’’وزیراعظم‘‘: آمروں کا ناپسندیدہ ترین لفظ

زاہدہ حنا  اتوار 5 جون 2016
zahedahina@gmail.com

[email protected]

5 جون کی تاریخ پاکستان کے لیے ایک تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ 2013ء کی یہ وہ تاریخ تھی جب میاں نواز شریف نے پاکستان کے 18 ویں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا۔ ان کا بطور وزیراعظم حلف اٹھانا محض ایک رسمی بات نہیں، اس کا ایک پس منظر ہے جس پر غور کرنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے یہ امر پیش نظر رہے کہ پاکستان میں نواز شریف سمیت کسی بھی وزیراعظم نے آج تک پانچ سال کی مدت مکمل نہیں کی۔

نوابزادہ لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے جو 14 اگست 1947ء کو وزیراعظم بنے، انھیں 1951ء میں قتل کردیا گیا۔ وہ چار سال سے کچھ زیادہ عرصہ اس منصب پر کام کرسکے۔ ان کے بعد اس وقت کے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک انتہائی شریف النفس سیاستدان خواجہ ناظم الدین اس منصب پر فائز ہوئے۔ وہ اپریل 1953ء تک وزیراعظم رہے۔ انھیں گورنر جنرل غلام محمد نے وزارت عظمیٰ سے برخاست کیا۔ عام تاثر یہی ہے کہ گورنر جنرل غلام محمد کوئی بڑے طرم خان تھے اور ان کے مقابلے میں خواجہ ناظم الدین کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ خواجہ ناظم الدین ڈھاکا کے نواب سر سلیم اللہ کے بھتیجے تھے۔ یہ وہی نواب آف ڈھاکا تھے جن کے گھر پر 1906ء میں مسلم لیگ قائم ہوئی تھی۔ خواجہ ناظم الدین نے برطانیہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی اور ٹرنیٹی ہال کیمبرج سے بار ایٹ لا کیا تھا۔ وہ 1922 میں سیاست میں داخل ہوئے تھے جب کہ غلام محمد نوکر شاہی میں ایک عام ملازم تھے جنہوں نے سازشوں کے ذریعے گورنر جنرل کا عہدہ ہتھیا لیا تھا۔

خواجہ صاحب کو جس طرح برخاست کیا گیا اور اس کے بعد جو بحران پیدا ہوا، اس کے اثرات نے بالآخر پاکستان میں آمریت کی بالادستی اور وفاق کے ٹوٹنے کی راہ ہموار کی۔ خواجہ ناظم الدین کے بعد وزرائے اعظم کے آنے اور جانے کا ایک مضحکہ خیز سلسلہ شروع ہوگیا۔ 1951 سے 1958 تک چھ وزرائے اعظم آئے اور رخصت کیے گئے ۔ ان میں محمد علی بوگرہ 2 سال ، چوہدری محمد علی ایک سال، حسین شہید سہروردی بھی ایک سال، ان کے بعد آئی آئی چندریگر لگ بھگ 2 ماہ اور فیروز خان نون 10 مہینے تک وزیراعظم رہ سکے۔ طاقتور طبقوں اور اداروں نے بالآخر جمہوری وزرائے اعظم کو لانے اور نکالنے کا تماشہ ختم کیا اور 7 اکتوبر 1958 کو مار شل لا نافذ کرکے ملک پر براہ راست قبضہ کرلیا۔

مارشل لا لگانے سے پہلے ملک میں ایک خاص ماحول تیار کیا جا چکا تھا۔ وہ طاقتیں جو وزرائے اعظم اور حکومتوں کو تبدیل کرنے کا کھیل رچا رہی تھیں، وہ یہ تاثر دینے میں بڑی حد تک کامیاب رہیں کہ سیاستدان نااہل اور بدعنوان ہیں اور ان میں ملک کو چلانے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ خواجہ ناظم الدین سے لے کر فیروز خان نون تک کس وزیراعظم کے بارے میں تضحیک آمیز جملے نہیں کہے گئے اورعوام کی نظر میں انھیں گرانے اور ان کا مضحکہ اڑانے کے لیے انھیں کیسے کیسے رکیک القابات سے نوازا نہیں گیا۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک کا آئینی اور جمہوری نظام لپیٹ دیا اور لفظ ’وزیراعظم‘ پاکستان کے سیاسی نظام سے خارج کردیا گیا۔ جمہوری بندوبست کو ختم اور اقتدار پر قبضہ کرنے والے، ون یونٹ اور پیریٹی کے ذریعے وفاق کی بنیادوں میں بارود پہلے ہی بچھا چکے تھے۔جمہوریت کی نفی، سیاستدانوں کی تضحیک ،کردارکشی اور اپنے سوا ہر ایک کی حب الوطنی پر شک کرنے کے رویے نے آخرکار بنگلہ بولنے والے پاکستانیوں کو وفاق سے آخری حد تک بد ظن کردیا اور ان کے جمہوری مینڈیٹ کو مسترد کرنے کے نتیجے میں جوکچھ ہوا وہ بنگلہ دیش کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔

جنرل ایوب خان زبردست عوامی احتجاج کے نتیجے میں 25 مارچ 1969 کو استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے اور ان کے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھال کر مارشل لا نافذ کردیا۔ 1971ء کے بعد جب پاکستان آبادی کے لحاظ سے نصف سے بھی کم رہ گیا تو مجبوراً اقتدار باقی ماندہ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ کو منتقل کرنا پڑا جس نے ملک کو پہلا اور تقریباً متفقہ آئین دیا اور ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے پہلے منتخب اور تاریخی تسلسل کے اعتبار سے نویں وزیراعظم ہوئے۔ تاہم، جمہوریت کی نفی اور ملک ٹوٹ جانے جیسے غیر معمولی المیے سے بھی سبق نہیں سیکھا گیا اور ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم کا تختہ 5 جولائی 1977ء کو الٹ کر پھر سے مارشل لا لگا دیا گیا۔

جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں آٹھ سال تک لفظ ’’وزیراعظم‘‘ پاکستان کی سیاسی لغت سے خارج کردیا گیا۔ قصہ مختصر ، جب دباؤ بہت بڑھا تو خود ساختہ پارلیمنٹ کے ذریعے 1985ء میں محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنایا گیا لیکن وہ بھی اپنی مدت پوری نہیں کر پائے اور رسوا کر کے اقتدار سے نکالے گئے۔ 1985ء سے لے کر 1999ء تک محترمہ بے نظیر بھٹو اور جناب نواز شریف دو دو مرتبہ اقتدار میں آئے لیکن انھیں آئینی میعاد پوری نہیں کرنے دی گئی اور 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے فوجی انقلاب کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔

مذکورہ بالا حقائق کے ذریعے محض یہ بتانا مقصود ہے کہ پاکستان میں لفظ ’’وزیراعظم‘‘ ہر آمر اور اس سے فیض اٹھانے والوں کے لیے ایک انتہائی ناپسندیدہ لفظ ہے۔ جنرل ایوب کے پورے دور حکومت جب کہ جنرل ضیاالحق کے اقتدار کے 8 برسوں میں ’’وزیراعظم‘‘ کا لفظ نہ سنا اور نہ بولا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کا محض ایک سال 20 ویں صدی جب کہ بقیہ دور اقتدار 21 ویں صدی میں گزرا لہٰذا ان کے پاس فوجی انقلاب کو ’مارشل لا‘ کا نام دینا ممکن نہیں تھا بلکہ دنیا کو دکھانے کے لیے ایک من پسند سیاسی نظام بنانا اور اس میں ’’وزیراعظم‘‘ کو لا کر بٹھانا بھی ضروری تھا۔ اسی نظریہ ضرورت کے تحت انھوں نے ایک پارلیمنٹ بنوائی اور اس کے ذریعے ایک من پسند ’وزیراعظم‘ کو منتخب کرایا تاہم ہر فوجی آمر کی طرح انھیں بھی اس لفظ سے سخت نفرت تھی لہٰذا وہ اپنے نامزد کردہ وزرائے اعظم سے بھی نباہ نہیں کر سکے۔

اس کی مثال یہ ہے کہ ان کے دور حکومت میں کوئی ایک وزیراعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکا اور تین وزرائے اعظم نے یکے بعد دیگرے ان کے زیر سایہ قوم کی ’’خدمت‘‘ کا اعزاز حاصل کیا۔ 2001 میں 9/11 کا سانحہ جنرل پرویز مشرف کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا اور انھیں اپنے دور اقتدار کو طول دینے کا سنہری موقع ہاتھ آگیا تاہم طالبان اور امریکا دونوں کو بیک وقت مطمئن رکھنے کی حکمت عملی تا دیر نہ چل سکی اور انھیں بیک وقت دونوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور ایک سیاسی بحران کے بعد لیلائے اقتدار نے ان سے آنکھیں پھیر لیں۔ اس ہجر کا صدمہ ان کو آج بھی بے حال رکھتا ہے۔

2008ء میں عام انتخابات ہوئے، مشرف حامی سیاسی قوتوں کو شکست فاش اور ان کی مخالف قوتوں کو کامیابی حاصل ہوئی اور آمروں کے دسترخوانوں کا نمک کھانے والوں کے سر پر ایک مرتبہ پھر عوام کا منتخب کردہ ’’وزیراعظم‘‘ مسلط ہوگیا۔ صدر آصف علی زرداری کی تعریف کی جانی چاہیے کہ انھوں نے بد ترین حالات کا صبر اور تحمل سے سامنا کیا اور نواز شریف نے سیاسی مخالفت کے باوجود جمہوری نظام کے تسلسل کی حمایت کی اور فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے برداشت کیے۔

آمریت نواز قوتوں کو لفظ ’’وزیراعظم‘‘ سے اتنا خوف آتا تھا کہ انھوں نے ایسے حالات پیدا کیے کہ حکمران پیپلز پارٹی کے دو وزرائے اعظم کو اس منصب سے دستبردار ہونا پڑا۔ 60 سال کے تلخ تجربات نے جمہوریت دوست قوتوں کو کچھ نہ کچھ شعور ضرور عطا کردیا ہے۔ لہٰذا پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک منتخب جمہوری حکومت نے اپنی آئینی مدت مکمل کی اور 2013ء کے عام انتخابات کے بعد نواز شریف نے 5 جون کو وزیراعظم کا منصب سنبھالا۔ انتخابات میں نواز شریف کی جماعت کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہوئی، اس لیے اس ’’وزیراعظم‘‘ کو پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیل کرنا ممکن نہیں رہا۔

منتخب ’’وزیراعظم‘‘ سے نجات حاصل کرنے کے لیے احتجاجوں اور دھرنوں کی حکمت عملی اپنائی گئی۔ پیپلزپارٹی کی منتخب جمہوری حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل کیا کم بڑا صدمہ تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک منتخب وزیراعظم کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا ’’سانحہ‘‘ بھی برداشت کیا جائے؟ آج سے تین سال پہلے ایک منتخب جمہوری حکومت نے اپنی آئینی مدت مکمل کی اور اس کے بعد ایک نو منتخب پارلیمنٹ نے ایک وزیراعظم کا انتخاب کیا۔ پاکستان میں جمہوری تسلسل کا عمل اس وقت مکمل ہوگا جب 5 جون 1918ء کو ایک منتخب وزیراعظم پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی آئینی مدت بھی مکمل کرے گا۔

وزیراعظم نواز شریف سے اختلاف رکھنے کے باوجود ہر جمہوریت پسند جماعت، فرد اور ادارے کو پاکستان کی جمہوری تاریخ کا یہ نیا باب رقم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ پاکستان میں پہلی مرتبہ کسی آمر کی سرپرستی سے ماورا، ایک منتخب پارلیمنٹ اور منتخب وزیراعظم دونوں، ایک ساتھ اپنی آئینی مدت مکمل کر سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔