بیس کروڑ امیدوں کے قاتل

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 4 جون 2016

کچھ لوگوں کو خد ا نے بادشاہ تک بنا دیا، لیکن وہ پھر بھی بھکاری کے بھکاری ہی رہے۔ بادشاہ بننے کے بعد بھی اپنی ہی خواہشوں کے غلام کے غلام رہے، ایسے لوگوں کے جیون میں دینے کا موقع نہیں آتا کیونکہ انھیں اور مانگنے سے ہی فرصت نہیں ہے۔

انھوں نے سارا جیون بھوکا رہنا ہوتا ہے، ان کا برتن سارا جیون خالی رہتا ہے ’’ہندوستان میں حضرت فرید ؒ نام کے ایک صوفی بزرگ تھے، فرید ؒ کے گاؤں کے لوگوں نے ان سے کہا کہ اکبر بادشاہ آپ کا بہت احترام کرتا ہے اگر آپ کہہ دیں تو کام ہو جائے گا کیونکہ گاؤں میں بچوں کی تعلیم کے لیے ایک مدرسہ چاہیے چونکہ بادشاہ اکبر حضرت فرید ؒ کا مرید تھا، اس لیے حضرت فریدؒ نے کہا اچھا کچھ دن بعد جاؤں گا اور حضرت فرید ؒ گئے بھی۔ جب پہنچے تو صبح صبح کا وقت تھا اور ویسے بھی ان کے لیے محل میں کوئی روک ٹوک نہیں تھی انھیں سیدھا محل میں لے جایا گیا، بادشا ہ اکبر اپنی نجی مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا۔ حضرت فرید ؒ پیچھے جا کر کھڑے ہو گئے جب اکبر بادشاہ کی نماز ختم ہوئی تو اس نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور ایک بھکاری کی طرح کہنے لگا ’’اے خد ا میری سلطنت کو بڑھا کر میری دولت کو بڑھا! یہ سنتے ہی حضرت فرید ؒ فوراً لوٹ پڑے سیڑھیوں پر کسی کے لوٹنے کی آواز سن کر اکبر بادشاہ نے مڑ کر دیکھا نماز پوری ہو گئی تھی اس لیے بھاگا ہوا آیا۔

حضرت فریدؒ واپس لوٹ رہے تھے حضرت فرید ؒ اس سے پہلے محل میں نہیں آئے تھے۔ سدا اکبر بادشاہ ہی ان کے پاس جاتا تھا لیکن فرید ؒ نے سوچا جب مانگنا ہے تو جانا چاہیے اکبر بادشاہ نے دوڑ کر حضرت فرید ؒ کے پیر پکڑ لیے اور کہنے لگا آپ آئے اور لوٹ چلے کوئی غلطی ہو گئی مجھ سے۔ حضرت فرید نے جواب دیا بھول تم سے نہیں ہوئی بھول تو مجھ سے ہوئی ہے میں تم سے مانگنے آیا تھا اور میں نے دیکھا کہ تم تو ابھی خود مانگ رہے ہو نہیں تمہیں میں غریب نہیں بناؤں گا، تمہارے لیے مدرسہ مہنگا پڑ جائے گا اور میں نے سوچا کہ جس سے تم مانگ رہے ہو اسی سے میں سیدھا ہی مانگ لوں گا، بیچ میں ایک اور بھکاری کو کیوں کھڑا کروں اور اب تک میں نے سمجھا تھا کہ تم ایک بادشاہ ہو میرا وہ بھروسہ ٹوٹ گیا مانگنے والا دے گا کیسے، دے گا بھی تو وہ سودا کرے گا تم اگر کچھ دو گے تو پانے کے لیے دو گے۔ دو گے بھی تو اس لالچ میں دو گے کہ زیادہ ملے گا، تمہارا دان بھی سرمایہ کاری ہو گا اس میں کچھ پانے کی خواہش ہو گی۔‘‘

ہمارے حکمرانوں کو ملک کے بیس کروڑ انسانوں نے کیا کچھ نہیں دیا، انھیں ملک کے سب سے اعلیٰ عہدے پر بٹھا دیا، انھیں اپنی ساری عزت، محبت، خلوص دیا اپنے سارے خواب، خواہشیں، آرزوئیں اس امید پر ان کے حوالے کر دیں کہ وہ وہاں پہنچ کر انھیں پورا کریں گے لیکن انھوں نے کیا کیا وہ جب وہاں پہنچ گئے تو انھوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جنہوں نے انھیں اس جگہ پہنچایا تھا وہ ان ہی کو بھول گئے اور پھر انھیں کبھی نیچے دیکھنے کی توفیق ہی نہیں ہوئی کہ نیچے والے کس حال میں ہیں ان کا کام تو وہاں پہنچ کر دینا تھا، لیکن افسوس وہ تو اور مانگنے لگ گئے، ظاہر ہے مانگنے والا دے بھی کیسے سکتا ہے۔ وہ تو بیس کروڑ امیدوں کے قاتل بن گئے وہ بیس کروڑ خوابوں کی بے حرمتی کے مجرم بن گئے، انھوں نے بیس کروڑ خواہشوں، آرزوؤں، تمناؤں کا وہ قتل عام کیا کہ آج تک ان کی برہنہ لاشیں گلی، کوچوں، بازاروں، سٹرکوں، محلوں اور گھروں میں جا بجا بکھری پڑی ہیں۔

ایسکائی لیس کے لافانی المیہ ڈرامے ’’پرومی تھیوس‘‘ کے ایک منظر میں ایک کردار کہتا ہے کہ پرومی تھیوس میں تمہارے لیے گریہ کناں ہوں تمہاری حالت قابل رحم ہے، میرا چہر ہ آنسوؤں سے تر ہے آنسوؤں کا چشمہ رواں ہے، میں اس سیلاب بلا خیز میں ڈوب رہی ہوں ہر طرف زیوس کا مہیب سایہ ہے، مروجہ قانون اس کے ہاتھ میں ہے، اس کا بلند ترین نیزہ پرانے خداؤں کی طرف رخ کیے ہوئے ہیں، ساری دھرتی کراہ رہی ہے اور سب گریہ کناں ہیں، تمہاری نسل کے سورماؤں کی عظمت رفتہ کے لیے۔ و ہ جو کردار کے دھنی تھے۔

عہد رفتہ میں باتکریم تھے مقدس ایشیا مصیبتوں میں گھرا ہوا ہے اہل ایشیا تمہارے دکھوں کے لیے روتے ہیں دکھ جو عظیم اور پر درد ہیں۔‘‘ دکھ کا کوئی مذہب، رنگ، نسل، زبان نہیں ہوتی ہے دکھ ہمارا ہو یا پرومی تھیوس کا اس میں ایک ہی جیسا درد ہوتا ہے ایک ہی جیسے آنسو نکلتے ہیں ایک ہی جیسے کلیجے پھٹتے ہیں اور جب آنسو نکلتے ہیں تو دھرتی کراہ جاتی ہے یہ آنسو یہ آہ و زاری یہ گریے یہ صدائیں کبھی بھی خالی نہیں جاتی ہیں یہ آسمان سے پلٹ کر واپس زمین پر آتی ہیں وہ جو اوپر بیٹھا ہے وہ ہمیں روتا دیکھ رہا ہے ہماری ہچکیاں سن رہا ہے، ذہن میں رہے ہر شخص ہر وقت کسی ایک جگہ نہیں رہ سکتا ہے اس کی پوزیشن بدلتی رہتی ہے یہ زمین کا قانون ہے جب آپ ہمیشہ کے لیے کسی ایک جگہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ دراصل خدا کے قانون کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔

اس کوشش میں خدا کا قانون تو نہیں ٹوٹتا البتہ آپ خود ٹو ٹ جاتے ہیں اور پھر بقیہ زندگی ٹوٹے پھوٹے اور اپنے آپ کو کوستے ہوئے گزارتے ہیں کیا کریں زندگی کے اس فلسفے کو انسان اس وقت تک نہیں سمجھتا جب تک وہ بیمار نہیں ہو جاتا ہے جب تک وہ سیاسی اور معاشی دیوالیہ نہیں ہو جاتا ہے جب تک اس کی زندگی انتشار اور سازشوں کا شکار نہیں ہو جاتی ہے اور جب تک وہ یہ سمجھتا ہے تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور پھر ندامت، پچھتاوا، شرمندگی، بے معنیٰ ہو جاتی ہیں یہ عمل صدیوں سے اسی طرح سے چلتا آ رہا ہے پھر جب بادشاہ سابق ہو جاتا ہے تو پھر وہ دعاؤں کا بھکاری بن جاتا ہے لیکن اس وقت تو اس لیے دعائیں بھی بے اثر ہو چکی ہوتی ہیں اور پھر ایک نیا بادشاہ تخت پرآ کر بیٹھ جاتا ہے اور وہ ہی پرانی دعا مانگنے لگ جاتا ہے، اے خدا میری دولت کو اور بڑھا اور دولت میں اضافہ کرنے اور اسے چھپانے کے نئے نئے طریقے بتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔