دل کا معاملہ ہے

رئیس فاطمہ  اتوار 5 جون 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

ہمارے بعض خودساختہ ’’دانشور‘‘ مغل بادشاہوں کو ملاحیاں سنانے سے نہیں تھکتے کہ شاہ جہاں نے اپنی چہیتی بیگم کے لیے تاج محل نامی شاندار مقبرہ تو بنوا دیا جس کا شمار عجائبات عالم میں ہوتا ہے بلکہ کچھ عرصہ پہلے اسے ایک بے مثال اور نادرالوجود شاہکار کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ ہمارے دانشور یہ کہتے نہیں تھکتے کہ شاہ جہاں نے اگر اسپتال بنوائے ہوتے، تو اس کی چہیتی بیگم زچگی میں نہ مرتی۔ یہ بھی اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ مغلوں نے تعمیرات پر بے دریغ پیسہ خرچ کیا، لیکن کالج اور یونیورسٹیاں نہ بنائیں۔

چلیے مان لیا کہ دانشورکسی بھی متعصب رویے کی وجہ سے ایسا کہنے پہ مجبور ہیں کہ ان کی بھی ’’روزی روٹی‘‘کی اپنی اپنی مجبوریاں اور اپنی اپنی وفاداریاں انھیں ایسے بیانات دینے پہ مجبورکرتی ہیں لیکن پاکستان بننے کے بعد جاگیردارانہ نظام، سرمایہ دار اور صنعت کار طبقے کے قابض ہونے کے بعد جو مغل شہزادے تخت شاہی پہ متمکن نظرآتے ہیں، انھوں نے اپنے دور حکومت میں کتنے اسپتال، اورکتنے کالج اور اسکول بنائے ہیں؟ مغلوں، لودھیوں، اشوک دی گریٹ، راجپوتوں سمیت ہندو اور مسلمان راجوں، مہاراجوں اور بادشاہوں نے جگہ جگہ شفا خانے بنوائے تھے، جہاں غریبوں کا علاج مفت بھی ہوتا تھا اور ماہر جراح معاوضہ لے کر بھی جسم سے گندہ خون نکال دیتے تھے، لیکن آج کے مغل شہزادوں نے کتنے سرکاری اسپتال بنوائے؟

ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاالحق، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، پرویزمشرف،آصف علی زرداری، میاں نواز شریف سمیت کس نے اپنے دور میں کوئی معیاری اسپتال غریبوں کے لیے بنوایا؟ پی پی نے صرف اس کہاوت کو زندہ کیا کہ ’’دادا جی کی فاتحہ، حلوائی کی دکان‘‘ موصوف محترمہ بی بی رانی شہید کے نام کی تختیاں لگواتے رہے، کبھی ایئرپورٹ کا نام بدل دیا، کبھی کسی شہرکا۔ گویا انگلی کٹا کے شہیدوں میں شامل ہونے کا پورا پورا ثبوت دے دیا۔ رہ گئے موجودہ حکمران تو وہ لندن کے اسپتال میں داخل ہوگئے ہیں۔ کیوں ہوئے ہیں؟ یہ تو پتہ نہیں، کیونکہ حکومت اس اسپتال کا نام بتانے سے گریزاں ہے، جہاں وہ استراحت فرما رہے ہیں۔ اس اوپن ہارٹ سرجری کا اتنا اچانک سن کر حیرت بھی ہوئی۔

ابھی پچھلے دنوں تو وہ ماشا اللہ ٹھیک ٹھاک ترکی کے دورے کر رہے تھے۔ ترکی صدرکی صاحبزادی کے نکاح نامے پر بطور گواہ دستخط بھی فرما چکے ہیں۔ پھر یہ اچانک ’’دردِ دل‘‘ کیا کیجیے۔ دل کا معاملہ ہے۔ سجنو کو کچھ بھی کرنے کو کہا گیا ہے۔ خدا کرے انھیں احساس ہوکہ جس بدنصیب ملک کے وہ بادشاہ ہیں، جس ملک نے انھیں دولت سے نوازا، جس ملک کے پیسے سے وہ نزلہ، زکام، کھانسی اور اوپن ہارٹ سرجری کراتے ہیں، اس ملک میں اس معیار کا کوئی اسپتال نہیں ہے؟ جہاں یہ مغل شہزادوں کو شرمندہ کرنے والے اپنا علاج کروا سکیں؟ یا پھر معاملہ ’’کچھ اور‘‘ ہے۔ اسی لیے اسپتال کا نام بھی خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ اوپن ہارٹ سرجری اتنی اچانک نہیں ہوتی، ڈاکٹرز پہلے سے کچھ پیچیدگیوں کی طرف اشارہ کردیتے ہیں۔ کچھ ابتدائی تدابیر ہوتی ہیں جن کے ذریعے بند شریانوں کو کھولا جاتا ہے۔

ان میں اگر کامیابی نہ ہو تب اوپن ہارٹ سرجری کا مشورہ دیا جاتا ہے۔اب لوگوں کی زبان کو کون روکے؟ جتنے منہ اتنی باتیں، کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وقت لیا جارہا ہے۔ پھر رمضان کا مبارک مہینہ، پھر عید کی تعطیلات، پھر بجٹ اور بجٹ پر بحث وغیرہ وغیرہ۔ لیکن مجھے نہ جانے کیوں بھارتی ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والا ایک بہت پرانا ڈرامہ یاد آگیا، جس میں کرپٹ سیاستدان کرپشن سے بچنے کے لیے اچانک دل کے عارضے میں مبتلا ہوکر اسپتال میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ان سے کسی کو ملنے نہیں دیا جاتا، پریس اور میڈیا کو ان کی تشویش ناک حالت کی بنا پر ان سے دور رکھا جاتا ہے۔

صرف مخصوص ڈاکٹر اور خوبصورت مخصوص نرسیں ہی ان کے قریب رہتی ہیں۔ جونہی انویسٹی گیشن کے لیے مخصوص اداروں کے افسران وزیر موصوف سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں یا بیان لینا چاہتے ہیں ان کا ڈاکٹر انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ وزیر موصوف چین کی بنسری بجاتے آرام فرماتے ہیں، ادھر ڈاکٹر تمام فائلیں باریکی سے تیار کرتے ہیں۔ ہر ممکنہ بیماری کا اندراج کر کے فائل بند کرتے ہیں۔ دوسری طرف ایماندار تفتیشی افسر کا تبادلہ کسی دور افتادہ مقام پر کردیا جاتا ہے۔ چند دن بعد وزیر صحت یاب ہوکر دوبارہ دنیاوی امور میں مصروف ہوجاتے ہیں لیکن ہمارے حکمران واقعی علیل ہیں۔ نہ جانے کتنے کالے بکروں کا صدقہ دیا گیا۔

زرداری دور میں جب ان کی صحت یابی کے لیے کالے بکروں کی کمی پڑ گئی تو سنا ہے ہاتھ کی صفائی دکھانے والوں نے بکروں پہ کالا رنگ کرکے مہنگے داموں فروخت کیا۔ کیسا الم ناک تضاد ہے۔ حکمرانوں کے لیے لندن کے اسپتال، لاتعداد کالے بکروں کا صدقہ۔ اور غریبوں کے لیے علاج کے لیے دوائیں بھی ان کی پہنچ سے دور۔ کالے بکروں کے صدقے کی جگہ بیماریوں اور ٹریفک میں مرتے غریبوں کے بچے، جن کا جرم ان کی غربت ہے۔ اب بتائیے؟ کہ مغل شہنشاہ نے جو تعمیرات کروائیں خواہ تاج محل جیسی لاثانی عمارت ہو، آگرہ فورٹ ہو، لال قلعہ ہو، بادشاہی جامع مسجد ہو، ہمایوں کا مقبرہ ہو، حضرت سلیم چشتیؒ کا مزار ہو یا پرانا قلعہ یا دیگر تعمیرات۔ یہ سب بھارت کو کثیر سرمایہ مہیا کر رہا ہے۔

ساری دنیا سے آنے والے سیاحوں کے ڈالرز، پونڈز، یورو اور دینار انھی مقامات کی سیر سے حاصل ہوتے ہیں۔ نفرت اور تعصب سچ کو چھپا دیتا ہے۔ میں پھر اپنا سوال دہراتی ہوں کہ آج کے مغل شہزادوں سے کئی گنا زیادہ عیش و عشرت اور عیاشی کی زندگی بسر کرنے والوں نے اپنے عوام کے لیے کیا کیا؟ پینے کا صاف پانی تک ٹینکر مافیا کی دسترس میں دے دیا، دواؤں کی قیمتیں چار سو فی صد تک بڑھا دیں۔ غیر معیاری کٹس کے استعمال سے خون کی بیماریاں پھیلنے لگیں، ہیرونچی اور نشئی خون بیچ کر اپنا نشہ پورا کر رہے ہیں اور یہ فاسد خون صحت مند لوگوں کو بیمار کر رہا ہے۔ مگر انھیں کیا؟ ان کی بیماریوں کے لیے لندن، چائنا، روس، ترکی، امریکا اور کینیڈا کے اسپتال اور ڈاکٹرز جو موجود ہیں۔

صدقوں کے بکرے ان کے لیے، گندے نالوں کا رزق بھوکے ننگے عوام کے لیے۔ کہ یہ ظل الٰہی ہیں۔ زمین پر خدا کا سایہ ہیں؟ مگر خدا کہاں ہے؟ وہ کب تک ظلم کی اور ظالم کی رسی کو دراز کرے گا؟ اے خدا! ایک نظر ادھر بھی دیکھ لے جہاں لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح مر رہے ہیں۔ بھوک، پیاس، غربت، مہنگائی جنھیں مار رہی ہے۔ اور دوسری طرف آف شور کمپنیاں ہیں، لندن کے مہنگے اسپتال ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے۔ اللہ کا شکر کہ وزیر اعظم کا آپریشن کامیاب رہا۔ پانچ گھنٹے کے طویل آپریشن کے بعد وہ ہوش میں بھی آگئے ورنہ تو اوپن ہارٹ سرجری کے بعد طویل عرصے تک احتیاطی تدابیر بتائی جاتی ہیں لیکن ہمارے وزیر اعظم کی چاروں شریانیں فرشتوں نے اسی طرح کھول کر ٹھیک کردیں جیساکہ سنا ہے 1965 کی پاک بھارت جنگ میں بعض ’’دین دار‘‘ لوگوں نے آسمان سے فرشتوں کو آتے اور جنگ کرتے دیکھا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔