضامین پڑھ کر ان کی علمی استعداد کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘ اس کتاب اور امرت مراد کی کتاب زندگی کا آخری افسانہ ’تحقیقی مقالہ‘ کے عنوان تلے استوار ادھورا ہی رہ گیا۔۔۔ جس میں ایم فل کی خواہش مند طالبہ اپنے تحقیقی موضوع کا چناؤ کچھ یوں کرتی ہے ’دنیا میں کتنے انسان ایسے ہیں، جو اصل میں مر چکے ہیں، مگر زندہ پھر بھی رہے!‘ سرطان جیسے موذی مرض سے لڑنے والی مصنفہ اس ادھورے افسانے کا اختتام اپنے ہی ذہن میں لیے ابدی نیند سو گئی۔ پس سرورق کے مطابق مصنفہ کو اکیسویں صدی میں بلوچستان میں کسی نئے لکھاری کا تیسرا افسانوی مجموعہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ صنفی اعتبار سے اِن کا نمبر اول ہے۔

تقریر وخطابت کا فن
مصنف: ڈاکٹر محمود غزنوی
صفحات: 198، قیمت: 350 روپے
ناشر: فضلی بک سپر مارکیٹ، کراچی

اپنی بات کو بھرپور دلائل، حوالوں اور منطقی پیمانے پر کہنے کا یہ فن صحت مند معاشروں کی علامت ہے، جس میں جذبات کی تمام تر حدت اور قوت اپنے موقف میں وزن پیدا کرنے پر صرف کی جاتی ہے۔ زبان وبیان کا ایسا سلیقہ، اور ایسا حُسن کہ جسے سن کر مقرر سے اختلاف رکھنے والا بھی اَش اَش کر اٹھتا ہے، کہیں جملہ یوں چست ہوتا ہے کہ معنی آفرینی کی داد دینی پڑتی ہے۔

یہ خصوصیات شاید کہیں عام مکالمے اور تحریر کے ذریعے بھی حاصل ہوں، مگر تقریر اور خطبے میں اس کی اٹھان کی بات ہی کچھ الگ ہے۔ کتاب کے مصنف کا شمار بھی باکمال مقررین میں کیا جاتا ہے، بقول اُن کے کہ یہ فن نہایت نچلی سطح پر پہنچ گیا ہے، اب مقررین نہیں، فقط بولنے والے رہ گئے۔ مباحثہ اس قدر سمٹ گیا ہے کہ 30-35 طلبہ کی جماعت میں سے تین کم بری تقاریر پر انعام دینا پڑتا ہے! زیرنظر کتاب تمام اساتذہ اور طلبہ سے فن تقریر سے شغف رکھنے والوں کے لیے ایک خصوصی تحفہ ہے، جس کے 15 ابواب میں تقریر اور خطابت کی خصوصیات سے لے کر تقریر کی تیاری اور اس کی بدن بولی تک تمام عوامل کا احاطہ کیا گیا ہے۔

برصغیر کے معروف خطیبوں کے ذیل میں مولانا عطااللہ شاہ بخاری، مولانا ابوالکلام آزاد، نواب بہادر یار جنگ، شورش کاشمیری، ذوالفقارعلی بھٹو اور علامہ رشید ترابی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں چار کورے صفحات بہ عنوان ’یادداشتیں‘ غالباً قارئین کے تبصرے کو دیے گئے ہیں۔۔۔ یہ منفرد چلن اس سے پہلے کسی کتاب میں نہیں دیکھا گیا۔

کب مہکے گی فصل گُل (سوانح عمری)
مصنفہ: انیس ہارون،
صفحات: 227 ، قیمت: 400
ناشر: پاکستان اسٹڈی سینٹر، کراچی

یہ کتاب معروف سماجی کارکن اور حقوق نسواں کی علم بردار، انیس ہارون کے قلم سے نکلی ہے۔ یہ ان کے سفر زندگی، نظریات اور جدوجہد کا احاطہ تو کرتی ہی ہے، پاکستانی تاریخ کے اہم واقعات پر روشن خیال طبقے کا نقطۂ نظر بھی خوبی سے بیان کرتی ہے۔

انیس ہارون نے بھرپور زندگی گزاری۔ طلبا سیاست میں حصہ لیا، تدریس اور صحافت سے منسلک رہیں، سماجی خدمت کے میدان میں قدم رکھا، تو حقوق نسواں کی توانا آواز بن گئیں۔ عورت فاؤنڈیشن کی ریزیڈنٹ ایڈیٹر رہیں۔ خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے گراں قدر کام کیا۔ نیشنل کمیشن برائے حیثیت نسواں کی سربراہ بھی رہیں۔ رعنا لیاقت علی سمیت متعدد ایوارڈز حصے میں آئے، نوبیل پرائز کے لیے2005 میں دنیا بھر سے جن سو خواتین کو نام زد کیا گیا، ان میں انیس ہارون کا نام بھی شامل تھا۔ ’’بڑا ہے درد کا رشتہ‘‘ ان کی پہلی کتاب، جس میں انھوں نے معاشرتی استحصال سے گزرنے والی خواتین کی سچائی کہانیاں بیان کیں۔

زیر تبصرہ کتاب کا دیپاچہ ممتاز شاعرہ اور قلم کار، فہمیدہ ریاض نے لکھا ہے، جن کے نزدیک انیس ہارون کو لکھتے رہنا چاہیے کہ ان کے پاس کہنے کو ایسا بہت کچھ ہے، جو نئی نسل کے کام آسکتا ہے۔ اِسی طرح کے خیالات کا اظہار ایس ایم شاہد نے بھی کیا، رائے جن کی ڈسٹ کور پر درج:’’یہ کتاب ایک طرح کی ابتدائی درسی کتاب ہے، جو نئی نسل کو اپنے معاشرے کے لیے ایک بہتر اور فعال انسان بنانے میں مدد دے گی۔‘‘

ڈاکٹر جعفر احمد کے مطابق اس سرگزشت کے آئینے میں ہمارے ملک کی تاریخ کے کئی اہم ادوار جلوہ گر ہوتے ہیں۔

یہ سرگزشت قابل مطالعہ۔ شروع میں ہم شعور کی دہلیز عبور کرنے والی ایک بچی سے ملتے ہیں، جو حیدرآباد، اورنگ آباد کے قصے سنتے ہوئے بڑی ہوئی۔ صبح اسکول جانے سے پہلے نانا کو اخبار پڑھ کر سنایا کرتی تھی۔ سوئز کینال پر حملے کے ردعمل میں جب کراچی میں طلبا نے احتجاج کیا، تو اس بچی کے ایکٹیوازم کا دور شروع ہوا۔ آگے کتنے ہی موڑ آئے۔

تقریری مقابلے، مارشل لا، ترقی پسند افکار، طلبا سیاست، شادی، گھریلو ذمے داریاں، پی پی سے وابستگی، بھٹو صاحب سے ملاقات، ضیا دور، گرفتاریاں، ویمن ایکشن فورم کا قیام، بعد میں عورت فاؤنڈیشن، آنکھوں دیکھے واقعات، جن میں ڈاکٹر شازیہ کیس اہم ترین۔۔۔ قاری پڑھتا چلا جاتا ہے۔ وہ کام یابیوں کے ساتھ اپنی ناکامیوں کا بھی تذکرہ کرتی ہیں۔ پڑھنے والا آخری حصوں میں خود کو اس شہر میں پاتا ہے، جہاں الیکشن کے سمے زہرہ شاہد کا قتل ہوا تھا۔ کتاب کا عنوان بامعنی لگنے لگتا ہے: کب مہکے گی فصل گل!

مکالمہ (ادبی جریدہ)
ترتیب: مبین مرزا، صفحات: 350، قیمت: پانچ سو روپے، ناشر: اکادمی بازیافت

حالیہ برس میں جن جراید نے اپنا اعتبار قائم کیا، ان میں مکالمہ بھی شامل۔ اِس کے پیچھے ایک ایسے مدیر کی سوچ اور محنت، جو شعر و ادب کا سیاح تو ہی ہے، نشر و اشاعت کا بھی تجربہ رکھتا ہے۔ مبین مرزا موجودہ نسل کے معروف نقاد اور فکشن نگار ہیں۔ ’’تابانی‘‘ کے ساتھ شعری میدان میں بھی اپنی آمد کا اعلان کرچکے ہیں۔ اکادمی بازیافت کے تحت دل کش اور معیاری کتب تواتر سے شایع کر رہے ہیں۔

زیر تبصرہ کتاب مکالمہ کا 22 واں شمارہ۔ اداریے کا عنوان ہے: اکیسویں صدی کے ادیب کی دنیا۔ اس میں ادیب کو درپیش سماجی، سیاسی اور نفسیاتی مسائل بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’سلامت رہیں وہ لوگ، جو خواب سوچتے ہیں، جو خواب لکھتے ہیں، خواب پڑھتے ہیں، آباد رہیں وہ تہذیبیں، جن کے شعور کے گنبدوں میں ادب کی آواز گونجتی اور جن کے اجتماعی احساس کی محرابوں میں تخلیق کے چراغ جھلملاتے ہیں۔‘‘

پرچے میں اسد محمد خاں، نجم الحسن رضوی، رشید امجد، انوار احمد زئی، شہناز خانم عابدی اور سیمیں کرن کے افسانے شامل۔ شعری حصے میں میں ظفر اقبال، سحر انصاری، افتخار عارف، رضی مجتبیٰ، اعتبار ساجد، شاہین مفتی، عطا الرحمان قاضی، طاہر مسعود کے نام موجود۔ عزیز حامد مدنی، اکرام احمد، میڈم نور جہاں کے خاکے بالترتیب پروفیسر سحر انصاری، خواجہ رضی حیدر اور حسن عباس رضا کے قلم سے نکلے ہیں۔ تنقید و تراجم کا حصہ متاثر کن۔ آخری ٹکڑے میں ان قلم کاروں کو یاد کیا گیا ہے، جو اب ہم میں نہیں رہے۔

یہ شمارہ قاری کے وقت کا اچھا مصرف۔ ماضی میں مکالمہ کے ضخیم نمبر نکلے، ان کے موضوعات اور پیش کش کی اہمیت اپنی جگہ، مگر ادبی جراید کو موثر بنانے کے لیے تسلسل ضروری۔ پرچہ ہلکا پھلکا ہو، تو قاری کے شوق مطالعے کو مہمیز کرتا ہے۔ تازہ شمارہ اس لحاظ سے موزوں۔

میڈیا منڈی
مصنف: اکمل شہزاد گھمن
صفحات: 328، قیمت: 850
ناشر: جمہوری پبلی کیشنز، لاہور

اس کتاب کا موضوع مطبوعہ ذرایع اِبلاغ ہیں، 11 انگریزی اور 14 اردو اخبارات کا جائزہ لیا گیا ہے، جس میں نوائے وقت، روزنامہ پاکستان، ایکسپریس اور خبریں کا تفصیلی، جب کہ باقی کا مختصراً احوال شامل ہے۔ مصنف کا کہنا بجا ہے کہ بڑے یا نام وَر صحافیوں اور اخباری مالکان کے حوالے سے سچ ریکارڈ کا حصہ نہیں بن پاتا اور وہ جھوٹ، مبالغہ آرائی اور افواہ میں کہیں الجھ کر رہ جاتا ہے۔

اس لیے انہوں نے اس کتاب کو مکمل کرنے کے لیے براہ راست متعلقہ صحافیوں اور کالم نگاروں سے مکالمہ کیا۔ نہایت محنت اور دل جمعی سے اس قیمتی دستاویز کو مرتب کرنے والا مصنف ’ابتدائیہ‘ میں ببانگ دہل اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ کتاب میں خامیاں اور کمی ہو تو یہ فطرت انسانی کا تقاضا ہے اور قارئین کے تعمیری اختلاف کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا جائے گا۔۔۔ عملاً انہوں نے کتاب کی دوسری اشاعت کے موقع پر اس وسیع القلبی کا اظہار بھی کیا ہے کہ شکریے کے باب میں جہاں توصیفی تبصروں کا تذکرہ کیا وہاں اس کتاب پر تنقیدی رائے رکھنے والے کو بھی نہیں بھولے۔ بے باک کتاب کی اشاعت یقیناً جرأت اور بہادری کا کام ہے۔

اس کتاب پر ایک اخبار کے مدیر اور گھاگ صحافی نے عدالت جانے کا عندیہ بھی دیا، مگر گئے نہیں۔ ’کالم نگاری‘ بھی اس تصنیف کا ایک بھاری بھرکم حوالہ ہے۔ قاری جب بڑے اردو اخبارات کے اتنے تفصیلی جائزے پڑھتا ہے، تو انگریزی اخبارات کے کردار اور اثر پذیری پر کچھ تشنگی محسوس ہوتی ہے، یہی احساس بالخصوص روزنامہ جنگ، امن اور امت کے حوالے سے بھی ہے۔ درحقیقت یہ کتاب مصنف کا ایک ایسا کارنامہ ہے کہ جس پر تنقیدی کلمات لکھنا بھی چاہیں تو نہیں لکھے جاتے۔ ہمارے ہاں بہت سے ڈمی اخبارات میں چھپنے والے، اپنے چند گھسے پٹے مضامین جمع کر کے صاحب کتاب ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور تبصرہ نگار اس کے لیے زمین وآسمان کے قلابے ملانے لگتے ہیں۔

پھر یہ لفاظی تو ہر دوسری کتاب کے لیے اس قدر کی جاتی ہے کہ اپنی وقعت ہی کھو چکی ہے، لیکن اس کتاب کے لیے زور دے کر کہی جا سکتی ہے کہ یہ کتاب جامعات میں ذرایع اِبلاغ کے طلبہ کے نصاب میں لازمی شامل ہونی چاہیے، کیوں کہ نصاب میں شامل اکثر کتب کا مواد فرسودہ اور نہایت سطحی ہے۔ اس کتاب کے لیے اس سے بڑا اعزاز کیا ہوگا کہ وسعت اللہ خان جیسے صحافی کو بھی اس کتاب میں نئی باتیں پڑھنے کو ملیں۔ اکمل شہزاد مطبوعہ ذرایع اِبلاغ پر جرأت مند پہل کاروں میں اپنا نام کرگئے۔ اس موضوع کے کسی بھی محقق کے لیے میڈیا منڈی کو نظرانداز کرنا ممکن نہ ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔