گرین کریسنٹ ٹرسٹ

جاوید چوہدری  اتوار 5 جون 2016
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

زاہد سعید ادویات کے کاروبار سے منسلک ہیں، یہ انڈس فارما کے نام سے کراچی میں کمپنی چلا رہے ہیں، یہ دو نسلوں سے بزنس سے وابستہ ہیں، یہ تعلیم سے فراغت کے بعد 1996ء میں کاروبار میں داخل ہوئے،یہ جوں ہی والد کی کرسی پر بیٹھے ان کے ذہن میں فلاح و بہبود کا ایک دلچسپ آئیڈیا آیا، زاہد صاحب نے کراچی کے چھ بڑے کاروباری اداروں کے نوجوان مالکان کو بلایا اور اپنا منصوبہ ان کے سامنے رکھ دیا، یہ لوگ فوراً قائل ہو گئے، یوں چھ بزنس مین خاندانوں کے چھ نوجوانوں نے ’’گرین کریسنٹ ٹرسٹ‘‘ کی بنیاد رکھ دی، تعلیم اس ادارے کا بنیادی مقصد تھا، ان لوگوں نے فیصلہ کیا یہ حکومت کی مدد کے بغیر سندھ کے دیہی علاقوں میں اسکول بنائیں گے، یہ اسکول ان انتہائی غریب اور پسماندہ علاقوں میں بنائے جائیں گے جہاں تعلیم کی سہولت موجود نہیں۔

ان چھ لوگوں نے پیسے جمع کیے اور یہ کراچی ویسٹ اورنگی ٹاؤن کے بلوچ علاقے میں چلے گئے، اس پورے علاقے میں کوئی پڑھا لکھا شخص نہیں تھا، لوگ تعلیم بالخصوص بچیوں کی تعلیم کے خلاف تھے، یہ لوگ علاقے کے سردار سے ملے، سردار بھی غریب آدمی تھا، ان لوگوں نے نہ صرف سردار کو اسکول بنانے کے لیے رضا مند کر لیا بلکہ وہ اپنی بیٹی رابعہ کو اسکول میں داخل کرانے کے لیے بھی تیار ہو گیا یوں زاہد سعید نے ہلال اسکول کے نام سے علاقے میں پہلا اسکول قائم کیا، اسکول میں چار سال سے لے کر 14 سال تک کے 50 بچے داخل ہوئے، وہ علاقہ مکمل انگوٹھا چھاپ تھا، بچے بھی ان پڑھ تھے اور ان کے والدین بھی چنانچہ اسکول کو چلانے میں بہت مشکلات پیش آئیں مگر یہ لوگ ڈٹے رہے یہاں تک کہ یہ لوگ کامیاب ہو گئے، سردار کی بیٹی رابعہ نے انٹرمیڈیٹ کیا، ٹیچنگ کا کورس کیا اور یہ اس وقت گرین کریسنٹ ٹرسٹ کے اسی اسکول میں استادہے۔

یہ ٹرسٹ سندھ میں اب تک 145 اسکول بنا چکا ہے، ان اسکولوں میں 32 ہزار طالب علم پڑھتے ہیں، یہ تمام اسکول چھ بزنس مین فیملیز کی زکوٰۃ اور صدقات پر چل رہے ہیں، ٹرسٹ نے آج تک کسی سرکاری اور غیر سرکاری ادارے سے مدد نہیں لی، یہ لوگ یہ صرف ان علاقوں میں اسکول بناتے ہیں جہاں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے یا پھر وہ علاقہ شہر سے اتنا دور ہے کہ وہاں حکومت اور استاد دونوں نہیں پہنچ پا رہے، یہ لوگ مقامی سردار یا وڈیرے کو اسکول کا سرپرست بنا دیتے ہیں، یہ اسی سے اسکول کا افتتاح کراتے ہیں اور سب سے پہلے اس کے بچوں کو داخلہ دیتے ہیں، یہ کرائے پر عمارت حاصل کرتے ہیں، عمارت کو جدید اسکول کی شکل دیتے ہیں، اس میں واش رومز اور پانی کا بندوبست کرتے ہیں اور بچوں کو وہ ساری سہولتیں فراہم کرتے ہیں جن کی یہ توقع تک نہیں کر سکتے۔

ہلال اسکول کے بچے اور ان کے والدین چٹے ان پڑھ ہوتے ہیں، ان لوگوں کو پڑھانا انتہائی مشکل ہوتا ہے چنانچہ ٹرسٹ نے ٹیچنگ ٹریننگ کا ایک ادارہ بھی بنا رکھا ہے، یہ ادارہ سی ای آر ڈی (سینٹر فار ایجوکیشن، ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ) کہلاتا ہے، یہ ادارہ اب تک ایک ہزار چار سو خصوصی استاد تیار کر چکا ہے، یہ ٹرسٹ جتوئی قبیلے کے لیے جتوئی استاد اور چانڈیو قبیلے کے بچوں کے لیے چانڈیو استاد تیار کرتا ہے، ٹرسٹ نے 20 برسوں میں کامیابی کی درجنوں داستانیں تخلیق کیں، ان داستانوں میں ایک داستان تھر بھی ہے، تھر ملک کا وہ علاقہ ہے جس میں آج تک حکومت بھی اسکول نہیں چلا سکی لیکن ان لوگوں نے نہ صرف وہاں اسکول بنائے بلکہ ان اسکولوں میں اڑھائی ہزار بچے زیر تعلیم ہیں۔

یہ ٹرسٹ اب تک درجنوں ڈاکٹرز، انجینئرز اور گریجویٹ پیدا کر چکا ہے، ان میں نوشہرو فیروز کی تحصیل مہران پور کی ایک بچی بھی شامل ہے، یہ بچی پولیو کا شکار تھی، یہ کمزور ٹانگوں کے باوجود اسکول آئی اور یہ اب ڈاکٹر ہے، ٹرسٹ کو تھر میں کام کرتے ہوئے دو دلچسپ تجربے ہوئے، پہلا تجربہ لوگوں کی غیرت تھا، تھر کے لوگ غربت کی نچلی لکیر پر زندگی گزار رہے ہیں، یہ پانی کی نعمت تک سے محروم ہیں مگر ان لوگوں نے اس کے باوجود اپنے بچوں کو زکوٰۃ کی رقم سے تعلیم دلانے سے انکار کر دیا، یہ لوگ اسکولوں میں باقاعدہ فیس ادا کرتے ہیں، دوسرا تجربہ پانی تھا۔

تھر کے ایک گاؤں میں پانی نہیں تھا، ٹرسٹ نے گاؤں میں ’’بور‘‘ کرایا، نلکے کے ساتھ چھوٹی سی ٹینکی بنائی، آٹھ ہزار روپے کا جنریٹر لگایا اور پورے گاؤں کو پانی دے دیا، پانی کے اس کنوئیں پر ٹرسٹ کے صرف 80 ہزار روپے خرچ ہوئے، ٹرسٹ کو یہاں سے نیا پراجیکٹ مل گیا، تھر میں کل 2300 دیہات ہیں، یہ لوگ اب تک 400 دیہات کے لیے پانی کا بندوبست کر چکے ہیں، یہ گاؤں میں پانچ لوگوں کی کمیٹی بناتے ہیں، یہ کمیٹی کنوئیں کی حفاظت بھی کرتی ہے اور یہ گاؤں کے تمام لوگوں کو پانی فراہم کرنے کی ذمے دار بھی ہوتی ہے، یہ لوگ کمیٹی کا ڈونر سے براہ راست رابطہ کرا دیتے ہیں، تھر میں دو سال قبل خوفناک قحط آیا لیکن اس قحط کے دوران بھی وہ تمام گاؤں محفوظ رہے جن میں گرین کریسنٹ ٹرسٹ نے پانی کے کنوئیں کھدوائے تھے، کیوں؟ کیونکہ قحط کے دوران بھی گاؤں کے لوگوں اور مال مویشیوں کو پانی ملتا رہا چنانچہ یہ لوگ اور ان کے مویشی دونوں محفوظ رہے۔

یہ گرین کریسنٹ ٹرسٹ کی دو حیران کن کامیابیاں ہیں، یہ لوگ وہاں اسکول بنا اور چلا رہے ہیں جہاں حکومت کامیاب نہیں ہو سکی، یہ لوگ تھر کے ان ریگستانوں میں پانی کا بندوبست کر رہے ہیں جہاں حکومتیں ناکام ہو چکی ہیں، یہ ان لوگوں اور ان کے ماڈل کی کامیابی ہے، پاکستان میں آج بھی اڑھائی کروڑ بچے اسکولوں سے محروم ہیں، یہ پانچ سے چودہ سال کے بچے ہیں، یہ تعداد آسٹریلیا کی کل آبادی سے زیادہ ہے، گویا ہمارے ملک میں جہالت کا پورا آسٹریلیا تیار ہو رہا ہے اور ہم خاموش بیٹھے ہیں، یہ لوگ اپنے وسائل سے جہالت کے اس آسٹریلیا کو چھوٹا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، آپ ان کا کمال دیکھئے ملک میں حالات کی خرابی کی وجہ سے اکثر سرکاری اسکول بند ہو جاتے ہیں لیکن ٹرسٹ کا کوئی اسکول پچھلے بیس برسوں کے دوران بند ہوا اور نہ ہی کسی جگہ لڑائی جھگڑے کا کوئی واقعہ پیش آیا، کیوں؟

ہماری حکومتوں کو اس کیوں کا جواب تلاش کرنا چاہیے، یہ لوگ صرف ایک لاکھ روپے میں تھر کے پورے گاؤں کے لیے پانی کا بندوبست بھی کر دیتے ہیں، تھر میں کل 2300 دیہات ہیں گویا حکومت اگر ان کے ماڈل کو کاپی کر لے یا یہ ان لوگوں کو تھر کے تمام دیہات کو پانی سپلائی کرنے کی ذمے داری سونپ دے تو پورے تھر کو 23 کروڑ روپے میں پانی مل جائے گا، حکومت مشکل اور دشوار گزار علاقوں میں اسکول بنانے اور چلانے کی ذمے داری بھی ان لوگوں کو دے سکتی ہے، حکومت ان کا ماڈل لے کر اپنے ٹرسٹ بھی بنا سکتی ہے، یہ ٹرسٹ ان کی لائنوں پر کام کر سکتے ہیں، مجھے یقین ہے یوں تعلیم اور پانی کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہو جائے گا۔

حکومت اگر کسی دن دیہات کے اسکولوں کا سروے کرائے، یہ اگر دیہی علاقوں کی جہالت کی وجوہات تلاش کرے تو یہ حیران رہ جائے گی، گاؤں کا اصل مسئلہ جہالت ہوتا ہے اور جہالت کبھی اکیلی نہیں آتی،یہ اپنے ساتھ دشمنی، نسلی عصبیت، ضد، ظلم اور بیماری بھی لے کر آتی ہے، آپ دنیا میں کسی جگہ دیکھ لیں، آپ کو جاہل شخص میں ضد بھی نظر آئے گی، ظلم بھی، جانبداری بھی اور بیماری بھی اور اس جاہل شخص کا کوئی نہ کوئی دشمن بھی ضرور ہو گا، حکومتیں اس نفسیات کو سمجھے بغیر اسکول بنا دیتی ہیں، یہ بھول جاتی ہیں جتوئی قبیلے کے لوگ اپنے بچے چانڈیو استاد کے پاس نہیں بھجوائیں گے، یہ دونوں رند کو قبول نہیں کریں گے اور رند بچے استاد کے نام کے ساتھ شاہ کو تسلیم نہیں کریں گے۔

حکومتیں یہ بھی بھول جاتی ہیں قبائل آج بھی اپنے وڈیرے، اپنے سردار کو حکومت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں لہٰذا آپ ان کے علاقوں میں وڈیرے کو شامل کیے بغیر اسکول نہیں چلا سکیں گے اور گرین کریسنٹ ٹرسٹ نے یہ دونوں کام کیے، یہ اسکول کو وڈیرے کی سرپرستی میں دے دیتے ہیں، یہ چانڈیو بچوں کے لیے چانڈیو استاد ٹرینڈ کر دیتے ہیں اور جتوئی بچوں کو جتوئی ٹیچر فراہم کر دیتے ہیں چنانچہ ان کے اسکول بند نہیں ہوتے، یہ لوگ کاروباری بھی ہیں، یہ چیزوں کی اصل ویلیو اور ان کے آپریشن کو سمجھتے ہیں۔

یہ جانتے ہیں آپ جب تک مقامی لوگوں کو ’’اونرشپ‘‘ نہیں دیتے، آپ اس وقت تک کوئی منصوبہ نہیں چلا سکتے چنانچہ یہ لوگ 80 ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے میں پانی کا کنواں کھدواتے اور پھر یہ کنوئیں مقامی کمیٹی کے حوالے کر دیتے ہیں اور یہ کمیٹی اپنی مدد آپ کے تحت کنواں چلاتی رہتی ہے اور یوں پانی کا مسئلہ مستقلاً حل ہو جاتا ہے جب کہ ان کے مقابلے میں صوبائی حکومتیں ہوں یا پھر وفاقی یہ سالانہ اربوں روپے خرچ کرتی ہیں لیکن عوام کو تعلیم مل رہی ہے اور نہ ہی پانی، آپ کسی دن اخبارات کھول کر دیکھ لیجیے، آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے سندھ حکومت اب تک تھر میں اربوں روپے خرچ کر چکی ہے۔

وفاقی حکومت بھی اربوں روپے کی گرانٹ دے چکی ہے لیکن قحط بھی اپنی جگہ موجود ہے، خشک سالی بھی، بھوک بھی، اور نقل مکانی بھی، کیوں؟ کیونکہ آپ تھر کے حالات اور تاریخ دیکھ کر تھر کے فیصلے نہیں کر رہے، آپ یہ جانتے ہی نہیں ہیں تھر کو کیا چاہیے؟ تھر کو صرف پانی چاہیے، یہ لوگ پانی کے لیے نقل مکانی کرتے ہیں اور یہ نقل مکانی ان کے جانوروں کو بھی مار دیتی ہے اور ان کے بچوں کو بھی اور یہ لوگ خود بھی پیٹ کی بیماریوں کے شکار ہو جاتے ہیں، حکومت اگر گرین کریسنٹ ٹرسٹ کے ساتھ مل کر 2300 دیہاتوں میں پانی کے کنوئیں کھدوا دے اور یہ لانگ ٹرم کے طور پر تھر سے کوئی بڑی نہر نکال دے تو تھر کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا، حکومت اگر اسی طرح اسکولوں سے محروم اڑھائی کروڑ بچوں کا ڈیٹا جمع کرے، بچوں کے مقام اور آبادی کا تخمینہ لگائے۔

گرین کریسنٹ ٹرسٹ جیسے ادارے تلاش کرے، مخیر حضرات کی مدد لے اور تعلیم سے محروم ان بچوں کی ذمے داری ان لوگوں کو سونپ دے تو ملک میں تعلیمی انقلاب آ جائے گا لیکن اس انقلاب سے پہلے ہمیں یہ ماننا ہوگا ہمارے سرکاری ادارے نااہل ہیں، یہ 21 ویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ نہیں کر سکتے چنانچہ حکومتوں کو عوامی مسائل کے حل کے لیے کارپوریٹ سیکٹر کی مدد لینا ہوگی، ہمیں یہ مدد فوراً لینی چاہیے، یہ ہمارے لوگ ہیں، یہ لوگ دل سے اس ملک کو ترقی یافتہ اور خوش حال دیکھنا چاہتے ہیں چنانچہ آپ ان کی سپورٹ لیں، اس سے پہلے کہ یہ سپورٹ دینے اور آپ سپورٹ لینے کے قابل نہ رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔