- کراچی کے ترقیاتی فنڈز میں بندر بانٹ، ٹھیکدار کو کام شروع بغیر ہی 10 کروڑ روپے کی ادائیگی
- ملک میں بجلی بریک ڈاؤن میں سائبر اٹیک کا خدشہ موجود ہے، وزیر توانائی
- قومی اسمبلی کے 33 حلقوں سے عمران خان ہی الیکشن لڑیں گے، تحریک انصاف
- اسلامیہ کالج کا سامان پرانے کمپلیکس میں سیل؛ طلبہ و عملہ زمین پر بیٹھنے پر مجبور
- مریم نواز کی واپسی پر اسحاق ڈار نے قوم کو پٹرول بم کی سلامی دی، پرویز الہیٰ
- معاشی بحران حل کرنے کیلیے کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے، وزیر خزانہ
- چوتھی کمشنر کراچی میراتھن میں جاپانی ایتھلیٹ فاتح قرار
- صدرمملکت کا ایف بی آر کو برطانوی دور کی لائبریری کو ٹیکس کٹوتی واپس کرنے کا حکم
- جرمنی نے بیلجیئم کو شکست دے کر عالمی کپ ہاکی ٹورنامنٹ جیت لیا
- ایف آئی اے کراچی کی حوالہ ہنڈی کیخلاف کارروائی؛ 4 ملزمان کو گرفتار
- کراچی میں یکم فروری تک سردی کی لہر برقرار رہنے کا امکان
- باچا خان کانفرنس میں خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی پولیس کے حوالے کرنے کی قرارداد منظور
- عمران خان کے متنازع بیان سے پیپلز پارٹی کیلیے خطرہ ہوسکتا ہے، خواجہ آصف
- حکومت کوشش کریگی آئی ایم ایف معاہدے کا اثر غریب عوام پر نہ پڑے، شازیہ مری
- ایس ایس پی کیپٹن (ر) مستنصر فیروز سی ٹی او لاہور تعینات
- ایم کیو ایم کا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ واپس لینے کا مطالبہ
- کراچی میں تیزرفتار ڈمپر نے موٹرسائیکل سوار کو کچل دیا
- متحدہ عرب امارات میں 3 دن بارشوں کے بعد درجہ حرارت منفی ہوگیا
- آزاد کشمیر میں برفانی تودہ گرنے سے 3 افراد زخمی
- نیتن یاہو کا فلسطینیوں پر شب خون؛ اسرائیلیوں کو اسلحہ فراہم کرنے کا اعلان
امریکا بھی ہمیں کمزور نہ سمجھے
پاکستانیوں کی عمر بھر کی امریکی غلامی کے باوجود ہمیں ایک سپہ سالار ایسا ملا ہے جو کہتا ہے کہ امریکا کے ڈرون حملے کے لیے مذمت کا لفظ بہت چھوٹا ہے۔ ڈرون حملے ہماری خودمختاری اور آزادی کے خلاف ہیں جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں یعنی ٹوٹ پھوٹ سکتے ہیں۔ ادھر کچھ عرصہ سے پاکستانیوں کی زبان بھی بدلی ہوئی ہے اور وہ کبھی امریکا جیسے اَن داتا کو بھی کھری کھری سنا دیتے ہیں۔ ہمارا ملک تو پہلے بھی کبھی کمزور نہ تھا صرف حکمران کمزور تھے لیکن اب لگتا ہے حکمرانوں کو بھی اپنا ایٹم بم یاد رہتا ہے جس سے ان کا حوصلہ بڑھا ہوا ہے۔
جن لوگوں نے ہمارا پاکستان بنایا تھا اور جن لوگوں نے اس ملک کو چلایا تھا وہ تو قطعاً بزدل نہیں تھے۔ انھیں اپنے ملک کی اس طاقت کا علم اور احساس تھا جو قدرت نے اس کے وجود میں رکھ دی تھی۔ نظریات کی بے پناہ طاقت اور پھر زمین کے جغرافیے کی طاقت۔ اس ملک کا جغرافیہ ایسا ہے کہ یہ اپنے خطے کا ایک ناقابل تسخیر ملک ہے۔ وہ تو ہماری بدقسمتی کہ ہمیں کچھ غدار بھی مل گئے جنہوں نے اپنے عام سے سطحی مفاد کے لیے ملک کو کمزور کر دیا اور یہ مفادات بھی ایسے کہ ان کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ مثلاً ایک مطلبی سیاست دان نے جب دیکھا کہ وہ اس متحدہ پاکستان میں وزیراعظم نہیں بن سکتا تو اس نے اپنی سیاست کو محفوظ کرنے کے لیے ملک کو ہی دو ٹکڑے کرنے کی کوشش کی چنانچہ ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر کے وہ ایک بڑے حصے کا بادشاہ بن گیا۔
اس کی یہ بادشاہت کچھ ہی دیر جاری رہی لیکن قدرت نے اس ملک کے دشمنوں کی جو سزا تجویز کر رکھی تھی وہ بھی زود یا بدیر اس سزا کا شکار ہو گیا۔ پاکستان کے دشمنوں کی سزا موت اور پھانسی ہے۔ اندرا گاندھی سے لے کر پاکستان کے لیڈروں تک سب کو پاکستان دشمنی کی یہ سزا ملی۔ جو لوگ پاکستان کے معنوی وجود کو یاد رکھتے ہیں اور جنھیں معلوم ہے کہ برصغیر میں یہ ملک کیوں بنایا گیا تھا۔ یہ محض ایک جغرافیائی ہیئت اور نقشہ ہی نہیں رکھتا تھا اور اپنے خطے کے مرکزی حصے میں ہی واقع نہ تھا یہ اپنے نظریات کے تحفظ کے لیے اپنے خطے میں ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ اپنا دفاع کر سکتا تھا اور اپنے تحفظ کے لیے ضرورت پڑنے پر جارحیت بھی اس کے لیے آسان تھی۔
بہرکیف جن دانشمند لوگوں نے پاکستان کا سوچا اور پھر اسے قائم کیا وہ سب کچھ جانتے تھے اور انھیں معلوم تھا کہ ان کا ملک نہ صرف ایک ازلی و ابدی دشمن ساتھ لے کر قائم ہو گا خود بھی اپنے ڈیفنس کے لیے ضروری اقدامات پر مجبور ہو گا خصوصاً فوج رکھنی ہو گی جو اپنے ملک کی حفاظت کے لیے ہر وقت سرگرم رہے گی۔ برطانوی سامراج نے اس خطے میں فوج کی بنیاد رکھی اور اس کی تربیت کا ایسا زبردست اہتمام کیا کہ یہ فوج دنیا کی ایک بہترین فوج بن گئی۔ اس فوج کی یہی روایت پاکستان کے حصے میں بھی آئی اور پاکستان ایک فوجی ملک بھی بن گیا۔ ایک ایسا ملک جس کی طرف بری نظر سے دیکھنا ایک بڑی فوج کو دعوت دینا تھا۔
حالات پاکستان کے ساتھ تھے چنانچہ یہ پاکستان ایک دن ایٹمی ملک بھی بن گیا جس سے اس کے دشمنوں کی جان پر بن گئی۔ مغربی سامراج کے لیے ایک اسلامی نظریاتی پاکستان ہی کیا کم تھا کہ وہ دنیا کی جدید ترین فوجی طاقت یعنی ایٹم کا مالک بن گیا چنانچہ اسلامی نظریاتی اور ایٹمی پاکستان ایک ناقابل برداشت حقیقت بن گئی۔ اسی اثناء میں دنیا نے دیکھا کہ اس ملک کی فوج دنیا کی ایک بہترین فوج بھی ہے۔ ہمارے جرأت مند سپہ سالار کو اپنی اس طاقت کا نہ صرف علم ہے بلکہ وہ اس کے دشمنوں کو یاد بھی دلاتا ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی اور فوجی طاقت بھی ہے جس کے پاس ایٹم بم موجود ہے جو اس نے خود بنایا ہے اور اس کے سائنس دانوں کا ایک کارنامہ ہے۔
یہ وہ پاکستان ہے جو مغربی سامراج اور پاکستان کے پڑوسی دشمن کی برداشت سے باہر ہے لیکن سب بے بس ہیں۔ دنیا کو معلوم ہے کہ اگر پاکستان نے خطرہ محسوس کیا تو وہ اس کا خطرناک جواب دے گا جو برداشت سے باہر ہو گا لیکن پاکستان کی فوج خود اتنی بڑی طاقت ہے کہ پاکستان کو کسی آخری طاقت کے استعمال کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ اس کی فوج اپنے دشمنوں کو تہس نہس کرنے کے لیے بے تاب رہتی ہے اور وہ اس کا غیرمعمولی اجر پاتی ہے۔ جو غیر اسلامی نظریات والے ملکوں کے علم میں نہیں ہے۔ وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
اگر ہمارا سپہ سالار امریکا جیسی سپرپاور کو وارننگ دیتا ہے کہ اس کے ڈرون حملے اس کے لیے ناقابل برداشت ہیں تو وہ اس میں سچا ہے اور اگر امریکا نے یہ حرکت جاری رکھی تو اس کی سزا شاید وہ برداشت نہ کر سکے۔ امریکا کو خوب معلوم ہے کہ ایٹم بم کیا ہوتا ہے۔ ابھی کل ہی اس نے اپنے ایٹم بم کی تباہی کی یاد منائی ہے اور اسے خوب معلوم ہے کہ بم کس بلا کا نام ہے۔ امریکا اتنا بے وقوف نہیں ہے کہ وہ کوئی ایسی حماقت کر بیٹھے جس کی یاد اسے اپنے ملک کے کسی حصے کی یاد میں منانی پڑے نہ کہ ہیروشیما جیسے شہر کی تباہی کی یاد جو اس کی جارحیت کا ایک نمونہ ہے۔
ہمارے سچے سپہ سالار نے اگر ڈرون حملوں کے جواب میں سخت مؤقف اپنایا ہے اور ڈرون حملے والوں کو یاد دلایا ہے کہ وہ ایسی حرکت پھر نہ کریں تو اس نے یہ سب محض شوقیہ نہیں کہا ہے وہ کسی ایسی جارحیت کا جواب دینے پر تیار ہے جو اس کی آزادی اور سلامتی کے خلاف ہو، پاکستان ایک ایسا ملک ہے جسے ہر وقت ایک دشمن کا سامنا رہتا ہے اور وہ اس دشمن کا جواب دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ سستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ دشمن کی مہربانی ہے کہ وہ ہمیں ہر وقت تیار رکھتا ہے کیونکہ وہ خود ہمارے خلاف ہر وقت تیار رہتا ہے۔ اس دشمن کے ساتھ ہماری کئی جنگیں ہو چکی ہیں اور ان کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ نہ دشمن بھولتا ہے اور نہ ہم اور یہی وہ حالت ہے جو پاکستان کو حالت جنگ میں رکھتی ہے اور اس ملک کے عوام اور فوج بھی اس حالت جنگ کو قبول کرتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔