اردو ادب میں انسان دوستی

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 4 جون 2016
tauceeph@gmail.com

[email protected]

اختر حسین بلوچ ادیب، صحافی اور سماجی کارکن سب کچھ ہیں، مگر انسانی حقوق کی تحریک کے ہراول دستے میں شامل ہونے کے باوجود تحقیق کے لیے وقت نکالتے ہیں۔ پہلے سندھ میں جرگہ سسٹم، خواجہ سراؤں اور ہجوم کے ہاتھوں مبینہ ملزمان کی ہلاکت کے واقعات کے بارے میں کتابیں تحریرکرچکے ہیں  اور اب انھوں نے اردو ادب میں انسان دوستی کا تجزیہ کیا ہے۔ یہ تجزیہ فکشن ہاؤس نے ایک خوبصورت کتاب کی صورت میں شایع کیا ہے۔ انھوں نے اس کتاب کے مقدمے میں انسان دوستی کے تصورکو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ انسان دوستی کی اصطلاح عصر حاضر میں انسانوں سے محبت اور ان کے درمیان بھائی چارے کے فروغ کے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔ اس سے مختلف مراد یہ ہے کہ مختلف مذاہب، عقائد اورنظریات سے تعلق رکھنے والے افراد صرف اس ایک بات پر متفق ہوجائیں کہ ان کی تمام تخلیقات اور سرگرمیوں کی بنیاد رواداری اور برداشت پر محیط ہوگی۔ پھر وہ لکھتے ہیں کہ انسان پرستی کا نظریہ کسی کی جانب سے تفویض نہیں کیا گیا بلکہ انسانوں نے انسانی ذات کی بہبود کے لیے یہ نظریہ تشکیل دیا ہے۔

اختر نے صرف دو جملوں میں وہ بات بیان کردی جو 63 سال سے بہت لوگوں کی سمجھ نہیں آرہی،  اختر نے 18 ویں صدی کے معروف عوامی مگر بے حد متنازعہ شاعر جعفر زٹلی کے کلام کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے جو 17ویں صدی کے آخری عشرے اور 18ویں صدی کی ابتداء میں اپنی بجھ گوئی کے حوالے سے پہچانے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ جعفر کو اپنے دور میں ہونے والی بدامنی اور انتشار کا بھی شدید احساس تھا۔ انھیں کامل یقین تھا کہ ہندوستان کی تباہی میں جہاں حکمرانوں کی نااہلیوں کا دخل ہے، وہیں ان کے امراء بھی اس سے مبرا نہیں۔  اختر لکھتے ہیں کہ اردو کے پہلے عوامی شاعر نظیر اکبرآبادی کی نظمیں سیکیولر افکار، خیالات، سیکیولر رجحان اور رویے کی بھرپورعکاسی کرتی ہیں۔

ان میں بے یقینی، مذہبی رواداری اور تمام مذاہب کے لیے یکساں احترام کی سیکیولر اسپرٹ پوری طرح سمائی ہوئی ہے۔ وہ نظیر کے اس شعر کا حوالہ دیتے ہیں’’عاشق تو قلندر ہیں نہ ہندو نہ مسلمان‘‘ وہ لکھتے ہیں کہ ولی کو اگر روایتی شاعری کا پہلا باغی کہا جائے تو اس میں مبالغہ نہیں ہے۔ ولی نے اردو شاعری میں اپنی بغاوت کے ذریعے ایک نئے اندازفکر اور اسلوب کو متعارف کرایا ۔وہ درست لکھتے ہیں کہ اگر اس دور میں ولی کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو قطعاً ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہم 300 سال قبل کی شاعری پڑھ رہے ہیں۔

ان کے موضوعات عام فہم اور سادہ ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں شاعرانہ نزاکت بھی جابجا نظر آتی ہے۔ ولی نے نہ صرف اردو شاعری کو ایک نیا انداز بخشا بلکہ آنے والے ادوار میں اردو شاعری کی سمت کا تعین بھی کیا۔ وہ اپنی کتاب کے چوتھے باب میں مغل تاریخ کے آخری ادوارکا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فرخ بشیر نے جنگ جیت کر تخت حاصل کیا لیکن کامیابی کے بعد اس کا ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے سے جو نرم گوشہ تھا، ہندوستان کی تاریخ میں ایک ایسا موڑ تھا جس سے بعد میں انگریزوں کے ہندوستان پر قبضے کی راہ متعین ہوئی۔

وہ لکھتے ہیں کہ 18ویں صدی کے ہندوستانی معاشرے کا تفصیلاً مطالعہ کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پانی کا ایسا جوہڑ بن گیا تھا جس سے کوئی مثبت کام لینا ممکن نہیں تھا مگر یہ حقیقت ہے کہ اورنگزیب نے اپنا دور حکومت جنگجوئی میں صرف کیا۔ اس کے دور میں ہندوؤں اور مسلمان فرقوں میں بے چینی پیدا ہوئی، پھر مغلوں نے نظام حکومت کو بہتر بنانے کے معاملے پر توجہ نہیں دی۔ اختر 18ویں صدی کا تجزیہ کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ شمالی ہند میں 18ویں صدی سے پہلے اردو زبان میں لکھنا کوئی قابل ذکر بات نہیں تھی لیکن اس صدی کے ختم ہونے سے پہلے اردو زبان نہ صرف فارسی کی جگہ لے لیتی ہے، بلکہ ادبی زبان بن کر براعظم کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیل جاتی ہے۔

وہ اردوکے پھیلاؤ کو براعظم کے عوام کی فتح قرار دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اردو پڑھنے اور بولنے والوں میں ہر مذہب و عقیدہ کے لوگ شریک تھے۔ جب انگریزوں کا اقتدار قائم ہوا تو اردو کو نہ صرف ہندو مسلمان ایک ساتھ استعمال کررہے تھے بلکہ معاشرے کی جڑوں تک پہنچنے کے لیے خود انگریز بھی اس زبان کو سیکھ کر وسیلہ ابلاغ بنا رہے تھے مگر مصنف کو اس موقعے پر یہ ضرور لکھنا چاہیے تھا کہ اردو کی ترقی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک اہم کردار تھا۔کلکتہ میں قائم ہونے والے فورٹ ولیم کالج نے اردوکی ترقی میں ایک بنیادی کردار ادا کیا ۔ وہ اردو زبان و ادب میں ظلم کے خلاف احتجاج اور حکمرانوں کی بداعمالیوں کے خلاف تحریک میں جعفر زٹلی کا ذکر کرتے ہیں۔ اختر کی بات درست ہے کہ جعفرکی شاعرانہ عظمت اور اہمیت کو تسلیم کرنے میں تقریباً 300 برس کا وقت لگا۔ جعفر نے فحش شاعری ہی نہیں بلکہ انسانوں پر ہونے والے مظالم کو بھی اپنا موضوع بنایا تھا۔

اختر نے اپنے تھیسز میں اردو کے بنیادی شعراء خواجہ میر درد اور میر تقی میر کی شاعری کا جائزہ لیا ہے۔اخترکا کہنا ہے کہ نظیر اکبر آبادی کی نظمیں افکار و خیالات سیکیولر رجحان و رویے کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں۔ یوں نظیر صرف عوام سے ہم کلام نہیں ہوتے بلکہ عوامی رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ اختر اپنے مقالے میں عہدِ غالب کے عنوان سے 19ویں صدی کی صورتحال کا باریک بینی سے تجزیہ کرتے ہیں۔ وہ اس باب کا آغاز ریاست اودھ کے حکمراں واجد علی شاہ کی معزولی سے کرتے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی برصغیر کے عوام کو لوٹنے اور استحصال کی داستان مختصر طور پر بیان کرتے ہیں۔1857ء کی جنگ آزادی کے ہیرو منگل پانڈے کی پھانسی کا بھی ذکر ہوتا ہے۔

ان کی یہ بات درست ہے کہ غالب کی شاعری کو سمجھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ان کی شاعری رنگارنگ اور پہلو دار ہے۔ غالب اردو ادب کا وہ ممتاز نام ہے جو اپنے دور میں ایک ایسی روایت قائم کرگئے کہ صدیوں بعد بھی شاعری میں ان کی پیروی کو قابلِ فخر سمجھا جاتا ہے۔ غالب کے انگریزوں سے اچھے تعلقات کا ذکر کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ مگر اختر کی اس دلیل میں بڑا وزن ہے کہ غالب اپنی شاعری میں تمام مذاہب سے وابستہ افراد کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مصنف نے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا ذکر کیا ہے۔

82 سالہ ضعیف شہنشاہ ہند کو تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک عدالت کے باہر کھڑا رہنے اور انگریز تماش بینوں کے ان پر آوازیں کسنے کا ذکر کرتے ہیں، ظفر کی آخری دورکی شاعری عوامی شاعری نظر آتی ہے۔ مصنف نے ظفر پر لگنے والے اس الزام کا تجزیہ کیا ہے کہ ان کی شاعری دراصل ذوق کی شاعری تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ بہادر شاہ ظفر کے خلاف یہ پروپیگنڈا انگریزوں نے کیا تھا جو بہادر شاہ ظفر کی مقبولیت سے خوفزدہ تھے۔

اس کتاب کا سب سے اہم باب سرسید کے بارے میں ہے۔ سرسید نے اپنی ساری زندگی مسلمانوں میں تعلیم کا ذوق پیدا کرنے اور ان کی سوچ کو سائنسی بنیادوں پر استوارکرنے کی کوششوں میں گزاری۔ سرسید پہلے دانشور تھے جنہوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کو علیحدہ علیحدہ کیا۔ اختر نے حالی کے کلام کا جائزہ لیا ہے۔ حالی سرسید کے قریبی معاونین میں سے ایک تھے۔ حالی کی سماجی فکرکی اساس زندگی کے دارومدار پر ہے۔ سرسید کے ایک اور معاون ڈپٹی نذیر احمد سے ملاقات کا ذکر ہے۔ اختر نے ڈپٹی نذیر احمد کی نثر نگاری کا ذکر بھی کیا ہے۔اس اعتبار سے یہ کتاب ایک بہترین حوالہ جاتی دستاویز ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔