ناکام میزائل تجربے کوکامیاب قراردینے کا بھانڈا پھوٹ گیا

سید عاصم محمود  اتوار 5 جون 2016
بھارتی حکومت سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کے تاثر کو قائم رکھنے کے لیے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے: دلچسپ رپورٹ ؛  فوٹو : فائل

بھارتی حکومت سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کے تاثر کو قائم رکھنے کے لیے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے: دلچسپ رپورٹ ؛ فوٹو : فائل

15 مئی کو اس خبر سے پاکستان کے عسکری و سول حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ بھارت نے بلاسٹک میزائل مار گرانے والے بھارتی ساختہ ’’اشوین میزائل‘‘ کا کامیاب تجربہ کرلیا ہے۔ بھارتی حکومت کے مطابق 15 مئی کو صبح سوا گیارہ بجے ریاست اڑیسہ کے ساحل پر واقع عبدالکلام جزیرے سے اشوین بلاسٹک میزائل چھوڑا گیا۔اس سے قبل خلیج بنگال میں کھڑے بھارتی بحریہ کے ایک جہاز سے ’’دھنوش بلاسٹک میزائل‘‘ چھوڑا جاچکا تھا۔

اشوین نے اسی کو نشانہ بنانا تھا۔ بھارتی حکومت کے مطابق اشوین نے فضا میں دھنوش کو تباہ کر ڈالا، یوں یہ تجربہ کامیاب رہا۔ تجربے کی کامیابی پر بھارتی میڈیا نے خوب جشن منایا، اپنے سائنس دانوں و ماہرین کی اعلیٰ صلاحیتوں کا خوب پرچار کیا اور ان پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے۔ اُدھر اس تجربے سے پاکستانی حکومت اور باشعور بھارتی و پاکستانی شہری یہ سوچ کر متوحش ہوگئے کہ جنوبی ایشیا میں میزائلوں کی نئی دوڑ شروع ہوسکتی ہے۔

یاد رہے،1999ء میں کارگل جنگ کے دوران پاکستان نے بھارتی حکمران طبقے کو یہ دھمکی دے کرپریشان کر دیا تھا کہ وہ ایٹم بم بھی استعمال کرسکتا ہے۔ پاکستانی دھمکی نے بھارتی حکمران طبقے کو اتنا زیادہ خوفزدہ کیا کہ اس نے اپنا ’’بلاسٹک میزائل ڈیفنس پروگرام‘‘ شروع کردیا۔ بھارت کی ’’40‘‘ عسکری کمپنیوں کے ذریعے منصوبے کا آغاز ہوا ۔ منصوبے کے تحت دو بلاسٹک میزائل شکن بلاسٹک میزائل ’’پرتھوی‘‘ اور ’’اشوین‘‘ تیاری کے مراحل میں ہیں۔

پرتھوی ماک۔5 کی رفتار رکھنے والا سپرسونک بلاسٹک میزائل ہے۔ یہ 80 کلو میٹر کی بلندی تک آنے والا بلاسٹک میزائل تباہ کرسکتا ہے۔ اس کی حد مار دو ہزار کلو میٹر ہے۔

اشوین 25 فٹ لمبا سوا دو ٹن وزنی میزائل ہے۔ اس کی رفتارماک4- ہے۔ یہ 30 کلو میٹر کی بلندی تک بلاسٹک میزائل تباہ کرسکتا ہے۔یاد رہے، بلاسٹک میزائل میزائلوں کی ایک قسم ہے۔ یہ عموماً ایٹمی ہیتھار لے جانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ پہلے راکٹ بلاسٹک میزائل کو انتہائی بلندی پر پہنچاتا ہے۔ پھر بلاسٹک میزائل نہایت تیزی سے اپنے ٹارگٹ کی طرف بڑھتا ہے۔ جدید بلاسٹک میزائلوں میں گائڈینس سسٹم بھی نصب ہوتا ہے تاکہ نشانے پر گرنے میں آسانی رہے۔

بھارتی حکومت کی عیاری
23 مئی کو مؤقر بھارتی اخبار ’’دی ہندو‘‘ نے اشوین کے نام نہاد کامیاب تجربے کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ مشہور صحافی ٹی ایس سبرامینم نے اپنے مضمون’’Interceptor missile mission a ‘failure’‘‘ میں خبر دی کہ اشوین کا تجربہ ناکام رہا ہے۔ وجہ یہ کہ خلیج بنگال سے دھنوش میزائل اڑ ہی نہیں سکا تھا۔ چناںچہ اشوین میزائل سمندر میں گر گیا۔ تاحال بھارتی حکومت کی طرف سے اس خبر کی تردید سامنے نہیں آئی۔واضح رہے، دی ہندو بھارت کا دوسرا بڑا اور معتبر اخبار ہے۔ یہ جنوبی بھارت سے نکلتا ہے جہاں بی جے پی پارٹی کا اثرورسوخ بہت کم ہے۔ اسی لیے دی ہندو بھارتی حکومت کی خامیاں و خرابیاں عیاں کرنے والی ایسی خبریں بھی چھاپ دیتا ہے جنہیں شائع کرنے سے شمالی بھارت کا میڈیا گھبراتا اور جھجھکتا ہے۔

انکشاف انگیز خبر دینے والے ٹی ایس سبرامینم بھی معمولی صحافی نہیں… وہ بھارت کے واحد صحافی ہیں جنہوں نے 1979ء سے ہر بھارتی میزائل اور مصنوعی سیاروں کے تجربات کی رپورٹنگ کی ہے۔ موصوف خلائی سائنس، ایٹمی سائنس اور آثار قدیمہ پر اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں۔ آج کل مشہور ترقی پسند رسالے ’’فرنٹ لائن‘‘ کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر ہیں۔

درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ مودی حکومت نے جان بوجھ کر اشوین کے ناکام تجربے کو چھپایا اور اس کی اہم وجہ ہے۔ بھارتی وزیراعظم، نریندر مودی کچھ عرصے سے ’’میڈ ان انڈیا‘‘ اشیا کی دھوم دھڑکے سے بین الاقوامی تشہیر کررہے ہیں۔ اس صورت حال میں اگر یہ بات سامنے آتی کہ اشوین بلاسٹک میزائل کا تجربہ ناکام رہا، تو انہیں زبردست خفت کا سامنا کرنا پڑتا۔ شرمندگی اور اپنی بے عزتی ٹالنے کے لیے ہی نریندر مودی نے حکم دیا کہ ناکام تجربے کو کامیاب بناکر دنیا والوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہ سرکاری سطح پر جنم لینے والی عیاری و مکاری کی اچھوتی مثال ہے۔

واضح رہے، بھارتی سائنس داں 2014ء سے اشوین بلاسٹک میزائل کا تجربہ کررہے ہیں مگر انہیں کامیابی نصیب نہ ہوسکی۔ 2014ء کے تجربے میں میزائل میں موجود وارہیڈ (بم) ہی نہ پھٹ سکا۔ جبکہ اپریل 2015ء میں بھی اشوین میزائل فضا میں بلند ہونے کے کچھ عرصے بعد، سمندر میں گرگیا تھا۔حالیہ تجربے کی وڈیو بھی جاری نہیں کی گئی۔

بھارت کا سفید ہاتھی
تمام بھارتی ساختہ میزائلوں کی طرح بھارت کا ’’بلاسٹک میزائل ڈیفنس پروگرام‘‘ بھی ڈرڈو (Defence Research and Development Organisation) کے ہاتھ میں ہے۔ یہ عسکری تحقیق کرنے اور نت نیا اسلحہ بنانے والا بھارتی حکومت کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس سے سات ہزار سائنس داں و انجینئر وابستہ ہیں۔ ادارے کا سالانہ بجٹ دو تا تین ارب ڈالر (دو تا تین کھرب روپے سے زیادہ) کے درمیان ہے۔

ادارے پر کھربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود یہ بھارتی قوم و حکومت کی امنگوں پر پورا نہیں اترسکا۔ ادارے کے اکثر تجربات ناکام ہوجاتے ہیں۔ نیز منصوبوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے اتنی زیادہ تاخیر ہوتی ہے کہ منصوبے کا بجٹ دگنا تگنا ہوجاتا ہے۔ اسی لیے ڈرڈو کو بھارتی سول سوسائٹی میں ’’سفید ہاتھی‘‘ کہا جاتا ہے۔

ڈرڈو کی نااہلی اور ناکامی کی تازہ مثال زمین سے فضا میں مار کرنے والا آکاش میزائل ہے۔ ڈرڈو نے ’’32‘‘ سال کی محنت کے بعد اور دس ارب روپے خرچ کرکے یہ میزائل تیار کیا۔ مئی 2015ء میں آکاش میزائل کی بیٹریاں بھارتی فوج میں شامل کی گئیں۔ اور صرف ایک سال استعمال کے بعد بھارتی فوج نے اس ملکی ساختہ آکاش میزائل کو ’’ناکارہ‘‘ قرار دے ڈالا۔ اب وہ اسرائیل ساختہ ’’سپائیڈر‘‘ میزائل خرید کر اپنا فضائی دفاع مضبوط کرنا چاہتی ہے۔

دوسرے حملے کی صلاحیت
بھارت نے 31 مارچ کو ایٹمی آبدوز، ارینت سے ایٹمی بلاسٹک میزائل’’ کے۔4‘‘ (K-4 )چھوڑنے کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔کے۔4 ایٹمی میزائل کا تجربہ ’’دوسرے حملے کی صلاحیت‘‘ (Second Strike Capability) حاصل کرنے کی خاطر کیا گیا۔ اس عسکری اصطلاح سے یہ مراد ہے کہ جب دشمن پر حملہ کرتے ہوئے زمین سے زمین تک مار کرنے والے ایٹمی میزائل بے اثر ثابت ہوں، تو فضا یا سمندر سے ایٹمی میزائل چھوڑ دیئے جائیں۔ سمندر سے ایٹمی میزائل چھوڑنے کو بہترین ’’دوسرے حملے کی صلاحیت‘‘ سمجھا جاتا ہے اور بھارت یہ صلاحیت حاصل کرنے کے قریب ہے۔

پاکستان فضا میں ’’دوسرے حملے کی صلاحیت‘‘ حاصل کرچکا ۔ یہ ذمے داری بابر کروز میزائل اور رعد کروز میزائل کے سپرد ہے۔ یہ دونوں میزائل ہوائی جہاز سے چھوڑے جاسکتے ہیں۔ بابر میزائل کوآبدوز سے بھی چھوڑنا ممکن ہے۔ یہ دونوں میزائل ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

پاکستان جارحیت پہ یقین نہیں رکھتا، مگر اسے روزاول سے بھارت جیسے طاقتور دشمن کا سامنا ہے۔ چناں چہ پاکستان اپنا دفاع اتنا مضبوط ضرور رکھنا چاہتا ہے کہ استعماری عزائم رکھنے والا بھارتی حکمران طبقہ پاکستان پر حملے سے قبل ہزار بار غوروفکر کر لے ۔بھارت میں جب سے جنگجو وزیراعظم، نریندر مودی برسراقتدار آیا ہے، پاکستان کے خلاف بھارتی حکمران طبقے کی خفیہ و عیاں سرگرمیاں تیز ہوچکیں۔ گو پاکستان بھی بھارتی سازشوں کا منہ توڑ جواب دے رہا ہے۔

بھارت اس سال(جون 16ء تا جون 17ء) اپنے عسکری اخراجات پر تقریباً ’’ایک سو ارب ڈالر‘‘ (ایک سو کھرب روپے سے زیادہ رقم) خرچ کرے گا۔ یہ پاکستان کے دفاعی بجٹ سے ’’دس گنا‘‘ زیادہ رقم ہے۔ پاکستان اپنی افواج پر اتنا زیادہ زرکثیر خرچ نہیں کرسکتا۔ مگر پاکستانی حکومت اور افواج کی بھر پور سعی ہے کہ ملکی دفاع اتنا مضبوط ضرور رکھا جائے کہ دشمن حملے کی جرأت نہ کرسکے۔

پاکستان کا توڑ
جب بھارت نے بلاسٹک میزائل شکن میزائل پروگرام شروع کیا، تو پاکستان کی سول و عسکری قیادت چوکنا ہوگئی۔ پاکستان تب تک نو بلاسٹک میزائل (شاہین اول، دوم اور سوم، غوری اول و دوم، غزنوی، ابدالی، نصر اور حتف اول) بناچکا تھا۔ اگر بھارت پاکستانی بلاسٹک میزائل تباہ کرنے والے اپنے بلاسٹک میزائل بنالیتا، تو ان کی طاقت و اثر محدود ہوسکتا تھا۔ چناںچہ اب پاکستانی سول و عسکری دماغ یہ سوچ بچار کرنے لگے کہ بھارتی بلاسٹک میزائل شکن منصوبے کا کیا توڑ ہونا چاہیے۔

غور و فکر کے بعد فیصلہ ہوا کہ پاکستان ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے کروز میزائل بھی تیار کرلے۔ بھارتی بلاسٹک میزائل شکن منصوبہ ان میزائلوں کی راہ نہیں روک سکتا تھا۔ چناں چہ 2001ء سے کروز میزائلوں کی تیاری پر کام شروع ہوا۔ 2005ء میں ’’بابر‘‘ اور 2007ء میں ’’رعد‘‘ کروز میزائل پاک افواج کو مل گئے۔

بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ روس ساختہ میزائل شکن میزائل’’ PMU-2 S-300‘‘ رکھتا ہے۔ مگر بہت سے ماہرین عسکریات اس امر کی نفی کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ محض افواہ ہے جو پاکستان کو نیچا دکھانے کی خاطر اڑائی گئی ہے۔یاد رہے S-300/PMU-2 میزائل بیس کلو میٹر تک ہر قسم کے طیارے  بشمول کروز ہر قسم کا میزائل تباہ کرسکتا ہے۔ لیکن اس امر کے ٹھوس شواہد موجود نہیں کہ بھارت یہ روسی ساختہ میزائل شکن میزائل رکھتا ہے۔

البتہ خبروں میں آ رہا ہے کہ مودی حکومت پاکستانی کروز میزائلوں کے خطرے سے نمٹنے کی خاطر روس سے میزائل شکن میزائل S-400 ٹرمف سیریز خریدنا چاہتی ہے۔ یہ S-300 کی جدید شکل ہے۔ یہ امر بھی عیاں کرتا ہے کہ بھارتی فوج S-300 میزائل کی حامل نہیں۔S-400 ٹرمف سیریز میزائل 400 کلو میٹر دور تک ہر قسم کی فضائی ٹارگٹ تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مزید براں وہ بیک وقت چھ ٹارگٹ تباہ کرسکتا ہے۔ یہ S-300 سے کہیں زیادہ رفتار رکھتا ہے۔ یہ ’’ہائی ہائپر سونک‘‘ میزائل 14 ماک کی رفتار کا حامل ہے۔روس نے اسے بھارت کو فروخت کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔

بھارت کے دیگر اہم میزائل شکن میزائل روسی ساختہ اور پرانی ٹیکنالوجی کے حامل ہیں۔ بھارتی بحریہ صرف جدید ترین اسرائیل ساختہ میزائل شکن میزائل’’ باراک 8 ‘‘رکھتی ہے۔

پاکستان کا فضائی دفاع مضبوط بنانے کے لیے پاک فوج، پاک فضائیہ اور پاک بحریہ، تینوں افواج نے طیارے اور میزائل مار گرانے والے میزائل حاصل کررکھے ہیں۔ پاک فوج چینی ساختہ HQ-16B میزائل رکھتی ہے۔ چین کا ہی بنا HQ-2B میزائل پاک فضائیہ کے زیر استعمال ہے جبکہ پاک بحریہ امریکی ساختہ RIM-66 SM-1MR میزائل استعمال کررہی ہے۔ خبر ہے کہ پاک فوج ملکی فضائی دفاع مضبوط تر بنانے کے لیے چین کا جدید ترین میزائل HQ-9 خریدنا چاہتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔