’’شاعری وبا بن گئی، ناول ترقی کرے گا‘‘

محمد اختر  بدھ 21 نومبر 2012
مارے معاشرے میں سیاسی وسماجی سطح اور سماجی علوم کے حوالے سے کوئی فکری لہر نہیں،رشید مصباح ۔ فوٹو: فائل

مارے معاشرے میں سیاسی وسماجی سطح اور سماجی علوم کے حوالے سے کوئی فکری لہر نہیں،رشید مصباح ۔ فوٹو: فائل

ساٹھ سال کی عمر میں بھی سرگرم شخصیت کے مالک رشید مصباح پیشے کے اعتبار سے معلم ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی کئی عشروں سے ادب و سیاست کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں۔

چست و چالاک ذہن پایا ہے۔ادبی و عمومی سیاست کے حوالے سے گہری معلومات رکھتے ہیں اور اس حوالے سے ہر چیز ان کی فنگر ٹپس پر موجود ہوتی ہے۔ ادب اور تنقید میں انہوں نے بھرپور کام کیا۔وہ 29ستمبر 1952ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے تاہم ان کا بنیادی تعلق لاہور سے ہے۔ اس کے علاوہ فیصل آباد اور راولپنڈی سمیت ملک کے کئی دیگر شہروں میں بھی قیام رہا۔ رشید مصباح نے ہیلے کالج سے ایم کام اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔اس وقت بھی اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں پڑھا رہے ہیں۔

تدریس کے علاوہ ادب اور سیاست سے ان کا تعلق عشروں پر محیط ہے۔ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’سوچ کی داشتہ‘1983ء میں شائع ہوا۔ ’’گمشدہ آدمی‘‘2004ء میں چھپا۔رشید مصباح کا ناول ’’چندن بائی‘‘پندرہ روزہ ادبی جریدے ’’سائبان‘‘ میں شائع ہوتا رہا جسے وہ مستقبل میں کتابی شکل میں شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کے افسانے، تنقیدی اور ادبی مضامین لاتعداد جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔’’انجمن ترقی پسند مصنفین کے 75 سال‘‘ کے عنوان سے بھی انہوں نے کتاب لکھی۔ افسانوں کا ایک اور مجموعہ ’’بُرے آدمی کا سچ‘‘ زیرطبع ہے۔رشید مصباح سیاسی کارکن بھی رہے اور سیاست میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ سیاست اور بین الاقوامی امور پر بھی وہ لکھتے ہیں۔ سیاسی موضوع پر ان کی کتاب’’جنوبی ایشیا اور امریکی بھیڑیے‘‘ بھی زیر طبع ہے۔زمانہ طالب علمی میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) کے عروج کے زمانے میں اس کے مرکزی جوائنٹ سیکریٹری رہے۔ بنیادی طور پر بائیں بازو کی سیاست کا رجحان رکھتے ہیں ۔ پاکستان مزدور محاز کے پنجاب کے صدر اور سنٹرل کمیٹی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔

ادب سے ان کے تعلق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ملک کی معروف ادبی تنظیم حلقہ ارباب ذوق سے گزشتہ چالیس سال سے منسلک ہیں۔لاہور کے جوائنٹ سیکریٹری اور سیکرٹری سمیت حلقے کے مختلف عہدوں پر رہے۔ان دنوں انجمن ترقی پسند مصنفین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل ہیں۔ ادب ، سیاست اور تدریس کی رو میں یونان ، ترکی ، نیپال ، انڈیا، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ سمیت کوئی بیس سے زائد ملکوں کی سیاحت ان کے حصے میں آچکی ہے۔ادب اور ادبی مطالعے کی ناگفتہ بہ صورتحال کے علاوہ ادبی و عمومی سیاست کے حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں۔ذیل میں اس کی تفصیل پیش خدمت ہے:

انسانی ترجیحات بدل رہی ہیں، کیا ادب زوال پذیر ہے؟ جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’’بنیادی طور پر ادب زوال پذیر نہیں بلکہ فکری پہلو زوال پذیر ہے۔ ادب معاشرے کی عکاسی کررہا ہوتا ہے جبکہ اس وقت ہمارے معاشرے میں سیاسی وسماجی سطح اور سماجی علوم کے حوالے سے کوئی فکری لہر نہیں۔ادب میں بھی فکری لہر نہیں۔ تعلیمی نظام ادب کی ترویج میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

استاد ہی ادب کی طرف راغب کرتا ہے لیکن آج کا استاد یہ فریضہ انجام نہیں دے رہا۔اس کے باوجود کمرشل ادب بہت پڑھا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ادب عالیہ کے لکھاری اور قاری کی تعداد ہمیشہ محدود ہوتی ہے۔ ادب کے فروغ کے لیے آزادیٔ فکر بنیادی حیثیت رکھتی ہے تاہم پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔اس کے بجائے لوگ سیاسی اداروں اور دربار سے جڑتے ہیںتاہم ان تمام باتوں کے باوجود اچھی چیزیں لکھی جارہی ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہے۔‘‘

ترقی یافتہ معاشروں میں شاعری کی صنف دم توڑ رہی ہے لیکن یہاں پر ہرکوئی شاعری کررہا ہے، اس کی وجہ ؟ ’’کوئی بھی زبان ہو ، ابتداء میں اس میں شاعری زیادہ ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ پسماندہ معاشروں میں بھی شاعری زیادہ ہوتی ہے کیونکہ شاعری کا تعلق فہم وفراست کے بجائے جذبات پر ہوتا ہے لہٰذا جو معاشرے ترقی کرجاتے ہیں ، ان میں فہم وفراست بڑھ جاتا ہے اور جذبات کے بجائے منطقی رویے فروغ پاتے ہیں۔

جذبات اور اخلاقیات بھی اس کے زیراثر آجاتے ہیں۔وہاں شاعری کی جگہ نثر لے لیتی ہے۔ ادب میں سب سے بالادرجہ ناول اور نچلا درجہ شاعری کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نثر بہت محنت طلب کام ہے جبکہ شاعری میں محنت نہیں کرنا پڑتی۔اسی لیے شاعری ایک وبا بن چکی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ برصغیر میں مشاعرے کا ادارہ بادشاہوں اور نوابین کے دور سے ہے۔دربار شاعروں کو نوازتا تھا جس کے جواب میں وہ قصیدے لکھتے تھے۔آج بھی جگہ جگہ مشاعرے منعقد کیے جاتے ہیں اور شاعروں کو آگے آنے کا موقع ملتا ہے اور وہاں پر آنے والے لوگ شاعری سے تفریح حاصل کرتے ہیں۔

رشید مصباح کا کہنا تھا کہ جن معاشروں میں جنس کے حوالے سے لوگوں کے رویے منافقت سے بھرے ہوتے ہیں، ان میں شاعری خوب پنپتی ہے لیکن جوں جوں ذہنی سطح بلند ہوگی ، شاعر غائب ہوتے جائیں گے اور صرف نثر پڑھی جائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ہم قبائلی، جاگیر داری اور نیم صنعتی سماج میں زندگی گذار رہے ہیں جس میں شاعری سے زیادہ کوئی اور چیز ان پڑھ آدمی کو تفریح نہیں دے سکتی۔ویسے بھی شاعر خود کتابیں چھپوا کر مفت بانٹتے پھرتے ہیں۔

رشید مصباح نے گلہ کیا کہ میڈیا کتاب کے فروغ میں کردارادا نہیں کرتا۔ادب میں ناول کی صنف کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ کسی معاشرے کا ارتقاء نہیں رکتا۔ پاکستان بھی ارتقاء حاصل کرے گا۔پاکستان میں ناول بالخصوص غیرملکی ناول بہت پڑھے جاتے ہیں۔ مستقبل میں اچھے ناول لکھے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں زیادہ تر ناول اس وقت لکھے گئے جب یہاں پر تحریکیں جاندار تھیں۔اب پھر فکری تحریکیں چلنے لگی ہیں ، اس لیے ناول ترقی کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ ’’ضیاء کے دور میں بڑے بڑے ادیب پاکستان چھوڑ گئے جس کے برے اثرات مرتب ہوئے۔پاکستان میں جو ادیب ہیں وہ اکثر جاہ پرست اور شہرت کے بھوکے ہیں۔ یہ لوگ سماجی علوم سے کٹے ہوئے ہیں حالانکہ جب تک سماجی علوم کا مطالعہ نہ کیا جائے ،معاشرے پر پوری گہرائی سے گرفت نہ ہو اچھا ادب تخلیق نہیں ہوسکتا۔پاکستان میں اچھا لکھنے والے بھی ہیں۔ ان میں تڑپ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سینئر ان کی رہنمائی کریں۔ اس کے علاوہ ان کی رائے تھی کہ ادیبوں کو لکھنے کو اپنا روزگار بنانا چاہیے ، اس صورت میں زیادہ ادب ترقی کرے گا جبکہ آج کل اکثر لوگ جزوقتی ادیب ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں اچھا ادب تخلیق ہورہا ہے۔اس خطے میں 236 زبانیں ہیں اوران سب میں اچھا لکھنے والے موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے لکھنے والوں میں احساس کمتری ہے کہ وہ یورپی ادب کو غیرضروری طورپر برتر مانتے ہیں حالانکہ اچھا لکھنے والے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ مغرب سماجی علوم میں ہم سے بہت آگے ہے تاہم ادب کے حوالے سے کسی ایک خطے کو برتر کہنا صحیح نہیں۔دنیا کے ہر خطے میں اچھا ادیب تخلیق ہوچکا ہے۔

آزادی کے حوالے سے اطالوی ناو ل ’’سپارٹکس‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی خوبصورت ناول ہے۔دوستوفسکی کے ناولوں کو بھی وہ بہت پسند کرتے ہیں۔اردو ادب میں قرۃ العین حیدر کے ’’آگ کا دریا‘‘، شوکت صدیقی کے’’خدا کی بستی‘‘ ، مستنصر حسین تارڑ کے’’بہائو‘‘ اور مرزا اطہر بیگ کے ’’غلام باغ‘‘ کو انہوں نے اپنے پسندیدہ ناول قرار دیا۔شاعروں میں غالب اور فیض سے بڑا شاعر کسی کو نہیں مانتے۔نقادوں میں احتشام حسین اور ڈاکٹر محمد علی صدیقی سے متاثر ہیں اور انہیں بڑے کینوس کے نقاد مانتے ہیں۔

پاکستان کے ٹی وی ڈرامے کے حوالے سے ان کی رائے بہت سخت تھی۔ان کا کہنا تھاکہ پاکستان کا ٹیلی ڈرامہ انتہائی گھٹیا ہوچکا ہے۔انہوں نے کہا کہ منو بھائی، سرمد صہبائی ، ظہیر کاشمیری اور صفدر میر نے جو ڈرامے لکھے، ان کے مقابلے میں موجود ڈرامے مذاق لگتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جن ڈرامہ نگاروں کا انہوں نے اوپر زکر کیا ، ان کا ویژن بہت بڑا تھا۔وہ سماجی علوم کا مطالعہ کرچکے تھے اور زندگی کا تجربہ رکھتے تھے۔موجود لوگ تو صرف پیسے کمانے کے لیے لکھتے ہیں۔

رشید مصباح سیاسی کارکن رہ چکے ہیں اور سیاست سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی تخلیق کے دن سے ہی غلط ہاتھوں میں ہے۔جو حکمران رہے وہ بھی قومی ریاست چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔وہ ہمیشہ سامراجی گماشتے بنے رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔