کاش۔۔۔۔! فیض صاحب زندہ ہوتے

رئیس فاطمہ  بدھ 21 نومبر 2012

فیض احمد فیضؔ نے مارچ 1965 میں ایک نظم کراچی کے حوالے سے لکھی تھی جس کا عنوان ہے ’’یہاں سے شہر کو دیکھو‘‘ اس کے تین شعر ملاحظہ ہوں۔

یہاں سے شہر کو دیکھو تو حلقہ در حلقہ
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہر ایک راہ گزر گردش اسیراں ہے
نہ سنگِ میل‘ نہ منزل‘ نہ مخلصی کی سبیل
جو رنگ ہر در و دیوار پر پریشاں ہے
یہاں سے کچھ نہیں کھلتا یہ پھول ہیں کہ لہو

یہ نظم ایوب خان کے دورِ آمریت میں کراچی پر ہونے والے ظلم کے خلاف لکھی گئی تھی۔ اس نظم کے علاوہ ان کی مشہورِ زمانہ اور ناقابلِ فراموش نظم ’’لہو کا چراغ‘‘ بھی 1965 ہی میں ایوب آمریت کے خلاف لکھی گئی تھی ۔ جس وقت دوسرے شعراء ایوب کی شان میں قصیدے بکھیر رہے تھے اور انعام و اکرام پا رہے تھے اس وقت فیض صاحب نے کراچی کے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھا اور کئی قطعات بھی اس شہر کی اذیت ناک صورتحال پر قلم بند کیے تھے۔ لیکن آج بھی وہ نظمیں کراچی کے موجودہ حالات پر بالکل اسی طرح منطبق ہوتی ہیں جیسے 1965 میں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ صورت حال اب اور زیادہ گمبھیر ہے۔

بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ اب جو حالت ہے وہ بڑی ہی تکلیف دہ اور ناگفتہ بہ ہے۔ یہ شہر جس کو ’’شہرِ بے مثال‘‘ اور’’عروس البلاد‘‘ کہا جاتا تھا آج لہولہان ہے، روزانہ لاشیں اٹھتی ہیں، گھروں سے نکل کر جانے والے کب کسی ان دیکھی گولی کا نشانہ بن جائیں؟ کسی کو نہیں معلوم۔ ہنسی خوشی دعائیں لے کر جانے والے کی میتیں جب گھروں میں آتی ہیں تو جو زندہ ہیں وہ بے موت مارے جاتے ہیں بلکہ زندہ درگور ہوجاتے ہیں، کسی گھرکا بیٹا مر جاتا ہے اور اپنے پیچھے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو ہمیشہ روتا چھوڑ جاتا ہے، کسی گھر کا واحد کفیل مر جاتا ہے تو چھوٹے چھوٹے بچوں کو آغوش میں سمیٹے جوان بیوہ یہ سوچ سوچ کر نڈھال ہوئی جاتی ہے کہ گھر کا چولہا کیسے جلے گا، ان کے پیٹ کا دوزخ کون بھرے گا، بچوں کی پرورش کیونکر ہوگی، کیا وہ گداگر بنیں گے، انھیں نوکری کون دے گا؟ یہ برطانیہ تو ہے نہیں جو ریاست ان کی کفالت کی ذمے داری اُٹھا لے۔

کاش! فیض صاحب زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ جس شہر کو وہ اتنا پسند کرتے تھے، جہاں ان کی عقیدت مند ڈاکٹر شوکت ہارون رہتی تھیں، آج اس کی گلیاں بند ہیں، محلّوں میں سرحدیں بن گئی ہیں، لوگ اپنے ہی شہر کی گلیوں میں اسیر ہوگئے ہیں، کون سا محلّہ ہے جہاں رکاوٹیں لگا کر گلیوں کو بند نہیں کردیا گیا، نہ کوئی ایمبولینس آسکتی ہے، نہ رکشہ، نہ ٹیکسی، نہ کسی کی پرائیویٹ گاڑی۔ شہر کے لوگ بے حس ہوچکے ہیں، انھیں صرف اپنی گلی سے سروکار ہے، مرے پہ سو دُرّے کے مصداق بڑی بڑی آہنی رکاوٹیں لگا کر گلیوں اور سڑکوں کو بند تو کردیا گیا ہے، لیکن ان کے ساتھ یا آس پاس کوئی چوکیدار یا گارڈ نظر نہیں آتا جو کسی گاڑی، رکشہ، ٹیکسی یا ایمبولینس کے لیے رکاوٹ ہٹا دے۔

ہر طرف مکمل سناٹا ہوتا ہے، لوگوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وہ رکاوٹیں لگوا کر خود کو تو محفوظ کرلیتے ہیں، لیکن تھوڑے سے پیسے جمع کرکے کسی چوکیدار کی تنخواہ نہیں دے سکتے۔ حکومت کا وجود صرف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے خبرناموں اور ٹاک شوز تک محدود ہے۔ اصل میں حکومت کا کوئی وجود سرے سے نہیں ہے۔ ہر طرف اندھیر مچا ہے، یوں تو اسمبلیاں بھی ہیں، لیکن صرف شور شرابے، چٹھیاں لکھنے، دستاویزات پھاڑنے، باہم دست و گریباں ہونے اور بیوٹی پارلر سے میک اپ اور فیس پالش کروا کر آنے کے لیے، تاکہ روزانہ کی دیہاڑی لگ سکے۔ اگر حکومت کا کوئی وجود ہوتا تو وہ پہلی فرصت میں گلیوں اور محلّوں سے رکاوٹیں ہٹواتی۔

کاش! فیض صاحب زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ ان کا وہ شہر جہاں وہ لیاری میں ایک کالج کے پرنسپل بھی رہے، آج کس لسانی اور صوبائی تقسیم میں بٹ گیا ہے، جرائم پیشہ گروہوں کو سیاسی وڈیروں کی سرپرستی حاصل ہے، وہ شہر جہاں اندرون ملک سے روزگار کی تلاش میں آنے والا بغیر پیسہ خرچ کیے اپنا پیٹ بھر لیتا تھا، آج وہ بھی ایک نفرت اور تعصب لے کر یہاں قدم رکھتا ہے۔ کھانا کھلانے والوں میں تو اب چھیپا، اور سیلانی دسترخوان بھی ایدھی صاحب کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں، لیکن یہ سب بھی مل کر محلّوں سے سیاسی پارٹیوں کی چھاپ ختم نہیں کرسکے۔

انسان ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانے سے ڈرتا ہے، گریز کرتا ہے کیونکہ مختلف علاقوں میں ان کے مقامی اور صوبائی لیڈروں کی جہازی سائز کی تصاویر اور عصبیت پر مبنی نعرے ان کے قدم روک لیتے ہیں۔ جو لوگ امن کے دعویدار ہیں ان سے تو اتنا بھی نہیں ہوتا کہ تمام شہر سے مختلف لیڈروں کی تصاویر فوری طور پر اُتروا دی جائیں۔ تمام نعرے خواہ وہ کسی مذہبی، دینی یا سیاسی جماعت کے ہوں، ان پر فوراً سفیدی کروادی جائے، دیواروں پر نعرے لکھنے والوں اور اپنے اپنے لیڈروں کی تصاویر لگانے والوں کے لیے بلا تخصیص کارروائی کی جائے، بالخصوص ایم کیوایم، اے این پی اور پیپلزپارٹی کو مختلف علاقوں، گلیوں اور محلّوں سے ہر قسم کی تصاویر ہٹالینی چاہئیں۔

یہ تصاویر، ہورڈنگز اور عصبیت پر مبنی نعرے لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرتے ہیں، لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے اور ووٹ بینک بڑھانے کے لیے تصاویر اور وال چاکنگ نہیں، انسانوں سے محبت کرنے کی ضرورت ہے، ان کی مشکلات آسان کرنے کی ضرورت ہے، ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے، ان کے بنیادی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔اگر ان باتوں کا نوٹس لیا جائے تو تصاویر اور نعروں کے ذریعے علاقوں کی بندربانٹ کی ضرورت نہیں رہے گی۔

چلتے چلتے فیض صاحب کے حوالے سے دو کتابوں کا ذکر کردوں کہ ماہ نومبر میں ان کی سالگرہ ہوتی ہے۔ پہلی کتاب جو مجھے موصول ہوئی وہ ہے پروفیسر سحر انصاری کی ’’فیض کے آس پاس‘‘۔ یہ کتاب ڈاکٹر جعفر احمد نے بڑی محنت سے شایع کی ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ سحر انصاری صاحب نے اب تک جو کچھ لیکچر کی صورت میں یا مضامین کی صورت میں کہیں بھی تحریر کیا ہے وہ سب یکجا کردیا گیا ہے۔

دوسری کتاب ہے ’’فکرِ فیض‘‘ جو جناب نثار ترابی صاحب نے اسلام آباد سے مجھے بھیجی ہے۔ ہے تو یہ کتاب بھی فیض ہی سے متعلق، لیکن اس میں نثار ترابی صاحب نے بہت سے وہ مضامین جمع کردیے ہیں جو انھیں پسند تھے۔ ان کی پسند سے اختلاف کی گنجائش بھی موجود ہے۔ لیکن ادب کی یہی خصوصیت اسے زندہ بھی رکھتی ہے۔ کیونکہ اختلافِ رائے بھی زندہ لوگوں ہی میں ہوتا ہے۔ تمام مضامین وہ ہیں جو کسی نہ کسی جگہ شایع ہوچکے ہیں، دو مضامین خود نثار ترابی صاحب کے بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی، جمیل یوسف، ڈاکٹر یوسف حسن، پروفیسر سحر انصاری اور انتخاب عارف صاحب کے مضامین قابلِ ذکر ہیں۔

گزشتہ سال فیض پر بہت کچھ شایع ہوا تھا، لیکن زیادہ تر رسالوں اور کتابوں میں مضامین کی تکرار تھی، البتہ ’’قومی زبان‘‘ کا فیض نمبر اس لحاظ سے نمایاں تھا کہ اس میں بیشتر مضامین نئے تھے اور پہلے کہیں اور شایع نہیں ہوئے تھے۔ بہرحال اس طرح کی کتب اور رسائل کا ایک فائدہ یہ ہے کہ فیض پر کام کرنے والوں کو مطلوبہ مواد یکجا مل جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔