ونیزویلا۔۔۔ عوام غذائی اشیاء کے لیےباہم دست بہ گریباں

ندیم سبحان  اتوار 5 جون 2016
 منہگائی آسمان کو چھونے لگی، بازار ویران، تیل سے مالامال ملک کی معیشت تباہی کا شکار ۔  فوٹو : فائل

منہگائی آسمان کو چھونے لگی، بازار ویران، تیل سے مالامال ملک کی معیشت تباہی کا شکار ۔ فوٹو : فائل

عوام اشیائے خورونوش کی تلاش میں سرگرداں۔۔۔۔۔ بازار اور دُکانوں میں کھانے پینے کی چیزیں عنقا۔۔۔۔۔۔ سُپرمارکیٹیں ویران۔۔۔۔۔۔ حصول خوراک کے لیے ابن آدم باہم دست بہ گریباں۔۔۔۔۔۔ غذائی اشیا کی چھینا جھپٹی اور لوٹ مار کے واقعات عروج پر۔۔۔۔۔۔ انسان کتے اور بلیوں کے گوشت سے پیٹ کے جہنم کی آگ بُجھانے پر مجبور۔ یہ منظرنامہ اس ملک کا ہے جس کی سرزمین میں سعودی عرب سے بھی زیادہ تیل کے ذخائر موجود ہیں، اور جو سب سے زیادہ قدرتی گیس پیدا کرنے والا آٹھواں بڑا ملک ہے۔

یہ تذکرہ ہے جرأت و بہادری کے پیکر، اور امریکا اور امریکی حکم رانوں کو ٹھوکروں میں رکھنے والے راہ نما ہیوگوچاویز کے وطن کا ، جس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اس وقت کے امریکی صدر جارج بُش کو ’شیطان عظیم‘ کا لقب دے کر دنیا کو حیران کردیا تھا۔ امریکی سام راج اور سرمایہ دارانہ نظام سے شدید نفرت کرنے والے اس غریب دوست راہ نما کا وطن اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔

2013ء میں سرطان کے ہاتھوں اپنے ہردل عزیز لیڈر کی موت کے وقت ونیزویلا کے عوام کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ محض دو ڈھائی سال کے بعد صورت حال اتنی سنگین ہوجائے گی کہ وہ ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس جائیں گے اور بچوں کی شکم سیری کے لیے دکانیں اور بازار لوٹنے اور ایک دوسرے سے چھینا جھپٹی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

ہیوگوچاویز کے بعد ونیزویلا کی باگ ڈور نکولس مرودو کے ہاتھ میں ہے۔ ہیوگوچاویز نے اپنے دورحکومت میں ایسی اقتصادی پالیسی اپنائی تھی جس سے ونیزویلا امریکی اثر سے ممکنہ حد تک آزاد رہے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں اقتصادی میدان میں ونیزویلا بہ تدریج تنہا ہوتا چلا گیا۔ امریکی دباؤ کے زیراثر اس کے حلیف ممالک نے ونیزویلا سے معاشی روابط محدود کردیے۔

اسی کا نتیجہ تھا کہ دنیا میں تیل کے سب سے زیادہ ذخائر رکھنے کے باوجود ونیزویلا اس کی پیداوار میں سرفہرست نہ آسکا۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک میں ونیزویلا بارھویں نمبر پر ہے۔ تاہم موجودہ بدترین حالات کی ذمہ داری بہرصورت نکولس پر عائد ہوتی ہے، جو بدلتے ہوئے عالمی اقتصادی حالات کا ادراک اور ان کے ساتھ معاشی پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنے کے علاوہ وہ داخلی معاملات کو سدھارنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ اس ناکامی کا نتیجہ اشیائے خورونوش کی عدم دست یابی، آسمان کی بلندیوں کو بھی شکست دیتی گرانی، برق رفتاری سے بڑھتے ہوئے جرائم، اور امن و امان کی بدترین صورت حال کی شکل میں ظاہر ہوا ہے۔

ونیزویلا کی معیشت نے ترقی کی شاہراہ پر واپسی کا سفر شروع کردیا ہے۔ 2014ء میں معیشت کے سُکڑنے کی شرح 4 فی صد رہی تھی۔ ملکوں کی ناگفتہ بہ معاشی صورت حال کی عکاسی کرنے والے ’عالمی بدحالی انڈیکس‘ میں اُس برس ونیزویلا پہلے نمبر پر رہا تھا۔ 2015ء میں بھی، مزید بدتراقصادی صورت حال کے پیش نظر یہ اعزاز اسی کے حصے میں آیا تھا۔ گذشتہ برس عالمی بینک نے پیش گوئی کی تھی کہ اس لاطینی امریکی ملک کے اقتصادی حجم میں 7 فی صد کی شرح سے کمی واقع ہوگی۔ علاوہ ازیں 2015ء ہی میں کئی اداروں کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ونیزویلا کے معاشی طور پر دیوالیہ ہوجانے کے 93 فی صد امکانات ہیں۔

ایک عالمی تحقیقی تنظیم ’لیٹن امیریکا گروتھ انشییٹیؤ‘ کے ڈائریکٹر جیسن مارزک کے مطابق،’’ونیزویلا کی معیشت تباہ کُن حدود میں داخل ہوچکی ہے۔ اور اس کی ذمہ دار حکومت ہے جس کی ’خود کش‘ پالیسیوں کے نتیجے میں ملک دلدل میں کچھ اس طرح دھنس گیا ہے کہ مستقبل قریب میں اس کا باہر نکل آنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔‘‘

یہاں ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ دنیا میں تیل کے سب سے زیادہ ذخائر رکھنے والا ملک بدحالی کے اس درجے پر کیسے پہنچ گیا؟ اس کا جواب جزوی طور پر تیل کے گرتے ہوئے نرخوں میں پوشیدہ ہے۔ ونیزویلا کی برآمدات میں تیل کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ برآمداتی آمدنی کا 80 فی صد تیل سے حاصل ہوتا ہے۔ تیل کے زوال پذیر داموں کے ساتھ ساتھ برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا حجم بھی محدود ہوتا چلا گیا، اور اب اس میں 40 فی صد تک کمی آچکی ہے۔ دوسری جانب حکومت نے بھاری مقدار میں غیرملکی قرضے حاصل کیے۔

ونیزویلا پر واجب الادا غیرملکی قرضوں کا حجم 123 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے ( پاکستانی قوم 70 ارب ڈالر کی مقروض ہے ) بھاری اور منہگے قرضے گذشتہ دورحکومت میں بھی بلاتکلف حاصل کیے گئے جب تیل کے نرخ بلندیوں کو چُھو رہے تھے۔ اس وقت یہ بات پیش نظر تھی کہ تیل کے نرخ نیچے نہیں آئیں گے اور قرضوں کی واپسی کوئی مسئلہ نہیں بنے گی۔ مگر تیل کی قیمتیں نیچے آنے لگیں، نتیجتاً معیشت مشکلات میں پھنستی چلی گئی۔ اب ملکی آمدنی اتنی نہیں کہ قرضے واپس کیے جاسکیں۔ اگرچہ تین سال کے دوران صدر مدورو کی حکومت بیرونی قرضوں کی اقساط باقاعدگی سے ادا کرتی چلی آرہی ہے۔ رواں سال میں حکومت کو سات ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔ اگر تیل کی قیمتیں موجودہ سطح پر برقرار رہتی ہیں تو پھر قسط کی ادائیگی ممکن نہیں ہوگی۔

قرضوں کے بوجھ کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے مدورو نے بیشتر درآمدات پر پابندی عائد کردی اور یہیں سے خوراک کے بحران نے جنم لیا۔ ملک میں بہ تدریج دودھ، گوشت، چاول، تیل، آٹا، مکھن، چائے، کافی یہاں تک کہ ادویہ کی بھی قلت پیدا ہوگئی۔ بحران کے آغاز پر لوگ گھنٹوں سپرمارکیٹوں کے آگے قطار بناکر بنیادی غذائی اشیاء حاصل کرتے رہے مگر اب کئی علاقوں میں یہ بھی ناپید ہوچکی ہیں۔ اور جہاں خوراک دست یاب ہے، وہاں اس کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ اشیائے خورونوش کی قلت کے باعث افراطِ زر کی شرح 450 فی صد سے بڑھ چکی ہے۔

عوام کی بدقسمتی کہ معاشی بحران کے ساتھ ساتھ ملک میں خشک سالی نے بھی ڈیرے ڈال لیے۔ ڈیموں کے سوکھنے سے جہاں فصلیں کاشت نہ ہوسکیں وہیں منصوبہ بندی کے فقدان نے بجلی کے بحران کو بھی جنم دے دیا۔ معاشی بحران کے مانند بجلی کا بحران بھی آخری حدوں کو چُھو نے لگا ہے۔ صورت حال اس حد تک خراب ہوگئی ہے کہ سرکاری دفاتر ہفتے میں صرف دو دن، پیر اور منگل کو کُھلتے ہیں۔

غیرملکی قرضوں کا بوجھ ونیزویلا کے بدترین معاشی بحران کا اہم سبب ہے۔ یہاں ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا ونیزویلا قرضوں کی اقساط کی ادائیگی میں ناکامی کا اظہار کرتے ہوئے قرض خواہوں کو ادائیگی کی شرائط پر نظرثانی کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا؟ اس صورت میں اسے کچھ زیادہ کھونا پڑجائے گا۔ دراصل ونیزویلا پر واجب الادا قرض میں سرکاری آئل کمپنی PDVSA کا بھی حصہ ہے۔ یہ آئل ریفائنری ملکی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ مدورو اور ان کے رفقاء کو ڈر ہے کہ قرض کی ادائیگی میں انکار سے کمپنی کے بونڈ ہولڈر اس پر مقدمات دائر کردیں گے، جس سے کمپنی کا پیداواری عمل متأثر ہوگا۔ اس کے نتیجے میں کمپنی کے بیرون ملک اثاثے ضبط ہوسکتے ہیں۔ پھر ارجنٹائن کی مثال بھی ان کے سامنے ہے، جسے قرض کی ادائیگی سے معذوری ظاہر کرنے کے بعد دائر کیے جانے والے مقدمات سے نمٹنے میں ایک عشرہ لگ گیا تھا۔

چین ، ونیزویلا کے تیل کا بڑا خریدار ہے۔ ونیزویلا پر اس کے 50 ارب ڈالر واجب الادا ہیں۔ اگرچہ چین نے قرض کی واپسی کی شرائط نرم کرنے کا اعلان کیا ہے مگر مزید قرض دینے میں، دیگر ممالک کی طرح وہ بھی تأمل کا شکار ہے۔ اس کا بنیادی سبب، ظاہر ہے کہ ونیزویلا کی بدترین اقتصادی صورت حال ہے، تاہم اس تذبذب کا ایک سبب سیاسی عدم استحکام بھی ہوسکتا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعت مدورو کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے بھرپور مہم چلا رہی ہے۔ اس کی جانب سے عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ کیا جارہا ہے، تاہم مدورو موجودہ اقتصادی بحران کی آڑ لیتے ہوئے ریفرنڈم کو ٹالتے چلے آرہے ہیں۔ مگر اقتصادی بحران زیادہ عرصے انھیں مہیا نہیں کرسکتا۔ نئی حکومت آنے کے بعد کیا پالیسی اختیار کرتی ہے؟ غالباً اسی کے پیش نظر چین اور دوسرے ممالک ونیزویلا کو مزید مالی امداد دینے سے گریزاں ہیں۔

اس تناظر میں ونیزویلا کی اقتصادی اور معاشی صورت حال میں بہتری کے آثار نظر نہیں آرہے، اور نہ ہی عوام کے مصائب میں کمی ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔