پانامہ لیکس سے جان چھڑانے کیلیے نوازشریف صدر بن سکتے ہیں

رحمت علی رازی  اتوار 5 جون 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

دُنیا میں یہ پہلی اور انوکھی مثال ہے کہ کوئی ملک بغیر حکومت کے چل رہا ہو۔ رہنما کے بغیر کاررواں منزل تک نہیں پہنچ سکتا اور کپتان کے بغیر کوئی ٹیم میچ نہیں جیت سکتی۔ دشمنوں سے گھری ایٹمی طاقت پاکستان، جس پر پہلے ہی ناکام ریاست کا لیبل چسپاں ہے، لیڈر شپ کی عدم دستیابی کیوجہ سے لاوارث ریاست کا درجہ بھی حاصل کرچکی ہے۔ بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان میں حکومتیں چلانا ہمارے ہاں جمہوری رواج سا بن گیا ہے۔

لمحۂ موجود میں تین بڑی سیاسی جماعتوں کے پروپرائیٹر ملک سے باہر بیٹھ کر اپنی سلطنتیں چلا رہے ہیں۔ پاکستان کی چوتھی بڑی سیاسی حقیقت ایم کیو ایم کے قائد 22سالوں سے انگلینڈ میں بیٹھ کر اپنی کٹھ پتلیوں کی رسیاں کھینچ رہے اور انھیں اپنی من مرضی کے مطابق نچا رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے حادثاتی وارث آصف علی زرداری بھی دبئی اور لندن میں بیٹھ کر سندھ حکومت، فیڈرل اپوزیشن، سینیٹ اور جماعتی اُمور کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اب نوازشریف بھی بطور وزیراعظم امورِ مملکت لندن میں بیٹھ کر چلانے لگے ہیں۔ عمران خان بھی اکثر و بیشتر انگلینڈ کے دوروں پر ہوتے ہیں، وہ کئی اہم ایجنڈے جہاز میں بیٹھ کر طے کرتے ہیں تو کئی فیصلے فنڈریزنگ مہمات کے دوران صادر فرماتے ہیں۔

طاہرالقادری اور پرویزمشرف کا بھی یہی حال ہے۔ بدیسوں میں بیٹھ کر حکومتیں چلانے والے یہ فصلی بٹیرے ریاست اور قانون کے بھگوڑے ہیں، ملک میں رہ کر انھیں قانون کے شکنجے میں آنے کا خوف ہمہ وقت لاحق رہتا ہے۔ الطاف حسین اور آصف زرداری مقتدرہ کے ہدف ہیں اور انھیں یقینِ کامل ہے کہ پاکستان آتے ہی انھیں دھر لیا جائے گا۔ نوازشریف کو یہاں پانامہ لیکس کے بھوت ستاتے ہیں جن سے ڈر کر وہ بار بار انگلینڈ بھاگ جاتے ہیں۔ مشرف کے پیچھے بھی مکافات کے جنات پڑے ہوئے تھے جن سے جان چھڑانے کے لیے وہ بھی خدا خدا کرکے یہاں سے بھاگ لیے۔

عمران خان اور طاہرالقادری کو بھی شاید اب یہی تدبیر اختیار کرنا پڑیگی کیونکہ ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو پر تشدد کے مقدمہ میں ان دونوں کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں۔ ایسا صرف پاکستان میں ہوتا ہے، روئے زمین پر پائے جانے والے اور کسی ملک میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ سیاسی جماعتیں ولایت میں ڈیرے جما کر حکومتی یا جماعتی نظام چلاتی ہوں۔ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے گھناؤنے سے گھناؤنے جرم کو قانونی و اخلاقی جواز مہیا کرنا پاکستان کے قانون ساز اداروں کا فخریہ کارنامہ ہے تاہم الیکشن کمیشن اور عدلیہ کا کردار اور بھی افسوسناک ہے جنہوں نے تمام حالات دیکھتے بوجھتے ہوئے بھی آج تک ایسی کوئی آبزرویشن جاری نہیں کی جو بیرون ملک بیٹھ کر پاکستانی عوام کی تقدیر کے فیصلے کرنیوالوں کو لگام ڈال سکے۔

اگر ایم کیو ایم کو شروع ہی میں سیاسی طور پر دباؤ میں رکھا جاتا تو آج زرداری اور نوازشریف کو بھی یہ غنیم مواقع میسر نہ آتے۔ ملک سے باہر بیٹھ کر حکومتیں چلانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے انڈر وَرلڈ کے ڈَون حضرات پرتگال، ساؤتھ افریقہ، بینکاک اور ملائیشیا کی محفوظ پناہ گاہوں میں بیٹھ کر مطلوبہ ممالک میں اپنے نیٹ ورک چلاتے ہیں۔ جہاں تک نوازشریف کا تعلق ہے تو انھیں فی الوقت تھوڑی رعایت اس لیے دینا پڑیگی کہ انھوں نے اوپن ہارٹ سرجری کروا کر یہ ضرور ثابت کر دیا کہ وہ واقعی بیمار ہیں اور ان کی بیماری سیاسی ہونے کے باوجود طبی وجوہات رکھتی ہے، حالانکہ در حقیقت ان کی بیماری فزیکل ہونے کے باوجود سیاسی وجوہات کی حامل ہے۔

نوازشریف کی علالت کی بابت سیاسی اور ابلاغی حلقوں میں گونا گوں شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں۔ ان کے مخالفین میں ایک خاص رجحان رکھنے والا طبقہ ایسا بھی ہے جو یہ ماننے کو ہرگز تیار نہیں کہ نوازشریف کو کوئی عارضہ لاحق ہے۔ ہمارے ایک مقرب صحافی کو وزیراعظم کے دل کا مبینہ آپریشن ہوجانے کے بعد تک یقین نہیں آ پایا کہ اس ساری کہانی کا حقیقت سے کوئی تعلق ہے۔ حالات وواقعات کو دیکھتے ہوئے ایک لمحے کو تو ہر ذی فہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اگر وزیراعظم کو اتنا گھمبیر عارضۂ قلب لاحق تھاجس کے لیے انھیں 4 بائی پاسز سے گزرنا پڑا تو انھیں پہلے اس شدید تکلیف کا احساس کیوں نہ ہوا، پانامہ دستاویزات کے منظرعام پر آنے کے بعد ہی انھیں دل کے چیک اپ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

ایک متمول آدمی تو چہرے پر مکھی بیٹھ جانے پر بھی سکن الرجی کے خوف سے ڈاکٹر سے رجوع کیے بغیر نہیں رہ سکتا، تو سرکاری اخراجات پر پرتعیش زندگی گزارنے والا ملک کا وزیراعظم،دل کی اتنی بڑی بیماری کے باوجود بے علاج کیسے جیتا آرہا تھا؟ اس پر کوئی شبہ کرے تو کیونکر نہ کرے؟ یہ تو سب کے علم میں ہے کہ 4اپریل کو پانامہ پیپرز کے میڈیا میں آنے کے بعد نوازشریف جب قوم کو مطمئن نہ کرسکے تو انھیں دل کا عارضہ لاحق ہوگیا اور وہ ماں کی دعائیں لے کر چیک اپ کے لیے لندن جانکلے، مانا کہ بدترین خبروں کا انسان کے دل پر برا اثر پڑتا ہے اور کمزور دل والوں کو تو دل کا دورہ بھی پڑجاتا ہے مگر وزیراعظم یہ تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں کہ ان کی بیماری پانامہ ٹینشن کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے بلکہ بجائے اس کے وہ یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ وہ دل کے پرانے مریض ہیں اور وہ 2011 میں بھی ٹریٹمنٹ کروا چکے ہیں۔

حسن نواز کہتے ہیں پہلے آپریشن کے دوران کچھ پیچیدگیاں رہ گئی تھیں جن کی وجہ سے انھیں اکثر قلبی کلفت رہتی تھی۔ مریم نواز فرماتی ہیں ڈاکٹروں نے دو سال پہلے انھیں بائی پاس کا مشورہ دیا تھا مگر وہ سیاسی مصروفیات کی بنا پر اس کے لیے مناسب وقت نہ نکال پائے۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ آسانی سے وقت نکال سکتے تھے تب تو آپریشن کی ضرورت پیش نہ آئی اور جب ملکی حالات انتہائی تناؤ کا شکارہیں اور ایک طرف پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری پر حملہ کیا گیا ہے، تو کیا یہی وقت انھیں آپریشن کے لیے مناسب لگا؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ اعلانِ جنگ ہو جانے پر محاذ پر جانے کے بجائے کمانڈر چھٹی پر چلا جائے۔ اس پر مستزاد یہ کہ 4بائی پاس، اور وہ بھی کامیاب؟

دُنیا میں یہ انوکھا سا واقعہ ہے جس میں 4بائی پاس ایک ساتھ ہوئے ہیں۔ بائی پاس کا مطلب ہے متبادل شریان، یعنی دل کے نچلے حصہ سے ایک اجنبی شریان کو باہر ہی باہر سے اوپر والے حصہ میں پیوست کرنا۔ اور پھر یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ایک ایسا دل جسے خون پمپ کرنے کے لیے چار نئی شریانوں کی ضرورت ہو، وہ اجنبی شریان کے ساتھ کام کرنے پر مستعدی ظاہر کریگا۔ نئی شریان پاؤں کی شریانوں سے کاٹی جاتی ہے، ایک شخص کے پاؤں سے چار شریانیں نکالنا (جو پہلے ہی ٹانگوں کے کھچاؤ کا مریض ہو) کچھ ناممکن سی بات لگتی ہے۔

وزیراعظم کا آپریشن ایک پرائیویٹ کلینک نما اسپتال میں ہوا جسکے ڈاکٹروں میں کچھ پاکستانی بھی شامل ہیں، اس طرح کے آپریشنز میں بہت سی باتیں صیغۂ راز میں ہوتی ہیں جن کے لیے مخصوص لوگ ہائر کیے جاتے ہیں، اس نوعیت کے آپریشن ماضی میں اکثر شاہی خاندانوں میں ہوتے رہے ہیں جنہیں سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے عمل میں لایا جاتا رہاہے۔

طبی ماہرین کے مطابق آج کل اوپن ہارٹ سرجری آپریشن کے بغیر بھی ممکن ہے، اور ضروری نہیں کہ وزیراعظم کو نئی شریانیں لگاکر چار بائی پاس کیے گئے ہوں، عین ممکن ہے کہ ان کی چار شریانوں کی صفائی کی گئی ہو جسے 4بائی پاسز کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم اپوزیشن کے سوالات کی یلغار سے بچنے کے لیے دل کے آپریشن میں جاکر پناہ گزین ہوگئے ، یہ تشکیک اس وقت اور بھی فزوں ہو گئی جب دورانِ آپریشن محترمہ مریم نواز صاحبہ ہر 20منٹ بعد آپریشن تھیٹر کی سوئیوں اور نشتروں کی خبریں بھی مسلسل ٹوئیٹ کرتی رہیں۔

عام طور پرایسے سنجیدہ آپریشن کے دوران مریض کے قریبی سے قریبی لواحقین کو بھی آپریشن تھیٹر میں آنے اور مریض سے ملنے یا آپریشن سے متعلق کوئی معلومات حاصل کرنیکا استحقاق نہیں ہوتا، جس طرح مریم نواز نے آپریشن کی لحظہ بہ لحظہ کہانی سوشل میڈیا پر عام کی ، یہ تو کسی پہلے سے لکھے ہوئے اسکرپٹ کا حصہ ہی ہوسکتا ہے، مگر ہمیں اس شش و پنج کی ساری پیچیدگیوں کے باوجود آنکھیں بند کرکے وزیراعظم کی بیماری اور علاج کے پراسیس پر یقین کرنا پڑیگا کیونکہ جسے ساری دنیا سچ مان لے اسے سچ تسلیم نہ بھی کیا جائے تو کم ازکم تسلیم ضرور کرلینا چاہیے۔

پاکستان پہلے ہی سازشی تھیوریوں کا گڑھ بنا ہوا ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ حکومت مخالف لابی کی اس سازشی تھیوری کی حمایت کی جائے۔ تمام تھیوریوں کو بالائے طاق رکھ کر دقیق و بلیغ نقطۂ نظر اپنایا جائے تو یہ مِین میکھ واضح ہوجاتی ہے کہ جب نوازشریف پچھلی مرتبہ میڈیکل چیک اپ کے بہانے لندن گئے اور واپسی پر انھیں اس الزام کا سامنا کرنا پڑاکہ وہ زرداری سے مفاہمت کرنے گئے تھے تو دوسری مرتبہ انھوں نے حقیقتاً زرداری سے مُک مکا کرنے کے لیے ظاہری پلان بنایا جسے عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ مولانا فضل الرحمن کو بطور ثالث ساتھ لے گئے۔

مولانا صاحب نے تو آکر یہی اعلان کیا کہ نواز زرداری مفاہمت ہوچکی ہے مگر زرداری کی خلافِ عادت تردید سے شکوک کے بادل چھٹنے کے بجائے مزید گہرے ہوگئے۔ خبر یہ تھی کہ زرداری نے نوازشریف پر 90ڈگری کا دباؤ ڈلوانے کے لیے اپنی جماعت کو متحرک کیا تھا، بلاول کی ترش تقریریں بھی اسی ایجنڈے کا حصہ تھیں، یہ پیپلزپارٹی کی مدبرانہ حکمتِ عملی تھی کہ انھوں نے وزیراعظم کو تنہا کرنے کے لیے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو بھی ساتھ ملا لیا، اس طرح حکومت متفقہ ٹی او آر کے لیے پارلیمانی کمیٹی پر راضی ہوگئی۔ پیپلزپارٹی نوازشریف کو دونوں اطراف سے گھیرنے کی پوزیشن سنبھالنا چاہتی تھی۔

اوّل یہ کہ اگر نوازشریف گھبرا کر زرداری کے پاس جا پہنچیں گے تو انھیں مجبوراً زرداری کے مطالبات ماننا پڑینگے۔ دوئم یہ کہ بالفرضِ محال اگر نوازشریف زرداری تک رسائی حاصل نہیں کرتے یا ان کے مطالبات رَد کردیتے ہیں تو پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے من پسند ٹی او آر پر آمادہ کرکے نون لیگ سے ایک ایسا قانون منظور کروا لیا جائے جسکے دام میں وہ خودہی گرفتار ہوجائے۔ پیپلزپارٹی کی یہ ایک ایسی حکمتِ عملی ہے جس سے حکومت بند گلی میں چلی گئی ہے۔ نوازشریف جب ڈیرہ اسماعیل خان میں جلسہ کررہے تھے تو ان کے وہاں پہنچنے سے پہلے آصف زرداری کی مولانا فضل الرحمن سے ’’آپس کی بات،، ہوچکی تھی جس کی خوشخبری انھوں نے نوازشریف کو تقریر شروع کرنے سے پہلے سنا دی تھی، نوازشریف نے اسی خوشی میں مولانا پر بہت سے ترقیاتی منصوبے نچھاور کرنے کا اعلان بھی کیا۔

فضل الرحمن آج بھی نوازشریف سے زیادہ زرداری کے قریبی ہیں، انھی کے ذریعے زرداری صاحب نوازشریف کو اپنے جال میں پھنسانا چاہتے تھے۔ بظاہر تو لوگوں نے یہی سمجھا کہ نوازشریف مولانا کو لندن ساتھ لے گئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ زرداری کے منصوبہ کے مطابق مولانا نے خود نوازشریف کو لندن چلنے کا پلان دیا اور انھیں یقین دلایا کہ وہ ہر قیمت پر سابق صدر کو مفاہمت پر آمادہ کرلینگے۔ لندن پہنچ کر زرداری نے مولانا پر زور دیا کہ وہ ان کے مطالبات منوانے کے لیے وزیراعظم پر دباؤ ڈالیں، مطالبات کی فہرست تو کافی طویل تھی جن میں سرفہرست مطالبہ ممنون حسین کو مستعفی کروا کر زرداری کو دوبارہ ملک کا صدر بنانے کا تھا۔

زرداری کی یہ بھی تجویز تھی کہ اگر نون لیگ انھیں صدر بنانے پر آمادہ ہوجائے تو وہ دیگر مطالبات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہیں۔ مولانا بھی نوازشریف کو زرداری کا یہ مطالبہ مان لینے پر اُکساتے رہے اور نوازشریف نے اس پر آمادگی بھی ظاہر کردی مگر حتمی فیصلہ وطن واپسی پر پارٹی مشاورت کے بعد ہونا تھا جو وزیراعظم کے آپریشن کی وجہ سے مؤخر کردیا گیا۔ اسحاق ڈار، خواجہ آصف اور پرویز رشید تو اس فیصلے پر پھولے نہیں سما رہے تھے مگر جب اس بات کی بھِنک چوہدری نثار کو پڑی تو وہ غصے میں آ گئے اور اعتراض کیا کہ زرداری نے فوج کے خلاف بہت کچھ کہا ہے اور مقتدرہ ان کا صدر بننا تو دُور کی بات، ان کا پاکستان میں واپس آنا بھی گوارہ نہیں کریگی۔

بعض حلقے نثار، شہباز کی آرمی چیف سے ملاقات کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھتے ہیں لیکن بات بنی نہیں۔ گویا اب اگر نوازشریف چاہیں بھی تو زرداری کو صدر نہیں بنا سکتے۔ نوازشریف شاید اس حقیقت سے لاعلم ہیں کہ وہ صدر سے جبری استعفیٰ نہیں لے سکتے۔ اس سے بھی زیادہ بے خبر وہ اس صورتحال سے ہیں کہ جب آصف زرداری صدر بن جائینگے تو پھر پانچ سال کے لیے انھیں کوئی طاقت عہدۂ صدارت سے الگ نہیں کرسکے گی۔ انھیں صدر بنانے کا مطلب یہی ہوگا کہ ملک میں دوبارہ پیپلزپارٹی کی حکومت لوٹ آئی اور نوازشریف یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویزاشرف کی طرح ایک کٹھ پتلی وزیراعظم بن کر رہ جائینگے۔

سینیٹ میں قبل ازیں پیپلزپارٹی کی اجارہ داری ہے، صدر کے پاس حکومت ختم کرکے ایمرجنسی لگانے کا اختیار بھی موجود ہے، وہ جس صوبے میں چاہے گورنر راج بھی لگا سکتا ہے، کسی بھی نوعیت کا آرڈیننس جاری کرکے کوئی بھی ایکشن کرسکتا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ صدر ممنون حسین اپنی وفاداری کے بوجھ تلے دب کر گوشہ نشین صدر کا کردار ادا کررہے ہیں، اٹھارہویں ترمیم کے مطابق بیشمار اختیارات آج بھی صدر کے پاس ہیں اور یہ بات آج بھی سر اٹھا رہی ہے کہ ملک میں صدارتی نظام ہے یا پارلیمانی؟ اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ پرویز مشرف طاقتور ترین صدر تھے، حالانکہ ان کے ہوتے ہوئے بھی وزیراعظم کا عہدہ موجود رہا۔

زرداری نے بھی پرویزمشرف کے اختیارات استعمال میں رکھے اور ملکی و بین الاقوامی معاملات خود سنبھالتے رہے۔ ممنون حسین بھی چاہیں تو ویسے ہی صدر بن سکتے ہیں اور وزیراعظم کی عدم موجودگی میں امورِ مملکت سنبھال سکتے ہیں مگر ان کی یہ مجال کہاں کہ وہ نون لیگ سے بغاوت پر اُتر آئیں۔ فضل الرحمن آج بھی یہ اُمید دل میں لیے بیٹھے ہیں کہ نوازشریف واپسی پر زرداری کو صدرِ پاکستان بنانے کی تجویز پر عمل کرینگے۔

ایسا ہو جانے کی صورت میں مولانا کے تو ہاتھ پاؤں گھی میں ہونگے، خیبرپختونخوا کا وزیراعلیٰ بنانے کا وعدہ تو ان سے نواز شریف پہلے ہی کرچکے ہیں، اب زرداری نے کے پی کے کی وزارتِ اعلیٰ کے ساتھ ساتھ ان کے بھائی کو بلوچستان کا گورنر بنانے کا وعدہ بھی کرلیاہے اور جب صدر بھی ان کا اور وزیراعظم بھی ان کا ہوگا تو مولانا کے تو وارے نیارے ہو جائینگے، مگر ہمیں نہیں لگتا کہ مولانا کے یہ خواب پورے ہوپائینگے کیونکہ زرداری کے لیے اب اس ملک میں واپس آنا ممکن نہیں رہا۔ اگر نوازشریف مقتدرہ کی ناراضی اور انجانے خطرات مول لے کر یہ قدم اٹھائیں گے تو وہ اور بھی مشکل میں پڑ جائینگے۔

زرداری نے فی الوقت بھلے ہی انھیں یقین دہانی کرائی ہے کہ دونوں بطور صدر اور وزیراعظم ملکر راحیل شریف اور عمران خان کا مقابلہ کرینگے مگر یہ بات بھی دھیان میں رہنی چاہیے کہ زرداری معاہدوں کو حدیث کا درجہ بالکل بھی نہیں دیتے اوروہ ان سے مُکر جانے میں بھی دیر نہیں لگاتے، چنانچہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ وہ صدر بن جانے کے بعد نوازشریف سے آنکھیں پھیر لیں اور انھیں ناکوں چنے چبوانا شروع کردیں، وہ اپنی فطرت کے مطابق نوازشریف اور ان کی پارٹی کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ نوازشریف ان کے دیگر مطالبے نہ بھی مانیں تو صدر بن جانے کے بعد باقی مطالبات بے معنی ہوکر رہ جائینگے اور تب وہ اس پوزیشن میں ہونگے کہ سندھ کے بگڑے معاملات کو خود سلجھاسکیں۔

شنید ہے کہ ڈاکٹر عاصم کو بیرونِ ملک بھگانے کی تیاریاں زوروں پر ہیں اور وہ مُہروں کی تکلیف یا اہلیہ کے کینسر کا بہانہ بنا کر علاج کی غرض سے دبئی جاسکتے ہیں، ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو ان کے فرار ہوجانے سے پاکستان کا کوئی نقصان نہیں ہونے والا کیونکہ ان کے یہاں رہنے سے بھی پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔ ہمارا عدالتی نظام اس قابل نہیں ہے جو ڈاکٹر عاصم جیسے مجرموں کو عبرتناک سزا دے سکے، یہاں صرف سالہا سال مقدمے چلتے ہیں، تاریخیں پڑتی ہیں، میڈیا ٹرائل ہوتے ہیں اور فیصلے لٹکا دیے جاتے ہیں جس سے فائدہ اٹھا کر آخرکار مجرمان باہر بھاگ جاتے ہیں یا بری ہوجاتے ہیں۔

نوازشریف زرداری کی صدارت کے فیصلے پر عمل کرتے ہیں یا نہیں، یہ تو ان کی لندن سے واپسی کے بعد ہی واضح ہوپائیگا۔ بعض ناقدین یہ قیاس آرائیاں کررہے ہیں کہ زرداری سے مفاہمت نہ ہوپانے پر وزیراعظم کے دل کا درد مزید بڑھ گیا اور انھیں ڈاکٹروں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے آپریشن کروانا پڑا۔ ہمارے خیال میں زرداری سے مفاہمت ہوجانے کے باوجود بھی نوازشریف کی سب سے بڑی ٹینشن عمران خان ہیں جو ہر وقت ایک نئے ایشو کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ نون لیگ اور پی پی کی مفاہمت کے باوجود نوازشریف کو پاناما ٹینشن سے جان چھڑانا آسان نہیں ہوگا، اس کے لیے عمران خان اسمبلی میں کھڑے ہوکر کہہ چکے ہیں کہ اور کوئی پارٹی ان کا ساتھ دے نہ دے وہ پاناما کے معاملے پر نوازشریف کے خلاف سڑکوں پر آئینگے۔

یہ خبر بھی گردش میں ہے کہ نوازشریف کو کسی مشیر نے مشورہ دیا کہ وہ زرداری کو صدر بنانے کے بجائے خود صدر بن جائیں، اس طرح انھیں ہر حساب و مواخذہ سے استثنیٰ حاصل ہوجائیگا اور وہ کسی کو ڈمی وزیراعظم بناکر پاناما کی بلا سے بھی نجات حاصل کرلینگے اور بڑے آرام سے مزید پانچ سال بھی پورے کرجائینگے، پھر 2021کے بعد پتہ چلے گا: کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک! نوازشریف بھولے بھالے ضرور ہیں مگر اس وقت وہ کافی پکی چالیں چل رہے ہیں۔ ایک طرف متحدہ اپوزیشن کو انھوں نے پارلیمانی کمیٹی کے چکر میں ڈال کر ٹی او آر پر ڈیڈلاک کی صورتحال پیدا کردی ہے، دوسری جانب وہ علاج کی رعایت لے کر لندن میں براجمان ہوچکے ہیں۔

عام حالات میں وہ کبھی بھی آپریشن نہ کرواتے، یہ مخصوص وقت انھوں نے صرف عوامی ہمدردیاں سمیٹنے اور اپوزیشن کی نظر میں مظلوم بننے کے لیے منتخب کیا ہے۔ اگر وہ اس بار اسپتال میں داخل نہ ہوتے اور اب کی بار بھی محض ایک رسمی سا چیک اپ کروا کر واپس لوٹ آتے تو سب کو یقین ہو جاتا کہ وہ خود کو بچانے کے لیے بیماری کا بہانہ بنا رہے ہیں، چنانچہ اس بار وہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہی لندن گئے تھے جس میں زرداری سے ’’میثاقِ مُک مکا،، کے علاوہ دل کا آپریشن بھی شامل تھا۔

4بائی پاسز والی اوپن ہارٹ سرجری سے پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں ایک خبر بنی ہے، دعاؤں اور صدقوں کے ساتھ تہنیتی پیغامات کی بھی بھرمار ہوئی ہے مگر اپوزیشن اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹی بلکہ بلاول اور عمران خان دُعا گوئی کے بعد طعن و تشنیع کے نشتر بھی برابر چلاتے رہے ہیں جس پر چوہدری نثار نے سخت ناگواری کا اظہار بھی کیا، جس کی وجہ سے انھیں بلاول کے جوابی تیر کا نشانہ بننا پڑا کہ چوہدری نثار کی نوازشریف کی عدم موجودگی میں وزیراعظم بننے کی خواہش بے نقاب ہوچکی ہے۔

یہ کونسی نئی بات ہے، چوہدری نثار نے اس خواہش کے لیے نون لیگ کی ذلت کا کبھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 2014 کے دھرنوں کے اسکرپٹ کے خالق بھی وہی تھے، اور پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کو ان کی بھرپور سپورٹ بھی حاصل تھی مگر انھیں گلہ رہا کہ عمران خان حسبِ وعدہ 10لاکھ بلوائی اکٹھے کرنے میں ناکام رہے۔ چوہدری نثار کی اور بھی سیاست باتیں ہیں جنکا تذکرہ مناسب نہیں، وہ وزیراعظم نہ ہوکر بھی ایک متوازی حکومت چلا رہے ہیں اور نوازشریف کی مجبوری ہے کہ وہ چوہدری نثار کو ہٹا کر مقتدرہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ جس روز وزیراعظم نے لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے بجٹ کی منظوری دی، اس دن وفاقی کابینہ اور قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں وزیرداخلہ کا شرکت نہ کرنا بھی کئی شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے۔

انھیں چھوڑ کر بھی گنتی کے چند نکمے اور حواری درباری ٹائپ کے نااہل وزیروں کے سوا کابینہ میں اور ہے بھی کون؟ نوازشریف دل کے مریض کم اور شک کے زیادہ ہیں کہ وزارتِ خارجہ سمیت گیارہ وزارتیں اور محکمے انھوں نے خود اپنی مٹھی میں دبا رکھے ہیں اور کئی ایک وزیروں کو (جن سے اپنی وزارت بھی نہیں سنبھالی جاتی) ایک سے زیادہ وزارتیں دے رکھی ہیں۔ وزیراعظم کا اُمورِ سلطنت کو جیب میں ڈال کر لندن کے مطب میں شفایابی کا لمبا کورس کرنے کا صریح مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت حکومت نام کی کوئی چیز نہیں اور سارا کچھ خدا کے آسرے پر چل رہا ہے۔

یہ مہربانی بھی اٹھارہویں ترمیم کی ہے، اس سے ماقبل قانون موجود تھا کہ وزیراعظم کے ملک سے باہر جانے کی صورت میں سپیکر یا وزیرخزانہ، نائب وزیراعظم کا عہدہ سنبھال سکتے تھے۔ صدر زرداری کی پوزیشن مضبوط رکھنے اور وزیراعظم کو کمزور ثابت کرنے کے لیے اٹھارہویں ترمیم میں نائب وزیراعظم کا کوئی متبادل نہیں رکھا گیا۔ مستقبل میں ایسی خوفناک صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ صدر اور وزیراعظم کے اختیارات کو واضح کیا جائے ، یہ بھی واضح کیا جائے کہ وزیراعظم کی عدم دستیابی میں صدر اُمورِ حکومت چلا سکتا ہے یا نہیں؟

اگر نہیں تو صدارت کو علامتی عہدہ کے طور پر رکھنے کی بجائے ختم کردینا ہی مناسب ہوگا، اس کے بعد لازمی ہو جاتا ہے کہ نائب وزیراعظم کاعہدہ قانونی طور پر تخلیق کیا جائے تاکہ وزیراعظم کے ایک دن کے لیے بھی ملک سے باہر جانے کی صورت میں اُمورِ حکومت میں تعطل پیدا نہ ہو۔ ڈاکٹروں نے وزیراعظم کو تین سے چار ہفتے لندن ہی میں قیام کا مشورہ دیا جس سے ظاہر ہے کہ وہ عید سے پہلے پاکستان کا رخ نہیں کرسکتے، دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ وہ صدر ممنون حسین کو ریاست کے معاملات چلانے کا اشارہ دیں۔ آثار بتاتے ہیں کہ وزیراعظم تین ماہ تک پاکستان کا رخ نہیں کرینگے اور اگر اس دوران وہ مختصر مدت کے لیے آ بھی گئے تو ڈاکٹروں کی نصیحت کے مطابق دوبارہ چیک اپ کرانے کے لیے لندن چلے جائینگے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وزیراعظم کی غلط فہمی ہے کہ وہ معصوم اور مظلوم بن کر بیماری کی رعایت لیتے ہوئے احتساب کے عذاب سے بچ پائینگے۔ متفقہ شرائطِ کار کی پارلیمانی کمیٹی ڈیڈلاک کا شکار ہوچکی ہے اور حکومتی ٹیم کی بھرپور کوشش ہے کہ آئیں بائیں شائیں سے کام لیتے ہوئے اس معاملہ کو طول دیا جائے مگر اب حکومت کی کوئی بودی چال کامیاب ہونے والی نہیں، کیونکہ عید کے بعد ایک ملک گیر تحریک چلنے کے لیے پرتول رہی ہے جس کی قیادت مولانا سمیع الحق کے ہاتھ میں ہوگی، اس کے لیے چند روز قبل مذہبی وسیاسی جماعتوں کے سربراہان کا مشاورتی اجلاس بھی ہوچکا ہے، اعجاز الحق، شیخ رشید، چوہدری برادران اور عمران خان بھی اس کا حصہ ہونگے۔

دفاعِ پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم سے چلائی جانیوالی اس تحریک میں 21 مذہبی جماعتیں شامل ہونگی اور بظاہر تو یہ تحریک ڈرون حملوں اور امریکی دھمکیوں کے خلاف ہوگی مگر اس کا اصل ایجنڈا نوازحکومت کا خاتمہ ہے کیونکہ اس نے بلوچستان کے حالیہ ڈرون حملہ پر کوئی ردِعمل نہیں دکھایا۔ آنیوالے چند ماہ ملکی سیاست کے لیے انتہائی خطرناک ہیں،جنرل راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں پانچ ماہ باقی ہیں اور انھوں نے ضربِ عضب کو بھی اسی سال مکمل کرنے کا عندیہ دیدیا ہے، وہ توسیع بھی نہیں لینا چاہتے، وہ اقتصادی راہداری کی تکمیل اور کرپشن کا خاتمہ بھی کرنا چاہتے ہیں توسوال یہ ہے کہ آخر وہ کس حیثیت میں یہ سب کچھ کرینگے؟ اس پر نوازشریف بھی سوچیں اور آپ سب بھی سوچئے!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔