ایوب خان کے فاطمہ جناح کے بارے میں کلمات پرسرکاری حلقے سکتے میں آگئے

محمود الحسن  اتوار 5 جون 2016
politics

حکمرانوں اور سیاست دانوں کی زبان سے نکلے گھٹیا جملوں کی تاریخ پرایک نظر ۔ فوٹو : فائل

’’میاں!یہ لوگ جلسہ کر رہے ہیں یا ہلڑ بازی کر رہے ہیں؟‘‘
’’ابا جان!تحریکوں میں یہی ہوتا ہے ۔ جوش میں لوگ بے قابو ہوجاتے ہیں ۔‘‘

’’کیا کہا ، تحریک؟یہ تحریک ہے؟بیٹے کیا ہم نے تحریکیں دیکھی نہیں ہیں ۔ تحریک خلافت سے بڑی بھی کوئی تحریک ہوئی ہے اور مولانا محمد علی ، اللہ اللہ جب بولتے تھے تو لگتا تھا کہ انگارے برس رہے ہیں ۔ مگرمجال ہے کہ کوئی کلمہ تہذیب سے گرا ہوا ہو ۔ خیر وہ تو مولانا محمد علی تھے ، ہم نے توکبھی کسی رضا کارکو بھی تہذیب سے گری ہوئی بات کرتے نہیں دیکھا ۔ انگریز کو مردہ باد کہا اور بات ختم کردی۔ ( ممتاز ادیب انتظارحسین کے ناول ’’بستی ‘‘سے ایک اقتباس)

افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے گفتارکے حوالے سے مولانا محمد علی کو رہبر جانا نہ ہی قائد اعظم کو اس معاملے میں رہنما کیا ۔ پاکستان بنا توہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اپنے رویے سے ظاہرکر دیا کہ وہ سیاسی مخالفین کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے۔ سب سے زیادہ مسئلہ انھیں حسین شہید سہروردی سے تھا جنھیں وہ اپنے لیے سیاسی اعتبار سے خطرہ جانتے تھے ۔

وطن عزیز کے تیسرے یوم آزادی کے موقع پر قائد ملت نے فرمایا ’’سہروردی وہ کتا ہے، جسے بھارت نے کھلا چھوڑ رکھا ہے۔‘‘ ستمبر1950ء میں لیاقت علی خان نے ایک تقریر میں حسین شہید سہروردی کے خوب لتے لیے۔ تقریر کے کچھ حصے جو ’’پاکستان ٹائمز‘‘ میں چھپے اس کا ترجمہ قدرت اللہ شہاب کے ’’شہاب نامہ ‘‘ میںشامل ہے :’’اب پاکستان آنے کے بعد مسٹر سہروردی اور ان کی سیاسی جماعت عوامی مسلم لیگ پاکستانی مسلمانوں کے اتحاد اور یقین کو توڑنے مروڑنے میں مصروف عمل ہے ، سہروردی کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے حالات دن بدن بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں…وہ اس قسم کی باتوں کا پرچار کر کے کس کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں ؟ بے شک ہمارے دشمنوں نے یہ کتے ہمارے خلاف بھونکنے کے لیے چھوڑ رکھے ہیں۔ یہ لوگ وطن کے غدار ہیں ، جھوٹے ہیں، منافق ہیں…‘‘

قدرت اللہ شہاب کے بقول اس تقریرکے مذکورہ بالا مندرجات ایوب خان نے اپنی ڈائری میں اردو انگریزی دونوں زبانوں میں چڑھا لیے تھے۔ شہاب کے بقول ’’اقتدار میں آنے کے بعد کچھ عرصہ تک ان کا یہ دستور رہا کہ اپنے چیدہ چیدہ ملاقاتیوں کے سامنے اور نجی محفلوں میں وہ سیاست دانوں پر تنقید کرتے ہوئے اس تقریر کا یہ حصہ بھی نہایت چٹخارے لے لے کر سنایا کرتے تھے ، یہ عمل وہ اتنی بار دہرا چکے تھے کہ میرا اندازہ ہے کہ اس کے بہت سے فقرے انھیں زبانی یاد ہو گئے تھے۔‘‘

گورنر جنرل ملک غلام محمد کے تو یہ معمول میں شامل تھا کہ وہ مخالفین خاص طور سے سیاستدانوں کو گالیاں دیں ۔ ایوب خان نے اپنی کتاب ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز ‘‘میں ان سے ایک ملاقات کا ذکر کیا ہے، جس میں ان کی گالیاں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں، چودھری محمد علی نے ہمت کر کے کچھ بات کرنے کی کوشش کی تو ان پربھی گالیوں کی بوچھاڑ ہوئی۔

صدارتی الیکشن میں ایوب خان کا پالا فاطمہ جناح سے پڑا تو وہ ان کی عوامی پذیرائی سے گھبرا گئے ۔ فاطمہ جناح کے بارے میں نا زیبا زبان استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ جواب میں فاطمہ جناح نے ایوب خان اوران کے خاندان کی بدعنوانیوں پرکڑی تنقید کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ایوب خان کے معتمد خاص کا درجہ حاصل تھا ، اس لیے حیدرآباد میں جلسہ عام سے خطاب میں فاطمہ جناح نے بھٹو کو شرابی اورعورتوں کارسیا کہہ ڈالا۔ ایوب خان کے پرتحقیر لہجے سے ان کی ڈائریاں بھی خالی نہیں،جن میں مجیب الرحمن کوگنوار سیاسی غنڈہ اور ممتاز دولتانہ کو مکار لومڑ قرار دیاگیا ہے۔

ڈائریوں میں بھٹو اور اصغر خان کا بھی نامناسب الفاظ میں ذکر ہے۔ ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو اس میں مخالفین نے ان پر بہت کیچڑ اچھالا۔ شیخ مجیب الرحمن کی زبان بھی کنٹرول میں نہ رہتی، انھوں نے ایک دفعہ فرمایا کہ وہ اقتدار میں آکر نورالامین کی کھال ادھیڑ کر اس کے جوتے بنائیں گے۔پاکستان کے بڑے سیاسی لیڈروں میں مخالفین کے نام بگاڑنے اور ان کا تمسخر اڑانے میں ذوالفقار علی بھٹو پیش پیش رہے ۔ 71ء میں انھوں نے کہا کہ ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے، پیپلز پارٹی کا کوئی منتخب رکن گیا تو اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے ۔

مغربی پاکستان کے گورنر موسیٰ نے1968ء میں ایک تقریر میں کہا ’’بھٹو تانگوں اور رکشے والوں کا لیڈرہے اور میں اس کی پتلون اتار دوں گا !‘‘چند دن بعد بھٹو نے جلسہ عام میں اس کا جواب دیا: ’’ اگر موسیٰ خان نے میری پتلون اتار دی تو اسے وہ کچھ نظر آئے گا جو اسے آرمی سروس میں نظر نہیں آیا۔‘‘ بھٹو نے اصغر خان کو آلو خان کہا ۔ خان عبدالقیوم خان کوڈبل بیریل خان قرار دیا اورکہا کہ اس کے آگے بھی خان لگا ہے اور پیچھے بھی۔ بھٹو نشتر پارک میں بنگلہ دیش کو منظور کئے جانے کے حق میں دلائل دیتے رہے ، عوام نہ مانے توتنگ آکر کہا کہ ’’ سور کے بچے جہنم میں جائیں۔‘‘

اصغرخان بھی بھٹو پر گرجتے برستے رہتے تھے ،ان کی طرف سے بھٹو کو کوہالہ کے پل پھانسی دینے کے عزم کا اظہارہوا۔ بھٹودشمنی میں انھوں نے فوج کوخط کے ذریعے اقتدار پرقبضے کی دعوت دی۔ مارشل لاء لگنے کے بعد ان کا چراغ نہ جلا تو تو وہ ضیاء الحق پرملامت کرنے لگے ۔ 1980ء میں حیدر آباد بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں اصغرخان نے کہا’’میں زندگی میں ضیاء الحق سے بڑے کذاب اور اس سے بڑے دھوکہ باز سے کبھی نہیں ملا۔‘‘

آئین اورسیاستدانوں کے باب میں ضیاء الحق کے ارشادات عالیہ بھی جان لیں: آئین ، آئین …آئین ہے کیا؟ دس بارہ صفحوں کا کاغذی پرزہ جسے میں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں ۔ اگر میں آج اعلان کردوں کہ کل سے ہم کسی مختلف نظام کے تحت زندگی بسر کریں گے تو مجھ کو کون روک سکتا ہے؟میں جس طرف چاہوں سب اسی طرف چلیں گے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کسی زمانے میں بڑے تیس مار خان سورما ہوا کرتے تھے وہ بھی اور باقی سب سیاستدان بھی دم ہلاتے میرے پیچھے پیچھے چلیں گے ۔ ‘‘ذوالفقار علی بھٹواور معراج محمد خان کے درمیان اختلافات نے سر اٹھایا توضیاء الحق نے انھیں ہوا دی ۔بھٹوکوخوش کرنے کے لیے ضیاء، معراج محمد خان کوگالی دیتے تھے۔اس بات کا ذکرخود بھٹو نے جیل میں لکھی اپنی ایک تحریر میں کیا ہے ۔ضیاء دور میں سیاستدانوں کی آپسی گالم گلوچ سے تنگ ہوکر میاں محمود علی قصوری نے عرض کی تھی’’سیاست دان ایک دوسرے کو گالیاں نہ دیں۔ ‘‘

ضیاء الحق کے بعد آنے والے فوجی حکمران پرویز مشرف نے غیرملکی ٹی وی کوانٹرویو میں بتایاکہ ہمارے ہاں ویزے اور دولت کمانے کے لیے بھی ریپ کروا لیا جاتا ہے۔ اس پرحقوق انسانی کی سرگرم رہنما انیس ہارون نے اپنی خود نوشت ’’کب مہکے گی فصل گل ‘‘ میں لکھا ہے’’بڑے شرم کی بات ہے کہ ایک ملک کا سربراہ اپنے ملک کی مظلوم خواتین کے بارے میں اس قدر غیر ذمہ دارانہ بیان دے ۔ خواتین نے اس بیان پر بہت احتجاج کیا۔‘‘

محترمہ بینظیر بھٹو کے بارے میں بڑی عامیانہ زبان کا استعمال ہوتا رہا ۔ 1988ء میں مولانا منظور احمد چنیوٹی نے پنجاب اسمبلی میں ، جب نوازشریف وزیر اعلیٰ تھے ، بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کے بارے میں نازیباالفاظ کہے تو اپوزیشن احتجاجاً واک آؤٹ کرگئی اور اسپیکر کومولانا کے الفاظ اسمبلی کی کارروائی سے حذف کرنے پڑے۔ بینظیر کے بارے میں سب سے لچر زبان شیخ رشید احمد نے استعمال کی ۔جلسوں اور قومی اسمبلی میں محترمہ پر جملے کسنا ان کا وتیرہ تھا ۔ شیخ رشید احمد کی بد زبانی سے تنگ آکر پیپلز پارٹی کی حکومت نے انتقامی کارروائی کی اور ایک بے بنیاد مقدمے میں پھنساکر انھیں جیل میں ڈال دیا ۔ گذشتہ دنوں بلاول بھٹو، شیخ رشید سے ملے اور خود کوان کا فین قرار دیا۔

اس پر پرویز رشید نے تبصرہ کیا کہ بلاول کو پتا ہی نہیں یہ شخص محترمہ کے بارے میں کس قسم کی گفتگوکرتا رہا ہے۔ وزیر اطلاعات نے آدھا سچ بولا، پورا سچ یہ ہے کہ شیخ رشید احمدجب سرعام بینظیر پرکیچڑ اچھالتے تھے تو وہ مسلم لیگ کے اہم رہنما تھے ، اور وہ یہ سب کچھ اپنے لیڈ ر کی خوشنودی کے لیے کرتے تھے ،اگر نوازشریف انھیں منع کردیتے توشیخ رشید کی کیا مجال تھی کہ وہ محترمہ کے بارے میں زبان درازی کرتے ۔ بینظیربھٹوکا لہجہ بھی نواز شریف کے بارے میں گاہے تلخ ہوجاتا ، ایک دفعہ انھوں نے ان کا نام بگاڑ کر انھیں نوازو کہہ کرمخاطب کیا۔

سوقیانہ زبان کے مستقل مزاجی سے استعمال میں شیخ رشید کا کوئی ثانی نہیں، ٹی وی چینلوں کی آمد کے بعدان کی دکانداری اور بھی چمکی اور لگتا ہے کہ :
ع کچھ اس کے مصرف میں رہ گیا ہے تو حرف دشنام رہ گیا ہے

2012ء میں انھوں نے اپنے کسی حریف کو باسٹرڈ تک کہہ دیا تھا ۔

خان عبدالولی خان نے ایک دفعہ بینظیر بھٹو کے بارے میں کہا کہ جس طرح انھوں نے باپ کو(یعنی بھٹو کو)’’کیفر کردار‘‘تک پہنچایاہے اسی طرح اب وہ اس ’’چھوکری ‘‘کو بھی انجام تک پہنچائیں گے۔‘‘ ایک زمانے میں اکبر بگٹی نے بینظیر کے لیے کوئی مقامی زبان کا نہایت خراب لفظ کہا تھا جو ایک اخبار نے شایع کردیا تو پی پی کے کارکنان نے اس اخبارکے دفتر کا گھیراؤ کرلیا۔

بینظیر بھٹو نے ایک دفعہ ایم کیو ایم پر اپنی تقریر میں تنقید کی تو ان پر الزام لگا کہ انھوں نے مہاجروں کو دہشت گرد اور بزدل چوہا قرار دیا ہے۔ اس سارے معاملے پر ڈاکٹر جعفراحمد نے اپنی کتاب ’’جمہوریت کی آزمائش ‘‘میں یوں روشنی ڈالی:

وزیر اعظم کی تقریر پر سب سے زیادہ جارحاحانہ ردعمل خود ایم کیو ایم نے ظاہر کیا ہے ۔ ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی اور تنظیم کے قائد  نے حزب اختلاف کے دیگر رہنماؤں کی طرح وزیر اعظم پر الزام لگایا ہے کہ انھوں نے مہاجروں کی تضحیک کی ہے ۔ وزیراعظم کے بیان کو توڑمروڑ کر پیش کرنا شاید بعض عناصر کے مفاد میں ہو مگر ایسا کرتے وقت خود انھیں اپنی زبان کا خیال رکھنا چاہیے ۔

رابطہ کمیٹی نے اپنے بیان میں ایک طرف یہ موقف اختیار کیا ہے کہ وزیر اعظم نے ’’مہاجروں کے خلاف‘‘ جس پست ذہنیت کی عکاس زبان استعمال کی ہے ، اس کے جواب میں وہ بھی بینظیر بھٹو کو ’’بزدل چوہیا ‘‘اور ’’شیطان کی خالہ ‘‘کہہ سکتے ہیں لیکن ’’مہاجر جس اعلیٰ تہذیب اور جن مثبت روایات کے علمبردار ہیں وہ ہمیں اس بات کا درس نہیں دیتیں کہ مخالفت کی بنیاد پر کسی کی منفی صفات کو منظر عام پر لایا جائے ۔ ‘‘مگر دوسری طرف اسی بیان میں ’’اعلیٰ تہذیب ‘‘کے موقف کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ موقف بھی اختیارکیا ہے کہ’’وزیراعظم اگر کراچی سے الیکشن لڑنا چاہیں تو جس جگہ سے وہ الیکشن لڑیں گی ، اگر قانون اجازت دے تو ایم کیوایم وہاں سے کسی کتے کو نامزد کر سکتی ہے جو وزیر اعظم کو ہرادے گا۔‘‘

1990 ء کے الیکشن کی انتخابی مہم کے دوران جرات مندصحافی رضیہ بھٹی کی ادارت میں نکلنے والے ’’نیوز لائن‘‘ کے ایک مضمون پر قائد ایم کیوایم اس قدر بگڑے کہ ایک جلسے میں جریدے کی ٹیم کے بارے میں نازیبا گفتگو کی ۔ ایم کیوایم کے قائد کا صحافیوں کو ٹھوک دینے والا بیان تو ہم سب نے اپنے کانوں سے سنا ۔ تین تلوار پر تحریک انصاف کے دھرنے پر غصے میں آکر بھی ایم کیو ایم کے قائد نے عمران خان کے بارے میں بڑی گندی زبان استعمال کی۔ ایک تقریر میں سکیورٹی اداروں پر ان کی تنقید بھی اخلاق کے دائرے سے باہر نکل گئی تھی۔

دسمبر2010ء میں چودھری نثار علی خان نے جب ایم کیوایم کے قائد کے بارے میں کہا کہ ’’وہ جب بولتے ہیں تواکثر ہوش میں نہیں ہوتے ۔ہم ذاتیات پر نہیں جانا چاہتے ، مگر ’’حضرت ‘‘اسی زبان میں بات کرتے رہے توہمیں ان کے جمہوری رویے اور کردار کے حوالے سے ان کی سابق اہلیہ کا بیان ریکارڈ پرلانا پڑے گا ۔‘‘ اس بیان پرایم کیوایم کے رہنماؤں کوتتیے لگ گئے۔ حیدر عباس رضوی بولے کہ ہمیں معلوم ہے کس کی بہن ، بیٹی کی شادی کیسے ہوئی ۔وسیم اختربھی آپے سے باہرہوگئے اورکہا کہ پنجاب میں ہر گھر میں مجرے ہو رہے ہیں ، یہ بھی بتایا کہ نوازلیگ کی حکومت ختم ہوئی تو شہباز شریف کے کمروں سے غیر اخلاقی چیزیں برآمد ہوئی تھیں۔

مہاجروں کے بارے میں اے این پی کے شاہی سید نے چند سال پہلے فرمایا ’ہندوستان میں جوتے کھا نے والے جب وہاں نہ بچ سکے تو یہاں پناہ لینے آگئے، یہ پناہ گزین ہیں، اور پناہ گزین اگر کسی کو کہے کہ اسے یہاں نہیں رہنے دیں گے، تو اس کے منہ پہ چماٹ مارو یا اسے پاگل خانے بھیجو۔‘ اسی طرح ذوالفقارمرزا نے 2011ء میں مہاجر صوبے کے قیام کی بات پر ردعمل دیا کہ یہ صوبہ اس وقت بھی تھا جب تم بھوکے ننگے آئے تھے اور اس صوبے والوں نے تمہیں پناہ دی۔‘‘عمران خان نے ایم کیوایم کے قائد کا خطاب سننے والوں کو زندہ لاش قراردیا تو قادربلوچ نے فرمایا تھا کہ ان کی تقریر کے دوران شرکا جانور کی طرح بیٹھے زمین کھرچ رہے ہوتے ہیں۔ان توہین آمیزبیانات پر بہت احتجاج ہوا ۔

کئی سیاستدان ایسے ہیں، جن کی شہرت نرم خوئی اور متانت سے عبارت ہوتی ہے لیکن بعضے حالات میں وہ خود پرقابو نہیں رکھ پاتے،مولانا مودودی شائستگی سے بات کرتے، مخالفین ان پرجتنا مرضی کیچڑ اچھالتے رہتے، ان کی زبان سے کوئی نامناسب بات نہ نکلتی، لیکن کئی دفعہ ماحول ایسا بن جاتا ہے کہ لامحالہ کوئی جملہ ایسا زبان سے نکل جاتا ہے،جواس شخصیت کے مجموعی تاثرسے لگا نہیں کھاتا،اس لیے مولانا مودودی نے بھی ایک دفعہ مخالفین کی زبان گدی سے کھینچ لینے کی بات کردی تھی ۔ 70 ء کے الیکشن نے لہجوں میں بگاڑ پیدا کردیا۔ نظریاتی یُدھ نے بھی اس تناتنی میں اضافہ کیا۔ رضا علی عابدی نے ’’اخبار کی راتیں‘‘میں لکھا ہے:

’’اس زمانہ میں سیاست دانوں کا لہجہ تلپٹ ہورہا تھا ۔ مجھے یاد ہے، جماعت اسلامی کے سربراہ مولانا مودودی نے اپنی تقریر میں کچھ اس طرح کا جملہ ادا کیا جس کا مطلب تھا کہ ہم ملک وملت کے خلاف باتیں کرنے والوں کی زبانیں بند کردیں گے ۔

ذرا دیر بعد ایک ایجنسی نے یہ خبر انگریزی میں جاری کی جو میرے ہاتھ میں آئی ۔ اب میں الجھن میں پڑ گیا۔اردو کا محاورہ انگریزی سے جدا ہوتا ہے اور کسی کا منہ بند کرنے کا مطلب اسے رشوت کھلانا اور زبان بند کردینے کا سیدھا سادا مطلب اسے جان سے مار ڈالنا ہوتا ہے ،اس کے بجائے میں نے اس کا جو ترجمہ کیا اس کی حریت میں سرخی لگی ’’ملک وملت کے خلاف باتیں کرنے والوں کی زبانیں کھینچ لی جائیں گی۔ ‘‘

اگلے روز کارٹونسٹ زیدی نے کارٹون بنایا جس میں ایک شخص کی زبان کھینچی جارہی ہے جو ڈول کی رسی کی طرح کھنچتی جارہی ہے ۔ کارٹون کے نیچے لکھا تھا ’’جس قدر کھینچوں ہوں میں اتنی ہی کھنچتی جائے ہے ۔ ‘‘

جماعت والوں نے فرہاد زیدی صاحب سے شکایت کی ۔ انھوں نے جواب دیا کہ محاورے کا محاورے سے ترجمہ کیا جائے تو یوں ہی ہوتا ہے ۔ زیدی صاحب اپنے ساتھیوں کی بے مثال وکالت کیا کرتے تھے ۔‘‘

جاوید ہاشمی بھی مہذب سیاست دان ہیں، لیکن مسلم لیگ ن کو خیرباد کہہ کرتحریک انصاف میں شمولیت اختیارکی تو لاہورمیں ایک تقریب میں ان کی زبان بھی پھسل گئی اور انھوں نے لفظ سالا کو خاص مفہوم میں برتا۔ ان دنوں پرویز رشید بھی اپنی روایتی احتیاط پسندی کو ترک کر کے عمران خان کی ذاتیات پرکیچڑ اچھال رہے ہیں، جس پر ممتاز دانشور وجاہت مسعود نے ان کی آمریت کے خلاف بے مثال جدوجہد کو سراہتے ہوئے لکھا کہ ’’انھیں حریف سیاستدان پرذاتی حملے کرنا زیب نہیں دیتا۔‘‘

مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اللہ بھی غیر شائستہ زبان برتنے کی شہرت رکھتے ہیں ۔ پرویزمشرف کے دورمیں فوج سے متعلق ایسا کچھ کہہ بیٹھے تھے کہ پھر ایجنسیوں کے ہاتھوں ان کی خوب ٹھکائی ہوئی۔ اور ان کی مونچھیں اور بھنویں تک مونڈ دی گئی تھیں۔ مولانا فضل الرحمن عام طور پر تو ٹھیک ہی گفتگو کرتے ہیں،لیکن عمران خان کے بارے میں وہ سخت باتیں کرتے ہیں، ان کو یہودیوں کا ایجنٹ کہناتو ان کے لیے عام سی بات ہے،جس پرتحریک انصاف کے چیئرمین کہتے ہیں کہ فضل الرحمن کے ہوتے ہوئے یہودیوں کو کسی ایجنٹ کی کیا ضرورت ہے۔ وہ جلسوں میں فضل الرحمن کو مولانا ڈیزل بھی کہتے ہیں ۔عمران خان نے شیخ رشید کو کسی زمانے میں بے شرم اور شیدا ٹلی قرار دیا اور کہا تھا کہ وہ ایسے شخص کواپنا چپڑاسی بھی نہ رکھیں۔اور اس بات پرعمل کر کے دکھایا ۔ انھیں چپڑاسی تو نہیں ، لیکن اپنا مشیر ضرور بنا لیا ہے، اور جس طرح آدمی اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے، اپنے مشیروں سے بھی جانا جاتا ہے۔

2009ء میں سابق وفاقی وزیر فردوس عاشق اعوان نے ایک ٹی وی پروگرام میں اپنے ساتھ بیٹھی کشمالہ طارق کو مخاطب کرکے کہا تھا ’’میں تمہاری طرح کسی کے بیڈروم کے ذریعے اسمبلی میں نہیں آئی تھی۔‘‘1988ء میں غلام مصطفی کھر نے کہا کہ نواز شریف کینسرہے اس کوختم نہ کیا گیاتو یہ پورے جسم میں پھیل جائے گا۔ شہبازشریف کی زبان بھی قابو سے باہر ہوتی رہتی ہے،خاص طور سے، ان کے وہ بیان جن میں آصف علی زرداری کو سڑکوں پرگھسیٹنے اور الٹا لٹکا دینے کی بات کی گئی تھی۔ زرداری کو وہ زر بابا اور مداری بھی کہتے رہے۔ بلاول بھٹوکے اتالیق نہ جانے کون اصحاب ہیںکہ وہ جب جلسے میں تقریر کرتے ہیں، ان کا زوربیان سیاسی مخالفین پرکیچڑاچھالنے میں صرف ہوجاتا ہے۔ان کو یہ نکتہ تعلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ شائستگی سے بات کرکے وہ اپنا حلقہ اثرزیادہ وسیع کرسکتے ہیں۔

موجودہ قومی رہنماؤں میں عمران خان کی زبان کو سب سے زیادہ قابل اعتراض اور غیرذمہ دارانہ قرار دیا جاتا ہے۔ ان کے اکا دکا فرمودات جن میں شلوار کا ذکرہے ، وہ تو نقل بھی نہیں کئے جاسکتے ۔دھرنے کے دوران انھوں نے کہا کہ میرا دل کرتا ہے نوازشریف کو گربیان سے پکڑ کروزیراعظم ہاؤس سے باہر نکال دوں۔انتخابی مہم کے دوران بلا ہاتھ میں پکڑ کہ وہ یہ کہتے رہے میاں صاحب!یہ بلا پھینٹی بھی لگاتا ہے۔شریف برادران کو ڈینگی برادران بھی قرار دیا۔ انھوں نے یکم مئی 2016ء کو جلسۂ عام سے خطاب میں حاضرین کوبتایاکہ ’’ ٹاک شو میں خواجہ آصف نیب کے چیئرمین جنرل منیر حفیظ کے سامنے بیٹھا ایسے لگ رہا تھا جیسے پینٹ کوٹ میں چوہا بیٹھا ہو۔‘‘ خیر، خواجہ آصف بھی پیچھے رہنے والے نہیں، وہ اپنا حساب فوراً برابر کرلیتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں دھرنوں کے بعد عمران خان کی آمد پران کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ کوئی شرم ہوتی ہے ، کوئی حیا ہوتی ہے۔ اور پھر حالیہ دنوں میں اسمبلی میں عمران خان کو’’میسنا ‘‘کہہ ڈالا۔عمران خان اورخواجہ آصف میں بنیادی فرق یہ ہے کہ عمران خان پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں،اس لیے ان کی بات زیادہ رجسٹرڈہوتی ہے اور زیادہ اثر رکھتی ہے۔

مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مسلم لیگ کے پارٹی لیڈر نوازشریف چپ رہتے ہیں اور پارٹی کی دوسرے درجے کی قیادت مخالفین کی گوشمالی کرتی ہے، ادھرتحریک انصاف میں پارٹی قائد نے خود ہی سارا بوجھ اٹھا رکھا ہے اور ان کی دوسرے درجے کی قیادت زبان پر قابو رکھتی ہے اور انھوں نے حریفوں پرگرجنے برسنے کا کام عمران خان پرچھوڑ رکھا ہے جبکہ شاہ محمود قریشی، اسد عمر، عارف علوی اور شفقت محمود معقول اندازمیں اپنا نقطہ نظرواضح کرتے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے زبان پر قابو پانا سیکھ لیا ہے،اور وہ سیاسی حریفوں کے بارے میں کوئی ہلکی بات نہیں کرتے۔ پرویز مشرف ان کے کٹرمخالف ہیں، جنھوں نے ان کو اقتدار سے ہٹایا۔ جیل میں ڈالا۔ 12اکتوبر 99ء اور اس کے بعد جو کچھ ان کے ساتھ ہوا اس کا ذکرکرتے، ان کے لہجے میں تلخی آجاتی ہے مگرپرویز مشرف کے بارے میں کوئی گری بات ان کے منہ سے سنی نہیں گئی۔ عمران خان کی اپنے بارے میں کڑوی کسیلی باتیںبھی برداشت کرہی لیتے ہیں۔

نواز شریف بھلے ہی پرویز مشرف اور عمران خان کے بارے میں محتاط لب ولہجے میں گفتگو کرتے ہیں ، لیکن ان کی پارٹی کے کئی دوسرے رہنما ؤں کی زبان قابو میں نہیں رہتی،اور وہ بعض اوقات حد کراس کرجاتے ہیں، جس کی ذمہ داری بطورپارٹی سربراہ نواز شریف پر عائد ہوتی ہے اور یوں لگتا ہے پارٹی رہنماؤںکی بیہودہ گوئی کوگویا ان کی تائید حاصل ہے۔پانامہ لیکس کے بعد توزیادہ تروہ لوگ حکومتی موقف پیش کررہے ہیں،جوزبان سنبھال کربات کرنے کی خوبی سے عاری ہیں۔

بعض دفعہ تووزیراعظم کے سامنے ایسی زبان استعمال ہوتی ہے کہ ان کی طرف سے مقرر کو فوراً ٹوکنا بنتا ہے لیکن وہ چپ چاپ سب کچھ سنتے رہتے ہیں۔مثلاً ان کی موجودگی میں پانامہ لیکس پر اپوزیشن کے احتجاج کے تناظر میں وزیر اعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری نے ،جن کا مسلم لیگ ن سے تعلق ہے ،کہا کہ کتے بھونکتے رہتے ہیں ،کارواں چلتے رہتے ہیں، صوبے کا چیف ایگزیکٹو جب ملک کے چیف ایگزیکٹوکی موجودگی میں ایسی باتیں کرے گا تو پھرسیاسی اخلاقیات کا جنازہ ہی نکلے گا۔آخر میں عرض یہ کرنی ہے کہ انسان کی گفتار سے ہی اس کا کرداربنتا ہے، اس لیے سیاستدانوں کو ہمیشہ گفتار کے اسلوب پر قابو رکھنا چاہیے، اس سے ان کی عزت اور نیک نامی میں اضافہ ہوگا۔

…اب ایوب خان کی برداشت جواب دینے لگی تھی ۔ انھوں نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مس جناح کے غیر شادی شدہ ہونے کے حوالے سے ان پر ’’خلاف فطرت ‘‘زندگی بسر کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ ’’بدخصال لوگوں میں گھری ہوئی ہیں ۔‘‘ایوب خان کے ان ناگفتنی کلمات پر سرکاری حلقے سکتے میں آگئے ۔ تاہم ایوب خان کو اس کا کوئی ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچا ، الیکشن کی گرما گرمی میں دونوں طرف سے ایک دوسرے پر گھٹیا الزام تراشی کی جارہی تھی اور متصادم جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف گالیوں اور ناشائستہ جملوں کا آزادانہ تبادلہ ہورہا تھا ۔ ایوب خان کے غیر محتاط جملے اسی گہما گہمی میں دب گئے۔

 

پاکستان ٹائمزکے سابق ایڈیٹر اورسینئر صحافی مولوی محمد سعید اپنی آپ بیتی ’’آہنگ بازگشت ‘‘میں لکھتے ہیں:

بھٹوقوم کے ہیرو بنتے جارہے تھے اور صدر ایوب کے پائوں کے تلے سے ملک کھسکتا جارہا تھا ۔ قوم گالی گلوچ پراترآئی۔ یہ دور شستہ مذاق لوگوں پرگراں گزر رہا تھا ۔ نہ صرف ایوب اور ان کی بیٹیوں کو گالیاں دی جارہی تھیں ، بلکہ ان کے بزرگوں کو بھی نہایت گھٹیا قسم کے الفاظ کا ہدف بنایا جارہا تھا ۔ سوائے چند سیاست دانوں کے جنھوں نے طلباء کو آلہ کار بنا رکھا تھا ، سبھی لوگ اس اخلاقی انحطاط پر کڑھتے تھے ۔

’’ بھٹو کا ایک فقرہ نامہ نگاروں نے ازراہ ہمدردی مہذب بنا دیا مگر مجھے ہمارے رپورٹر ثناء اللہ نے خود بتایا کہ مارچ سنہ71ء میں ملک کی نئی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں طلب کیا گیا اور مغربی پاکستان سے اسمبلی کے نو منتخب ارکان کو وہاں لے جانے کیلئے ہوائی جہاز تیار کھڑا تھا ۔اس وقت بھٹو صاحب نے ملک کی قومی اسمبلی میں شرکت کے لیے نہ صرف خود جانے سے انکار کر دیا بلکہ جو کچھ کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ جوکوئی اس طیارے میں سوار ہوگا ہم اس کے لباس کا نچلا حصہ اتارلیں گے ، گویا… نامہ نگاروں نے کہا کہ یہ بات طیش کے عالم میںکہی گئی ہے،اسے ذرا ملائم کر دیا جائے ۔ چنانچہ خبر یوں لکھی گئی کہ جوکوئی اس طیارے میں سوار ہونے کی کوشش کرے گا ، ہم اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ ‘‘

شیخ رشید احمد حزب اختلاف کے غالباً سب سے منہ پھٹ ، بدتہذیب اور بازاری زبان استعمال کرنے والے لیڈر ہیں، ان کی شہرت جلسوں میں پیپلزپارٹی کے رہنمائوں بالخصوص وزیر اعظم اور ان کے اہل خاندان کے خلاف ناشائستہ ، لچر اور فحش زبان استعمال کرنے والے مقرر کی ہے ۔ وہ اپنی تقریروں میں ایسے ذومعنی اور فحش فقرے استعمال کرتے رہے ہیں جنھیں خود حزب اختلاف کے اخبارات بھی سنسر کئے بغیر چھاپتے ہوئے گھبراتے ہیں ۔ شیخ رشید کی اس مخرب اخلاق طرز سیاست کا توڑ زیادہ سنجیدہ ، مہذب اور بااخلاق سیاست ہی سے ہو سکتا ہے ۔ حکومت کیلئے بہتر طریقہ تو یہی ہوتا کہ وہ شیخ رشید کے زبان ودہن سے صرف نظرکرتی۔ یہاں تک کہ عوام خود ہی ان سے تنگ آجاتے مگر اب حکومت نے ان کے خلاف کارروائی کا جو فیصلہ کیا ہے اس سے نہ صرف شیخ رشید کو مزید شہرت ملے گی بلکہ ہمیں اندیشہ ہے کہ کہیں ان کا طرز سیاست بھی مقبول نہ ہوجائے۔‘‘(فروری1995 ء)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔